"
ا
. ت0س
مم
دا
2002
دا مھ
.َ ک2 من
02330 ٛ-2
0
7
کات
ہد و کی نف منوفریں
باراول ہس سم سس 1۹۹۹
شا یافاعت .--.. ےگ سا
- سس بے شر ٘
ہے وگ س۵ر 7
مطق ...وف یں لاہ
قہ ۰ھ _.-س۔۔س۔._ےمٹٹ ٹس 06 روسے
خرد افروفب رو ٹا وت ہس
٠ کسی شخص پر اِس ہے بڑی اور کوئی مصیبت نازل نہیں ہوسکتی
کہ وہ عقل و خرد کی خالفت کرتے لگے“
(مکالمات افلاطون)
فی او
یش لفظ
روایات فلنشہ ایک خاص مقصد کے تحت لکھی گئی ے اور وہ یہ ے
کیہ فلسف ا کے مطالب کو عام فہم اپبراۓے میں پیش کیا جاۓ تاکہ ان
سے وہ حضراتِ-بھی متعتع ہو سکیں جنہیں فلسفے کہ مطالعے کا موقج نہیں
مل سکا ۔ واقم ے اس کام کو سہل جانا تھا لیکن قلم ہاتھ میں لیتے ہی
اے حعسوس ہوۓ لگا کہ فلسقے کو سلیی زبان میں لکھٹا خاصا رکٹھن
ے ۔ اپنی اس مشکل ہر غو رر کرے ہوّۓراقم کو ایک حکایت یاد آ گئی۔
آدھیڑ عمر کے ایک یہودی ربائی نۓ ایک نوجوان عورت سے نکاح
7 ۔ اس کی پہلی سال خوردہ پیوی بھی موجود تھی ۔ ,جب وہ نوجوان
موی کے پاس جاتا تو وہ اس۔ک داڑھی کے سقید بالھ توچنا شروع کر
دئ و اہ یس یہ
وہ اس ای ذاڑھی کے سیاء بال نوچٹا شروع کرتی تاکہ وہ بڈھا دکھائی
__ دے۔ راقم کو بھی. کچھ اسی قسم کا اندیشہ لاحق ہے جو قارئین
روایات فلسفہ "کو آسان کتاب سمجھ کر پڑھیں کے ممکن ت
شکایت ہو کہ بعض مقامات بدستور مشکل ہیں اور فلاسفہ کہیں گے
ےت ےت
فلقہ ۂی کیا جو سلیس زبان میں لکھ جائۓ اوز اٹ کے لوہ کنتی اور
حسہ گی سمجھ میں بھی آ سکے ۔ پیگل نے کہا تھا ''میّرا فلسفہ مَیرا صرف ایک
ہی شاگرد روزن کرانز سمجھا سے اور وہ بھی غلط سُمجھا ے؛ “۔ فلسقے
کے مطالعے لے انسافی ذہن کی فکرق قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ ان
سوالات''پر غور کرۓ لگتا ے جو صبح تار ہے:انسان کو پریشان کر
رے ہیں ۔
کاثنات یىی ے کراں وسعتوں میں انسان کا مقام کیا ہے؟
کیا یە کائنات .بامعنی ے؟ کیا اس کی کوئی غایت ے؟ ے
کیا اس کاثنات کو انسان کی امتگوں ؛ ممتاؤں اور خوابوں میں کوئی --
تی
کیا حائنات ت:میں کوئی ذی شعوز آفاق قوت. نُوجود۔ ے؟۔ اگر موجوذ
لے تو کیا یکا نات کے ماورا ے یا اس میں طازی و ساری ے؟ ۲
-کاثنات ازل سے موجود نے یا انے کسی نے خلق کیا ے؟ عقیقت --
کب رع کیا ہے؟
: زمان کی حرکت و گردش دولأی ے یا خط- ننتقم زو ہو ری ہے
یعی کیا کائنات کا آتاڑ ہوا تھا اور ۔اس کا انام بھی ہوکا یا وہ از سے
سے موجود ے اوراابد تکک اق رے گی ۔
سّذپن مادے کی پیداوار ے یا مادے کو ذہن نے خلق کیا ے؟
انسان جبور ہے یا غتازے ؟ پ؟ اگر ممہُورے تو یہ جپریت داخلى کے
۰ ن۲
ُ.
بغار نے
“ اکر غتار ہے تو اس کے اور وحوش کے قدر و اختیار میں کیا فرق <-“
0ھ۳ھھھ سے او تعلق ے جو شعلے
تا شمع کے ساتھ ے کہ ادھر موم ختم ہوا ادھر شعلہ بجھ کر وہ گیا یا
روح خارج سے جسم میں داخإ ل٦ ہوق ہے اور موت کے بعد کسی آور عال_
ات
۰
۲
حسن کیا ے؟ حسن موضوع میں ہوتا ے یا معروض میں؟
فردِ اجتاع کے لیے ہے یا اجتاع فرد کے لیے ہے؟
بے کیا انسان کے تمام اعال کا حرک حصول لذات کی خواہش ے یا
کیا وہ بلند تر نصب العینوں کی کشش بھی حسوس کرتا ے؟ ۱
مسرت کیا ے؟ مسرت کا سر چشعہ انمان کے اپنے بطوث ہی میں
ے یا وہ دوسروں کو مسرت پہنچا کر اس سے بہرہ یاب ہو سکتا ہے؟
7 اخلاق قدریں کیا ہیں؟ کیا اخلاق مذہب کی ایک فرع ے یا ایک
مستقل شعبد علم و عمل ے ۔
صداقت کیا ے ؟
شض وعسسائل جن کے تجزے اور تحلیل میں نوع انسان کے بعض
بہکرین دماغوں کا زور صرف ہوا ے ۔ ۱
یہ ایک .بدیھی حقیقت ے کہ بعض لوگ سوچنۓ کی زحمت گوارا نہیں
کرتے اور اپنے اعمال و عقاید کے محاسبے سے گری زکرتے ہیں ۔ وہ اپنے ذہن
کے تمام دریچے؛ روزن اور دروازے اس مضبوطی ہے بند کر لیتے ہیں کہ
تازہ ہوا. کے جھوٹکے اس میں بار نہیں پا سکتے اور در و دیوار کے ساتھ
سر پٹک پٹک کر رہ جاتے ہیں ۔ روایات فلسفہ اس توقع کے ساتھ پیش کی
جا رہی ے کہ چند ایک روزن اور دریچے کھل جائیں گے اور چند ایک
تازہ ہوا کے جھوٹکے بندکوٹھڑیوں میں بار پا سکیں گے ۔ نۓ نے خیالات
آدمی کے دل و دماغ میں ہلچل پیدا کرے ہیں ۔ نۓ نۓ خیالات کا نفوذ
ہے شدید ذہنیکرب کا باعث بھی ہوتا ے لیکن دیانت اور جرأت سے کام لے
کر ایسے نۓ خیالات کو قبول کر لیا جاۓ جن کی صداقت آ شکار ہوچی
ے تو یہ کرب مسرت میں بدل جاتا ے اور اس ے بڑی مسرت کا کم
. از کم راقم کو کوئی تجربد نہیں ے ۔
علی عباس جلالہوری
مادیت ۔پسندی
_ ئ ٠ لی 7 سے خ
ہے رہاڑے زناے کے ایک جربن پلسنی اییکن, بے کہا ے کہ مادیتم پسند۔! ى
اصظلاخ تارج فلسفہ میںں سب ہے پھلے رابزٹ پوئل نے ٦ء میں.وغع ک تھی
لیکن مادیت پسندی کا انداز نظر اتنا ہی قدیم ے جتناکں خود فلسفد کہ فلسفے کا
آغاز ہی مادیت پسندی سے ہوا تھا چنانپں ابتدائی دور کے آئونی فلاسفہ کو؟ ہیولائی
کہا گیا ے ٴجس کا لغوی معنول مادیث پسند ہی کا ے ۔_
ٹونا:ایشیاۓ کوچک میں بحیرۂ روم کے ساحل پر ایک شہری ریاست تھی جس
کے شہریون کو باہل اوربصر کے اہل علم ہے ربط ضبط کے مواقع ملتے وہتے تھے اُس
زساۓ میں مصّر اور بابل سے علم وخکت کے چشمے پھوٹتے تھے اور یونان کے طلي
اپنی. علمی پیاس بجھانے کے لیے ان ممالک کا سفر کیا کرتے تھے ۔ چھٹی صدی
قبلل سسیح میں ان مالک کے ممدن صدیوں کہ عروج کہ بعد رو یہ تنزل ہو رے تھے .
۔لیکن ان کے پروہتوں اور پچاریؤں ۓ اپنے معبدوں میں علم و فن کی شمع روشن کر
رکھی تھی ۔ بابل کے صابئین اندعیری راتوں کو مندرؤں کے مناروں پر بیٹھ کر
سیاروں کی گردش کا بشاہدہ کیا کرتے کیونکہ وہ انہیں اپنے دیوتا سمجھتے تھے اور
اپنے آپ کو آن رک اجوال سے باخخیر رکھنا چاہتے تھے ۔ ان سشاہدات سے انہوں ے
عایم ہیئت کے اصول مرتب کے - ]ن کی ہئیت آخر تک مذہب کی کرفت ہے آزاد نہ.
ہو سی اور آس پر سحر و طلسم کے دپیز پردے پڑے .رے ۔ بھرحال وہ سورج گرہن
اور چاند گرہن کی صحیح پیش گوئیاں کرےۓ پر قادر تھے ۔ ان پیش کوئیوں کا سب
سے اہم مصنرف آن کے ہاں یہ تھا کہ عوام کو خوف زدہ کر کے آن کے ذہن و قلب
پر اپنا تسلط برقرار رکھا جاۓ۔ وہ جب اس قسم کی پیش گوئی کرۓے تو اس کا .
مفہوم یں لیا جاتا تھاٴ کہ آفتاب دیوتا یا چاند۔دیوتا کو تاریی کے عفریت نٹگکلنے والے
ہیں اور جب تک پروہت بعل مر,دوخ یا عشتار دیوی کی مناجات میں منتر نہیں پڑھیں
گے دنیا سورج اور چاند کی روشنی سے محروم ہو جاۓػی ۔ اس طرح انھوں نے سائنس
کو اپنٰی خرض. برآری کا وہیلہ بنا رکھا تھا ۔ تحقیتی علوم پر پروہتوں کا یہ اجارا
عدیوں تک برقرار رہا اور عوام ان سے ہرہ یاب نہ ہو سکے ۔ غالباً تارب مد کا سب
(ر) افللمنفٹھال نے ۱ و و
. (م) عدنا ن7×طا (لفظ بد نوثاق الاصل ا۔٠
تھے >>
:
74
ہے انقلاب آفریں واتعە یء ے کہ شہر آئونا کے ایک شہری طالیس (م ٣ہ - ۵۵۰
ق ۔م) ۓ اس آہئی اجارا داری کو توڑا۔ سائنس معبدوں اور ہیکلوں ی چار دیواری
سے نک لکر عوام کے مدرسوں تک پہنچی اور اس پر مذہب قد اور جادو کے اوہام و
خرافات کے جو بردے پڑے ہوۓ تھے دیکھتے دیکھتے اُٹھ گئے ۔ طالیس ہاہلیوں ے
فیض یاب ہوا تھا ۔ اِس ۓ سورج کی صحیح پیش گوئی کی اور اپنے طلبہ کو ہثیت کےہ
. اسول سکھاۓ۔ پیرو ڈوٹس کہپتا ے کہ طالیسنٰ جسے فلسفے اور سائنس کا بانی کہا
جاتا سے فنیقی الاصل ایشیائی تھا اور ]ُس کا مار عہد قدیم کے سات:ماے ہوۓ
دانشمندوں میں 'ہُوتا تھا < ایشیائیوں کی بباقستی ے ایرانیوں تے ایشیا ۓ کوچک ہر
تاخت و ٹاراج کا آغاز کیا تو آئوٹا کے شہری خوف زذہ ہو :کر یوان کے شہروں میں
پناہ گزیں ہوۓ اور اپنے ساتھ فلسغے اور سائس کے اصولوں کو بھی لیتے گۓ.۔ ان کی
تدریس سے جس فلسفے ۓ چنم لیا بعد میں آیے ”'یونائی فلسفہ““ کا ام دیا گیا ہہ رکیف <
جب سائنس مذہب اور جادو کے تطّرف سے آزاد ہوئی اور لڑگوں نۓ سسائل فطرت پر
آزادانہ غور وفکر کرنا شروخ کیا تؤسوال پیدا ہوا کہ جب کائنات کو 'یجل دوخ
یا آئن رع ے نہیں بتایا تو آخر یہ کیے معرضضِ افجود میں آکئی او اس ی ال
۰.
6
سے قطم نظر کر طیعی یان میں:دیا۔اور .کہا کہ ائنات پانی سے بی ٴۂے۔ ۔ طالییں کا
ایں ”'آی فلسفہ؛“ اس'لّے اہم نہیں ےکہ پائی کو کائناٹ ی اصل قرارٴ دے کر طالیس
ےۓ کوئی بڑا علمی کارنامہ اتجام دیا تھا بلک اس لیے عہد آفریں سمجھا جاٹا ے :کہ
آس نے تاریخ غالام میں پہلی سٗقیه تکویؾ عالم ی خالصتاً حقیقی و غلمی توجیءہ کی
طالیس, کی پیروی میں دوسرے اہل علم . ے بھی تکوین عالم کے طبیعی اسیا کی ٠
جستج و کی : ریاست سلیٹس کے ایک ہری اناکسی مٹیڈر ۓ کہا کہ کائنات پانی سے
نہیں بی بلک یں ایک لاعدود ژندہ شے ے ۔ ابتداء میں حرکت کے باعث اس کے_
ٹکڑے ٹکڑے ہو گۓ اور کائنات کے مظاہر عالم۔وجود میں آۓ۔ الاسی یٹ رك
ڈارون کا پیش رو کہا اتا ے کیوٹکہ اُس ے ماحول ہے موافقت اوزیقاۓ اصلح کے
ابتدائی تصورات پیش کے تھے ۔ وہ کہتا ے2 :
ذی حیات مخلوق نم آلود عنصرہے پیدا ہوئی جب کہ آفتاب ےۓ آیینے بھاپ
بن اکر آڑا دیا تھا ۔ ۔ ابتداء میں انسَأن بھی دوسرے جانوروں کی طرج:تھا یعنی
بھلى کی صورت ہیں ۔ ابتدائی حیوانات می سے پیدا ہوۓے ء ان یىی جلد خاردار
تھی ۔ ۔ بعد میں زیادہ خشک جگہوں پر جا پہنچے ۔“' ہی
انا کسی مینڈر انسان کے حیوان ے ارتقاء پذیر ہوۓ کی ایک دلیل یہ ڈیتا ے کہ
انسان کا بچہ دوسرے حیوانات کی طرج پیدا ہاو ہی اہنی خوراک تلاش نہیں کر سکتا
ور اس کا دودہ پیۓے کا عرصم زیادہ موبل ہوتا ہے ۔ اگر وہ شروع ہی سے ! ایسا ہوتا
ە
ىْ
ت وکبھی زندہ نہ رہ سکتا ۔ اس لے وہ مان ہیک ٹرق یانتہ صورت ہے ۔ اتاکسی مینڈر
کی یہ اولیت بھی ے ک کس سب سے لے آُس نے فلسفہ نثر میں لکھا تھا۔ ایک اور
مفکر اناکسی منیس نۓے طالیس اور ا ا کسی پینڈر ۓے٠اتفاق کیا یہ کائنات کا اصل
ا ا کا ا ا و
پر تیر رہی ًے ۔ وت ۰
. ابتبائی دور کے فلاسفہ میں پ,ریقلیتس اوس ا ق۔ تع خاص طور۔۔پر
قابلِ ذکر ہے ۔ اس نے دعْوّئا کیا کہ کائنات اگ سے بنی ہے ۔ کہتا ہے :
. ”یہ عالم پر ایکِ کے لیے رایک جیسا ے۔۔ اسے کسی دیوتا یا ائسان نے نہیں
بنایا۔ یہ ہمیثیہ سے ے اور ابدی آتش کی صورت ہیں ہمیشب رہے کا اس کے
٤ إعض حصے روشن ہویے رہتے'ہیں اور بعض بجھتے رہتے. ہیں ۔ :
یت پبریقلیتس نۓ از واہدی_آتش کو جِسے' وہ بعض اوقات سانس کہہ کر پکارتا
ے روح کا جوہر قرار دیا ے اس کے خیالِ میں روح آتش اور آب ے۔- سکب ہے۔
آتش.ارفع ہے اور۔آب اسفل ے ۔, وہ عقل. اور خواس میں میز کرتا ہے اور کہتا ے
کہ صرف عقل سے تکوین عالم کے قانون معلوم کے چا سکتے ہیں سا کہ
ایک آفاق ذہن جس ہسے. ماد وہ آتش ہی لیتا۔ ے تمام کائبات پر متضرف ہے۔
پیریقلیتس معلسل تغیر کا قائل ے اور کہتا ےںکہ دنیاک ہر شۓ'ہر وقت تغیر پذیر
اے پیریقلیتیٴ کے اقوال بھی اس کی:دانشیندی پر دلالت کریة ہیں۔ ' ۔۔ -۔
۱ کی ا رم ٦ ی0"
۰ رہتا ے“ ی. ۔ کْ
: "اد روز ایک فیا سورج لوم ہوتا ے ۔4٤
”ہم ہیں اور نیں ہیں '۔“ ا ا
الیاطی قلاسقہ زیٹنو اور پارہی نائلیس جن کا ڈکر تفصیل سے ثالیت کے شمن
کت ہیں آۓ تا کہتے تھے کہ صرف وجود حتیقی ے اور وہ ثابت ہے ۔ تٹُرروتبْدل
آحض نگاہ کا فریب ے ۔ پیریقلیتین یں عقیدہ رکھتا تھا کہ تغیر و تیدل حتیتی ے
وجود و ثیات فریب نظر ے ۔ ہر ثے ہر وقت تغیر ہذیر ہو رہی ے۔ اِس کا ایک
اور مع رکہ آرآء نظریہ یہ تھا کہ ہر شے اپنے بطوت میں اپنی ضد رکھتی بے ۔ اضداد
کی پیکار اور آویزش میں حر کت اور زندگ کا راز خقی. ے۔ یہ پیکار نہ ہو تو عالم میں
کسی شے کا وجود نہ ہو ۔ اِسی بنا پر آس ۓ جنگ کی تعریف کی ہے اور کہا ے
ہس ری ے اور ہر شے پر مساط ے ۔ 7 کت
تغیرو ثُدل کو حقیقی سمجھے_ اور اضداد کی پیکار کے یہ تصورات ہیل کے
واسطے سے فلسفہ* جدلی مادیت کے اساسی افکار بن چکے.ہیں ۔ اس کی تفصیل بعد میں
ےکی - پیریقلیتس کا ایک اور اہم عقیلہ یں تھا کٛ واقعات بی کافنات کے اساسی
اول ہیی اور ہر واقعد گریزاں .اور وقی ہوتا ے ۔ بتول برٹرنڈ "رسل جدید طبیعیات
لے پیریفلیٹس کے اس ال کی تصدیق کی ے ۔ پیریقلیتس حریتثّ فکر اور آزادیٴ راۓ
کا علم بردار تھا ۔ اس کا قوںن جج :
. -'غؤام کوٴاپنے قوائین کی حفاظت کے لیے اتی ہی تن دہی ے ے لڑنا چاہنے
2 جتنا کہ شر إناہ کی حفاظت کے لے ۔!؟ ا وہ <
بی کوبت فواوس ما خی دے با
اأیان کا کردازہ ہی :آئس کا مقڈو ہے' اس کے جس کک کل ا
اس فکر انگیز مقولے پر جتنا غور کیا جاۓے اس یق صداقت کے اتے”ئی ژادہ
غجیب و غریتب پھلؤ منکشف ہوتے ہیں ۔ ڑیٹوقینی لن جن الّیاطی فلسفے کا. بای کہا
سے
٠
جاتاا ے دیوتاؤں' کے تصور کی تردید کی اور کہا کہ خدا تماق ]ٌوصاف ہے. عاری ے۔
وم خُدا اوز عالم کو ایک ہی سمیجتا نے او رکپتاۓۓ ' عالم ہی عتاے۔؟ یہ
تصور وحدت وجود کا ے جسے الیاطی فلسفے کا اسل اضول سمجھا جاتا ہے۔
اعیے دکاس (۵٣مٍ حقہٹبمء ق ۔م) ۓ عغثاصر آربعں کا نظریہ پی ش کیا اس ۓ
لیس ٤ !ناکسی میٹس؛ پیریقلیٹس اور زینوفیٹس کے نظریات.کا امتزاج پیش کیا اور
ہار عالم کہ پا . مئٔی اور پانی سے بنا ے كَ وہ مادے کو ازلی و اہتی اور ۔
غیر عخلوق مائتا ے۔ عناصر اریعہکی ت رکیب یعد میں وقع ک کئی تھی ۔ امے ڈکلیس. ۰
نہیں ”'اصول اول“ کہتا. تھا ۔ اییے ڈکلیں کا عقیدہ سے کہ انہی چار عناصر کی
ترکیب و انتشار سے اشیاء معرض وجود مین آقی ہیں اور فتا پیر ہوق ہیں ۔ آس کے
خیالِ میں عبت اور ثفرتِ یا تو افق و انتشار کے باعث اشیاء 'مین. خزکت.پیدا ہوق
ے۔ ۔ وہ قدماء یونان ي۔ طرح زساۓکی گردش کو کو ذو لا ںی مانتا ے اور کہپتا سے
کہ عالم کا نہ کوئی آغاز ے اوز نە کوئی انبام ہوگا۔ وہ فیثاغؤرس کی طرح تناسخ
ارواح کا بھی قائل ے ۔ اس کے خیال میں انسافی روحیں چولا پدل بدل کر حیواناتِ
اور درختوں کے قالب میں چلی جاقی ہیں ۔آُس ے سورج گرہن.اور چاند گرہن کی علمی
توجیپہ کی اور کہا کہ چائد سورج کی منعکس روشنی سۓ دسکتا ے آور سوارچ گڑّن
چاند کے دِْمیان میں حائل ہوۓ سے لگتا ۓ - .
اس عہد کے ایک اور سمشہور فلسفی اناکسا غورث ۓ کہ کہ ایک۔آفاق ذہٰن
جسے وہ ”نوس“ کا نام دیتا تھا کائنات میں حرکت پَیدا کرتا ے ۔ ارسطو کے خیال
میں یہ ”' نوس“ غیں مادی ہے ۔ زیلر اور ارڈمان آُس نۓ اتفاق ککرتے ہیں لیک نگروٹ
اور برنٹ کہتے ہیں کہ یں ”نوس/“ بادی اور طبیعی قوت .ے ۔ آئوتی قلاسفہ ی
مادیت کی روایت جس کا آغاز طالیس ہے ہوا تھا لی وکہ- اور دا قریطس کے فلمنے
میں نقطہ* عروج کوپہنچ کی ۔ ان فلاسنہ ۓ ایک یا متعددٴ دیوتاؤں کے وجود سے
-
-َ
. َ جح
انکر کیا اور کہا کہ ان عقایدۓ انان پر دہشت طاری کر رکھی ے ٗ دیما قریطس٠
ابتدائی دور کے طبیعی فلاسفہ کی طرح عقلیت پسند ے اور کہتا ے کہ روح اور
عقل ایک دوسرے ہے علیحدہ نہیں ہیں پلکە ایک ہی:شے کہ دو: نام ہیں ۔ :اِسی طرح
آس ے روح کے وجود اور۔حیات' بعد موت کے تصور سے :انکار: کیا۔۔ تکوین کائنات کا
کر کرتے ہوئۓۓ ]آس ہے ,کنا کم کائنات منراسبر مادی ہے :]من کے نخیال میں مادی
عُ
۴+
1
ح۰
َ َ ٭
ھ۸ 2 : 0 .
2ھ َ
حقیقٹیں دو ہیں امم (عربوں ۓ اس کا ترجمہ اجزاۓ لایتجڑّی لی کیا یعنی, ایسے اجزَاج
جن کی مزید. تقسیم مکن۔ئد ہو سکے) اور خحلاۓ مکانی ۔ وکنا ہے کہ عالمردیں
کہیں بھی کیھی ماورائی ذُزجن یا عل کا وجود نہی ے۔ اس یمام فطریق. ۔ مظاہز پر اندمن
میکالکی قوائین متصّرف ہیں ۔ دماقریطس پورا پورا مادیت پسالا نے ۔ امن کے خیال میں
انسان بھی اسی طرح ایٹموں سے س کب ےہ جیسے کمر رکوئی درعت یا یا کوٹ ستارہ
یا کوئی بھی دوسری شے ایٹموں۔یۓ بنی بج یر إنسانی روح بھی ایٹمون نے سکب ہے
جنہیں انسان سائس کے ساتھ باہر ٹکالتا اور اندر کھینچتا رہتا ے ب جب یم عمل ختم
ہو جاتا ے تو انسان ی سوت واقع ہو:جاقی ”.اور روخ کے ایںم منتشو ہو جاتے ہیں ۔
وہ کہتا ے کہ ائساتی فکر ایک طبیعی فحل ٘ے اور کابٔنات میں کسی قسم کا کوئی
مقصد یا غایت نہیں۔ سے ۔ اس میں صرف ایم ہیں جو میکاثی قوائین کے تحت. مس کب یا
منتشر ہوۓ ہیں ۔ لاک کی طرح دیماقریطس کا بھی یك شیالیِ ہے :کہ گرہی ؛ ذائقم ؛
ہے 2,8 موجود
ہیں ۔ اشیاء میں حجم ؛ صلابت اور وزن ہوتا ے - "
دیماقریطس مذہب کا خالف تھا اور مسرت کے حصول کو زندگ کا وابتد متصد
سمجھتا تھا ۔ وہ کہا کرٹا تھا کہ مسرت میانۂ روی اورعذیب ئقیں سے میسر آتی.,
ے ۔ وہ جذیباتی.ہیجان اور جوش و خروش کو اپسند کرتا تھا اور عورت کو بھی
امی لیے حقازت کی نظر سے دیکھتا تھا کد اس کے جذبات آ٘س کے شعور پر غالپ
ہوتے ہیں ۔ آس کاقول ے :ہے <
”سرت خارجی امباب اور سازو سامان سے حاصل نہیں ہوتق امن کرشم
خود انسان کے اپنے بطون میں ے ۔)“
سیاسیات میں وہ جمہوریت اور مساواتِ کا قائل. تھا ۔ کہتا ے ا
”ایک دانشند اور یک شخص کے لیے تمام دثیا آُس کا مادر وطن ے ۔؟؟
دماقریطی فلاسئہ* یونان کے آس طبقے کا آخری فرد تھا جس نۓ مردانہ وار عالم
ک کت کو سمجھنے کی کوشش کی اور جو رغمت منیل اور قوتِ فکر دوتوں سے پپرہ ور
تھا اور سہم جوئی اور جس کے جڈے سے سرشار تھا ۔ٴ یہ فلاسفہ پر شے ہیں گہری
دلچسپی لیتے تھے شہاب اقبٴ سور جگرہن ٤ چھلیاں ۶ گرد باد - میِہب اور اخلاق
'وغیرہ ہر یکساں ا ماک سے غوروفکر کرتۓ تھن ۔ ژندگی ہے متعلق ٣ت کا نقطہٴ نظر
رجائی تھا ۔ اِن کے بعد فلاسبقہٴ یوان تزلِ فکر کے شکار ہو گے ۔ سوفلطائیوں کے ساتھ
تشکک کا دور دورہ ہوا پھر قراط نے اپنی مام تر جستجؤ کو انسبان اور اخلاقیات
تک حدود کر دیا ۔: افلاطون نۓ عالم حواس کو رد کر کے خالض بسیط افکار ی اپنی
دنیا الگ تعمیر کی ۔ ارسطو لۓ مقصد آور غایت "کو سائٹنس کا اساسی اصول قرار دے
کر علمی تحقیق کو ڈرر:پہنچایا ۔ افلاطون اور ارسطو بلاشہں عظم فلاسفہ تھے لیکن
آن ے نظریات کی مقبولیت سے سائنس کی:ثرقٰ رک گئی ۔ صدیوں تک: فکٹری۔جچمود ی
یت کرت پر طاری رہی ۔ - .احیاء وو و ہیں ان فلاسفی کا ہنی تسلط ٹوٹا
۹
اوزمغرب میئ اس“ آزادائه اور ے باک تفکر اور سائنٹفک نقطہ“ نظر کا آغاز ہوا جو
سوفسطائیوں سے پہلے کے دوتانی فلاسقہ کا طز“ امتیاز تھا ۔ بہرصورت ماقبل متقراط
فلاعفهٴ مادیت. ۓ جُو اطضول ستب کے تھے وہ بعد کے مادیت <پسندون نے اپناۓے
اور آن کی مزیدتشرج کی ۔ ہب ۰٠ او سے 2070.-
یہ اصول درج ڈذیل ہیں :۔ ہے تھا ما اج ۔ رکا یدب
و ٭ (ر) ماددوہ ے جوَمان میں پھیاا ہوا ہے ہت یو ریہ
(م) مادہ ازل اور غیر فایق ے ۔ ۰ ٠
(م) مادے میں' حرکت کی صلاحین ہوچود کن ات نے
ر.. (م) ممام حرکت مٹررہ قوائین: کے تحت ہو رہی ہے ۔ ہے
(ھ) شعوراور خٔہن یھی دوسری اشیاء یئ طزج ایٹموں سے ص کب ہیں ۔
". (ہ) فطرت (ٹیچر) میں کوئی واردات بغیں شہب کے نہیں ہوی .ا
ے) عالٔم میں کوئی فہن یا عو ور کارفرما ہین ہے۔ دؤسرے الفاظ میں :اس :پر
کوئی یزدانی قوت متصرف یق ے ۔ ٠ ٠ے ا ےا ںی
(۸)۔ عالم میں کوئی مقصد وغایت نہیں ۓ ۔ - اد:٭ س_ ال
سنتراط سے پہلے کے فلاسفہ کے کائنات کے مشاہدے اور آفاق ۔مسائل کی ممتیق ہو
زور کیا ؛ تھا سوفسطالون ۓ انسان- اور اس کے مسائْل کو تحقیق علمی کا موضوع
قراز دیا متراط نے سو فسْطائیوں كے۔تشکک کے خلاف کمر ہت باندھی تھی روہ بڑیئ
حد تک اپٔی کوشش میں کامیاب بھی ہو گیا لیکن ایک پہلو سے وہ خود بھی سوفسطائی
“تھا ۔ یعنی آں ۓ بھی انی کی طرح انسان .اور اخلاقیات کو موضوع فکر قرار دیا۔
افلاطون اور ارسطو ۓ اس کی پیروی کی ۔ نتیجة علم ہیئت کو پس پثّ ڈال دیا گیا
اور انہی علوم کی تدوین کک جن کا ۔تعلق یراہ راست ذات انسانی سے تھا ۔
چنانچہ افلاطون اور ارسطو نے سیاسیات * منطق٤ عطابت ؛ جالیاٹ کے علوم تب
کے آن کی سابعد الطبیعیات بھی جس کا مقصد حقیقتِ اولیٰ کی تلاش تھا منطقی اصولوں
ہی پر مڈّوت کی گئی۔ اس کے ساتھ سائتس میں یتاہدرے اور تجرے سۓ کام لینے کی
بجا ۓآ سے منطق کے تحت کر ۔دیا گیا ۔ لارڈ۔برٹرنڈرسل' تۓ اس دور کے یونانیوں کے
۔متعلق کا ے کہ آن کا ذبن وفکرقیاسیٴ تھا ۔۔استقرائی نہیں تھا ۔ افلاطون نے
عالمٍ مادی کو غیر حقیقی قرار دیا اس لے سٹتاہدۂ عالم سے قطحنظر کر ی گئی.۔
آرسطو ۓ ہثیت اور مادے کی دوئی میں ایک حد تک قلماء کی مادیت پسندی کو
برقیر رکھا اور کہا کہ ہثئیت اور مادہ ایک۔ دوسرے ہے جدا نہیں ہو سکتے لیکن
وہ بھی اپنے استاد ی طرح اخال ہی کو حیقی سمجھتا.تها ۔ اس کی حقیقت پسٹندی نۓے
بکاہدے پر ہیں آنادت گیا نی نے سن نعل یوقن ام لیا ارسطو کے بعد
ہوئانی ریاستوں کے سیاعی تر کی رفتار- تیزتر ہو گئی ۔ سیاسی ترّلَ ہمیشہ ذہنی ٤
() تارچ فلسئہ' مشرپ ۔٢ -٤ سا ۔ 7 5
رم
اغلاق ار تغاؿٍرق تَثڑْلِ کا پیش خیعە ہوا کرتا سے چنائزد اردطو::ے بعد .آۓ والی
فلاسفہ کی لذتیت ؛ کلبیت اور قنوطیتِ میں اِس ہعہ گیر زوال ہذیری کی جھلک دکھائی
دیٹی ے ۔ رومیوں کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت نے یونانی ریاستوں ک آزادی کا
جا مت کر دیا:۔ :اس کے بعد بھی بلاشی,ں صدیوں تک افلاطون اور ارمطو کے .قائم کیہ
ہوغ مدرسوں میں قلسقے کی درس و ٹدریس کا سلسلہ جاری رہا لیکن حریّت فکر کا
خا مہ ہو چکا تھا ۔ ان کے سّبعین منتاقی موثکافیوں اور اشراق کی:بھول بھلیوں میں
۔ رونی نظم ملکت اوو قوج چ کشی کا ینا یلیقہ رکھتے توۓ لیکن علوم و فاون. سے
آنہیں واجبی ہی سی دلچسپی تھی د آن کے مدارس میں فلسئے کی جو تعلم دی جاتیق
تھی وہ بھی یوثانی 'غلاموں کے سپرد تھی ۔ یونانی۔فلسفے کے دو مکاتمت“ نے رومیوں
کو متاثر کیا ۔ لذتیت اور کلبیت؛ لڈتیٔت ۓےۓ اپیکورمن 'کو مُتاثر کیا اور کلبیت کو
رواقیئین ۓ اپنا کر آس کے تصورات میں توسی کی۔ رفتہ رفتہ زواقیت رومٹ الکیںیا
_کے خرد پسند طبقے کا حبوب فلسقہ بن گئی ۔ ۰
روَاقیت کا بانی ژینو قبرص کا رہنے والا فنسیقی تھا ۔ وہ ایک منشن طاق کے ٹیچے
نیٹھ کر درس دیا کرتا تھا اس لیے آُس کے فلسفقے کا نام ہی روائیّت پڑ گیا ۔ رواتیّت
دراصل ایک نظام اخلاق ے ۔ رواقیئیٔن ی مادیت پہندی آن کی طبیعیات کیا حاصل
ے۔ نکی طبیعیات کا اصل اصول یہ تھا کہ کوئی غیر۔مادی شے موجودِ ہی نہیں
ہو سکتی ۔ آن کے خیال ہیں عام صرف جس انی حواس سے عاصل ہو سکتا ہے اض لیے
حقیقت:وہی ہے جسے حوامن جان سکیں۔ یہ حقیقت مادہ ہے ۔ وہ کہتے. ہیں کہ روح
اور خدا بھی مادی ہیں ۔ اس مادیت پر إنہوں نۓ ؤحدتِ وجود کا پیوند لگایا اور کہا
کہ خدا روح عالم ے اور مادی عالم خدا کا جسم ے روح عالم کو وہ پیریقلیتس .
کی طرح آتشیٗ سمجھتے تھے ۔.ائینانی روح کو بھی آتشی جائتے .تھے اور کیھتے۔تو ے کہ
یہ بھی یزدای آتش ہی کا حصہ ہے ب۔ جس طرح روح جسم میں سرایت کے ہوۓ سے
اسی طرح پی یا-خِدا کائنات ہیں. طاری و ساری بے ہو خذا کو عقل مطلق
بھی کہتے تھے لیکن روح کی طرح اس عقل کو بھی مادی-سجھتے تھے ۔ ان کی
تعلع یں تھی کہ کائنات میں ہر کمہیں تناسب و توافق موجود ے ۔ آن کا اخیلال ٴ
_ یہ تھا کہ خدا عقلِ ما ملق ے اور یہ عقل آفاق قانون بے اس لیے عالم پر آفئی قانون
متصوف ہے۔ مام کائنات سلسلہٴ سبہب وعسیب میں جچکڑی ہوئی ہے اوز :اسان
مجبور حضں ےے ۔ وہ زماے کی گردش کو دو لا ی: اور وقت کو یر حقیقی۔مانتے
۔ آنْ کے وحدت وجود کے تصہور میں قدساء کایں عقیدہ کاز فرما تھا کہ کوئی
شےەعدم ۓۓ وجودنمینں نہیں آ سکتی ظاہر سے کہ جب یں تسلمیم کررلیا جالۓے کہ :کوئی شے
عدم ہے وجٰود میں نہیں آ سکتی تو اس بات سے انکار کرنا ۔پڑے گا کہ :ائنات کو
کسی شخصی خذڈا.ےبنایا ے یا خدا کے علاوہ کسی اور مخلوق کا وجود۔ بھی ممکن*
ہؤ سکتا ے اس لے ساری کائنات کو ہیی خدا کہنا پڑے گا :یں نظرید۔ رواحی
رک
مذہب: کے عقیدۂٴذات بازی سے ہصناف ے ۔ اسنی لیے شنوپنہپائر نے کہا ےکم ا'وخدثٴ
وجوڈ شائستم:قسمْ کا الحاددۓ ٤٤ کیو ںکہ۔اس ہے شخصی خالقی گا۔انکار لازم آتا:
ے ۔ اخلاق میں رواقیثین ضبط نفس پر زور دیتۓ تھۓ:۔ ]ن کا خیال تھاء کہ۔ انان
اإپنے جذبات پر عقل و:خرد کا محکم تصرف قائح. کراے ہی انسان کھلاےۓ کا مستخق.
ہوا ے اد د شہنشاہ مإِ رکس آریلیس سیٹیکا اور اییکت ٹیٹین کے اقوال میں رواقیئین ے
اِخلاق و کردار کے بہتزین مھوۓ ملتے یں ہے ہے .دہ یلا پت ,لے *ہ۔
رواقیئیںمام کائنات کو خدا مانتے تھے بہرحال لفظ خدا کے استعال۔ ہے إِنْ کا
ربط و تغلق کچھ کچھ مذہب ہے باق و برقرار رہتا تھا.۔ اپیگؤزس اور لکزریشیس
ےۓ اس برا نام رابطے کا بھی خباتمہ کر دیا ۔ :اپیکورس نے حظ و مسرت کا قلسقہ
پیش کیا ۔ اس کے مخیال میں۔ قلسفے کا مقصنۃ یہ ے کہ انسان کو توبات اوز
خنشات سے نجات دلائی جاۓ۔ :وہ کہتا تھا کہ دیوتا اور دوسری مافوق الفطرت
ہستیاں انسانی دہشت کی پیداوار ہیں ۔ دہشت اور تشویش؛ ےۓ انسانی مسرت کا خاتمہ
کر دیا ے ۔ اس نے کہا ” دہشت کو دل ہے ثکال پھیٹکو اور تمہیں مسرتۃ مل
جا ےی - دہشت سے نبات پابے کے لیے اس ۓ کہا کہ عالم مادی سراسر میکائی
ے جس میں قدرتی اسباب کی کار فرمائی ہے ۔ اس کی طبیعیات دا قریطس ہے ماخوذ
نے لیکن اس میں آس ے بقدر ضرورت کچھ تصرف:پھی کیا ے ۔ وہ کہتا ے کہ
. کائثنات کی تمام اشیاء ایٹموں سے ب٘ی ہیں ۔ یں ایٹم صورت اور وزن میں ایک دوسرے
٠ ہے ختلف ہیں البتہ ان کی نوعیت اصلا ایک ہی ے - ایثم ازل سے جلاۓ مکانی میں
گر رے ہیں انہیں قدر و اختیار حاصل ہے اس لے یں عموداً نہیں کرے بلک ادھر اتھر
لڑھک جاے ہیں اور آپس میں متصادم بھی ہوتۓے ہیں۔۔ یہ قدر واختیاز اپیکورس ک
پنی اختراع ے ۔ دیما قریطس کے نظرے میں اس کا کوئی کھوچ نہیں ملتا ۔ اپیکورس
نے ایٹموں' میں وزن کا اضافہ اپنی طرف سے کیا ے۔۔ ایٹموں کو قدر و اختیار عطا
کرۓ ہے اپیکورس کا مقصد یہ_تھا کہ ائسان کو بھی فاعل مختاز تسلیم کیا جاۓ
کیوٹکہ جي ایم ی حرکت آزادالہ ہوگ تو انیبان کو بھی جبریّت سے آزاد سمچھنا
یتلم گا ۔ دیما قریطس ى پیروی میں اپیکورس بھی کہپتا ہے _کہ روح 0ص>+ص٭-
رکب سے جو موت کے بعد بکھر جاتے ہیں لہڈا حیات بعد موت کا خیال عق اہلِ
مذہب کا واہمہ ۓے ۔ اپیکورس کک جیال میں حیات بعد موت سے انکار کیا جاۓ تو
انان کو موٰت کی دہشت ہے بات مل جاق ے۔۔ وہ کہتا ے کہ موت کو بُزا مت
کہو ۔ یہ براٹی نہیں ہے نہ اس ےس خوف کھانا قرینِ دائش ے کیوں کہ اُِس کے
الفااظ میں ” جب سوت ہو تم نہیں ہوۓ اور جب تح ہو موت: نہیں ہوتی؟“؟؛۔ موت
_کرب اک نہیں ہوتی اس لے اس يٌے ڈرنا حاقت'ے ۔ اس کےخیال.میں دیوتاؤں کے
خوف اور حیات بعد موت کے عقیدے ہہ تجات پا ۔کر ہی انسان سکون اور سرت ک
" زندی بسر کر سکتا ے۔ حیات بعدہوت کاذکر کرے ہوۓ اس نے کہا تھا
” ایک احمق جو اس دثیا سے کانحقہ بھرہ اندوز نہیں.ہو سکتا وہ آجرت ہی ے کیا حاصل
۳.۔
کِرے کا ۔/ اپیکورمل نے اخلاق میںیانہ رویی فعوتادی جن ' مر ٴ< .
ہ٠ اسں-۔زماتۓے کا ۔دوسرا مشہور نادیت ۔پحیلہ :لکریشیسن ے جس کی فسفیانہ نظمٰہ
' اشیاء کی ماہیت:پر ٢۶ مشہور ے ۔ یہ نظم صدیوں تک گوشہ - گعٹامی۔میں ۔پڑی”
رہ رم ,ع مین پوگیو ۓ اسے کہہیں سے ڈھؤٹڈ ٹکالا اوز“ شائمغ کر ڈیا ۔ ۔والٹر۔
ۓ اس نظم کو غیر فاقٌ قرار دیا ے ۔ امن تیں لکرؤشیس کے تفغیول سے اپتے اید
بیانکے ہیں ۔ اپیکورس کی طرح وہ بھی مذہب کؤ دہشت ۔ غم زدگ اور ٹظلم و تشدد
کاسرچشمہ غیال کرتا ے ۔ ایک جگہ کپتادے تہب ۓے انسان ۓ بڑی بڑی
سفا کیؤں کا ارتتکاب۔ کرایا نے ۔۶ٴ؛؟ "جو لوگ فلسقہ و داش کیٗ تحصیل کی بجاۓ مذہبی
٠ نوا می بت عپی کے کب برے طلشی ےہ ---
یت 8ا بدیمتوٴ! مذہب نے مہیں کیسے ۔.کیسے چرکے لگاۓ ہیں ۔ ہیارے بچوں پر
کیے کیسے لم کراۓ ہیں ۔ ٹیکی ین نہیں ے کہ تم پتھر کی قربات کاہوںٴ
<* ' پرسر جھکاؤیا سجدّڈے کرو ۔ ثیکی مذیجحؤل پر قربانی کا خون چیڑکنے میں
ے بھی نہیل ے بلکہ آمثودہ اور مطمئن ڈہن سے لیک حاصل ہو ہے ٤
< 'لکریشیس کا عقیدہ ے کہ کائنات مادی سے مأوراء کوئی ہستی نہیں ہے کوئی
قانون نہیں سے ۔ کائنات کے سب 'قوانین خود آں کے بطون میں موجود ہیں جسے خدا
کہا جاتا ے وہ آفاق قائون ہی کا دوسرا ام رے ۔ سچی عبادت یہ ے کہ اس قانون
کو ذہن خ نشین کر لیا جاۓ ۔ انسان کی دہشت اور غم اق فطرت کے قوانین کو سمجھ
لینے سے دور ہو جاق ے ۔ زندگی چند دن کی فرصت کا تام ےے اور حیات بعد : موت
حض'ایک افسانہ ے ۔ اض دنیا میں جہالت؛ جڈباق جنون؟ حرص اور جنگ و جدال
سے جو دکھ درد ہوتا ے وہی جہنم ے ۔ دانشمندوں کے لیے یہی دنیا بہشت بن
جاق ہے ۔ ۔ مرۓ والے دائش ک مشعل زندوں کے ہاتھوں ہیں دے کر آگے بڑھ چاے
یں۔ لکریٹیس کی اس نظم میں دا قریطس یٴمادیت اور 'إپیکورس کی ١ اخلاقیات کا
امتزاج عمل میں آیا سے ۔
جب شال مشرق کی وحشی اڈوام ال ٤ ویڈل؟ گاتھُوں اور ہنوں یَّ ہے پناہ
یورشَ سے رومیوں:ک قباۓٴسطوت تار تار ہوگئی تو رومتہ الْکبرل يٌ شان وشوکت
بازنطین می ٹحدود ہوکر رہ گئی د شہنشاہ قسطدطین نے عسیائی متہب کی اشاعت
زور شمشیر کی اور وقت کہ گزرتۓے کے ساتھ مغر ی اڈوام پر ہر کہیں کلیساۓ روم کا
سید تسلط قائم7 ہؤگیا'۔ اس انقلانب کرک رے ہوۓ گن اپنی کتاب '' زوال و ہبوط زومب“
یں لکھتا نے عیسائثیت کی بعمگیں اشناعت ہے مغرب پر عہد جاریٔت کی تاریکیاں چھا
گئیں۔ کم ویش آٹھ صدیوں تک ان تاریکیوں کے کہرے پر کہیں' حیط ارے ۔
مغرتب کی وحشی اقوام ۓ شارلیان ی کوٹ ششوں ہے عیسائیت قبول تو کر ك تھی
"لیکن اس سے ٢ن کی اتی وحشت و بربریت پر کوئی صالح اثر نہیں وڑ ا -علم کی تحصیل
راہیوں اور پادریوں تک محدود رہی۔ یہ لوگ بھی تحقیق علمی کی بجاۓ اولیاء. و اصفیاء
کے فصمانہ ہاۓے کرامات قلمبند کرتے میں مصروف رہتے تھے ۔ جو شخص علم و فنون
“۳
ہیں دستگاہ پیدا کرتا..ٌسے طنزاً جادوگر کہتے تھے ۔ ارناب کلیسا:عام طور سے جن
شوں,میں.خصہ لیتے تھۓ آنْ کے ذوضوعات کچھ اس نوع کے ہوتے تھّے کہ جناب آدم
کی ناف _ٹھی کہ نہیں تھی یا سوئی ی نوک پر کتے فرشتے۔کھڑے ہو سکتے۔ہیں -"
ان تاریک بدیوں میں مسلانوں ۓ ہسپائیہ ؛ صقلید ٴ بغداد اور دمشق میں علم کک *ٴ
شیع روشن کر رکھی تھی ۔ ۔ انہوں نے فلاسفہ* یونان کی: کچھ جو عر میں
منتقل. کر لیں اور وہ علم المناظر ؛ علم إلکیمیا ؛ الجبر و إلعقابلہ وغیرہ میں قابل قدر
تمحقیقی کام کر زے تھے۔ ازمنہ* تاریک کے اواخر میں یسلانوں کے اکابر فلاسقہِ و اطباء
الرازی ؛ ابن سیٹا اور ابن رشذ کی کتابون کے ترجمے بہودیوں کی وساطت ہے بغری
مالک میں پہنچے تو اہل مغرب کے ذہن و قلب ہیں ہلچل بج کئی۔ ای کے ساتھ
قسطنطئید سے یونانی زبان کے علاء تر کون کے حملوں عی دہشت زدہ ہو :کو اطاليه
پہنچے, جہاں انہوں نۓے درس و:تدریس کا .سلسلہ جاری کیا اس کا تیج ید ہوا کم ٴ
جہالت ک. تاریک کا بدبیڑ پردہ چاکِ ہوا اور تغرق مالک نثاة الثائیں اور احیاء العلوم
ی روشی سے منور ہو گۓ َ اطاليبِ اور :پیرس کی دانش کاہوں میں ابن, رشدی علاعء
ۓےکلیساۓ روم کی شدید الفت کے بآوجود این رشد کے-اس عقیدے کی اشاعت کی کہ
صداقت دو گونہ ے ۔ مذہب کی صداقت اور قلسفے کی صداقتِ کلیساۓ روم کے
علء قلسئے کی نضداقت کہ قائل نہیں تھے اور فلہۓ کو مقہب کی اد کنیز سجھے:
تھے ۔ ولی انسلم کا مشہور قولِ سے ٦
”میں پہلےعقیدہ رکھتا ہوں پھر سچھتا ہوں ۔ پھلےسمجھکر عقیدہ ایار ہی ںک رتا“
أآاس نقطہٴ نظر* اور نظریم* علم تۓ تحقیق کے سوتۓے خشک کر دے ۔ کلیساۓ روم
کہ ہاںَ فلسقے اور نائنس کا اگر کوئی مصرف ھا تو وہ عض یہی تھا کہ ان کے
اصولوں سے مذہب کے وق الفطرت عناصر کا اثبات کیا جاۓ۔ اور قصوص کو توڑ
مڑوڑ کز ایسی تاویلیں کٌ جائیں جن سے اہل مذہب کے شکوک وٴشبہات رفع ہو
جائیں کسی فلسٹی یا ٴسائسیٰ دان کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا تھا کہ کسی ایےعلمی
نظطرے کی اشاعت کرے جو مسلس مذہہی عقائد کے مناق ہو اس قسمکی جسارت
کی سزا موت تھی ۔ بروٹ و کو آگ میں جلایا گیا ۔گلیلیو کو گرفتار کر لیا گیا اور
وہ موت کی سزا سے بال بال مچا ۔ کوپر نیکس کو اپتیکتاب اپتی زندی میں شائع کرنۓے
کی جرأت' ئہ ہوئی ۔ کلیسائی آجتساب آزادیٴ فکر کو کچلئے کا ایک سہیب آلہ تھا ۔
سینکڑوں اہلِ عل, کو پابند سلاسل : کیا گیا لیگن۔جب. انان کا آزاد ی۶ رآ ۓیا اظہار ہے۔
آراۓے کا جذیں ٭پیذار ہے ا تو "اسے کچلا نہیں چا سکتا ۔ این رشدیوں کے نظریبٴ
. صداقث دوگوتہ کی اشاعتٰ ے علم کلام اور مذہبی تحکم کا طلسم توڑ دیا] اور اہل فکز
اماہبی عقائد ہۓ ہٹ کر آزادانہ قَلغیانہ مسائل ۔پر غور کرئۓ لگے نیاد رے کہ
ای ماۓ میں استیت! اور جقیقت پسندی"کی نزاع ے بھی لوگوں بک دلوں میں
مت
َ ,) تصعزاعمنصہ 1( ۔ (م) صەناہ٥( اس حتقت+پسندی کا مظلمبۃ ۓۓے
فا پ ےایےے بے ًب افلاطون کے امثال (ہ٥1۵)' کو عقیقی سمجھٹا ۔
ا
سے سے
سر
سخت ہیجان پیدا کر رکھا تھا ۔ اسائی کہہتے تھے کمۃ امثال (افلاطون کے امثال ”نو
منطقی اصطلاح میں اذتہ ٥٣ن متا بھی کہا جاتا تهھا١. اشیا کے محض اسم یا ام ہیں
اور حقیقی وجود نہیں ر رکھتے انلاطون کے پیرو کہتے تھے کب _امثال حقیقی ہیں ۔
اس نزاع کی اصل یہ سوال تھا کہ کون وا عالم حقرقی بے ؟ وہ عالم.جس :کا ادراک
ہم حواس سے کرے ہیں یا وہ بمالم جو تارے ذہن و عقل.میں موجود ے ۔ تما عیضائی
متکلمین اے لارڈ ۔ طامس: اکئوئناس وغیرہ حقیقت پسند تھے۔ ان کے برعکس روسکےلن
اور .اس ہکے پیرو ولم آ کم اہائی تھے ۔ ولمآ کم نے کہا کہ حقیقی عالم وہی
ہے جسے بجر اپنے حواس خمسہ سے معلوم کرتے ہیں امثال شض بسنیط افکار ہیں. جن کا
وُجود انسائی ذبن کے خارج میں کہہیں نچیں ے ہی اسائیت جدید سائنس کا سنگ.
بنیاد بن کی ۔ کلیساۓ روم آج تک افلاطون کے نظریم* حقیقت, امثال سے اپنے+منہبی
عقائد کی تو یق و تائیدِ کا کام لے رہا ے ۔ افلایلون کا یہ یہ نظریہ کہ عالم ابثال غالم
اشیاء ےٴ علیحدہ ہے اس مسیحی عقیدے کے عِینِ موافق ے کہ خدا تے عالم .کو
عدم حعض ہے پیدا کیا اور خود اس عالم سے ماوراء ہی رپا ۔ پھر حال فتح بالآخر ولم
آ کم کی اسائیت ہی کی ہوئی۔ سائسن ک روز ز افزوں ترقِ اور اشاعت اور کوپرٹیکس
گلیلیو ۔ کپلر اور نیوٹن کے انقلاب پرور انکشافاتِ سے ککایساۓ روم کا ذہنی اختساب ۔
شکست و ریت ہو گیا '۔ ولمم آ کم کے پیروؤں نے علم "کلام کا خاتمہ :کر دیا اور
اپنا یہ حق تسلیم کرا لیا کہ مسائل علمی پر انسانی ذن و فکر کو آزادانہ غور وفکر
کا حق پہنچتا ہے اس کے ساتي مغرب تقے جدید دور میں قدم رکھا.۔
, تدع یوانی سائنس کی رو سے کائنات گویا ایک گڑیا کا گھر تھی ۔ اس کا سکز
زمین تھی جس کے گرد سات آسان تمہ در عیط تھے جیسے پیاز کے چھلکے ایک
دوسرے پر منڈے ہوے ہیں۔ چاند اور سوج سے ادبری کائنات میں تقبر و تیڈل
کو تسلم نہیں کیا جاتا تھا ۔ سیاڑّڑے ڈی حیات سمجھےٴ؛جاے تھے ۔۔ افلاطون اور
ازسطو بھی نہ دیوتا مانتے تھے ۔ فیثا غورس کے پیروؤں ے اور خاص طور :نے
ارسطارکس ۓ یہ خیال 'پیش کیا تھلا کہ آفتاب سکز ہے اور زین دوسرے سیاروں
کی طرح ان کے گرد گھومتی ہے ٭ لیکن ارسطو ۓ ائے رد کر دیا تھا۔ کوپرنیسی
ے تحقیق سے ثابت کیا کب زسین, ایک سیار سے جو آفتاب, کے گردِ گھومتا ے۔
۔ہ وع میں ایک ولجدیز لہرئے ےر دورنین اید کی کایلیونۓ علم ہیئت میں اس سے
بیڑا.کام لیا۔ اجرام_ ساوی کا مشاہدہ کرے ہوۓ آُس ۓ مشتری کے چاند دیکھے
اور یادریوں:سے کہا آؤ میں ۔دوربین میں ہس تمہیں یں چاند دکھاؤں ۔ آنہوں ےٗ
دورہین میں یۓ_دیکھے ہے انکار کر دیا اور کہا تم 'جھوٹ کہتے ہو ہاری کتابوں
ہیں ان کا کہیں ۔ذ کر نہیں سے لے "نساۃِ الثائیہ کی, صدیوں ہیں انسانۓ. ہزاروں:ہرسوںَ
کی ذہنی غلاسی ہے نات پائی ۔ کلیلیو ۓ تھربامیٹر ۶ ۔اور اس کے ایک شاکرد نۓ
بیرو میٹر امیاد کیا ۔ گورک نے ہوائی پمپ اختراع کیا ۔ اسی صدی تیں. گھڑیوں :کو
نی شکل دی کی ۔ کہلر بے ریاضیات ہے کوپرٹیکی کے نظرے کا اثبات کیا۔ اوز
0
×۰ 70
ل5
لت
گور
وۃراستد دکھایاجشْ إں بل کو بعد میں: نیوٹن ے کشش تل کا قانون٠ دریافت'
کیا تھا ے؛نیوٹن بشاہدے اور تجٔرنے کا بہت بڑا خامی تھا اوز کہا کرتا تھا ٠
ماں : ۶ اے.طبیععیات! بچھی بابعدہ الطٰہیعیات سے کااە/“۔ ےڑا عینعط لے
کہلز یے+ہیاروں کی گردش کے قوانین ۔دویافت کر کے بی نوع ۔انبان کے
بوچنے کے انداز بدل دے۔۔ سترعویں ضدی. کے انکش٘آفات ے سائنسِ کو ہز کتہیں,
پھیلا دیا: ںا تے تشناطیین ٠پر-اپنا معرکہ.آزاء مقالہ لکھار۔ بازوئے نے خون کےٴ
کو نت زمعلوم”کیاءً لیون ہاک نے پروٹو زوا اور بیکٹیریا دریافت کے۔ٗ
< کے کارٹ* لائب نشیٰ اور نیوٹن ۓےۓ جیومیٹری میں انقلاب پرور ز آدول دریافت کے
٣ سن سے دآعدی ریاضیات نکے مطالعز کی زابی کھن گئیں.۔ ہے سح یح جم
-
َُ
ہز کوپر برنیکس :۔کلیلی- کہلر: اور ٹیزڈ ٹن جدید ساثتٰ گے بائی انت ین ان کے انکشائات پے
ۓسکائلات سے متعلق:انہٰانی 'تقطہٴ نظرَ :کو یکسر بدل دیا۔ جادو اڈرتۂم کا طلسم
ٹوٹ گیا۔ یں ننائنین دان-اہلِ مذہت۔تھے-لیکن ان کے نظریات ۓ "مب کے مسلمہ
عقاید سے اختلاف کیا ۔ سائنس۔ی اس ترق ے کائنات می انسان کے مثقامَ ”کو بھی
خاضا مِْائُز کیا “از تم" اٹاریک میں کرۂ ارض کو کائنات کا سیکزماتاٴ اتا تھا'اور
ید خیال رامخ ہو چکا تھا۔ کہ کائنات 'انسان ہی کے لیے بنائی گی ےے۔ ئیوگن ک ہیئت
میں کرۂثار: ض کائنات إاٴاُیک نٹھا تا سأ حصہ سے جو ایک معمولی مُتازڑے (آفتاب) کا
ایک۔حقیر سا سیارہ۔ ے ۔ اس نے انسان کي انا کو سشخت دھچکا لگا جیسا کہم
اکلے باب میں دیکھیں گے رومائیو وںَ اور مثالیت پسندوں بے انتا کا یہ کھویا ہوا
نقام ال کرتۓ کی کوشش کی تھی ---- :
" جذید سائنس نے :فلسفے- تہ پڑ بھی گہرے* اثرات ثبت کے ویک اسر
ڈیکارٹ کے فلسئے کو سائنس کی جمم پہنچائی وی ئی, بنیادوں پر اژسز تو" تْہر
کرتے کی کوٹ شیّن.ی قژائیس* بیکؿ وھ ت٭۲ یصع) ے فلسقے کو" نذہب سے سی
جدا کر دیا ۔ بیکتن داستقزا کا جاتی اوں سائنٹٹک طرز تحقیق 'کا ماك تھا۔ اس کے
نقطب نظرذخالعتاً تی اؤر:علمی تھا اس نے سأئنس کی مدد سے فطرت کی ۔قوّوں کو _
ینشخر کرۓ کی دعوت دی ۔ آس ۓ اس بات پر خان طور ہے ڑژور دیا "گہ فلسنے
۔کو لم کلام کے تصرف ٴست جات دلائی جاۓ۔ وہ مذہب کو الہام پر مبنٔی سمجھتا
تھا اور کًپتا تھا کہ تملسمفے کی کی بتیا عقلی استدلال پر رکھنا:ضروریٰ ہے ۔ اس نے
ارسطو کے قیاہن :کی ُیخت حالفتۃ کی اور شخصی مشاہدے اورتجرے کو بروٹۓ کار لاتے __۔
کی دعوٹت دی ھی بے ارسطٰو پر سخت ۔نقد لکھا اوز کتہا کہ ازسطو نے سائنس
ہیں مقصب ور غایت ,کوٴذاخل کر کے سائنسکو سخت نثقصان پہنچایا تھاد“چناتچد
زس نے ہا کہ مقصذیت :کو سائنس میں سے خارج کر 'دیا جاۓے۔ وہ کہتا تھا کد
كفکر و تسم ں >کو .کسی 'علت'غائی:کا پابند نہیں کیا جا سکتا کیوں :کہ سائنس کے لی
شروری چ کی ]کا دواد خالص مشاہدے اور تجزے پر مبئی ہے ۔ فلحثے میں اس کا
”توں > تصور“ مشہور ےے۔اُس نے فکز ونظر ی بری. عادتوں کڑؤ بُتؤں کانام
٠ ۰ٔ ً
.اد
.- و سا ے 7 ٦
ا سے اور انہیں توڑۓ کی دعوت ۔دی ے۔ ان فکریٔ مغالطون میں )١( قبیلے کے
ہت ہیں جن کے تحت انسانِ فطرت میں ایسا توافق تلاش کرتا نے جو ممکن بے اس .میں
تن ہو (م) غار کے بت ذاتی.تعمببات ہوۓے ہیں جن. سے پیچھا چھڑانا ضروری ےچ ۔
۔_(م) بازار کے بتِ جن کا تعلؾقی الفاظ سے سے رجو ہبمارے ذہن کو پر وقت متائر کرے
رہتے ہں (م) تھیٹر کے بت فکو و نظر کے وہ نظام ہیں جو قلماء سے یادگار ہیں بثلاٌ
ارسطو اور متکلمین کے افکار (ن) یکاتب کے بت جو ارسطو کے قیاس جیسے اندعے
قوائین پر مشتمل ہیں اور محشیق علمی میں فا رائۓے کی جگە لے لیت ہیں ۔ :
راس پیکن عبوری: دور سے تخلق کھت سے چنائچد سبائنس کا شیدائی ہونے کے.
باوجود ایں ےۓ کوپرٹیکس کا نظریہ رد کر دیا تھا۔ ۔شیہور سائنس دان ہارددے ک
_ راۓۓ میں ”بیکن لارڈ چانتل ری طرح فلسفہ لکھتا ے“ بیکن کیا سب سے اہم کارثامں
یہ سے کب اس نے ارسطو کی بنطق قیاسی کے بجاے ا ستقراء پر زور دیا۔اور اِس طرح
سائٹس کے طرز تبقیقی کو پیش از بیش تقویت دی:۔ .ت ے ۔؟
طایس پایسِ (۸ہ۱۵ ۔ ےب رع) کے ساتھ فلسقہ ایک نئے دور میں ذاعل ہوا تیا'
اس ۓ فلسفے کو چدید سائنس کی روشنی میں۔از سر نو مداون, وو و
اس تےمکمل ماذیت کا ابلاغ کیا ب اس کے خییال میں کائنات .کی ہرنے انسان سم
مادی ے اور حرکت کر زہی ے۔ وہ حسّیات کے منوا کسی چیز کو علمر کا ماخڈ
تسلم نہیں کرتا اور حسّیات کو بھی حرکت ہی کی صوزتیں مائتا ہے۔ اس کے بیال
میں فک رنحض ترق یافتب حسّیات ت کا ایک سلسلہ ہے ۔ اس کے ہاں حق حقیقت مادی ے اور
ڈہن مادۂ متحرک ے۔ پایس کلیلیو سے بڑا متائز ہوا تھا: - ایک ریاضی دان ہوۓ کی
حیثیت سے وہ فلسقے ہیں بھی ریاضیات کے امبولؤں کو رواج دینے کا حامی تھا اور :
جیوسیٹری کو ”'کاسل سائنس'“ کہا کرتا تھا اس نے روح کے وچود ہے انکار "کیا اور
سیکا کہ ہارے خواب مستقبل کے متعلق کچھ نہیں بتا سکتے لُکریشیس ک طرح وہ
بھی کہتا ا ا کی ںی جک نکرا تہ ایک جگی
لکوا ہے٥ ر لیے ۓڑے۔ تم ۱
''غیر مرئی قّت کا خؤ انفرادی صوزت میں توّہم نے اور اجتماعیی صہ سورتا
اختیار :کر جاۓ تو مذہب بن جاتا :ہے“ ۔۔
مادیك پپسند ہوۓ کے باعث پاسی قدر و اختیار کا۔عتکر ے اوز جبز مطلق کا قائل:
سیے۔ وہ کہتاِے کہ انسانی قدر و اغتیار کا خیال لغ ے۔ انسائی ارادداے یا خواہش
کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ے۔ اس کے خیال میں انسان جس بات کا ارادہ
کرتا ے, اس پر عمل کرۓ میں.وہ-آزاد ہے لیکن اراده کے میں بجبور عق ہے ۔
ہابس ۓ افلاطون کے اس خیال کی بھی تردید کی کہ عقل.انسان میں۔جَلُ اوز خلتی
ہے۔ اس کے خیال میں عقل پیدائشی نہیں بوتیۂشق ازر تجرے سہ تزق۔ کرق سے
ہاب ۓ فقلاسقہ* پونان اور مشکامین ہے اپنا فکری ۔رشتہ گل طور طور پر منقطم کر
لیا تھا ۔
٤
ڈیکارٹ ( ۰ -۱۵۹۰۹ع) کو عام طور سے جدید فلسفے کا با کیا جاتا ے۔
اس میں نک نہیں کہ وہ پلا عظیم فلسفی ے جو جدید طبیعیات اور یئ ہیثت سے متاثر
ہواكء عجیب بات یہ ے۔ ک ہدید مادیت پسندی اور مثالیت پسندی کی دوتوں رؤلیات
اسی-سۓ شروع ہوی ہیں چنا چة اس کا ذ کر مثالیت پسندی کہ ضمن میں بھی آئۓے کا
اس ۓ مثالی موضوعیت اور میکانکیت دوئں کی ترجانی کی ہے ۔ ڈیکارٹ نے علوم مروج۔''_.۔۔
کی تەمبیل یمنوعیوں کے ندرے میں ک تھی اس لیے وہ مثہب اور علم کلام کے مقام:
کو بھی برقرار رکھنے کی کوشش کزقا اد ۔ ہل بت
ڈیکارٹ ریاضیات کا ہہت بڑاعالم ھا اور کہتا تھا کہ دئیا ک پر مے'کو میکاثق
نتطہٴ نظر ہی سے سمجھا:جاسکتا ے۔ اس منقعتد کے لیے امثال سے کام لینا عبث ہے ۔
اس کا فلیفہ میکائیے وہ کہتا ے کہ کائنات چند ایسی اشیاء پر دشتمل سے جدہیں
خدا ے بنایا اور ان میں جرکت رکھی یہ اشیاءٗ مقززہ میکانکی قوائین کے تحت حرکت۔ اہ
کرتی وق اوہ مادتے اور ذبن کی دوئی بنا تصوز پیش کرتا ہے تجنو اس کے فلسفیٗ کا
سنگ بنیاد ے ۔ ذہن اور مادے دونوں کو ستقل: بالذات مان کر اس لۓ.ٹیچر
کو آزاد چُھؤڑ دیا۔ ے: اور نیچرل سائنس گی وضیح میکائکی نقطہ نظر سےٗ کی : تے۔ اس
ۓ مقصدًیا'غاییت اور روحانی وذ ہنی خصائغن :کو اس؛ تشرخ سے خارج کردیاتچا۔
بے کی تعری کر ہوۓ کہتا تک وہ اساسی طور ہر پھیلاڈّے اوؤرذہن انناسی '
طو' پر پر فکرو شیعور ے۔ ڈیکارٹ نے نیچر مٔے ہن کو حذف کر دیاد امن طرح
طییعیات ذہن ہےے-آزاد ہوکئی اذر اس ہے مقصد و غایت کا اعراج تکمیل کو پہنچ گیا۔
ایک عالم ریاضیات کی حیثیت حیثیت ہے وہ:فلمقے کو بھی ریابی ک طرح ایک یقینیَ علم بناتا
چاہتا فا ۔ٴاس رۓے کہا کہ کائنات کی پر شے مقررّہ قوانین کے تحت ح رکت کرق چے
اس لیے ان قوائین کو سمچھ ۔کر ہم ۔کابنات کی ڈوتؤک پر قالو پا:سکتے ہیں ۔ وہ چاہتا-
ۓےے کہ ساٹنس دان ذہن' سے : قطغ نظر کر کے نیچر کا مطالعت“ کریں یعنی کائنات می
بن _کو تلاش ند کریں ۔ٴاض کے'خیال میں سائنس:مقاصد یا ذبن و روخ ے تصورات““”
کے بغیز صرف میتی خطوط پر ترق' کر سکتی ہے اوو ان قوانین پر ابنی توجد
سکوز کر سکتی ہے جن کے تحت اشیاء حرکت کرق ہیں ۔ اس طرح ڈیکارٹ ے
جدید سائنس کو ترق دی اوز:اس ک اشاعت, کو تقویت:خشی ےن 723
ڈیکارٹ کہتا کے کہ حیواناتة کاجسم ایک خودکا رکل کی مائند ہے جس میں
ہن و شعوز مطلق نہیں رے ہہ۔جسانی لحاظ ہے۔انسان بھی خیوَان ہی, ک طرخکیٗ ایک
کل ے۔ فرق رصرقریسے کب اسان ڈبن لشمو ور:کا:مالک ے جو آس کے چسم:پر لت
اداڑ ہو میکتا ہے۔ ے کے ارول ما ےی وو عو ری اک ون مہ سای ا
۔ ے_وحدت وچود کا مِيْلغ مہیٹوزا (ہ+٥۔۔ےے٦ع) ڈیکارٹ کی مادے ایر ین ی
دوئی۔ سے مظمئن نہیۓ: تھا دراس نے کہا :کنرحقیقتِ ایگ ہے پھیلاؤ اوزفکراسی کی
صفات ہیں _ِ یسّحقیقت: واحد تمام کائناتِ 8227 نے اورراے خدا کا۔نام دیا جاتا! ہے۔
برعت عزدیں ہںشے؛ ے تاس ,نے ۔علیْذم:-؟ ن-شنے :کا وجود نہیں ۓ ۔ یم خؤ۵ا
لیا“ ٭
۸
ہی:اپنا سبہب ہے اور لاعدود ے ۔ سپیٹوڑ_ ک یں وجودی نظریہ تدم الیاطٰی َو
اور رواقیئین سے ماخوذ س۔ح..> 7 ي 5
!ا اسٹرھواں .دی کے اکم سائنس دانوں اور قاَذب نے اپنا رشتم ماضی سے' کی
___ ور پر متقطع نہیں کیا تھا۔ نیوٹن ؛ ڈیکارٹِ ؛ بیکنوغبرہ اہل:مذہب تھے اگرچہ ان
کے افکار و نظریات ہے مذہبی سسبّلات ہراکہیں مَنہدم ہو رے تھے؛ بیکن کا ایک قول
22 نظری ترجای کرتا ہے ؟ ۶۳7 : ٭
._۔۔. '”'ہم شریعت خداونتدی کی :پیروی ہر مجبور ہیں ا کر پارا ارادہ اس سۓ !
۔ کرتا ہے ا اہ نے یت
دھچکا لگتا سے ۔؟؟ کپ 7 و َ
ہے لک اٹھاوہوتی صدیٴ میں سائنس کی ہمہ گیر اشاعت ۓ اس فکری تحریک کو چتم دیا
جستۓ تارخ۔فلسقہ میں رد افروزی کا نام دیا جاتا ے - ہر طرف عقلیت پسندی کا دور
7 پت وگیا۔ اس تحریک کا آغاز ہالینڈ اور إنگلستان میں ہوا۔ لیکن فرائں میں اس کے
اثرِت خاص:طور سے بڑے گپرے ہوۓ۔ اننکلستانِ میں ہیوم اور گبن .اس کے
بمائندے تھے ۔ چارلس دوم ۔ۓ رائل سوسائئی کی بنیاد رکھی اور سائنس کی تعلم آداِب
پچلیں. میں شال ہو گئیی قرانس کے بنفکرین میں اسے خر معمولی مقبولیت حاصلح ہوئی'
اور روسو* کو کہٹا پڑا کہ منارے فراں ہیں صرف میں“ ہی وہ شخص ہوں جو
خداے واجد پر عقیدہ رکھتا ہے فرانس. کے اہن علم بےۓ مام علوم کو ایک قاموس
میں ح جمع کرنۓ کا . بیڑاٴ اٹھایا۔ ا لیے انہیں قاموسی کہا جاتا ے فرانس علوم و
فنون ایر فرپنگ و شائستی تک س کڑ تھا اس لیے قاموسپوںکے افکار ۓ ممام مغری
:مالک کو متاثر . کیا۔ قاموسیوں میں دیرو منتسکو ؛ یوۓ مطباغ کندوریے “
کیاۓے اور۔لامتری مشہور ہوۓے۔ ان سب کا سرخَیلِ والٹم تھا جس نۓ بڑي ہے رحمی
سے كے اہل مَذیب.کی ریاکاریٰ“ دکان آرئی اور زہد فروشی کے پردے چاک کے۔
ےڑے رع میں فریڈرکِ اعظم ثاء برشیاۓ والٹیں کو لکھا:, _ 7
”یل نے جنگ کارآغاز کیا کیا ے چند انگریزوں نے اس کی پیروی کی ۔ ممہازے
یا <مقدر میں اس جنگ کی فتح لکھی ے-)' وت مم
یں جنگ عیسائی مذہب کے خلاف لڑی جارہی تھی ۔ بیل کی لغتِ قاموسیوں کے
لیے مشعل.راہ ثابت ہوئی ۔.اِس لِقت ہیں ختلف موضؤعات پر خائس عقلیت پسندی کے
نقطہٴ نظر سے اظہار خیال کیا گیا تھا ۔ حکوسٹ فرانس نے کلیسیا کے !کساتے پر
”و قاموجیونِ کو چبر و تشدد کا نشائم بتایا ۔ انہیں قید کیا۔گیا < ان کی کتابوں کی اشاعت
منوع قراردے دی 5 ۔ ان کے سموداِتٍِ ہیں تجریف ک:گئٔی ۔ انہیں جلاوطن کر دیا
لیکن وہ بھی دھن کے پک تھے:انہوں نے ایک طرفب جمہوری قدرونِ کو فروغ بُشا
. دویری طرف انسان کو مذہیبی حم نے مبات دلانے پ رکمر ہمت باندھی ۔ سیاسیات
میں انہوں ۓ شاہان فرائس کے استبداد کے خلاف .آواز بلند کی اور مذہیب کا بدل
عمراثیات میں تلا شکپا ۔ انہوں نۓ پائرے بیل کے اس نظرے کو قبول کرلیا کہ وحی
۱۹ا
کو بہرصورت عقل کے تحت رکھنا ضروری ے ۔ قاموٹنیوں نۓ :الہام کے یں ایک۔
مذہب سرلّب کرتۓکی کوٹشش کی جسے انہوں ۓ ''یزدانیت“ کا نام دیا ۔ وہ اسان
دوستی :کو اس نذہب کی اساس مانلتے تھے اور کیٹ ت تھی کب اس می :کسی الہام
کی ضرورت نہیں ے ۔ قاموسیوں .کے خیال میں سائنس کی ری لازنا انساق معاشرے ئا
ترق کا باعث َوگی ۔ کندورے اور ترگو ے انسان کے مستقبل پر اعتاد کا اظہار کیا
اور کہا کہ سائنس کی روشنی میں قرق کی منازل طے کرکے انسان ایک مثالی معاشرہ'
قائم کرئۓ میں کامیاب ہو جاۓ گا۔ ۔ ان کا حکم عقیدہ تھا کہ سائنس سے جاصل کے
ہوۓ علمٴہی سے انسان سرت سے بھرہ ورہو سکتا ہے ۔:قاموسی تچذیب جدید کی
تشکیل جدید سائنس اور نئے طرز ء حتیق کی بنیادوں پر کرنا چاہتے تھے ۔ کت
. ”قاموسی مادیّت پسند تھے انہوں۔ ے ڈیکارٹ تھے اس نظطرے کو کم حیواات ے_
. خودکار کلیں ہیں اسان پڑ بھی منظبق کر دیا'اور کہا کہ انسان میں جسم اور روح
ممیت ایک کی نے ۔اگرچہ دوری کاوں نے زیادو پییدہ۔اوز مضحکہ خیز تے۔
میکانکیت طبیعیات اور کیسٹری: کے اصول ذیئ: عیات پر بھی:اسی طرح لاگو ہیں جَیسۓ
”کہ غیر ذی حیات پر ۔ لامتوی ۓ اعلان کیا کە چونکد حیوان کل ے اس لیے۔ائسآن
بھی کل ے اذر انسائی قلب و ذہن۔ کے عمام اعال ۔میکانی توعیت کے ہیںں۔ اس مادی
نظریہ کو ہولباخ ۓ ایک باقاعدہ مابعدء ااطبیعیات ی کی دی۔ اس اۓ روح سس
وجود سے اثکار کیا اور کہا کس فکر نغزِدڑ کا ایسا ہی قع ے جیسا کہ ۂضم
مغعدے کا فعل ے۔ کائنات مین صرف ماد غییر فانی ہے ۔ قطرت میںٴ کسی توع کا
کوئی مقصذ نہیں ہے کائنات کی وسعتوں میں انسان کا وجوذ ٹہایت حقیر و صغیر سے -
اس ے کہا کہ فطرت چند اٹل قوائین کے تحت کام کر ری ے اور کسی قسم کا
کوئی ذہن یا شعور اس پر متصرف نہْں ے - ہل ویشیس تۓ اخلاق اور نیک کی توضیح
بھنی طبیعی فوانین ک رو سے ک - قاموسی جہر مطلق کے قائل تھے۔اور کپ تھے كت
قانون سبب:و سیب ہر ث شے پر حاویٰ ہے ۔ دیدرو اور ہونۓ نے ار قاء کا تصوز پیش
کیا۔ انہیں لامارک اور ڈارون کے پیش رو کہا چاتا ےن > نے '۔
اٹھارعویں صدی کے مادی نقطہٴ نظر کا ڈکےکرۓ بؤۓیگرٹلوسل لکھۓے ہیں _
کہ اس کے عناصر "تر کیبی .تین ہیں ٠ ٤رث بج سا
(١) 5 حقابق مشاددے پر مینی ہوۓ چاہئیں ذه کہ ایسی سند پر جو شض تنم پر
: مبٔی ہو۔ . :
مد
۔زم) سادی دئیا ایک ایسا نظام ے جو خودکار ے اور جس میں تمام تغیزات
طبیعی قوانین کے تحت ہوتے ہیں ۔ ۹ سے َ
(م) کرۂ ارضض .کائنات کا سک کز نہیں ہے اور تہ اس کا کوئی مقصدِ و ننی ے۔
”بھی تینوں عفاصر مل کر میکائکی 'نقطہٴ نظر کی تشکیل کرتے ہیں ۔ طبیعی سائنس
مس سے
() 0ع00٦ا1۔ ۱ ٠ہی۰ +پ َ 7
ہا لد
کے دو اکاہر جو ائیسویں:عّدی میں ہو غاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ارٹسٹ ہیکل
اور چارلس ڈارون ۔ ان کے۔غیال میں ٹیچر دہ ے جس کا ادراک ہم اپنے حواس خمسمہ
سے کرے ہیں ۔ڈارون اور سپنسر ۓ ذی حیات پڑ بھی طبیعی قوائین کا اطلاق کیا اور
اصول ارتقاء کے تاربخی بس ہنظر کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ ہیکل: نے ابی تالیف
”'کائنات کا مععہ؟' میں شعور و ذہن کی تشریج عضویاتی پہلو سے کی ے۔ وہ کہتا ے
کہ ذپن جسم ہے علیحدہ نہیں کے بلکە مغزسر ہی کا ےے ےت
نیچر کو بسااس کے طریقد* تحقیق 5 حقیق ہی سے جانا جاسکتا ے اور عالم طبیعی کی تشر
کے لیےکسی ماورائى وجود ے رجوع لا ۓ کی ضرورت نہیں ے ۔ نیچں اصولٰ ول" ِ
ہر شے کا جو کہ موجود ے۔ طبیعی حقیقت ہی کائنات کی:اساس ے اور ذہن اسی سے
متفرع ہوا ے۔ طبیعثین مافوق الفطرت کے ٴمنکر ہیں اور کہتے .ہین کہ سائنس میں
سی اس کی ضرورت پیش نہیں آقی ۔ ان کا نقطہٴ نظر وہی ے جو لاپلاس۔ کا تھا ۔ لاپلاس
رۓے اپنی کتاب نپولین کو پڑھنے کے لیے دی۔ چند روز کے بعد نبولین نے اسے بلا کر
پوچھا ''اس کتاب میں تم ےۓ کہیں خدا کا ذکر تو کیا ہی نہیں“ لاپلاس بولا 'مجھے
علمی تحتیق میں کہیں بھی اس مفروغے کی ضرورت کا احساس نہیں ہوا ۔+ٴ طبیعئین ۔نیچر
ہی کو حقیقت مطلق مانتے ہیں ۔ ان کے خیال میں جو اشیاء یا وجود طبیعی قوانین سے
آزاد یا فوق الفطرت ہیں وہ بھی انسانی تقیل ہی ی پیداوار ہیں اور تخیل مغز سر انسانی
کا ایک فعل ے۔ وہ نیچر کو ایک عظم گل خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو
قوانین سیارں پر متصرف ہیں وہی انسانی طرزعمل پر بھی حاوی ہیں ۔ سب اشیاء سہب
و سسبب کی زنجیں میں جکڑی ہوئی ہیں ۔ طبیعی نفسیات میں مذہب کو در خور توجہ
نہیں سمجھا جاتا اور مذہبۂ کو زیادہ سے زیادہ ایک انسانی غلط فہمی خیال کیا جاتا
ے جو ماضی بعید میں بعض اوقات کارآمد بھی ثابت ہوئی تھی ۔
جیسا کہ ذکر ہو چکا ے انسان کی خودی کو سب سے پہلا دھچکا اس وقت
لا تھا جب کوپونیکسیغ نے کہا کہ کرۂ ارضن کائنات کا صکز نہیں ہے اور
ایک معمولی سے ستارۓ کا ایک ننھا سا سارہ ے۔ ڈارون کا نظریہ ارتقا انسانی خودی
.کی مزیدجراحت کا باعث ہوا ۔ ڈارون نۓ ےشار شواہد اور انسان اوڑ حیوانات کے
: عضویاق تڑابل ہے ثابت کر دیا کہ انسان حیوان ہی ےہ ارثقاء پڈیر ہوا ے اور وہ
”اوہر سے گرا ہو فرشتہ تھی ہے بلکہ نیچے ہے اوہر اٹھتا ہوا حیوان ے۔“ برف کے
زمانوں میں کوہ پیکر حٌیوانات ماجول ے موافقت تم کرمنکے کے باعث فتا ہو گئۓے ۔
سیر انسان کے حیوانی آباء ۓ نانساعد ماحول ہے موافقت پیدا کرلی اور باق رۓچ ناتْسٌاعد
ماحول کے ساتھ کشمکص کرے ہوئۓ انسانی دماغ کے جوہر فکر وقثیل ۓ نشوو تما
پائی جس کے طفیل وہ خیوانات کی صف سے جدا ہو گیا ۔ فرائڈ ۓ داخلی پہلو سے ڈارون
کے اس خیال ىی تائید کی تھی جب اس نے کہا تھا کہ بنیادی جیلتیں انسان اور
حیوائات میں مشترک بیق ۔
ا
مادی دنیا کا وہ تصور جو آئوئی فلاسفہ ہے یادکار تھا اور جسے کیک وو او ز ٹیوٹن
زم
>
کے انغخشافات ۓ و سعت دی تھی انیسویں صدی کے اواخر ر تک' إرقرار رہا: صدی' ٭روٴانں
کے اوائل میں طبیعیات میں چند ایے اہم انکشافات ہو ۓکۃ ج کی رو سے ماذہ تحیثیت
ایک ث شے کے غائب ہوگیا مادے کے ٹھؤس ہوۓ کا تظرَیْہ :یکسربدل گیا اور مغلوم
ہوا کے مادہ عشن علحلہ ”'واقعات)؛ ا ے۔ ۔ شروڈنگر “ پلانک اور ہائزن برگ کے تظرَیں*
۔مقادیر عتضصری تے۔جدید شائنس:کا می سے انقلاب. :پروڑ ”انکشاف کیا کہ ماذہ [ہ ہت
-توانائی أیک دوسرۓ میں۔تبڈیل ہؤنے رہے ہیں ۔ ایٹم کے اجزاےۓ7 تر-کیی: الیکٹرون۔
_پروٹون اور نیوٹروث ہین آئن خٹائن کی تخقیقات: تے۔نظریہ* مقادیر عنعرزی کی تصدیق
ہوکیں ہے ۔ مادے کہ ٹھوس ہوۓے کا خیال زمان کے قدیج نظرے سے وابستد تھا
جسے آئن سٹائن کے نظریہٴ ۔اضافیت ۓ غلطہ ثابت کر دکھایا۔ ۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ
ایک ہی عالمی :من نے یعنی کاثنات :کے دو حصولں میں دو واقغات روآ ماٴ:ہوں تو یا ۱
تو وہ ہہ یک ,وقتٰ ہؤں گے یا پہلا دوہرے سے پہلے ہوگا یا دوسرا پہلے سے پہلے دقوع““
آپذیر ہوکا ۔غیال یں تھا کہ دو واقعات :کی ترتیب؛ زمائی حتمی طور ہر بعروشی ہوئی٭ّ
چاہے خواہ ہم اس کی تعیبن سے قاصر ہوںل۔ اب پت چلا کہ ایسا نہیں ے اب زمان
وھ رای کڑے کے ساتھ جو بذات خود ”واقعات؟“؟ کی ایک
منصوص ترتیب کا ام ے ذاقی و انفرادی ہوگیا ہے ۔ اس طرح ہر شخص اپنا زان
مکان اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ ام موضوع پر بث کرے ہو ۓ برٹرنڈرسل
.لکھتے ہیں:
'انظریم اضاقیت کا یہ پھلو فلسقے کے لیۓ نہایت اہم کم اس کی رو سے
عالمی زان اور ایک مستقل بالذات زمان کی نی بُتوگئی سے اور ان کی جگد
زمان / سکات آکائی نے لے ی ہے ۔ یہ تبذیلی ایت اہخ' ۓ کیوں کہ اس سے
ہمارے عالم ۔طییعین کی ساخت کا تصُٗور یکسر بدل گیا ے ٭ً میرے خیال میں
اس کے اثرات. نفسیات پر بھی ہوۓ ہیں . .. . جگہہ کا تصور بھی ٹالگل مبہہے
ے۔ کیا لندن ایک جگہ ہے ؟ لیکن کره ار تو گھؤم وہا سے کیا کر
ای ایک جک ہے ؟ لیکن وہ تو سورچ کے کر گھوم وہا ے۔ کیا سورج
یک جگہ ۓے لیکن بتورج تو شتاروں سے اضاقٰ طوْر پر گردش. کر رہا ے۔
ت.۔ تح جگد کا_ذ کر کر سکتے ہو لیکن وقت
مین کیا ۓ ؟.جب تک عم ایک غاس کم کے تمین ہی إاك “ کرو ۔ ۔ربس
۔. کن یا جگہ کا تصوز غائتِ ہو گیا ے ۔ک, ٴ ۶ تم ا
۰- ےت جح مر ٹر
دنیی برئے ''ولقعات“ بر مشتمل ہے اور زمان /٭کان کہ پر 'واقع عے میں دوسرے
'واقعات “ بھی دخیل ہوتے رہتے ہیں ۔ یں ''واقعاتی)؛ حر کت کرزۓ وآلے :مادے سے٠
بہت کچھ ختلف بین : ۔ٹرٹرنڈرسى کے خیالِ میں عیقریب ”'ادہٗ و ن'ڈپن؟' کے الفاظ
کی جکہ'متعلقہ :'واقعات“ کے موائی سیب و تر آیسب لی لیینک سک ٠ یی اوج ہے کہ
موصوف ئہ بنادیّٹ۔کو قبول کرتے ہیں.اوز نە مثالیت کو مانتے۔ہیں ۔انہوت ۓ اپنے آخری
سااقاہ لے لم
.
9 ۳۳
نظرے کا ام غیر جائبدارانہ احدیت رکھا ے یعی دنیا صرف ایک ہی قسم کے اساسی
عنصر سے بی ہے سے وہ ''واقعات' کا نام دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مادے اور
ذہن کا فرق حض فریب غیال ہے ۔ عالم کی اساس کو یا مادی کہا جا سکتا سے یا
ذہنی یا یہ کہ عالم دونوں ہے کپ ےۓ یا یہ کہ عالم ان میں سے کسی ہے بھی
سکب نہیں ہے۔
. ےہ مقادیر ءنہری-اور اغبافیت* کے نظریات کے اثرات معاصر فلسفے پر .کہرے ہوۓ
ہیں ۔ مادیت کا قدیم روایتی نظریہ برقرار نہیں رہ سُا ۔ مادے کے ''واقعات“ میں تحلیل
ہو جاے اور مادے اور توانائی کے متبادلِ ہوۓ کے نظرے نے اہے 'غلط ثابت .کر
دکھایا ے ۔ جس طرح نظریہ* انماققیت نۓ مکان / زیتان کی اکائی پیش کی سے اسی طرح
مقادیر عنصری کی رو سے ھن | مادہ کی اکائی سامنے آ رہی ے, > یں اکائی نہ ذرنی ہے تہ
مادی بلک چند ”واقعات““ پر مشتمل .سے جو اختلاق قواقینِ سیب و تہب کے حمت
ختاف علاقوں میں ترکیب و لرتیب پاتے رہتے ہیں ۔ جس طرح می زکرسیان ''واقعات“
سے س کب ہیں اسی طرح انسانی ذہن اور انا بھی ”واقعات 4“ پر مشتمل ہیں یت
گی زبان میں سے معروض إ موضوع کی اکائی کا ام دیں گے۔
بعض اہل علم کے عیال میں ان انکشافات کا ایک اثر فلسنے پر یہ ہوا ے کہ
مادیت پسندی کی جبزیت برگرار تہیں رہ سکی۔ اڈنگٹن کپتا ہے کہ ایٹم کہ اجزاء کی ٭
حزکت آزادانہ ے۔ پائزنِ برگ کے خیال یت انفرادی الیکٹرون کے عمل میں اختیار
کا عنصر پایا جاتا ے لیکن اس سے عالم ظواہر میں قاثون سیب وسبّب کا ایطال نہیں
ہوتا ۔ طبیعیات کا ملسلمٴ سیب و سیب برقرار ے اور عالم طبیعی کے "مام واقعات
پر طبیعی قوائین کا تصرف یاق ے ۔ توانائی ي لہروں میں قدر و اختیار پایا جاۓ تو
بھی جب توانائی مادے کی صورت اختیار کرق ہے تو یہ مادہ سلسلد' سیب و مسپ
کسر کے تصرف میں آجاتا ے۔
-> اس ہے
؟٢۳۴
عثالیت پسندی
7 ا ساي
مادیّت پسندون کے غیال میں مادہ حتیقی ے اور ذہن اس کی مود ے۔ اس کے
برعکس مثالیت پسندوں۔کا دعویل ے کہ ڈہن عقیقی ے اورمادہ اس کا عکس گے ن
تاریخ فلسقہ میں یہ نزاع قدیج زماے ہے یادگار ے ۔ اس بات کا شروع ہی سے ڈربن
نشین کر لیٹا ضروری لے کہ تاریٹی لحاظ ہے مادیت کا تعلق ہمیشہ منائی سے ہا
ے اور مثالیت ہمیشہ مذہب سے وابس رہی ے ۔ ىائلشمی کے باشندوں طالیس ۔
اناکسی مینڈر اور اناکسی میس کا”نثتطہٴ نظر تمقیقی اور علعیٰ تھا کیون کہ انہوں
نے مروجہ مذاہب کے۔ضنمیاتی خزافات ہے قطع نظر کر کے مظاہر کائنات کی برَاہ راست
توجیە و تشریج کرےۓ کی جسارت کی تھی : مثالیت پسندی میں عارق مت ۔ دایوٹیسیس
کی پوجا۔ الیسینی اسرار وغیرہ کے باطفیں عناصر شامل ہو گۓ ۔ افلاطون کو
نثالیت. پسندی کا بائی کہا جاتاٴ ہے۔ اس کے نظریات میں عقلیت اور عرفان“ منطاق
اور باطٹنیت ممزوج صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔ مورخینِ فلسقە کا اس بات پر اتفاق
سے کہ افلاطون نے فیثا غورس۔ پارہی ائدیس ۔ پیرؤقلیٹس؛ آور ستراط کے افکار
میں مطابقت پیدا کز کے اپنا نظام فلسفہ سس تب کیا تھا : اتں لے مثالیت پسندی کے
ان مآخذ کا جانزہ نقید مطلب ثابت ہوگاے -- -؟
فیٹا غورس (. .٠ن ۔ .مم ی۔م) عارق مت کا ایک مصلح تھا ۔ اس مت کا آغاز
اٹیکا میں ہواتھا۔ زنانے کے گزرےۓے کے ساتھ اس کی اشاعت اطالیہ گی جدوبی ریامتٹوں
اور صقلیہ میں ہوئی ۔ ابتداء میں اس مت کا تعلق شراب اور راگ کے دیوتا دائوٹیسیسں
ک ہوجا سے تھا۔ دائوٹیسیس کے قہواز پر اس کے پجاری شراب بی بی کر سید مست
ہو جاۓ اور حالت وارفتگی میں مستائہ وإار چھوہتے جھامتے جلوس ٹکالٹے تھے۔ ان
میں عورتیں بھی شامل ہو تھیں جو نشم رک عالم میں دیواتہ وار رقص کرق ہوئی
. چلتی تھیں۔ اس حالت میں جو جانور پچاریولں کے سامۓ آ جاتا اس کی تکا بوٹی کر کے
کچا چبا جانے تھے ۔ ۱٥ہ ذہ تاط٤2 (لغوف مه۔ٴخدا کا کسی میں حلول کر جاناۂ)
اور ٥٥ات2 (لغوی معنی 'از خود رفتگی؟) کے الفاظ اس پوجا سے یادگار ہیں۔ جلوس
کے خاتمے پر اجتاعی رقص ہوتا جس کے دوزان میں شرم وحجاب کی پابندیاں آٹھا دی
جاتی تھیں ۔ دائوٹیسیس کی پوجا کی رسوم کو تھریس کے ایک شخص عارفیوس تۓے
۰ خ۰
۶ شش _.-<ح
(١) یریقلیتس کا اکوِہمادیت پسندٔ کم خی میں آ چکا ے۔
۲۳
۔مدون ٹیا۔ اس ئم تاریغی شخصیت کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ایک ہاکمال کویا
اور:صاعب حال صوف تھا ۔ اس کے رو اس ٴدثیا کو زنداں اور زندگق کو دکھ
سمجھتے تھے ۔ ۔ ان کا غقیذہ تھا کہٗ ائسان پيڈا ہوے ہی جم چکر میں گرفتار ہو :جاتا
ہے ۔ اس کی ممام تر کوشنشیں امن سۓ'تبات ہانۓ کے لیے وتف ہو جانی چاہئیں۔ عارفیوس
ے ہے ایک نظام بھی منسوب کی جا يے جس میں وہ لکقتا ے کہ کس طرح: اس نے
اہی زندی می زمین دوز عالم عقبقلغ کی سیاحت- کی تھی۔ ۔ و خہا ہے کہ السانی
”روح کو ہہشٹ بزین ہیں بھنچچنے/ :میں کڑی مشکلات کا سامناٴکرنا پڑتا ے۔
_فیثاغورس نے حیات بعد موت کا عقیدہ عازفیؤس سے اخذ کیا چیا ۔ روح ک ہقا کا
۔قصور .الیسیی ادراز کا بھی من کڑی عقیدہ تھا یہ اسْراز عوام سے چھپ چھپ کر
, دیوی دہیٹر کی یأد میں مناۓ جاتے تھے ۔ اس مت کے پبروؤل ہے رسوم عبادت کو
خقید رکھنے کا سنخت عہد لیا جاتا تھا اس لیے ید معلوم یی ہو سکا کہ پجاریوں کا
طرز غبادت کیا تھا۔ پلوٹارک بھی اس انجمن کا “ایک رکن تھا۔ اس تے کمہیں
کہیں اشازے 'کیے ہیں جٔن سے مفہوم ہوتا ے کۃ خفیہ جلسوں میں بقاۓ روح کے
حصول کے لیے چند رسوم ادا کىٗ جاتی .تھیں اور اناج کی بال کو اس ائجمن کا علامتی
ثشان ماا 'جاٹا تھا: اس کا مطلب یہ تھا کہ جم طرح دانہ زیو زمؾن جا کر دوبارہ
آگ آتا ے اسی طرح انسان بھی دن ہوۓ کے بعد ایک اور دنیا میں زئذہ ہو کر آٹھ
کھڑا ہوگا۔ 0×8 (لغوی معنی ہے 'تُطہیر' یعئی روح اپتے آپ کو مادے کی آلائش
سے کے پاک کر سکتٹی نچے) اور و٭ہ ہلا (”پر جوش تعمق “جس گی حالت میں روح
سادوےۓ۔ یپاک ہ وکر چتم چکر سے مات پا لیجّی ے) کے الفاظ انہی باطنید سے یادگار ہیں ۔
اسیطرح تناسخ ارواح کا:تصور ابتدائی صورت مین عارفیوں کے یہاں موجود تھا ۔ جو
بقول پیروڈوٹی یونانیوں نے مصریوں سے لیا تھا۔ بھر صورت جب فیٹا غورس نۓ
عارق مت کی تجدید و اصلاح کا بیڑا- اٹھایا تو آُس ہے یتانۓے ریح اور تنا اروا کے
٭اساسی عقاید کو من وعن قبول کر'لیا ۔ ۔
فیٹا غورس نے عالم شہاب میں مصر۔ بابئی اور ایران گی سیاحت کی تھی آوں-
وہاں.کے اہل علم ہے فی حاصل کیا تھا۔ مصر میں شہنشاہ کمبوجیہ پخامنٹی تےۓے
آہے گرفتار کر لیا اور اپنے ساتھ شام لے گیا۔ کمیوجید کی وفات پر اےٗ رہائی نصیب
یہوئی ۔ .اور وہ بابل چلا گیا "جتچّاف اس لے ریافی اور ہیثت کی تحصیل ک ۔ وطن
لوٹ کر اِس ے ایک تعلیمی امن قائم کی جس کاٴ نظام عارق بَطّیہ کی یادِ دلاتا ے ۔
سے فیٹا غورس کے مکتب میں تعلیز ر لوط تھی اور طلبہ دو جعتوں میں منقسم تھے
>چشہین وسعئ علوم پڑھاۓے جاے تھے انہٌیں ظأَہِرَیْہ کہا جاتا تھا۔ مشتخب طلبد کو
گوشہ* تدہائی مین غرفان وسلوک کی تعلہ دی جاق تھی انہیں باطنیں کا نام دیا گیا -
ر فیٹا غورس اور اِس کے۔پیزو جنم چکر اور تناسخ ارواح پر حکم عقیدہ رکھتے تھے ۔
۔ ایک دن ۔فیثا غورمن نے راستہ چلتے: ہوۓ دیکھا کہ ایک شخص اپنے کتے کو
ے دردی سے پیٹ پیٹ رہا ے اور کتا زور زدد سے چخ رہا ہے۔ یث وزس ]ُس کے قروب
گا
۵
۲
کس کہۓ لكا ا کے کو ت٭ مارو۔ 7 یی ہد ہے ایک 22
کے دوست۔کی آواز سنائی دے رہی ے۔ فیٹا غیورس, کے مسلک میں گوشت
اوبیا کھانا۔ سفیذ مغ کو چھونا۔ ووری رِوٹی کو دانتوں نے کاٹ کر جانا
رات کو چراغ کر روشنی میں آئیئں _دیکھنا ہہ جلتی ہوئی آگ .کو کر
منوغ تھلا۔ یش ورس کہ افکار کی 7 تشرج کرنۓ ہوۓ برنٹ لکھتا ےن ٌ
7ء رت0 غُورس کے خیال میں) اس دنیا ہیں ہم۔اجنبی ہیں عے مج تا
2 ہے اس کے ,باوجود ہمیں خودرکشی کز کے اس سے بات نہیں پانا چاہۓ
ئ7 کیوں تکہ ہم غلام ہیں : ۔ ہمارا آقا خدا ےجس کے .,حکم کے بغیر ہمیں اس
دنیا سے فرارک اجازّت نہیں ے ۔ اس دئیا میں تین قسم کے آدمی ہیں جیسے
' اولمپک کے کھیلوں میں آۓ والے لوگ تین گروہوں ہیں بٹ جاۓ ہیں ۔
سب سے تھلا طبقہ وہ ے جو۔خرید وفروخت کے لے آتا ے ان سے برتر وہ
لوگ ہیں جو کھیلوں ہے۔مقابلے میں حصد لیتے. ہیں ۔ اعلول ترین طبقہ محضش
سماشائی کی حیثیت رکھتا ے ۔ نفس کو پاک کرنۓۓ کا بھترین طریقد یں ے کە
آھی فضیل علری ضرف نے اور اپنٔی زندگی اس مقصد کے لیے وف کر
دے۔ بھی نچا فلیغی سے جو جنم چکر سے جات پا لیتا ے! “۔ :
لفظ فیلسوف یا فلسنی فیثا غورضس ہی کا ا وضع کیا ہوا ے۔ اُس۔ کا لغوی: معنول
ے ”دائشی دوست؛۔ آُس کے خیال میں تفکر و تعمق اور وجد وحال کو بروۓ کار
لا کر جو شخص جن چکر سے بات پالیتا سے وہی فلسقی یا داش دوست ہے۔
فیٹا غورس کے پیرو روح کو جسم کے زنداں ہے وہائی دلاۓ کے لیے قلستے کا
ا ا کرے تھے ۔ انہوں ے پیثت؛ موسیقی اور ریاضی میں اجتہادی انافے
کے۔ یہ علوم فیٹا غورس کے نظریہٴً اعداد, سے متائثر ہوۓ۔ اس نے اصوات کو
پندیے کے۔اصولوں پر تقسم _کیا۔ وہ اعداد کو اصل حقایق مانتا تھا اور موسیقی ی'””
آوازوں کی ترکیب میں وہی حسن اور تناسب تلاش کرتا تھا جو اعداد میں پایا جاتا
ے۔ اس نے عدد کو مستقل بالذات اکئی ماتا اور اسے تمام وِجود کا اصل اصول قزار
' دیا۔ وہ کہا کرتا تھا کیب اعداد کے بغبر کائنات میں یکسائیت ؛ تناسب یا توائق
برقرار نہیں تو ڑا ۔ کائنات کی اسی آفاق یکسانیت اور تناسب کے باعث اش ےا سے
سکع 3 دیا ےڈ ٹر وو کہتا .تھا کپ پاعداد ہی پر شے کی اساس ہیں اوراند
ایاء وہر ہے ۔ وہ ضد جو طاق اور حٍفت ہے اعداد میںر موجود نے ۔ ابْ:تضاداتت--
کے تواقق ہی سے فظرت (نیچر) معرشئ وجود میں آئی ے بادی 'دئیا کے علوہ وہ
غبر نادی عائم ر بھی اس اصبول :کا اطلوق :گرتا تھا اس کا دعوعلٰ تھا ےک غیت ؛
دوسٹی؛ ضّل؛ خیز؟“ صحت “وغیرہ بھی إفداد, کے توافق, سے صورت پذیر-ہوے۔ہیں ۔
اس کے خیان میں نہ کا و عحبیت.اوز دوٹی کی توف ,ٍ کرتا سے و کا ”ہن
کی 7 )موہ أ۶ عاوورڑ) ۷م ۔ ” ۱ : و کے
-
ا
- چ ہے
ِ2 ے۔
“مکمل واکمل بے ۔ طاق اعداد اجفت عو سے اد سعد بڑے بی ۔ فیٹا غورس
تے پیرؤ عالمی* توانق اور موسیقی گے صوق توائقِ کو ؤاعد الاصّل بانتے تھے ۔
. ہارے زمابۓے میں الین سٹائن نے زوسیتی کے توائق پر غُور کرتے ہوئۓ کائنات کے
توافق کا راز دریافت کیا تھا۔ اور گویا فیٹا ا ورس کے نظربے کی تصدیق. کی تھی ۔
قیئاً غوْرسیوںِ ہی نے سب مس پہلے ۔زمین۔ و ایک سیآرہ قزاإردیا تھے ارسطو نۓ
انس خیال کی سخت مخالفت کی لین جیت بالار فیٹا غورسیوں ک ہوئی۔ ن .کوپرٹیکس
آچی کا سس ہق من تھے“ پ
فیٹاٴ غورس کے اجہاد فکر ۓ ویاضی کو خأٰضْ طور سے متائر کیا 5ہ 78م ا2531
کی اصطلاح سی کی وثبع کی ہوئی ے.- اس کےٴ ویاضیای“ ارز فکر کا ہبی ہے بڑا اثر
افلاطون اور اِس کے واسط لے سے بعد _کے مثالیت پسندوں اور عقلیت یس ودزیر ہوا ۔
اللہیات اور نظریہ“ عل کو ریامیاتی 'اسالییب کے نگ میں تب کرنےذی کوشش
کا آغاز ہوا اور فلمقہ شروع ہی نے ریاغیات کے . _ساتھ وابستد ہو گیا ےت
میں برٹرنڈ رسل نۓ وائٹ پیڈ کے ساتھ مل کر منطق کو ا سرئو ریاضیات کی بنیادوں
پر مڈون کرتۓ کی کوشش کی سے ۔'ؤہ "ُکہتے ہیں کہ ,عہدِ فیئا غورس میں ریاضیات
کی اساس پر قرض: کر لیا گیا کہ فگر' حس؟ سے برتر ۓے حسیات ہر لمەحہ تغہر پذیر
ہوتی ہیں اور ان پر ریاضیاتی اصولوق کی کارفرمائی ممکن نہیں ے اس.لیے یں سمجھا گیا
کہ حسیات فکر ہے قرو تر ہیں اوڑ انہیں حقارث کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے چنانچە ایسے
۔امتول فکر وع کے گئۓےٴ جو ریامیٰ کے اصولوں کے ممائل اور قریب تریں تھے ۔
نتیجە یں ہوا کہ مابعدألطبیعیات اور نظریۃ* محلم میں کئٔی غائظیاں سرایت کر گئیں ۔ اس
توع کا فلسقہ فیثا غوزس* سے شنروع ہوا تھا ۔ برٹرنڈ رسن کہتے ہیں کہ ریاضیات
سب سے بڑا ماخذ ے اس عقیدے کا کہ کائنات میں کچھ ازلی وابدی صدافتیں موجود
'ہیں یا کوئی عالم ایسا بھی ے جو حسیات ہے ماوراء اور برتر ے :اس اتداز فکر کا
قدرق تیج یں نکلا کہ صرف عقلى استدلال:بٔی سے ازی و اہدی صذاقتوں کو یا برتر
عالم کو سمجھا جا نکتا ے ۔ للہذا فکر نی سے افضل ے اور معتولاتِ جہوسات کی
یس نسبت ژیادہ حقیقی ہی - اسیٰ بنا پر قیثا غوژسٰ ے دعوعل کیا تھا .کہ :آعدادعتقی
ہیں ازِغخ وایدی ہئ:اور“زمان: ومتكات سے ماوڑااغلپیں ۔ بعد میں افلاطونِ ۓ ان اعد'د
٠ کو امثال* (ہة٥58). یا ددہعۂ کے نام دنےداور:-“کہا کہ امثال حقایق' نشی الآمی ہیں
ازلی و ابدیٰ ہین جب کہ بحسونات:گریزپا اورتخنا پڈذیر ہپس ۔ افلاطون کا یڈ نظریّہ بھی
فیٹا غورس سے باخو سے کہ عالم۔ازی*و إیدی> صرف۔ عقلِ استدلا ی ہی پز متکيیف ہو
سکتا۔ کے ری ای راف آہسیتت ن ”یہ تصور اادرہ۔ سے لے کر
' سس و نے کی کو بھی ا دی و ہی پ مل کی :بلیاد
ا
َ
> یہ 7 ۰ بل َُّ ا شا
وت ہے ہے" ہے یا ٤ 7
ہہ () اتوممطت وت (ء) 560532107 ۔-
2 ٢؟ےۓ
۲"
رکھی گئی کہ فکر حواس سے برتم ے اور وچدان مشاہدے ہے |تضل ہا۔
اسی لیے فلسفے میں بھی اکملیت کے حول کی کوٹ ش ک کی اور یه کوششن
: مابعد الطبیعیّات اور نظریم* علم ہر بھی اثر ائداز ہوئی ۔ ریافی نی ماتمذ ے
ازلی ؤ ابدی:صداقت میں عقیدہ رکھنے کا ی یا ایسے عالم کو ماننے کا جو جواس
سے برتر ہو ۔ یٗخیال بھی ریاغنی ہی ہے لیا گیا ے کہ فکر حواسض سے بزثر
ے اور معقولات حوسات سے زیادہ حقیی ہیں ۔ باطنيه کا نظریہ* ژمان رباضی
ہی سے تقویت پٰذیر ہوا - ٹیزیں عقاید ریاضی ے ماخوة ہیں کہ اعذاد حقیقی
ہیں اور زمان ہے ماوراء ہیں یا افلاطون کے امثال عالم ماد ہے ماورل ہیں۔
ععّلیت پسند فیٹا غموزس کے زماتۓ ہی ہے ریاضیات' کے زیز اثر” ہے ہیں'۔
افلاطون نے خدا کو ماہرِ ہندس ہ کہا ے اور جمیزجینز آے عالم ریاضمات سمجھتا
ے ۔ ریاضیات اور اللھیات کا امتزاج جو فیثا غورس ہے شروع ہوا تھا یونان
کے مذہبی فلسفے ۔ از منںٴ وسطول کے فلسفے اور ہارے دور میں کانٹ تک
کے افکار میں نفوذ کر گیا۔ افلاطون ٤ آ گسٹا ئن ولی ؛ طامس 1کشوناس ٤۶
ڈیکارٹ ؛ سپینوڑا؛ لائب نٹي کے نظریات میں منذہب اورعقل .جس طرح
یمزوج ہوۓ بت وہ عارق مت کی قدیم رایت ے کیوٹکس جس شے کو
افلاطویت. کہا جاتا ہے اس کا تجزدں کیا جائۓۓ تو وہ اص فیٹا غورسیت ہی
ٹکلے کی ۔ یہ خیال کہ کوئی عالم حقیقی بھی ہے جسے صرف عقل پا سکتی ہے
اور جو حواس کی دسٹرس ہے بالاتر ے فیثا غورس ہی سے لیا گیا ہے ۔
فیٹا۔ غورس نہ ہوتا تو عیسائی جناب عَیسیٰ: کو ”کلعد “ نب کہتے اور مْلمین
نہ خدا ی ہستی کا کت تلاش کرے نم حیات بعد موت کے اثبات کی کوشش
میں سرگرداں ہوے۔/“ .
افلاطون کے پیش روؤں میں پارہی ٹائدییں ام تروع پر گا
ے ۔ اس کا وطن ایلیا کی ایک چھوٹی ہی ریاست تھی جو اطالیہ :کے مغربی نناحلی پر
واقع تھی ۔َ اسی نسیت ہے اس کے فلسفے کو الیاطی کا نام دیا گیا ے ۔ طالیس کے
۔بعد کے کے فلاسفہ کو یہ خیال سنلسل پریشان کرتا رہاءکه اس ۔عالم کثرت و ظواہر
کہ پس پردہ یقینً کوئی نستقل بالذات اصولِ کار قرما ے اس اساسی اصول کی ماہیت
پر اختلاق راۓ تھا - الیاطی فِلاسفہ نے اصول “واحد کو ”وجود کا نام دیأ ۔ پارٹی
. نائدیس ابتداء میں قیٹا غورس کا پیرو تھا ۔ اوآاخر عمر میں آُس نۓ اپنا مستقل فلسفہ
پیش کیا اور کہا کہ وجود ہی قطعی حقیقت ہے ۔ حواس کا عالم فریب نظر ے
حض ظواپٔر پر بشتمل تے ۔ وجود عدم سے پیدا ہو ہی نہیں سکتا اس لیے وتجود کے
ا سوا کچھ نہیں ہے ۔ وجود بحعض ے ۔ پارہی نائدیسس سب ہے پہلے عقل اور حس میں
یز کرتا نے اور کتپتا.ے کہ حواس کا عالم ظواہر کا عالم ے غیر حقیقی سے باطل
ے ۔ حقیقی وجود کو ہم صرف عقلی استدلال ہی سے جان سکتے ہیں ۔ ہارسے حواس
فریب نظر کا باعث ہوتے ہی ۔ صداقت صرف عقل میں ے منطفقی استدلال میں سے ۔ یھی
: : ۲۲۲۱
۱
۲ ا رو
رلد بعد میں تالیت کاخیال غالپْ گیا کہ أصداقت عتی استدلالِ میں سے حواس
میں نہیں لے مادیت پسنْدی کا.اصل.إصول لم'ے کہ حواس ک تمالم ہی حقیتی عالم
ے ۔ مثالیت کی رو کے حواس كأعالم صرف ظواہر کاعالم بے ۔ پارہی.ثائدی صکثرب,
- ماش اور ح رکٹ کے ساتھ زمان و مکان کے لا کو بھی حواس کا قریب ماٹتا یچ
اور کپتا ے :کہ جو ے وہ ٹووس ے,۔. اس ,لیے سٹیس کے خیال میں پازمی ٹائدیس
مادیت پسند ے بای ناشدیس کا اقولِ بے ”اک مادہ ے جو پھیا3 ہوا سے اور
و رر دک ول ےکوی تقو یت وو کان ٠
سے کیونکہ وہ کہتا ہے کن انا خذا ہے آفر یو خدا خالمر روح نہیب: ے بلک
زندہ نطرت کا دوسرا نام ے ۔ دوسرے یوٹائی قلاہفہ کی طرح وم فطرت (نیچر) کو
- ےا کہا ے کر اور سید کی سد ۔ جس پر فکر تہ کیا
جا سکے وہ موجود نہیں ہو سکتا إور جو موجود نہ ہو اس پر فکر نہیں .کیا جا سکتا ۔
دوسرے الفاظ ہیں فکز اور وجوذ وآحد الاہل ہیں ۔ حقیقتِ پامجر ے اور ذبن کی
مالک ہے ۔ اس لے بھی فکر اور وجود ایک پر ۔ حقیقت میں تفیں اکن ہے ۔ ۔ تر
کا أحساس ہمیں حواس سے ہوتا ہے اس لیے تٹھیں قریب آنکاہ ہے ۔ پارہی ٹائدیس
عقل استبلالق عم عقلہ رکون سے ار کہا ےکہ جو کچھ بھی ٹکر کم متّضاد
پُو وہ حقیقی نہیں ہُو سکتا ۔ . ت تک نے
ژینو الیاطئ. ہے آہارمی نائییۃ کی تائید ور بوڈ مان اس ٌَ سے
مت اخلاف آس کی کا ےت نتر
وقت میں دو جگہوں پر موجود نہیں ہؤ سکتا اس لیے وہ ایک خاص لمحے میں ایک
ھ ہی جگہ ہوکا ته کہ دو جکہوں میں : ِ اس لیے آڑانِ کے پز لغحے میں .نہیں ند کہیں
ساکن ہوگا۔ اس لیے شروع ہےآخرہ- تک مباکن ہوگا للہذا حرکت ناممکن: سے ۔ زیتو
یہ ثایت کرنا :چاہتا ے کہ کرت اور حرکت نہ صرف غر حقیقی ہیں بلکہ نائمکن
بھی ہیں کیونکہ إِنْ کے اندرون میں: :تضباد پایا جاتا ہے جح ارنطو ۓ زینو کو جدلیات
کا بای کہا کے جذبات میں سو ھک ری کی دی خود ]ُس' سے کرائی جاتی
ہے۔ ۔ یرک مشال سے زین سے آن تضادا کر طرف توجہ دللی سے جو زمان؟ تا سے
متعلق, پہارے ہن میں ہیں اور اس نتیچے پر پہنچا, کہ ح رکت.غیر حقیقی حقیقی ہے ۔ اس لے
مہ بچیسا کہ پارمی ٹائدیس نے کہا ہے ''صرف جو ہگ ہس ہیں وق کثرت نہیں
اور جو مام خرکت اور تیر سے میرا ہے ۔ بفِتاكحُزین میں کان ےوہ ثابت کرنےی
کوشش کی کے کہ ہہارئۓ زمان و مکاِن کے تعبوزأتِ تِ میں تادات غنی ہیں للہذا مان و
مکّان حقیقی نہیں ہیں حض ظواہر, ہیں اور زمانِںق مان کا حقیقت نفس الامري سے :کوئی.
واسطہ نہیں ے ۔ ہبارے ڈذہن ۓ اپنی محدود رسائی کت کا تصور
کھڑا کر دیا ے ۔ ہیگل ۓ بھی زینو کی جدلیات ے۔ کام لیا اج
.
لیاطی فلسفہ پہلی احدیت' ہے یعنی اس نے کائنات کی 7 تشرج ایک ہی اہل اصول
سے کر نے کی کوشش کی چے ۔ قد میں مہیٹوڑا أور ان عری کے انکار میں یھی احدیت
موداز ہو تھی ج آنعدیت اصول وی کے أَعارز کی نی کرتی 2 احدیت سس
() چ۲ کے خی یَْ تصور۔ )" می بقاِ ۴ قرفاغار کے مٹکو ہیٔغ
چجی ند رہ 1 کی و
لپ ہے
عل لی ہے ۰
ہہ ٦ ٌ سے3
ارات و کی۔اولیات درج ذیلٴ ہس 6 رر
0 وہ مآبعد الطبیقیّات اور جدلیاتِ شے 'بای ہیں ہیں ۔ انمائی فطرت سے دو پہلو بی
۰ ایک ]نے توف ی طَك لے جات سے اور دوسرا شائئٍں کی طرف :ان کے
2.0 8 تماة یا کشمکش ہے فگر و تڈیر کو پر کے کار لا کر کائنات کی ایک کل
: کی سورت میں ۔تصور کیا کیا سے اور اے جک ے۔
ےہ نے گا
2
)66 انہوں حس اور غقل۔ - غں مم حیق 7 صرق خی جق ۔ ۔,ظابت اور
٭۔ہ' باطع فیئ:تغریق کرک نثالیت پسندی کا اصل اٹول فا کیا 2“ '-”
_ رز ضصال
> رم پارمی نَائديق متلق "ا جدلیات کو تابعد الطبیعیات یلا متا تھا
ث :بعد کے نعالیٔت پتندوں اور عقلیٹ پُرتوں بۓ یہی روش اغتیاز ی2 وہ
606 “ارسطو نے زیت کئ.جدلیات بی کز دم کر کے یں رط سی
کی بنیاد رکھی تھی ۔ ١ ہت ہے ٹاظ رد 6 پ72
. () :الیاطیُْون کا ”ایک٠ کا تصوز افلاطون کے ٴخْبل مطلق؟ روایئن' 'عقل آفاق؛
.اور نواشراقیوں کے !احد؛ کی.جُورث میں تُُودار ہوتا بے ا
(ہ) 'یام۔اشیاء کے اصاا ایک ہوۓ کا۔انکشاف کر کے پارہی نائّدیشَ نے مذہب ق
۰ - تصوف کو ؤحدت وجود اور فلسغے کو احدیت کے تصوراتِ د ےچ یہ نظریۃٗ
پوت ۔ سی ہے یادگار- ہے کہ کائنات ! ایک ق ے او رکثرت نکاہ کا قریب سے
بش (ے): زان حر حقیقی سے ۔ '۔ تغیں و خزکت کے ار ہے ازمآنخقیقی نہیں رہ ہکتا۔
۲ ات ا کیل کی ور ہر کہیں۔خقیقت حقیق خقیقت واند, پَیٰ کا جا
بس ے ناقئ ۴ :حال'-اوڑا شتقبل- کی اتفریق قریب- نر ہق ینا تصور بعد
وا ا “ ہیگل اور ؤجوڈیوں ۓازیادہ شرح وٍبشط ہے بش "کیا تھا ۔ ا
ن)(م) مکالے:کا اتلوب ازیتوکي ٭اجاد يے يف میں افلاطون ادن اۓے ایا نکیا تھا<
ا افلاطوت۔کا آستادمقراظ وہئرء ق۔۔ م میں۔ایتھنڑ میں پیدا ہوا :]سا ا ھا __
۶ وا:لیکن ڈول توااے چہرتے- کے نقؤش 'تاترائنیدہ نھدے تھے سک بی ہرن ٠
گردن کت نین ٹھسیٰ:ہوئی؟ ننگے پاؤں ہوٹا' جنھوٹا پهتے ایتنز کی ”کوچ وٴبازار
ڈچکر الکایإءکرتا :ا اس کا پیثہ شنگ تزاشی۔ ٹھا لیکن ؟منۓ؛ کبھی کچھ کر
ھی فک بعائق آزاد غلائر بکئ آدمٰی تھا:۔ تچوں يّ پرؤرش' :ار دکفالت 'میں
ہہ ہہ کے
ما
٠
مت 7 ای ض٤إ '_ ےش ا اک ہی نو گے و تعاو9 یا ک2 لے
َ مت ٤ 2 رو ھر تا
'(ر) صمنصلڑ ۔ ے ا ا مث ےگ قبادے یا رت5 ےل وف ین
لگ
کوتاہی کے باعث اس ک بیویٰ پر وقت آسے چلی کئی سنایا کرتی ۔ ایم روایت یە
ہے کہ: ]من نے شہر بھر کی سب ہے تندخو اور زبان دراڑ عورت تلاش کرکے اُس
سۓ نکاح کیا 'تھا جیں ہے ا کا مقصلايہ تھا کہ آُس کے طعتے سہنے سن سن کر اپنے
عہرو حوصلب کو تقویت ڈیتا رۓُ۔ٔ آغاز شاب میں ورڑش کا شوقینِ تھا ۔ وہ
غیر معمولں جسانیٰ قوت کا مالک تھا آوں.آہنی. اعصاب رکھتا تھا ۔ اس یی شجاعت
نلم تھی۔ ایک دقع میدُان جنگ میں اس نے نہایت پامہدی اور جفاکشی ا ؛ ثبوت
دیا تھا ار آپنی جان جو کھم میں ڈال کر اپنۓ دوسبت ات قیْ بائڈیس کی جان بچائی تھی ۔
وہ شراب خوزٴی :کا عادی نہیں ٹھا: لیکن جب اباب ک مجالسٗ میں پیالہ تھا لیتا تو
بڑۓ بڑے پیتے والے آس کی بلا نوَشَیَ کے قائل ہو جآ تھے ۔ اس کے باوجود کبھی
کسی شتخص نے آ سے ہہکتے ہوۓ ہی ٦ دیکھا اپنے آپْ ب کے پورا قابو تھا - وہ ہر
وقت غور و فکز ہُیں کھویا رہتا اور سوچتا رہىّا کہ صداقت کیا نۓے ؟ خی کیا ے؟
غدل کسے کہتے ہیں ؟ وہ صبح سویرے ایتھٹڑ سۓ معبدکی دیوار کے ساۓ میں یا
لی ےا سی کے ہے کر ہار کسی ہے باتیں کرتا ہوا د کھاٹی دیتا تھا
کوئی ة نحص اس سے کونا:"بال پوچھبیٹھتا تو سٹزاط بحث کا “عنوأن پیدا
بر یتا اور پھر تا بڑ توڑ سوالوں 2ے سے غاب کے قکری مغالطوں اؤر الجھنوںِ کا پردہ
چاکك کر دیتا تھا ۔ وہ آسے یہ اخسائ دلاۓے کی کوشش ش کرتا کہ آُس کے خیالات میں
ڑولینگی پائی جاتی ہے۔ ۔ اوآخر عمر میں آُس نے ایتھٹیز کے نوجوانوں کی تعلم و تریٹ
کاکام اپنےٗ ذیے لے لیا تھا مگر اُس نے باقاعنق سے کبھی درس تہیں دیا ۔ وہ باتؤں
باٹوں میں انہیں اہم سیاسی*َ “ عمرانی یا . اخلاق_مپپائل ی طرف توجہ دلاتا رتا تھا ۔
آئے-یہ معلوم کرکے سخت حیرت ہُوق تھی ك مُت ہی: کم اشخاص اپنی زندی کے
مقصد ٴ معاشرے کے عقدوں' یا اخلاقی قڈروں سے بتعلق سوچ بچار کرتے ہیں ۔ وہ
ایت متکلر المزاج تھا اور اکر کہا کرتاکھا ”تھے تو صرف اتتا معلوم سے کہ
جھے'کچھ بھی معلوم نہیں ہے ؛ وه احتماپ ثقس اور شعوِذاتِکو روری سمجھتا
”جو شخص .ابی زندگ کا جازز کی یتا او اپنے ثفمن کا اختساب ٠ نہُئ۔-کررتا
وہ زندہ رہن کے لایق نہیں ۔)'
د٭ “ ایتھنیز لے نوجوان سقراط کے شیّدائی تھے اور۔]آس سے کسپ قیق ٌ لیے ِس کے
خاتھ ساتھ رہتے” تھے ۔ - اہّٴسں آساءَ اور روساء کے بیۓ بھی شادلِ تھے جن میں
افلاطون“ التی بائدیس اور ارسٹائی پسٍ ناہور ہوۓ۔ یونان قدیم میں ابرھر آپرستی نے
باقاعدہ ایکٴعّاشریق ادآرۓے تی شورتِ اختیار کر لی تھی اور لوگ کھلم کھا
انوخیژوق: سے اظہار عشق کرتے ة7 تھے ے مکالات افلاطوت ہے اس بات ٍى اوت متا ے
دید قراط بھی بعض نوجوانوت کی عبت کا دم بھرٹا: تھا اوڑ وہ اُس 7 اق چھڈکتے
نے ایک تعأَلمےْ ور جیاض می سقراظ کنا ے
٠۲ اتون ! تھے الٹی بائدیس سے باتا نس مبری محبت نۓ اسے یر وأئت کر دیا
تار ١ں
تھا ۔ تی کاقول سن ہے ہم ہیا ہے کے 8د
>
۴۱
77
ْ ۔
:7 ہے بس مدان اس لے جھے کسی دریرے حی ہی ات
کر کاٴحق نہیں ہا حیل کہ میں کسی کی طرف ایک نکاہ دیک؟ دیّھوت تو بھی_
وہ حسد ہے جل هن کر کباب ہو جاتا ے اوراہ صرف زان سے برا بھلاے
سے کہ وہ تُجھے اذا پہنچاۓ گا۔ اگرجھے نارنے کی کوشش_کرے تو جھے
اس کے ہاتھ سے چھڑا لینا یں آُس. کے جوش جنوں ہے سخت خائف ہوں ۔“
٭ القی بائدیبن ۓ کہا ''تمہارے اور میرے درمیان کبھی صلح نہیں ہوگی لیکن,
اس وقتِ میں مہیں زا نہیں دوں گا -۔۔۔ سقراط نے میرے ساتھ ہی نہیں
گلاتکون کے بی شازدپس ۔ دا کایڑ کہ بیٹۓ یوتھی ریس اور کئی دوسروں
کے ساتھ ہدسلوی ی سے ۔ ۔ ممروع شروع میں یہ شخص عبت کا دم بھرتا ہے
5 ' بعد میںخود مخبوپ بن بیٹھتا ے ح؟؟ ہے ۳ ٠
* افلاطوت اؤر زینوفون دوٹوں کی رايت ے یں با ثابت ہو جایق ہے کی سقراط
کے امن نوع کے معاشقے ہوا و ہوم سے پاکب تھے ۔ .۔ایتھنیز کے ارباب اختیار کو:سقراطِ
کا نوجوانوںے ربط ضبإ ایک آنکھ نہیں بھاتا”تھا اور عام طور ے اس پر یہ الزام۔
لگایا جاتا تھا کہ وہ نوجوانوں کے اغلاق آخرابٰ کر رہا ے ۔ مزید براں سقراط
بٹ پرستی کا خالف تھا اور ۔روایتیئ رسوّم غبإدت ادا کرئے سے گریز کرتا تھا ۔ وھ
ایک خدا ,کو مانتا تھا۔ اس بنا پر لوگ ؟تے نفرت کی ٹگاہ ہے دیکھتے تھے ۔ سقراط کا
دموعا یع تھا کہ ایک خفیع بای آدا اس کے کاموں رسہ من ککری ہے اور ودایت
دی لے ۔ یاد رے "کن اس دوز کے حکام آسراء اور روساء کو ناپسنْد کرتے تھے
بمقراط کی صنحبت مین آمااء کا بیٹے بیٹھتے ' تھے جس سے ام وت کو علقم لاق
رہتا۔ تھا کہ یہ لوگ مل بیٹۓے کر عوامی حکومت کے خلاف سازشیں کیا کربے ہیں ۔
نھی:وجوہ کی بِنا پر سقزاط پر مقدمہ قائم کیا گیا ۔ مقدبے کے دوران ستراط ے ممام ىہ
الزامات کیٗ مدلل اور پَر زور تردید کی لکن متصف: صاحبان آسے اپنے راستے ہے ہٹاۓ
کا تید کر چکے تھے ۔ جب.۔سقراط کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ سے موت کی ہزا
دی جاڈگی توٴآُس ۓ آنہیں خاطب کرکے ”کہا
''میں تمہیں صاف صاف بتا دوں کہ اگر تم میرے جیسے شخص کو جان ہے
ے “ انار دو گا تو تم اتئے اتا شور تهیں پپنچا سکو گے جتلا کم اپنے آپِ کو
ے ٭ پہنچاؤ ۓ٤۔؛ . '
٦ _.:شقزاط اب آپ کوٗپڈ کھی' کہا کرٹ تھا۔ وہ کہتا تھا کہ پر معاشرے ہیں
یکك بژٴمکهيٗ کا ہُوْنا ضروری ے جو لوگوں' کو کاٹ کاٹ ٹ کر انہیں غور و فکر ,پر
جہور کرق رہ۔ اور نہ اپنٔی خامیوں اور کوتاہیوں کا احساس دلاقی رے ۔ اس
ے اپنے دث نوں ے کہا تمہ کسی شخمیٰ کو اختلاف رائے یا تقد کرت کے جرم
١ ۰ 3 ۳ ے
ہت
سَ سے ےد
۔0د۵٥۰۰ (١)
7"
جو
۳۲۔
' کہتا ے بلکہ مھ پر پاتھ چلاۓ ہے بی :باڑ نہیں آتا۔ اس وقت مجھے اندیشم سے
-ْ
خر و
2 گی 47ہ < ۔-۔- 7 جج ہم 7
کے ل2 ہے لب مر
سججتے ہل - می نما چجہہں سڈ ٤ وم رے متاسخ سیر ز ج سم ہچ
سلڑھا سے چا ابی طرش ہے اورودیہ ےکم تل بد وت مود ائی امادکریں
اس کے الفاظ تا ہے ہے 3 ,,! ٭ ےر ے 3 لے ۵ وہ ںہ ےج
۰
ت
سید ایل ازم سجھتہ بک دوبرد کو قل بکرم لد اس ات کے ار
سسعوہ
سکوگے کہ وہ مہیں جمہاری برائی پر ملامترکریں تو یہ تمہاریٰ بھول ے ۔
ہے فراز کا یہ راستں عزت کا راعتہ نہیں بے نہ ایسا کرنا ممکن ہے ۔نسب نے آسان
۰ , اور ضہل طریقد یں ے۔ کہ دوسروں پر۔ جبرڈ ۃ تشدہ کرۓےک بجائۓ تم لوگ
خود اپنے۔آپ کی اضلاح کرو ۔“ '
لیکن , منصف صاحبان - ار راہ سمجھتے تھے چنانپہ ہے ہوت کی۔سزا سنا گئی ۔
آسْ زماۓ میں ایقھنیز میں یہ-دستور تھا .کہ چرم کے:عزیز داروۓہٴ زنداں کو کچھ
دے ذلا کر جرم کو ملک ہے باہر بھگا لے ۔جاے تھے ۔ سقراط کے شاگردوں نے
۔بھی اس کی کوشش کی لیکن سقراط تےبتھاگ جاۓے ,سے صاف ائکار کر دیا اؤر کا
میں شتّر برس کا بڈھا ہوں موت جھے خوف زدہِ نهیں کر سکتی اور ٠وت کوئی ایسی _
سی اہی بھاگنے کی کوشش کی جاۓ قراط حیات بعد بوت کا
3 ٭نقائل تھا ۔ آے۔ اس بات کا یقین تھا کی مرنے کے بعد اس ک روح ایے عالم میں
جاڈی جہاں آ٘س کے لے ازل مسرت کا سامانِ موجود ے ۔ موت کا دن آیا تو سب
سے پہلے سقراط نۓ بیوی بچوں کو رخصت کیا کم ان ي گریە زاري اس کے آخری
لمحات کو تلیخ ئس کر دے۔۔ پھر داروتی بے زہر کا۔پیالد لاۓ کو کہا ۔ سقراط کے
شیاگرد غم و الم سے نڈھال اس کے گرد سرنگوں بیٹھۓ دیۓ,۔ سقراط نے داروہ ہے
_پوچھا ”'دوت کو سہل. کیسے پنایا جا ٹکتا ہے ۶٠س لے جواب دیا آپ زہرِی کر
ٹھلنا شروع کمر دیں ۔ جب ٹانگیں نل ہو جائیں ۔تو الیٹ 'جائیے ۔۔ زہر کا اثر ٹاِگوں
ہے دل و چگر میں, ]تر جايے کا 'اور موتِ واقع ہو جا ۓ کی ۔ چنانچہ سقراط نے نہایت
سے
اطمینان سے زہر کا_ پیالہ ہونٹوںی :سے .لگایا اور غٹاغف بی گیا ۔ ایں۔ پر آمن: کے
شاگردہے اختیار رفبة لے چاوںن لیف سئه یی کھٹی سپیکیول کی۔آوازیں آےۓے
کسی سقراط ہۓ ادھر"آدھز ٹہلنا _شرو نک ر زدیا ا ججیں۔ ٹانگیں نے کار ہوا گئیں: تو وہ
لیٹ رگیا او یکنا بج ای خیبط اور لحوصلے سے کام لو؛ مین ان عورتوں اور بچون کو
- لیۓ۔ ہا .دیاء تھا یک۔ وہ٭:ڑوئا پیٹنانشزوع کرددیی لنگ ۔ آخر آسورۓ جنلوس کیا کہ
زہرارگک :و ہے میں آق ا گیا۔ ہے آسرۓ تھایت کون سد کر یٹ و : تے :کہا 'اسبکلپیس
سے میں ے ایک.. مرا آدھار۔لیا':تھا غدیہ قرض چکا ”دییا :اور دیکھ و پبھولنامیت“ یہس
کے آخری ال الفاظ ظ تھے ۔ اس کے ساتھ ہی مہوت راحت یىی یند بن کر اُس ٤ ى ' پلکوں۔ پر
داتر یت رٹ '” رلٹہ ہہ نشم ا ست۸ہ“۔' یہ میں یہ ا
قراط ک داز نٹار-عحل و - ےج .اس نے کڑئی: تل ا فل غہ پیش
ند کیا :بلک لوگوۓ. کنو'نیی اور'صداقت کی متلتین کی اہن صخیح نکر کی دع
دی تا کہ وہ صحیح عمل کر سکیں ۔ وہ مابعد الطبیعاتی خیال آرائیوں کوے محر
٣
سمجھتا تھا ۔ اس نے کائنات کی کنہ پر بحث کزۓ کی بجاۓ انسان کو عقل و غرد
تی رہنائی میں صتحیح ظزیقے ہے زندگی گزارۓ کی ترغیمبن .دی ۔ سقراط :کا فلسفہ تنقیدی
ے کو اس میں.اصولِ علم کی تحقیقی کی گی عقلیاق ےٴ کہ اس میں جنستجوۓ حق
کےٴلیے عقلی استدلال سے کام لیا گیا ہے۔ مثالیاتی ے کہ حقیقت .کی توضیح می ذبن
”انسانی کو۔ستب ہے بڑا عائل۔مانا ےے وی چا کہ اہں میں عقل کے مقابلے میں
آمادے کو فزوٰتر مقام :دیا گیا سے ۔ ےم لہ 7ر ے 8-0
سے ۔سقراط کی ذات سے قلسفے کی ٹین تمبریکیں:شزوع لاوئیں۔ جو بعشں مسابل میں ایک
۔دؤسزی کی متضاذ۔ہیں َ کاہیت؛ لتیت اوز مثالیت - ائ۔ کا ایک شاگردِ ائطی تھینس
کلبیت کا بانی ے وہ سقراط کی قلندر مشر بی سے متاثر ہوا ۔کلبی استغنإ .کو دائش وخرد
٥ کی علامث سمجھتے تھے۔اور نیوی مال 3 فتاع ۔کو عقارٹ کی :گاہ سے دیکھتے تھے۔
انطی :تھینس کا شاگزد دیو جانیں کلبی اپٹے پاش ہوائۓ پانی<پیتے۔کے پیالے کے کچھ
تہیں رکھتا۔تھا۔ ایک دن اس نے ایک دِبہاقی لڑکے کو :اوک ہے پانی۔پیتے دیکھا۔تو
اپنا پیااہ بھی پھیٹک دیا۔۔ انطی .تھیٹیں۔ کا قوْل ہے' ئیں:اماوک کو اس لین تاپہند
_کرتا ہیوؤں :کید ایں کا بحلوک ئہ۔ بن جاؤں؟۔ وہ _ہمیشہ۔پھٹے پراے کپڑے. پٹتا. تھا۔
۔آیک دن اسی پیشتکذائی یں سقراطکے, پاض. گیا۔ قراط نے تسکزا رکز یپا
ممارے لباس کی دھجیوں میں سے۔جھۓ صاف:ظور پّز تمہاری عود بجھائی ی٠ جھلک
ردکھائی دیٹی ہے رواقفین:انہیناکلبیؤں کے جانشین:تھے۔ _-' ا ابو ما
َ مقراط ے ایک شاگرد اّسطائ:پس نے لذتینت کے مکعب فکر کی بنیاد رکھی جنے
بد میں اپیکورس ۓ:اپناٴلیا- وہ ان لوگوں: ۓ ۔نفرتِ :کرتاتھا جؤ جصول- زر وتال
۔کو:زندگ کا مقصد واحد قرار دیتے ہیں :ایک ”دن ایک :ائیر' سمیس۔ ۓ. اہے اپنا حل
:ےڈ کتھانۓ کے۔ لیر مدع کیا۔ سنگ میس کے نیل:یں پھرے پُھنراتے معأ ارسطائی>پنس
ے سمیس کے یثبْ پر تھوک دیا۔ سمیس نے شکایت کی تو کہا ””سنگا مہ کے حلن
ءمیں مہارۓ چہرے ہے زیادہ.!ورکوئٹی موزوں جگہ دکھائی نہیں دی جہان میں۔تھوک ً
۔سکتا؟ ایک دن.ایک ردوست نے اریطائی پس کو ملاہنتکرتۓے ہوۓ کہا ”مم نۓے
اپنے گھر میں کسبی کیوں ڈال۔ رکھی ۓے _ارسطائی۔پس ے ۔جواب: وتا : ”لور ایے
کان میں رہائش رکھۓے یا ایسے جہازمیں سفر کرۓ میں. کیا ننگ وٴعار حسومن ہو
سکنا ۓے جس میں اور لوگ بھی رہ چکے ہیں: یا سفر کر چکے ہیں ۔ا؛ آیک دن وی
کسبی ارسطائی :ہیں سے کہنے لگی میں تممہارے. بچے کی بنا ا:یننی' وا ی ہوں ۔ جواب دیا
,یں بتا سکنا کہ چو میرے ہی بے کی ماں بنئے۔وال یل .ے انا نی میشکمل ہے۔:جتنا کید :
کم رک ا ا ا ا کا پز:خزاش
آلے ان یپ رر امہ ون محر ہی ا ا کت
اہلِ نظر کا اس بارے میں اختلاف رہا سے کہ مثالیت پسندی کا بای مقراظ کو
سمجھا جا ےیا انلاطونِ "کو سقراط ے ابنیي _ِکوئی تصنیف نہیں چھوڑی. ا ےھر
افلاطون یا زینوفون کے یہاں ملتے ہیں ۔ بعیض اب راۓے کہتے ہیں کہ افلاطون نۓ
۰
سد ےا 7 لد ا . َ۔ سے
: ٍ کت
پ-
اپنے استا۔ کے خیالات کو اپنے مکالموں میں جوں کا توں قلم بند کیا 2 دو۔روں
کاغیال ے کہ افلایطونَ خود جودتا فکر کی دولت سے الا مال تھا۔ اس کے سقراط سے
ے شک استفادہٰ کیا لیکن اس کا نظام فلسقہ: خود اس- کا اپتا رب کیا ہوا ے۔
۔بہرجال مکالات میں سقراط کے“ جو نظریات دکھائی دبۃ سر ہیں وم بڈاٹ خود بے اہم ہیں 2
ٌّ جس زبانۓ میق مقراط نے ہوش سنبھالإ 'ایٹھئز میں سوفسطائیوں: (لغوی معنیٍٰ
(عاقل و ذآنم. کے نظریات کی اشاعت ہو رہی تھی ن یاددرلےے کہ انس دور سے پہلے کے
یونانی فلاسفہ کا نقطہ* نظر عاإلمی وافاقو تھا ۔ طالیس؟ پہریقلیتس؛ دیما قریاس؟ بارمی'
نائْدیسَ ۶ آن ا کساغوزس وغیرہ 2 نہ خفنات کی گند" کو سمجھنے کی "کوتی ی کی
مادیّت ند کےٴضؿ میں دیکھ چکے ہیں کہ قلسف''یو یونان جوہر کائنات کے تیسی '
ے شروع ہوا تھا۔ ۔ ابتداع میں سب ہے اہم یۃ سوال درتیش تھا کہ ”یر کیا ے ؟۶ .
اور اس کہ ساتھ تی سوال یہ“تھا کہ ''انسان کیا ے ؟“ س۔وقسطائیوں ۓ کہا کہ
کائنات کو سمجھۓ کی انسانی کوشش ے کر اور اکن خیز ہے فلسفے کا اصل
تصب یه ے کہ انسان کو سمجھۓ کی کوشش کی جائے۔ چتائید انہوں نے اس
شوال کو" اہمیت دی کە ”انان کیا ے؟ “ اور یہ سوال ضمنی اور ثانوی“حیثیتٴ
پر ھی تہ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان کو ٹیچر ہک حوالےَ
سے سمجھتۓ کی کی بجاۓ نیچر کو انسا کے خزالی سے سمجھا جاۓ ۔ چٹانیہں جي۔
سوفسطائیوں نے ان تہان کو فل۔ئیانہ تفکر و جس کا سکز وہچور نایا تو کائنات کی
نے 2 ین انساتی اور علِِ انسانی اہلِ فک رکا اصل موضوع قرار پاپا اور ایسے۔علوم ک
آرقیب و تدوین عمل میں آ جن ۶ تعلق خالصیاً ٍانسان سے تھا ۔ سوفسطائیوں نے
کونیات اور الئہیات۔ کی بجاۓ منطق تی ق؟ سیاسیات؟ بلاغت ۶ خطابت ؛ طبیعیات؟ لغات اور
شاجری کی تذریس شروع ی۔ --- طرح نئے نقطہٴ نظر کے مطابق معروض کے بجاۓ
موضوع ,کو ژیادہ ہ اہمیت حاصل ہو گی پروتا تھورس سوفسطائی کا قول ہے۔ ”انان
ہی ہں شے کا بتانی ہے ۔ٗ ؛ یعّی جو میرے ٹزدیک صداتتِ ے وہی اصل صداقت ے
سے ہب نیقی سمجھتا ہوں وہی اصل ٹب ہے۔ اسی مرحلے پر دنیاۓ فلسفہ میں
دوضوعیت اور قردیّ تے بار پایا۔ غؤرجیاس سوفسطا کہتا تھا, کہ معروضی علم کا
کوئی وجود تھیں ہے ئە اخلاق میں کوئی معروضی یا قطعی معیار ہو سکتا ے
تھریسی میکس سوقسطائی نے کہا 'عدل و انصاف نام سے حکمران طبقے کے مقاد کی
نگہداشت ک ۔'' وہ کہتا تھا کہ چند طاقت ور وو بے زورون 'اوڑ غریبوں کو
دہّاۓ کے لیے قواثی بٹارکھے ہیی آوو مکار سیاست دان عوام کو مذہب کے نام پر
:دعوكتاٴ دے کر انہیں اپنا مطیع رکھنا“چّاہئے ہیں ۔ پروتار غورس نے علم کے مآخذ پر
حٹ کرتے ہوئۓےۓ لاک کی پیٹ قیاسی کی اور کہا کہ حسیات ہی حصول علم.کا واحد
وسیلہ ہیں اؤر کسی ماورائی حقیقت کا کوئی وجود نہیں ے۔ اس طرح علم کے ہر
'شعے میں ھُکک کا دو ردورہ ہوگیا اور صداتت ۲ خیر اور حسن کوعحض إضاق قرار
دے دیا گیا ۔ سقراظ کا نقطہ* : نظر اور طرز الال سوفطائیون ہی ہے ماخوذ تھا
ہ نے
٢
کمیواہ اُس سے بھی انھی کی طرح انسان بي کو موضوع فکر نایا ٹھا: ۔ 33ا و چّائی کے
بقول اس دلیلِ کا بائی جّے ”سة سقراطی؟“ کہا جاتا ے ف الّامتل پروتائُورس سوقسظائی
تَا جس ے قوامّد ور لائیات کْ بزاد رکھی۔ ۔ بہرصورت سقراط سوفسطائیول 1
موضوعیت و علم وراخلاق میں ان کے ٹشکک کا خالف تھا ۔ اس نے عقلی استدلال َ
اور اخلاق قدروں کے مقام کو بحال کرت ےکا کام ٴ شرع کیا پر دای فاظرت اہر
ارسظو نے پاییہٴ تُکمیل تک پچنچا دیا۔ وک : ۲
یچ سب سے پھلےبٌقراط نے یہ دغویل کیا کہ کسی تھے ہے کی “کنہ کو سنمجھنے کے
کہ لیے ضرؤری ے ک٣ اس کی ایسی خصوصیات کو پیش نظر رکا جائۓ جن کے
ذگر ہے وہ شے صاف صاف سامنے آجااۓ۔ دوسرے الفاظٴ میں اس کی صحیح تعریف
کی جاسکے سنقراط کے خیآل میں یہ کام صرف عقل ہی کر سکتی ہےے۔ اس تعریف
کو ا رط اوہ ہ٤٢ کا نام دیا ۔ یں نظریہ بڑا انقلاب پرور ثابت ہوا۔ افلاطونِ ےْ
اسی پر اپنے نظام فلسفہ ک بئیاد رکھی تھی بد میں یہ مام مثالیت پسندی کا اصل.
اصول بن گیا ۔ اسٴنظرے سے سوقسطائیوں کے اس اِدعا کی تردید مقصود تھی کہ علم
حض حسی ادراک-کا دوسرا نام ہے ۔ اس طرح ستراط ۓ اپئے خیال کے مطابق
سوفبطائیون کی موضوعیت کا ' باب کرکے عقلی استدلال پر انساث کا عقیدہ دوبارہ بحال
کر دیا۔ ہچ ×ے
ُلاقیات میں سقرا٘ط ۓ صداقت ؟ خیر رفظ اہ ای ارک آذکر
کیا اور کہا کۃ یں قدریں انسانی ڈہن یا موضوع ہے علیحدہ ستقل بالذات حیثیثمیں
موجود ہیں ۔اُس ۓے خیرِ غض کی جستجو میں اخلاقیات ت کو فلسفے کی باقاعلہ ایک صََف
بٹا دیا <سقراط نۓعلم'اور بخیر کو لازم ملژّوم قرار دیتےہوۓ کہا کہ چو شخضص
علم رکھتا ے وہٴشر کا ارتکاب کر ہی نھیں سکتا ۔ اس پر بعد میں ارسطو نے یہ کہد
کر تنقید یئ “تھی کہ منقراطٴۓ فطرتِ انسائی کے جڈیات و ہیجائات کو“نظر انذاز کر
ڈیا ے جن سے السا ال اثر ڈیر ہو ہیں ۔تمزید برآں سقراظ قے' کیہ کائناتً
ے مقصد میں ےج چّسا ”کہ یادیت پسند کہ ہیں۔ کائنات میں. مقصد رو یٹ کے
اور اس ہیں 'ذواہی اخلاقِ قدزیں موجوڈ ہیں جن کے طفیل انسان خیز اور جسن ک
نشی ھپ وس کرتا ہے ۔ افلاطون نے کائنانتع کے بانقصد ہوۓ کے اس تصور کو بعد
میں پڑیٰ کت دی ے اکا تہ
حکبراق کی باقاعنم قربیت دی کے سوفسطائی کہ تھے کم غبل ام سے
طاقت روک کے ماد خصوصی ہے تحفظ کا - تنقراط رۓ کنا عدل سی خاص طبقے یک
حدود نہیں ے بلکہ اس میں تام لبقات معاشرہ براپر جے شبردگی ہیں۔ اس ہے ایک قہمْ
کے اتا لی معاشڑآے کا تصور پیش ڈیا جس میں ور فزد ای قدرق صلاجپتوںِ یَ
سب سس رجا
"و و "ما اور تکیل کے لے زندق گزارتا ہے اس کا قول ہے : -
”اثتات ے لیے ضروریٰ ٭ سے ہک وہ کت در زندی گزازرے اور ذاق
لن
2
۳٣٣
ّ
رن مفاد پر جاعت کے مفاد کومقث رکھے۔“ کا و
سقراط اپنے زماِۓ کے دائش فروش خطیبوں کا ذکر حقارت سے کرت تھا:
5 یہ لوگ یل کہ بدقدو کی طارج ہی ہیں اک دلدہ ٹوک دٰے دی جاۓ
تودیٔر تک بجتے رہ ہیں ۔'' ×
. عیضا کت ذکر ہوچکا ے مقراط حیات بعد ممات کا بھی قائل تھا اور کہا کر: تا
تھا کہ ہوت کے بعد دانش وروں کو ایک ایسے مثالی عالم میں جگ ملے گی چہاں وہ
تعمی و تفکر ی زندی گزاریں۔ گے ۔ عظم شعراء کے متعلق وہ کہتا تھا کہ وہ ہر
وری سے نظم نہیں لکھتے بلکہ اس وقت لکھتے ہیں جب ان پر ا خود رفتگی کی کیفیت
طاری ہو جا ہے۔
افلاطوت : ے مع ق ۔ ات اع کر اکا جعطئت پیدا چوا ای
کا اصّل نام ارسطو کلیس تھا ۔ اواڈل شباب میں دوشرے نوجوائوں کی طرح* ورزشی
کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا ۔ نہایت شہ زور جوان تھا ۔ کشتی لڑۓ ہیں
شبہھرت حاصلِ کی اور کئی میدان مارے ۔ اس کے رکیدھے کشادہ اور توانا تھے اس
لیے لوگ اسے پلاٹو کہنے لگے۔ بعد میں.اسیٌ نام ہے مشہور ہوا۔ علوم موجہ ی
تحضیل گھر میں کی تھی ۔ شعر گوئی کا شوق بھی رکھتا تھا ۔ عین شباب کے عالم میں
چپ اس کے سام عیش و عشرت کی تمام راہیں کھلی ہوئیں تھیں سقراط کی شخصیت
ار۔اس کی تعلیمات سے ایسا مسحور ہوا کہ ام مشاغل ترک کر دے۔ عشقیہ تظموں
کے مسمودات پھاڑ کر پھینک دے اور اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگیا ۔۔اس کے
مد اس ی ساری ژندق فلمقے کے لے وقف ہوکئی ایک جگة کہتا ہے ۔
”خدا کا شکر ے کہ ا ۓ جھے مرد بنایا عورت نہیں بنایا اور جھے سقراط
۔ کے عہد میں پیدا _کیا؛؛ 25
افلاطون دس پرس استاد سے فیض یاب ہوا۔ اوز سقراط کی المناک موت سے ایسا
متاثر ہوا کہ گھر بار چھوڑ چھاڑ کر دوسرے ملکوں کی سیاحت پر رون ہو گیا ۔
اس وقت اس کی عمر اٹھائیس بر ہوگ ۔ بارہ برس تک مصر ٴ صقلیہ اور اطالیہ کی
سیاحت کی ۔ مقليہ میں فیثا غورسیوں ہے صحبتیں رہیں جن کی پاطنیت ہے وہ بڑا مشائر
ہوا۔ ےہےع ق ۔ م میں ایتھٹز لوٹ آیا۔اور ایک باغ میں اپنی شہرۂ آفاق اکیٹمی
قائم کی ۔ باق ماندہ عمر یہیں دریں تدریس میں گزار دی ۔ اس کے مکتب میں زیادہ
تر ریاضی اور نظری فلسفے کی تعلمم دی جای تھی ۔ افلاطون ریاضی کز اس قدر اہم
سمجھتا تھا کہ اپنی درس گاہ کے سامتے کے دروازے پر یہ الفاظ کندہ کرواۓ:
۱ ”جو شخص ہندسہ نہیں جانتا اندر نب آۓ)“ 1 نی سے
افلاطون ے عمر بھر شادی نہیں کی ۔ فلسفہ ہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن گیا ۔
فلنے کی غوٰاصی اس کے ذَوق شعر و اد ب کو تہ دیا سی ے چنانچ, اس کے مکالات کا
۔شمار لطف پیان کے لحاظ سے ادبیات عالم میں ہڑتا ے ۔ .ۓکالإت افلاطون میں جمہورید
قوائین_۔ ضیافت ۔ غورجیاسں ۔ اپالوجی ۔_ فیدو ۔ سفسطہد طیاؤس ۔ فیدرس اور
.: ٣ك
کراٹولیس نبایت نلند پایہ ہیں ۔ آن میں مقیل کا انداز نگارشن پآیا- جاٹا“'ے اور
کرداروں کی ره تصویریں چم تضور ۶ے ٢۲ جھلملاے لگتی ہیں ۔ .اقلایلون ۓ ۱
مثا ی ملکت کا تو ز پیش كیا تو مَقلِیہ کے بادشاۃ ڈائوٹیشیس نے اسے بلا:بھیجا کہ
آئیے میری ریامت کو مثال یل مملکت میں تبدیل کز دی ڈ افلژلوثِ امن کے یہاں: گیا
کو بات پر ڈونون میں اختلاف پید پیدا ہوگیا ے بادشاہ یش میں آ کر افلاطون کو
'غلام بنا کر پزدہ فروشوں کے ہاتھ'ہیچ ڈالا۔ ۔ دای کے ایک ماگرد یئن اننکی قینٰت+'
ادا :کر کے ائٔے رِہائی دلوائی'۔ افلاطوت ایٹھنڑ لوٹ ن آیا ہاب ا بزس کی عم نی
وفات .ہائی ۔ اس کی موت نہایت رکوہ رت“ ایک دن و٭ کت یز دعوٹ "
- عروسی میں شریک تھا ۔ رات گئے تک ہٹکابہٴ ناؤ نوش گرم زہا۔ .افلاطون کمر
سیدھی کرتے کے لتےٴ ایک کرّسی پر دراز ہو گیا ۔اور سو گیا ا ۳
ےۓ اس کا پت کیا تو وہ ابدی ئیند سو چکا تھاتَ - ہے
افلاطوقٴ کے فلشئے کو سمجھۓ کے لیے اس سے نظریف* ءال کو ڈی نشین کر
لینا روری ے ۔ یہ ابثال یا عیون وہی ہیں جدہیں سقراط نے تجریدات قکری یا کسی
ثے ک تغریف کا ئام دیا تھا ۔ یہ نظریمحقیقت اور ظاہر یا حس اور عقل کے اسیاز
ے پیدا ہوتا تھا جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں سب سے پُھلے.پازمی ٹائڈیْْ ۓ کہا:
تھا کہ صداقتٰ عق .استدلالی میں ہے اور عالمِ حواس قش اقریب نظر کے ۔
رر تر رر رت فرق ٭
کو ٹا کر رکھ دیا۔اور کہا کہ علم صرف حواس ہی سے حاصل ہو سکتا ے بب
سقراط اوز افلاطون: ۓے کہا کہ علم تجریدِات فکزی ے حاصل ہوتا ے یا _دوسرے
الفاظ میں عقلِ استدلا ی ہی سے میسر آ سکتا ے ۔ افلاطون نے کہا کہ یہ تچریدات
فکری صرف تفُک رکا ایک قانون نہیں ہیں بلکہ مستقل بالذأت ما بمدالطیعاق حقائق
بەڈی بس - ان ہے اق اق ا کا ام کی لو کہا ارات کی سیت حقیقت مظلقہ
انھی امثال پر مشتملٴے ۔ یاذ رے کہ يہ دعوعل کہ خقیقت ختیقتِ مطانہ عتلیاق کے مام
مثالیت پسندی کے سکزی :اصولوں میں سے ے ۔ افلاطون کنہتا ہے کہ فلامتفہ
صرف حتیقی امثال میں ذلچسبی لیتے ہیں قردِ یا ث شے سے اعتٹا نہیں کرے افلاطو ۓے
ان امثال کا ایک ایسا عالم بسایا نے جو مادی ذیا سے ماوراء ے اوز ےشار امثال پر
مشتمل ہے۔ عالع نادی میں جتنی اشیاء بھی ٴکھائی دیتی وی ول
ساۓ یا عکس ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں۔ ظ امثال حقیقی ے اور عالمِ ظواہر غیر ۰
حقیقی سے ۔ 7
افلاطوت کے امثال ازلی اور غیر عخلوق ہیں ۔ افلِطون ے انہیں ہیئٹ بھی کہا
ے ۔ یہ امثال مستثقل بالذات ہیں اور مادی عالم کہ کسی تغبر سے متائی نہیں ہوۓے
عادی عالم ک. اشیاء ان امهل کے سائۓے ہیں مثاڈ دنیا میں چنئے گھوڑے ہیں وہ مثا ی
.۔ گھوڑے کے عکس ہیں ۔ تمام امثال "از ۓ سرتب و سذون'صورتِ میں موجود بین ۔
ان میں خیرِ کامل سر۔فہرست ے:۔ کائداتِ میں ایک اور۔اصول بھی یوجؤددے۔ یغنی
پت
ٔ 7 : ۱ ۱ : ۴۸
مادہ۔ مُادہ وہ سب بک سے ج وک اما نیں یں د لمادہ خام وا سے جن تر _
کی چھاپ, ل+ ہوٹیٴ ے۔ ۔ اسی چھاپ ہے؟عالم ظواہر ی۔اشیاۃ بتی ہیں ٹا
سنگ مرس سنگ قرائ کے لیے ووخام ماد نے نُس پز اس کے مل کی چیا لک ۔
ہے اسی اطرح "ماڈے ہے۔ امثال کی چھاپ لگنے سے تکوَین غالم ہوئی تھی نادی ”
عالم حقیق حقیقی موی نے بہت مادتے پر جال یا اتعال کی ماب ےم ۔ امن دگیا: کے! '-
جمام تغیرات :عالم جوا کی کمام جامیاں او کوتاہیاںماڈ ےی اواجد سے ہیں ند کہ '
امثالِ کے باعث . ۔ اپنے ایک مکالے طراؤنن میں افلاطون ایک معاڑ کا ذ کر بھی: کرٹا
نے جس نے ہل اشال اور مادے' کو ا کٹھا کیا لیے مُنگ تزاش سنگ تہس کی ” 2
سل پر اس کا مل ثبت کرناٴ ہے چب اض مار نے کسی مثل کو مادے پر ثبت؟ : ک
کیا تو متعلقہ شے عالم وجود میں۔آ گی - ایک ہی مثل سے سینکڑوں اشیاء کی تتلیق
عمل میں آئی لیکن ان تخلیقی و تشکیل ہے متعلقب مشل پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ
بدستور کال و اکمل اور غیر متغیر ہی رہا- إِقلاطون کو مثالیت پسند اس لے کہا
جاتا۔ ہے کہ اِس کے خیال میں حق حقیقی عَالم امٹال کا عالم ے جس کا ادراک صرف مقلی
استدلا یی ہی ہت ممکن ہو سکتا ہچ افلاطون کے خیال میں وہ عالم جس کا ادراک ہ ,
ہیں اپنے حواس سے ہوتا ے. خیں.حقیقی س٠ت مادہ. نات ے اور جوٴمٹن اس پر
ثبت ہوتا ہے اسے مسخ کرے رکھ ددیتاٴ ہے ۔ ایک افساۓ میں اقلاطونَ
بناتا سے رک کیں ظرح پاک اور مُٹزم* ۔ذرن مادے ہے ملوث ہوا. تھا۔ وم _
کہتا ے کب ھن خالص صورت میں ایک ستارے پر موجود تھا کہ اس پر عالم
حواس کی شخمنا نے زور کیا پس اس نے سم کی: قید قبول کرلی ۔ اب وہ اپنے آپ. کوٗ
اس قیڈ ے: آزادِ کرا کر دویارہ اپنے ستارے کو لوٹ جانا چاہتا ے ۔ طماؤس میں ۱
اس نے فیثا غورسیوں کے انداز میں کبھا ےٴ کہ عالم ننّادی میں آنۓے سے پہلے پر روح
اپنے اپنے ستتارے میں موجود تھی ۔ ۔ ٹیک آدهی کی روح سوت کے بعد اپتے اصل
مسکن کو لوٹ جاتی ےے۔ بدی کرۓ والے کو موت کے بعد دوبارہ عورت ے
. روپ میں پیدا کیا چابے کا لاایالی اشخاص موت کے بعد پرندے بن کر اٹھیں کے ۔
رومیں ہیں ایک فائی دوسری غیرقا ۔ ایک کو خدا ۓ پیدا کیا ے ۔ دؤسریٴ '
. دیوتاؤں کی تخلیق ے ۔ قای روخ لذات و تبہواب 5 کی طرف مائلن ہوق ۓۓ- غیں فانی “٠
ہے نفس کی ترزغیبات کا ابشیغال برق ہے - غیر انی روح کا مقام سر ہے اوو فا"
روح سینے میں قیام کر نے - - ٠ ٠.
افلاطون کے ابثالِ لا تعداد ہی چیی طرح ٹھیں “ ضذاقت از حن کے ابثال _
ہیں اسی:طرح شر بد منورتی اور خبائتٗ بھٰی امفال ہیں یہ سب امثآلٰ منتشر جالت ”
میں نہیں ہیں بلکتا تب و د٘وثْ'صورت میں موجود-ہیں ۔ ان کی ترَتیب منطقی ہے۔ . ٴ
سب سے اعلی..اور ااکمل "یل مطللق؟“ ہے جو سب کا مبداء ہے ۔ افلاطوت نے وہ
ہیں بتایا کن بعیں مطلق نے کر کیسے تفع ہوا تھا بھرحال وہ کائنات: ,کو
ہے ۰ * ح
۹ ِ ِ ٰ کے ٍ
٠ ۰ ۰
۰ ۰
۰
:”اغلاقیاق عقلیاق گُل؟“ مائتإ یچ ۔ ر اس کے خیال. یں عم حقیقت پا وجود بلاق ک
ادراکت تصرف عقل استدلالی ری سے ممکن ہُو سکتم ہے 7 افلاطوت کے" ظا فک کو”“
۱ دوئی بھی کہا جاتا ے وک رق ا جو عم "مادی اج غلیعدو آپنے ا نت
الگ عقیقی عالم“میق موجود ہیں-۔ دوسریٰ طرف مادہ ہے جس قَر ان کى چھاپ لکٹی
بت ہوق, ہے ان _دونوں میں چو خلیج حائل ہے ان ۲ ا_ جے
شش افلاطون ۓ نہیں کی ۔ ید کام ارسطو ۓۓ کیا تھا۔۔"_ ٭ و
افلاطون امثال کو مستقل بالذات ت جواہر سمجھتا ے ۔ ۔ وہ حقائق مطلق ہیں جو
کائنات کے اصول اوّل ہیں ۔ آفاق ہیں۔ وہ اشیاعْ خویں افکار ہیں ۔ موضوعی نہیں
معروضی ہیں۔۔ ۔ مان دمکاں ہے ماورآء ہیں اور عقلیاق ہیں ۔ اوآخر عمراعی افلاطون ۔
ۓ فیٹا غورسیوں سے متأثر ہو کر آپنے نثال کو امداذ وأ شرفع کر دیا تھا۔-_
کن اک آرملظی ۓ بت واتا ہے۔ 2 حبد
افلاطون کے خیال میں صرف فلاسفہ ہی عالم امثال ا رق رک ا ےت ۳
حقیقی عالم ے -,عوام عالمِظواہر یا عالم ماذی"میتَ الجھ کر رہ جاے ہیںجو عض
یب نظر ے ۔ اس ضمّٰ میں اس کی نار کّ مثیل مشہور و معروفَ ے ۔ وہ کہتا
ہے سے اس سی نت کے ری سو کے کر
میں اس طرح چکڑ کر بٹھا دیا گیا ہو کۂ و اپتے نامنے دیکھنے پر مجبور ہُو : ان
کے یه اگ کالاؤرومن ےنا تار کی دیواز ۓ۔ ان کے .اور دیوار *
درمیان یىی جگہ خالی ے ۔ ان کے پیچھے جو آگ جل رہی کے اس کے باعث وہ اپنے
اور اپنے پیچھے :سے گزرۓ والوں کے صرف سال ہی سامنے کی دیوار پر دیکھ تو
ہیں اور ان سایوںِ کو حقیتی سمجھنے لگۓ ہیں جنْ اشیاء یا اشخاضکے یہ سائۓ ہیں
وہ ان کی حقیقت سے ہمیشہ ے خبر رہتے ہیں ۔ ۔ بعد کے صوفید کا يہ خیال "كد عالم ْ
ماد یا عالم ظواہر غیر حقرقی ہے اس لیے قابل اعتنا نہیں ےآدر روح جسم کی قید
میں گرفتاز اجس سے چھٹکارۂ پاۓ کے لیے تعدّق و تجرید ک ضرورت ہے افلاطون اوت
۲ ے ماخوڈ: ہے۔
_. افلاطون کے نظرے ین مقنہؤم وا کا اذا تحیرۓ کے مُآع دی ہیں حٌّی
ادراک اور عقلی إستدلال ۔ اول الذکر کی دنیا خواس ک دئیا ے ۔ انی ال ذکر اثالى
کی دنیا ے ۔ اشثال :ازلی و ایی بیت ۔ _معقولات حقیقی ہیں ۔ حقیقی مدرکات تقر پئیر*
ہیں ۔ حسوسات غیرحقیتي ہیں پ اس لے افلاطون ے پیریقلیٹس کے تقیر و تبدل _کؤ
عالمر حواس میں منتتل کر دیا ے اور امثال یا سقراط کے تجریدات فکری کو الیاطیوں مس
کے وچودا“ کی طرح کامل اکمل اور غیں:مثّدل مانتا ے ۔ ظاہری عالہم کي.اشیاء
حقیتِیٰ امثال کی نقلیں .ہیںٴ ۔ ساقۓ ہیں ۔ ۔ يَہّامثال ماورائی بھي ہیں اور سریانی بھی ہیں ۔وهہ
ایا عالم میں طاری وساری ہوۓ کے پاوجُود ان سے ماوراء اپناإ سہتقل وجود بھی رکھے
:ہیں ۔ جس طرح عدل۔ خیر ۔ حسن امثال ہیں اسی طرح درختوں ۔ ستاروں ۔ دریاؤں
نیہ کے:آمثال بھی ہیں ۔ ۔ یمام ا جو اپنے تعلق سے سستقل, پالذات ۔وجود كِِ
مت
رھد
پت اٹل کے تعلق سے جن کے سانو اکا کوٹ اشتراک نہد ہے ی علرم غضضں
: اٹل کے۔تعلق باہمی ؟ رکو۔ +معلوم مکرن بک ام کو افلاطون ےدلیاتنکپا
ا پھلا:ام یہ ہے کہ ابثاع کا تعین ارے پھڑ ان کہ بابسی ایتزاک و
اعتلات 7 کمھوج نائۓے۔ .ایک قلہنی چدلیاٰت کی مدد سے حقرتی ,مال امثال تک رہائی
ے حاصل کر سکیا ے ۔ افلاطون کی مثالیت پسنڑي پر تیصرہ کرتے دویۓ پرٹرنڈرسل
لکھتے ہیں۔۔ ۰
8 .' افلاطون اپنے فلسثے_ میں فیٹا: غورس اپارہی _نائدییں؟ ت اور
خ 0“ +83ه81822 ك۵كُ۳َو0۰ فیٹا غورس نے .]سن ےۓ باطنیت کا عتضر لیا ۔ رام کے
۲ _ علاوہ نسخ ارواح؟ یتاۓ روح ؛ اور جو کچھ بھی غارک ممثٌیل میں بیان ہوا
.5 ے وہ فیشا غورسیوں سے ماخوڈ ہے۔ ,انس کے ساتھ ریاضیاث میں شغف .اور
َ عقل و عرفان کا امتزاج بھی اہنی ماخ ہے لیا گیا ے۔ پارمی نائدیس ہیۓے اس
ےید نظریبد لیا کم ,حقیقت ازل ے اور زان سے ماوراء ے اور تغیر و تبڈل
منطتی لحاظ سے فریب نظر ہے۔ پیریقلیتس نے یہ خیال لیا کەه ۔عالم جیات
پر لمحہ تغیر پذیر ے۔ اسے پارمی ٹائدیس رک نظرے ہیں ممزوج کر کے اس
7 ۓ کہا کہ علم حواس ہے حامنل نہیں ہو سکتا بلکہ عقّل ہی سے حاصل ہوتا
ہے۔ - رفتہ رفتب اس نظرے کا استزاج فیثا غورسیت سے ہو گیا ۔ سقراط سے اس
نے اخلاقیات میں دلچسپی لیٹا سیکھا اود ت5 تصور ستعار لیا ۔ غیں
کاسل اور اخلاق قدریں ظاہرا سقراط, سے ماخوذ ہیں“ ۱
جیسا کہ ہم تفصیپل سے بیان کر چکےہیں افلاطون نۓ ے شک اپتے پیثر روؤں سے
استفادہ کیا تھا مین اِس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ایں ا متزاج سے آمن تنۓ
> ایک شاندار نظام فکر ی تشکیل کی اور عقل وعرفان میں مفاہەت کی کوشش کی ۔
آُس ۓ بہت سے پھول اور پودے ادھر آدھر ہے لے لیکن اناکی چمن بندی ایے
سد _سلیقے اور فن ہے کی .کہ ان منتشر پھولؤں اور یودوں ۓ ایک حَسین شالیار کی
صورت اختیارِ کر لی جس کی تخلیق کا حق بدرجہ اوللٔی افلاطون:ہی کو پہنچتا ے.۔
افلاطون کے فلسقے کا اصل اس کا نظریہٴ امثال ہے جس نے اس کی سیامتیات “
عمرائیاتٴ اخلاقیات اور چالیاتِ پر. بھی گہرے اثرات تثبت کے ہیں۔ ئ کے
-سیاسی اور عمرانی افکار پر سپارٹا کے معاشرے .کی چھاپ د کھائی دیتی نے ۔:سیارٹا
:والے سوے چاندی :کو حقارت کی نگاہ ہے دیکھتے تھے۔ ان کے ہاں لوے کے کے
سے رائ تھے۔.وہ اپنے بیٹوں کی جنہیں پیدائش کے بعد ریاست کی تحویل میں دے دیا جاتا
تھا کڑی عسکری تربیت کررۓ تھے اور لڑکپن' ہی میں آنؤئ ان تمام شندائد کا عادی
بنا دیتے تھے جن کا سامنا غام طور ہے دوران جنگ میں.۔ہوتا ے ۔ لڑکوں کو اپنے
ماں باپ سے ملنے ک اجازت شاڈو اذر ہی دی۔ جاق تھی ۔ شجاعت؛ حاست اور
جفاکشی کو اعلبی ترین قضائلِ اوں: حاسن میں۔شار کیا جاتا تھا ۔ آن کے سپاہی۔ سرخ
: رنگ کی وردی یہن .کر بیدان جنیگ؛ .کو جابے ٌ تھے تاکب زشم لگنے پر خون د کھائی
--
2 *“ٴ٤
ایند دے ۔ جب مان اہ ۓ'لیۓ؟کو میدان تل ٭: تک تر جن وس وعلیت٠ ترں بھی و
کہٹی تھی ”یا ڈلھال کے ۔ساتھ آتا یا-ڈھال کے'اؤبر* مطلب ىْد ہوا کت یا فاخٌ توکر
آناٴھا جن ہار دیٹا۔ ے نپارٹاٴوالے ثہایت ماد اور "پر مشتث:زندگی کے عًادیَ تھے ۔ ۔ جن
رلوگوںٴگی- -توئد بڑھ-چاتی :تھی آنہین کابّل اور پیٹو مج کر جلا وطن کر دی جاتا
تھا ۔تجزدوں کو جاڑۓ میں مادر زاف آرہٹی: کو کے ٢ن کا جلسن تکالاٴ جاتا تھا اور ہے
برسر عام انہیںی سرزنش کی جاتی تھی ۔ ایک دفعث ان کے ایک بادشاء ۓ ایت پک قد
عوربتہ سے تکاح کر لیا۔ بڑزگوں کی جلس میں بادشاہ“ پر چرمان کیا گیا کہ اس
عورتٗ تا ٹھنگنے بے پیدا ہوۓ کا احتال ے سبارنًا ى ایک عورت کسّی دوسری
ریاست کی ایک عورت نے طنزاً کہا ٭ ممہارے ہاں: عورت مد پر حکومت کرق
ے 4 اس ۓے چؤوآاب دیا ”سرد بھی تو وہیئ "جنتی ے؟“؟۔ اس ہے تعلوم ہوتا ےْ
کہ اِس معاشرۓ میں عورت کو احترام کی کاہ سے دیکھا:جاتا تھا ۔ _
ہندی آریاؤں کی طرح مپارٹاً میں بھی ٹیوگ کا رواج تا عورتوں کو اجازت
تھی کہ وہ اپنے خاونك سے ژیادہ طاقت ور مردوں سے اولاد پیدا| کریں ۔ - نوجوان
لڑے اور لڑکیاں مادو زاد برہكهکھیلوں اؤر 'تاچوں میں عصّہ لیت تھے۔.ہم چنسی
یک کا رواج عام تھا ۔ بعد میں اسے ''اقلاطونی بث“ کا :نام یا گیا نو یز ل ڑکوں
حم
َ
کی تربیت کا کام ان کہ عشاق کے سپرد تھا جنہیں مشلم رکا جاتا تھا۔ چب کوی ٴ
حم اس کی تریت میں کوتابی کیوں کی ہم جنس عبت کی کر می و شا
كَارفِرما تھا کہ جو ثوجوان ایک دوسرىے :سے عحہت کریں۔ وہ میدان جنگ میں انے
دوستوں کک حفاظت کے لیے جم کر لڑے-ہیں ۔. افلاطون چمہوریت کو حقارتا کی نکاہ
ہے دیکھتا تھا ۔ آُس کا خیال تھا کہ ایتھئز والوں ے جمہوری طرز معاشرہ کے باعث
, سپارٹا کے ہاتھوں شکست کھائی تھی۔ اس لیے وہ عپارٹا والوں کے عسکر ری معاشرےے
کو مثالی معاشرہ سمجھتے لگا ۔اس. کی ”شا ی ریاست“ میں سپارٹا کی ریاست ي” ”
جھلک صاف دکھائی, دیی ہے ۔ اس مشا لی ریاست میں اثتالیت اوز ایاحت نسوأآں کے
تعپورات ملتے ہیں۔ افلاطون :کہپتا ے :کہ اس ریاست میں اسلاک کے ساتھ عورتوں
کا اشتراک بھی ہوکا اورعورتوں اور :مدوں میں کابل مساوات ہوگی۔ شادی کا:
انتظام ملکتۂ کیرے گی کسی تھواز پر ۔نوجوانِ غَدوں اور کنواری لڑکیوں کو
' اکٹھا کر کے میّاں بیوی ینا دیا:چارۓ گا۔ مد کي عمر دغ۔اور ۵ کے درمیان ہو
اور عورت کی .م اور ےم کے درمیان۔ ان عمروں- سے یاہر جنسی مواصلث پر کو یہد
۔پابندی عائد نہیں :ک. جاۓ کی الیتب ٴ!سقاطظ حمل اور ضبطہ,تؤلید جبریٴ ہوں گے ۔
کمزژور:اوز ٭ناقص الاعضا بچوں کو پیدا ہوۓ ہی تلف کر“ -دیاآ جائےۓ کا ۔ شادی سے
چھلے سرد اور عورت دونوں کا طبیمعائد کر کے ۔اس بات کا أطمیْنان کر لیا جاۓے گا:
کہ وہ صحتِ مند اولاذ پیدا کر غبکیں کے ۔ ابں مبثا ی' ویاست میں کسی کو اس بات
کا علم تہیں ہوک کہ کون کس کا باپ, سے اس لیے اپنی عمر ہے بڑے تر شخص کو
ےم 0111131111“ ...3 کرئی ے۔۔۔۔۶۰
(اہۓ:سمجھ ٹر اُس کا احترام کیا جائےگا۔ اسی طرخ ہز بی عمرکی وت کو تاں
کہا جا گان :ہم بنہ :ایک دویدر کو بھائیسیْڑنخ سد جو گے جن کی غمروف میق
اتنا تفاوثٹؤ ۳ و٭باپ' نی اہو مکزا وی :اہی مواتمات' کی اغازت خپین گی ۔ کوئی..
کسی عمر رسیدہ شخص بر ہاتھ بچنق لا لن کا کیو نکم کن" ہو کنا تنج .]می “کا
با ہی بنو۔“اض٥دوقع پر راقم کو ڈیو جانس:تایِی“کا ایک“ لعلیفہ یاد آگیا ےن ایک
دن یہ سرک چہینہ رفاصفع ایٹھنز -:کی*ایکٹ. کو ےی گئیں داخل:ہُوا تو" ذیکُھا نکی ۱
رمییں ۔اور:چھتوں :پر لوگوں ہکا ہجوم اخ اور لن والوں میں 'لڑائ جُھگاٴ ہوتڑ ہا نےے:۔
دیو جائس ایک طرف .کھڑرے .ہو :کر ماششا دیکھنے لگا . :ذیکھتا۔کیادے کہ ایکە
کیسبی کا.بیٹا چھت پر کھڑا سے امن کے ہاتھ:میں'ایک پتھر نے جس وہ ٹیچنے گلی .
_ میں جہاں لوگوں کا جمگھٹ تھا پھیٹکنے کے لیے ہاتھ تولٴ رہا چ۔ دیو چاس ے
'ٗپکار .کر سے کہا ''پاد,! ہاں ! پَھر مت پھیکنا۔ باپ کو لگ جائۓ گا ٤ء"
افلاطون کی اشتالی ریاست میں کوئی شعخص کسی. شے کو ذاقی لملاک نہیں
سمجھے گا۔ تمام شہریوں کے روٹی, کپڑے؛ زہائش ؛ علاج معالجے کی کفالت ریاست
کرے گی ۔ تعلیم و ترنیت کا بار بھی ریاست پر ہوا ۔ بچے گھروں کی بجاۓ سرکاری
دزس گاہوں میں رہیں گے جہاں صبح و شام نہیں ۔کڑی ورزش کرائی جاۓ ئ۔ اور
اسلحب کا اأستعال منکھایا جا ۓ گا عمر کے“دس بزس کھیل کود اور ورژش کی ٴلے وتف
ر ہوں گے تاکہ لڑکا خوب تواناٴاور مضبوط ہو چاۓ۔ موسیقی کی تعلٍم بھی دی
جاۓ گی لیکن اس میں ایسے نغبات نصآب سے خارج آکر دیئے جائیں گ٥ جو جذبات میں ۔
نفسائی پیجان پیدا کرے ہیں ۔ شجاعت کے جذنے'کو ابھارۓ والے راگ :سکھاۓ
جائیں گے ۔ دس برس کے بعد امتحان لیا جاۓ. گا اور کامیاب طلبہ کو مژید دس یرس
'تعلیم دی.جاۓ گی جس میں ثصابی علوم کے ساتھ کڑی فوجی تربیت بھی شامل ہوگ ۔
سینوجوانوں کو چھل یکھاۓ کی اجازت نہیں ہوگ - نہیں هُکا ہوا گوشن تکھلایا جابيے کا۔
_چٹنیاں؛ اچار؛؟ مرے اور مٹھائیان کھاۓ گی ممانعت ہو گ ۔ تربیت یاقتہ توجوان
ْ طلبەه کو انتظامی شعبوں اور قوجی خذسات کے سنبھالتے کا کام سپرد کیا جانے کا ۔
متاز اور منتخب نوجوان فلسقے اوو ملک داری کی اعلبی :تعلیم حاصل کریں گے ۔
ملکت کے اعلول حکام تربیت یافتم فلاسفہ پر مشتمل ہون گے۔ افلاطون کہتا سے
کہ حالتِ مض میں ماہر طب سن رجوع لایا جاتا ے اسی طرح نظم و شمق کا کام
_س شنخص کو دینا چاے جو آئینِ جہائداری کی تربیت حاصل کر چتًاً ہو۔ اس کہ
خیال میں جب ٴ تک قلاسفہ خکمران نہیں ہوں :گے بی تیع, انسان کےنصائب کا
خاممہ نہیں ہوگا۔ 75 4
افلاطون ۓ جمہوریں میں اپنا عدل کا تصور پیش کیا ے۔ امن مکالےے کا آغاز
. ایک مل .سے ہوتا ے جس میں چند آمراء اور مفکرین گلاکون۔ توریسی میکس ۔
ٹین ٹوس۔ سقزاط وغیرہ ایک امیں کہیں کنالوس کے ۰یہاں یع7 ہیں۔ سقراط
کنالوس ت ۔پوچھتادےٴ مھیں ہس عب سے بڑی ئعمت کون سی امیر آسکی _
-
ےک وف خواب۔ ۔دیتا ا ے!''دولتِ جو میری تخاوت کا ۔ دیانت, کا عدل کا ہہب بی؟؛
سقرزاظ حضْت عاذتر پوچھنا سے متتعدل کیا یچ ؟؟" امیر پرنخث . چھڑ جاق ے ۔ قراط
7پ پہوے خیالات کا استّادالہ تجزیں ۔کرہهے اس ۔۔کے
دلائل وق انت کہ ۔دمچیاں بکھیر دیتا ے۔ اس بحث کے دوران میں تھریسی میکں_
توفسظاق کت نے کہا اغلاق کمزوززوں ے وضع کے ہیں تاکة . طاقتوروں, کا پنجھ*”
آہیں:کبرورپڑ پڑ جاے۔ لی .چوڑی, حث کر بعد سقراط کہتا دے:کہ عدل اس
_معاشزےٴ میں تن ہنوتا ے جس کے تمام افراد عورتیں اور مےداہی اپتی:قدرق.
سادحبتوں کے ابی اپنے اپنے کام سر انام دے رے ہودں۔ ٠< ۔ ۔
< آرٹٗکے متعلق افلاطون کا خیالِ ے کہ ایک معیل نار یا شامز "از غود رنگی
کے یں عبیل لکیھا ے۔ یا ضر کہتا ے۔ - وجادؤ جال کی آس حالت میں گویا_
کوئی مإفوق الط٘بع:قوتةآسِ کے ہراہا پر غلبہ پالیٹی ے ب ہی وجد سے کہ اعقلیت
۔ پسندا افاظطون شعراء اور محیل نگاروں کو حقارت کی نکاہ سے دیکھتا ہے کہ حالت
مخلیق میں شاعروں کے جذباتِ ان کی عقل و خرد پر حاوق ہو جاتے ہیں چنان چم آُس تۓ
اپنیی مثالی ویاست نے انہیں جلاوطن کر دیا ے ۔ امن کے خیال میں شاعروں اور
دوسرے فن کاروں کو عالم بثال تک رسائی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ نیہ مقام ارقم
۔ سبواۓ۔ فلافب کے کسی دوسٗرے کو میسر نہیں آ سکتا: افلاطون کہتا ے کہ
جب کوٹی شاعر نظمر کہتا بے یا کوئی سنگ تراش. جسمہ تراشتا لے تو وہ نقل یک
نقل کر رہا ہوتا سے :کیونکی عالمٴ مادی یق جتنی اشیاء ہیں-وہ امثال کے عکس یا
نقلیں ہیں ۔ جب کوئی شخص: ان کی تصویر کشی یا عکاسی ,کرے کا تو وہ عکس کا
عکس آيّار ہا ہوگا۔ پھر صورت افلاطون, نے اعلیلٰ پای۔ہ کی موسیقی کی دل کھول کر
تعریفک ہے اور کہا ے کہ اس سے انسانی ذہن و قلب میں اعتدالی احساسئ پیا
ہوتا ے اور انسانِ عدل یٍطرف مائل ہو جاتا ے ۔ اس ضمن میں "ُس ہے یں کپیکو۔
آج کل کک ثفدیاتی۔معالجوں کی پیش قیاسی ی ےکم موسیقی ہے ہہت سے جساتی اساض
دور ہو جاے ہیں ۔
پاتوں باقع یں
اپنے مشہور مکالے سەہوزچ میں افلاطون یذ عشق کا تصور پیش کیا ے۔ وہ
کہتا ہے کہ روز ازلِ سے عشق کا تعلق حسؾ کے ساتھ رہا ے ۔ جب کوئی شخص
عاام_ حواس و ظواہر میں کسی حسین شے یا۔ شخص کو دیکھتا ے تو اس ک روح
ہیں حسنِ ازل کی یاد تازہ ہو جاق ے جس کی وہ شے ثقل یا عکس ے ۔ بھی دوجدرے
< کہ حسن وجال کے مشاہدے سے ہم پر وجد ,و جال کی کیقیت طلری ہو جاتی ے ۔
افلِطون ۓ ایک جگہ لکوا ے : ”جے عشق چھو جاۓ وہ تارکی ہے نہیں گھہراتا۔'
۱ افلاطون کے خیال .ہیں بی روح انسانی کے دو حصے ہیں ارفع حصہ عقل استدلالںی ے
جو امثال کا ادراک, کرتی بچافز ناقابلِ تچلیل و غیر تتفیں :ہے اور غین فانی ے ۔ رو
کا غیں عقلیاق .حصہ فائی نے اوردو حصوبِ میں۔متقسیٔم ے اعلول اور انفن؟ اعلولخصے
ہیں شجابت؟ چود و سخا اور دوسرے عاسن اخلاق ہیں ۔ اءفل. حصہ شہوات ٣
٦ ۰ ۰ مم
مس کڑ' ےے۔ انسان: کو حبزآنہیے' انس اظقہ یا عقلِ ایتدلا ی// ہی متا زج ۔
افلاوقہ بی مثالیت کے اہم بہار دیچ فی ہیں ہد نپ کے
۹ )6 غالمٴ دو ہیں ظاہرزی عالم۔ اور حة حقیقی عالم“عالام مثال جترقی یەْ ہے اوز این.تک
کو صرف نفشِ ناطقہ یا عقل' انتدلال یىی رفایق ہوات تی ےن غالم ظواہرں یا
الم خواسن غیر.حقیقی ۓے ۔' جن"اشیا کا ادراک بہارے' خجواض۔ کرتے بب
٤ ھپ وةحقیقی ابثال کے حض ساۓ ہن ' ۔ مسعقولات: اصلى ہیں سی ۰ن کے
مکی ری ات ۔ او ط٠ پور اریم ات
تنم امثال ازلل و ایتنی ٤ قائ )و وابت بی ۔عالمیڈالً اسکوتی ورک
- صزفت ظاہری عالم میں سے - ٤ ے۔ ۔ .-
2 عالم مثال کے ساتھ ساتھ مادہ بھی نوجوذ جن ہر انثال گی چھاپ لگتی
۔۔ رہئٹی سے اور ظاہری عالم کی اشیاء۔وجود میں آق؛ ری ہے
(م) عالم مثال اآزل سے ٹپ وملّؤن حالت ہیں ےب سب نے کاو اُکمل
. مثل خیر مطاق ہے جس ہے 'دوسررے امثال متفرع ہو تباین ٠ کو
د (ھ) ظاہری عالم یا عالم حواس میں ہر کیہیں تی لاد از ىی
ککارفرمائی ےپ ِ ہرئٍ مھ کے ےیکت
(ہ) زمان غیر نحقیقی ے۔یعنی وقت کا نہ کوئی آغازتھا زم اغجاغ ہوگا. 00 ال
سے ے اور ابد تک اسیٔ طرح رے گی وقت کی حز بت مس یں ے
”ذولابی نے ۔ ٠ ٥ہے٠ 7 ِ َ
(ر) کاتات یا تی ے وبٹی اس میں الیک واقع متمد پچ غایت ہچ۔ ر
::۔(م) خدا یا خیر مطلق کا مثل فکر بخض ہے ۔ دوسرہے : یونائق: قلانفند زی طرح
ف افلاطونِ بھی خصی خدا کا:قائل نہیں ے۔ ٠ میٹ ک0
تی“ (4) موتِ :کے بعد ر رفح: انسای باق. رہی- ے اور سے اتے ۔اعالِ رگ نطابق جزا
ر نے ۔سڑا ملی ے ۔م د پہ لے کپ ےط ہے ںہ ال رئاہ ے
رہ (٭)ارواج اعمال کے لِحاظ سے قالببٴبدلتی زہتی ہیں ۔ اِن۔انون: :زع ہرندوں
۸< . ٭ اور جانوزفت ہے۔قالب یں چلیجاق ہیں پہ رواع کا تعلق ندم :ین غَبوباق
ماف زذ نہیں ۓن بے اتعے حسب منشا بجلمم میں۔۔داختن۔بھی ءکیا جا با سیکا نے اور 6لا
. بھی جاسکتا لے ہی ۰۱م ح<یا ہے اڈ
ج(ا0): نشای:روخ'عادہے کی کوفتہ میں آ نکر قیہ بن کی از اپتے: :ایل میڈ
مک ات :ئ طرف لوٹ طا جائے کا لیے نے قراز ری لہ اید رہائی صزف کرو تع
کیٹ بیجن مافئرآ سک ١ جنےعۂہ حسن ارہ کش ارواج: کواان _مبداےے
سا رہ حقیق یی یادنقلای ڑبتی ےا جن دیرا سرت کا ے تد اس ر2
ھ6 کائنات ایک عقلیاق :کل ے سے جس کی حنیتت یقت حتیقتیہ:کا!احزاک۔ ضرع عقل استدلا ی ہی
کر سکی ے ۔ افلاطونِ کا قول ے '' کسی انسان پر اس نے بڑیمعجییت
نارل نہیں ہو سکتی ید وہ عقل و خرد کا دشن بن اتل _(:۱
۔ارسطوخ: (ارِمطاطالیس) )رخ ق <<م میں فا مقدویہ > کے ایک شہر سٹاگیں
.میں پیدا ہوا ۔ اس کا باپ نو ماخوس مقدوؤلیہ کے بادشاہ فلپ کے۔باپ کا | دریاری طبیب'
تھا إوائل نغمر۔مین اسیطو ے اپئے باپ ہے۔علب کی تحصیل نکی جں سے آس کہ ذہن
میں علمی تجسسں۔کا ملکہ بیدار ہوٴگیا:۔ اھارزہ:پزس کی 'عمر میں ایتھنز چا کر افلاطون
کے۔حلقہ درس میں شامل ہوگیا.اور بیس بزس تک آسی سے کسب فیض کیا ۔ ارسطو*
نہایت: ممجیدة إور:ذہین طالب علم :تھا۔ اور اپنے اتاد کی تترپروں :کو پورے انماک اور
توجہٗ سے سنتا تھا ۔ ایک دن افلاطون روح ک ماہیت پر تقریر کرننے لگا:تہ کچھ دیر
کے بعد استاد کے وقیقاسقدلال ہے ]کتا رکر طلیہ:یکے”بعد دیگرزے ٹک لکے لیکن
. ارسطو آخر وقت تک ہمہ ت نگوش بیّٹھا تقریر سنتا رہل شدہ شدہ ارسطو ٴى علمیت کا
شہرہ دور دزن ۔پھیل :گیا ۔ ے فلس شا مقدولیيں ے ]سد ط طل' کیا .اور اپنے سے
سبکندر کا اقالیق مقر کیا ۔ فلپچۓ۔اوسطو سے _کہا ''مین 0 0]) ہف پڑھانا
چاہغا ہوں'تاگہ وہ]ن حاقتوں ہۓ:اپنا۔ داسن بجچا سکے جو قلبفہ سے نابلد ہوےۓ کے باعث
بج سے سرزد. وق رہی ہین ۔“؟' اس ,وقت سکندر بارہ برس کا تھا آُس ک طبیعت سیا یی
تھی:اس لے وہ۔ارسطو سے۔ پوری:طرح ,فیض یاب نہ ہو میکا بہرحال اس کے افکارِ سے
متائر ۔ضرور ہوا ۔ بعد میں وہ ارسطو ی عزت و تکریم اپنے باپ کی جیسی کرتا تھا اور
کتا نما .ایاپ نۓے ھن ۔زنلگی عطا کی .لیکن استاد, نے جھے۔زندگی رگزارے کا فن
سبکھایاں““-شکندڑاۓ ایران پڑ فوج کِشؾ کی تو 'وہِن بھی اپنے آتادِ _کو یاد رکھا۔
جہاں کہیں ا سے حیواناق یا نباتاق نوادر ملتے وہ نہیں ارسطو کے پاتٰ۔یھجوا دیتا
تھا ۔ ات کے.سشاہدے ہے ارسطو ۓ انی کتاب الحیوِان. :لکھی تھی: '۔ ۔ارسظو کی مادی
روساء۔ کے :ایک ۔گھرات-میں ہوئی تھی سڈ نے,اپٹی محیوب.بیویٰ ےے۔ساتھ انشہائی
مسرت اور آسَودگیق کے دن گذارےۓ۔ جج وہ”وقات پا کی “تو ارسطوِۓ وصیت یىی کہ
پُڑڑۓ؟ گے بعد میزی میت کو۔بھئی امج کے زار رک پہلو میں دفن کیا چائۓے۔ ما یی لحاظ
سے ارسطو قارخالبال تھا ۔ اُس تۓ زرٍکشبر کے صر ف سے اپنا بیٹن قیمتي تب خانہ قائم
:۔کیاجن تمتیں:علوٰم موجن پر بیتریق تاب امک گی تھین- ۵ پر سِکی:ءمر؛ میں
اس ۓ اپبی مشہور دزس گا لیسم کے نام۔ے قائح کی جس میں افلاطوت کی اکیڈمھی کے
- برعکس علوم طبیعی الم الحیات ٤ سیاسیات اور ال ہیات ى تعلم ہر زور دیا جاتا تھا ۔
ارسطو اس کے باغ کی سرسیز روشوں پر ُھلتے ہوۓ دریں 2ن کرت تھا .
کے ۔ساتھ سإتھ سوذبانہ قدم اٹھااے ہوئۓ تور سے ]یں کی باتیں سنتے جاے تھے ۔١ا
لئاس کیفلسفے کو مشانی'.(رواں دواں) کہا گیا ے ۔ ایتھتن کے۔ شہری ارسحلو
کو یونائی تسلیم نہیں کیزئے تھے کیوٹکہ یرہ مقدوئید کا باشندء تھا۔ جسے وہ گنواروں
کی ریاست خیال کرے تھے ۔ ایتھنز کے سیاست دانوں کی ۔ایک :بجعت .اس کی سخت
عالک.تھی کیوٹکہ سکندراعظم۔ ارسطو کی سرہرستی 7 تھا ۔ مشِپور خطیب
5 ر8 7
2 261616 -۔ 1
سۂ
ٴ۶"
دیماستھنیز سکندر اور ارسطو کے غلاف 7 تقریریں کیا کرتا تھا۔ سکندر اعظم کی موت
پر ایٹھلی وا کھلم کھلا'اسكي خخالفت:کڑ ۓٗلگے ۔ وہ 'نقراطکی طرح امن کے خلاف
بھی مقدمۃ داث رکرئا چاڑتے تھے کہ ارنق ایک دق چہڈ 788030 دیٹکٹ گیا ۔
جاۓ ٴوقت آس لے کہا '٭میں اتتھٹیڑ ؤالؤن کو یل سُوقم نہیں“دوں گا کہ ذ ڈومُری ہار
ایک افلسنی کو قعن کزیی/“ ان کے'عد جلد بی ئن موت تچ آطیاں ۔ “ " “
ارسطو نۓ اپيىٴ عفر کا:نیشکر' حص ٹفکر و تعتّق اور تارف و حتف رق ٣
تھا و رت کیں مجن میں ہے'"اکثر ڈست“
برد زمائہ ی نز ہو۔گئبی ۔ انھی فیْق اس کے مکالعات بھی ”تھے جن میں فلسقےے کے
دقایق غام فہم +زبان میں ا نکھہ کے تھے۔ امن ای کٹابول میں“ -سیاسیّات٤“ اخلاقیات ک5
فلقہٴ اول ٤ ابرپان ؛ القیاس “:الخطابت ٭ النغی*اورہ؟کتاب الشعر مشہور ہین ۔ علمیٔ,
< فقیلت اور جوذت قکر'کے باعت آیے معلم اَل؟کہا'جاتا' ےے۔ے. 72 “0
ارسطو اپنے:آستاد کی طرج مثالیت پسند کچ ليككسك مثالیت پسندی افلاطؤن کے
نظطرے:ی یہ نیٹ وآقعیت ہے قریب "تر ے ۔:افلاظون ۓ کئی سوال ایسے بھی آٹھاۓ
تھے جن کا شاق جواب اس سے ان نہیں پڑا تھا مثاای کا جیس اک افلاطؤن کا خیال ہے
امثال کو خقیقی منانا جآۓ ت تو سوال*+ پیدا ہوگا کہ کثنات مادى یاعالم ُسوسات ان مد
اتثال سے" کییئے ۔اکلا؟ اس کے : جؤاب میں قش یہ کہے پر ؾاٴكَكما کر رتا سے کەہنادی
اشیاء امثال کے عکس ہیں اور ایک افسانوی معار تاتے پوامثالیٰ چھاپٴ لگاتا ژہَتا ے
اور بَادِیٴ اشیاء ظہور مین آ جات ہیں ی.جوائبشاعزائہ ہے تحقیقی تھیں ے - مزید براں
افلاطونکہتا ے کہ مثل ."کسی ششے کا جوہر ہوتا نے ۔ یہ :مان لیا جاۓے تو-ارسطو کے
بقل یں-کیسے:تسلم :کیا نجا سکتا ے کہ :کسی شے کا جڑ ہز آسں شے ہے ماورَاءٗ ہُو"
جوہر کو تو اہن شے بن میں ہونا چاہیۓ؟-ارسطو نے ان'ترددأث کو رفع کرے“
_ کی ۔کوشش ی ۔افلاطون .پر نقد 'لکھتے وقت وہ کپتاے کہ مجھے اپنا آسٹاد اورَحق
”و صداقت دونوں“عزیز ہین ۔لیکن۔صذاقت عزیز ما افلاظون گے افکار پرجوجرح
ازسطو ۓ ک. ہے آس- کی تفصیل سے ہلے آض کے یہ“ علل کاو ذپن نشین کر لین
ضزوری ہے ۔ ۔ ارکلو کہتا ے کہ عللَ چاز ہین ۔ اُسکے خیال لق ہز شے اپنے نقصڈ
یا غایدی طزف حزکت :کر زہی ہے' اس کی تشرج کے لے وہ ستگ تراقی کی
مثالٰ- دیتا ہےےہ“۔ ۔ وہ کہتا ے کہ چلا لب ڈو خود سنک تراغ لے جو ملک"
مس کی سل کو حردکت دے رہا کۓے 2 دوسرا سن کاسل بت کا تصور ہے جو
مود سنک 'قراش کی اپنی تمریک کا باعل ہے .ان علت تھائی کہیں کہ ۔ ٹیسرا سب
سنگ مض کی سُل بے جس ہے بت تراشا- جا رہا ۓے“ چوکھا سبب وہ پثیت ے جو“
یہ نل تکمل ہونۓ کے بعد اخٹیارً کرے گی ا ا چاو ھا کو
ج|وے اسنات: میں عردؤد ۔کر ذیا۔ یی مادہ اور فارم یا إ پیٹ پیٹ ۔ یہ ازضطو کے وہ اآساسی
اصول ہیں جن کی مدد ہے وہ ”مام کائنات کی تشرج کرا چاہتا نے ۔ ا گی خعتوضیّات'
پر بح ثکرتۓۓ ہوئےۓ کہپتا ے کہ (م) مادہ اؤر بیئت کو ایک دوسرے ہے چدا ٹچ کا
"٣"مں٣ں
چورحد بب ہے گ - 0 ہرگ 7
کے > تا(,1ی< فت َ ا کک و تک و ہڈ
جاپکتا جیاد وچ نی ارسطوٴ کک پٹ وی ےج ٠ أقلا دن نے مشل کہا ہے
.-- یت آفاق ار مادہ,اختصاصی سے البتہ ہی ہیثت آفای: کسی یں کی سی خاییں شے ہی میں:
موجود وھ ستاتی سے اس سے تاوراء نہیں س کین گر کبوچر بک بثال تصور ضرور۔
موجود ے لیکن اص کبوٹر سے الگ اس کا کوئی وجودا نہیں ہے*۔ انلاطون:پر _امسںرہے
کا سب سے اہم اعِترا یی ہے کے استاد کے اوغا .اشپاء سے ماوراء:ایک مستقل,عالم
میں موخچود ہیں اس لیے امثال: اشیاء کی توجیھ کرنۓ ہے تقاصر ہیں افلاطون نے ایثال
اور اشاء :کے بط یاہم کو واضج نہیں کیا ۔ وہ استاد کے ا خیال پر بھی گرفت کرتا
ہے کے امشال : غیر مرٹی اور ناعسوسرین س ایسا خہیں کے .فی الحقیقت ایک,
گھوڑے اور اس کے مشل میں کچھ بھی فرق نہیں ہے۔ منطقی. لحاظ نۓے بے شک
گھوڑے کی ایک مثالی ہیثت موجود ے لیکن حقیقت میں ید ہی ہیثت گھوڑے ہے علیحدہ, ی۔
نہیں ہے پلک ہمیشہ گھوڑوں, کے وجود 0290/ ژبان ہیں
پیئت یا ل٥٥۷ نتا (منطق میں اتے۔ سی نام دیا جاتا۔ ہے) سے شک حتیقی ہے لیکن
یں کسی نب کی خاص شے (ععلد:3٤7). ٠ہی میں موجود ہو سکتا ے ۔ م اسی طرح؟
ارسطی نے اپنے, استادکی ماورائیت کو رد کبر دیا - ,وہ کپتا ے کب امثال نادیٍ
اشیاء ہے علیحّدہ یا باوراء نہیں ہیں یلکہ خود ان اشیاء کے ربطون میں_ میجود بن۔
بھی آس کے فِلسفے کا اصل اصول رچےا۔“ 5 کے - 5
۱ ارسطو ۓ افلاطون کی مثالیت کو قبولِ کر لیا اور ازلی:اسفال کو اق حقیقی تسلیم
کر لیا ایکن ساتھ پی یہ بھی کہا کہ امثال مادی اشیاء نے علیحدہ کی عالم مثال:
میں موجود نہیں ہیں یلکە انھی می طاري و بہاری بین ۔ وہ کہتا ے کہ مثل اور
مادہ إزل سے موجود ہیں. ۔ کائنات اك و اہدی ۔ . ہر مادی-شے . اپتےٌ بل یا فارع
(ارسطو تےریثٹل ک جگہ فارم کا لفظ استجمال لکیا ے) کی طرفك, خررقت ت کڑ رہی ے۔
و کہتا ے .کب ج ر کت نام سے فارم اور بادے. کے ]ہیں میں مل جانۓے کا ےو باتخ“'
مثإل سے واضج ہوگی- شاہ :بلوط کا رنٹھارسا پیج اکھوا ین کی دھرتی ہت بھوٹتا وے
اور نمُو ونماِ پاتا سے ڈ ایں کی نشدو و بما اپ بح کت کا مقصد دہ نے پک وہ شاہ بلوط
کے درک کی يارم یا ہینت :کی پالے یعنی پودا )۔ درخ بن جاۓے- اسی طزح یس
سک توا مرمروکی سا کو تراشطا ہے تو اس سے قراشتے بے عسلم پک کت
عم
ص4
مک تم ےکک
وہ کون سی هے.ے جو اسے چھے اٹھاۓے اور پتھر ,کو ترآشنے ی ری کپ کر وہی
جے۔ ارنظر جواب : ذیٹا ہے وہ الیم جو اس تب مل یی تحریک کپ کردبی۔ ے اور خودب
سک تا سے بن می روجود ے۔ اہو اد مادیے کے بط ہی ثہ کبرتے ہول فی
وس سی
با ہے کم مادہ ۔یالتوہ ۔طور پر میچود ےر نی وہ قاری_ م کو قبول:۔کرے کہ
حا نچ ر گی سی وی۔
حیت رکھتا ہے۔ فارم قعلیت ےے یی وی کچھ ے: جس تح لو کی سلاحیتہ
بعک ہا
ا مفُوجود "ح سی طبح آارہطوہ ہے باك ارم د پا رٹل اور یادو کا تلق :ایس
ٹہ ازم کی مادے مب الا یر چاسکتا ا ےی بچسا رک ئ2 انظریم
اد سے جح تریح0
کت
۸ٴ“'
کے
ے۔۔ ید تغلق عضویاق ےب ارم اور مادے یا بالقوہ'اور بالفعل؟:کو ایک دوسرے,
ے علیٔجد نہیں کیا جا سکتا۔ ارسطو کپتا نے کہ کوئی ے عدم سے وجود میں نہیں۔
آسکتی بلکہ وہ بالتوہ سے بالقعل: ہو جاتی تے۔ حر کت و .تفیں نام بے بالقؤہ کا بالفجلِ
یا مادے کا فارم کی صورت: اختیاز کرۓ کا ۔ یہ حرکت میکانکی نہیں ے بلکە مقصدیَ
اورغائی ےۓ۔ اس طواح مقعہد یا غایت ہی تٹھیںاو حرکت کا اصل سیمجۂ ے جب کوئی,
ے جرکٹ میں آتی ے یا تقیر پذیر ہوق ہے تو کوئی قوت اسے پیچھے سے نہیں
ڈھکیل ری ہوتی بلکب اس کا مقعمد یا غایت سامنے ۓے اسے. کشٛش ۔کر رہی ہوتی ہے'۔
لہذا بطق لحاظ ے متصد یا غایث آغاز سے پہلے ہوا |؟ ارچہ وقت کے لخاظ سے وہ بعد
میں آاۓ گا۔ ارسطو کہتا ے کہ حقیقت اولول سمام کائنات کا مقصد یا غایت ہے جو
کاثنات کو اپنی ظلر فکشش کر رہی ہے ۔ یہی خیال افلاطوتِ کا بھی سے ۔ ٭ وہ بھی کہتا
ے کہ آفاق عقل ہی وجود مطلق ےے جو "مام کائنات کی اساس ے۔ ارسطو افلاطوث
کے اس انظرے کو قبول نہیں کرتا کہ مقصدِ یا غایت اور فارم ماد سے علیحدہ
موجود دے ۔ بقول سٹیش* ایک عام'آذہی کو یہ بات عجیب سی ۔لگے گی کہ وجودِ
مطلق, جس سے کائناتِ مَتّجلىی ہو ژہی ہے کائنات کے عمّل ارتقاےٰ کے'آخر میں ہو اور
فلسفہ یہ ثابت کرتا چاے کہ یہ غایت یا مقصد خقیقتا آنغاز نے بھلے ہی ہے۔ لیکن یہی
کو مثالیّت کا نب“ سے ازم عیال ؛ لے دراصل افلاطؤنِ اور ارسطو وقت کو غیں جقیِیٔ
زاوز عق ظاہزی د کھاوا مانتے ہیں اس لے وہ ۔کہتے ہیں کب ُوجود سظلق یا غلباء کا
رکائنات ہے تعلق وقٹ کا تعلق تہیں ہو سکتا جب کہ۔اہلعذیہب کا خیال سے کہ :خدا
کائنات سے پہلے موجود تھا اؤر اس ے ابنات کو پیدا کیا۔ :اس ظرح خدا عالم کا
.سبب بنا اور عالم مسبْبِ بنا لیکن مثالیت میں خدا کا تعلق عالم عے وہ نہیں ے جو
ریب سے مسب کا ہوتا ہے یہ مثطقی لحاظ سے وجود سطلق:یا خدا کائناتہ ہے پہلے تھا
,لیکن وقت کے لحاظ ہے وہ پہلے۔نہیں تھا۔ وہ کائنات کی غایت نے اس کی اساس سے
.لیکن ججہاں تک وقت کا تعلق ہے 'کائناتِ کا نہ رکوئیآغاؤ تھا اور نہ کوئی انجام ہوگا۔
ہئیت مطلق٣ کو ارسعلو رۓ خدا کہا ے ۔ :اس کی مثالیت ,کی چوئی پر یہ ہیثت
مطلق ےجو حقیقی اور غیر یادی ہے اور سب ہے نیچے ایسا بادہ ۓٍ جس نے ابھی
تک کوئی ہیت قبول نہیں کی یب دوتوں اصطلاحات منطقی ہیں۔ کیونکہ ارسطو کے
نظرے کی رو سے ہیئت اور بادھ ایک دوسزے نے.,الگ: موجود نہیں ہو _سکتۓ ۔ ہمام
اشیاء کی خرکت بخدا 1 طرف جاری. ے اوز اشیاء اپنے .اپنے۔مقاصذ کے جصؤل کے
ساتھ ساتھ اس کی طرف ۔کھنچتی چلی جا زہی ہیں ۔ خدا>کنل سے علتِ العلل نہے۔
وہ پہلڑ عحرک ّ لیکن خؤد بمیں متتحرک ہے ۔کیو ئک لے ترک :کا غیز متحرک ہونا
٤ 7 کس متا
ںیگ جس ےد جلانی ری ات لن یں اپ
() 1نا 20س ہے '(م)۔لعطعفس. ٢ے غیت
سر وا 'یونائی فلسنے کی تنتیدی تار“ سے نی کئی ہے“
(-) ۳ڑ اہ موطث
٠ و۹؟)
۱ روری ۔ےءے اّعاؤ ۓ غدا کو فکر کا فکر اور پینتو ں کی ہیڈ ہیٹت بھی کہا ے ۔خدا
خود ہی :+وضوع۔ ے افر خودِ ہی معروشضش بھی ے۔ ہے ارىتطو کا بئیادی نظرید یه ٦
کہ مادے کے بغیر ہیٹت موجود نہیں رہ سکتی اور خدا کو اِس ۓ ایک ایسی ہیئعت
کہا ے جو بغیں مادے کے موچود بے سوساج اھ
وہ حقیقت مطلق. ے۔لہذا خدا نئه موجود ے اور ثہ فرذ دراصل ارسطو کا خدا
بھی افلاطونِ کے خدا کے طرح حش ایک سے اطلاِح ے اور غیر شخصی ہے۔
یاد رے کہ متاخرین میں ہیگل یۓۓ جو قلسقہ* ارتقا پیش کیا ے اس میں بھی خدا یا
وجود 00ج اِرتقاء پڈیر
ہو رہا ے۔ 2 ٌ و
ارمنطو کا طبیعی:قلسفہ 7 طؤر پر غائ یا مقصدی ے کیوٹکہ علت غائی ہی
ہر شے کا سیب ے۔ ہر شے اپی خغایت یا تقصد کی طرف حرکت کر رہی ہے
وہ کھتا ے کہ فطرت کے عمل ۔میں ہیْگت:حرکت پر اکساقی ے مادہ رکاوٹ
پیدا کرتا ے۔ تمام عالمی ۔حزکت و تقیر الاصل ہیثت کی کوشش ۓ-مادے کو
منشکل کرت کی۔ ارسطو کی طبیعیات میں حرککت و یو نام ے ہیثت کے مادےۓ
میں نفوذ کریۓ کا۔ وہ رکہتا ے ۔کم حرکت کی ۔چار قسمیں ہیں ۔ پہلی وہ جو کسی
شے کے جوہر کو متاثر کرقی ہے اسے پیدا۔ککزتۓ یا اسے'ختم کرئۓ کا باعث ہوتی سے۔
دومنری کیفیت' کا تیر ے ء تیسٹری کمیت؟ کا تقبر یعبٰی اِس میں زیادت .کرتا یا
گھٹانا۔ چوتھی جگہ کا تبدیل کرئا۔۔ انٴ سب میں آخری زیادہ اہمَ*ے ۔-ارسطو وقت
کو حرکت کا زائیدہ سمجھتا ے اور کپتا ے کہ وقت کے بنیادی عناصر تغیر اور
شعور ہیں۔ پہلا خارجی نيۓے اور دوسرا داحلی ۔ دوسرے پر یعنی شعور پر برگساں تۓے
اپتے نظریہٴ زان کی بنیاد رکھی ہے ۔ ارسطو کے خیال میں جن اور انواع ازلی ہیں ان
کا نہ۔آغاز ے اور ئى انجام ہوگا۔ افراد پیدا ہوے رہتے. پیں مس کر فنا ہوتے رہتے ہیں
لیکن نوع انسان ہمیشہ زندہ رہتی ے ۔ یە خیال ڈارون کے نظریہٴ ارتقا کہ متاق سے
کیونکہ ارسطو کا ارتقا وقت کا عمل نہیں ہے منطثی عمل ہے۔ و 2
ارسطو ی نفسیات میں نفس کے تین درجے ہیں تً ۔نفس کی ابتدائی صورت قوت
ندِوو نما ےے جو ہودوں میں:ہوتی ے ۔ پودوں- سے ایک درجہ اوہر خیوانات ہیں جن
میں قوت کے نمو کے ساتھ احباس بھی بوجود ہۓ جسے نف حسی کا نام دیا ے ۔
سب سے بالاتر اسان ے جس میں .ان دونوں نەفوس :کے علاوہ نفس ناطقہ یا عتل
استدلا ی بھی موجود ہے ۔ ڈہن انیسانی کے قوعل کا ذ کر کرتے ہوئۓ ارعط و کہتا ے
رکیں حواس خمسم سے بالاتر فہم غامہ ے جس کامی کزدل سے ۔ اس میں منٹدشر حسی
مدرکات مل کر تحجرے کی وحدت بناے ہیں اس ہے اوپر قوت متخیلد ے جس سے
کسی ون کا عق ین مراد نہیں ے بلکہ ذہنی پیکر اور تصاویر بنا کا تو 'قوت ہے
بسسسسےمتثہح_ ٤ پت کک ۶ ق ات
ئ ہے نے و 5 7
ا چا تہ
۱( جاە0و ٤ (+) جاناصمە0 : 7
.۰ھ )0
جو سب میں موجود کے ۔. اس کے آگۓ حافظۂا ے۔. ایق اور ساویہ بت
فرق ے کہ اس میں ماضی میں:دیکھی ہو کمی۔شے کی ۔ ۔نقل, بھی شامل ے .اس ل
کے بعد متنڈذکرہ ے جو حافظے سے بلنداتز ۔ ہے اس کی مدد س ایک ڈخص شعوریٰ
تک طوز پر ماضی کی یادوں کو ڈہٹن میں :لا مکتا ھ .ناس سے اوپر:آستدلالی یا نفس اطلقہ٠
ے جس:کے ادو دزجے ہیں۔۔ فزوتر لے ؟کو کی اور بالاتر کو:
عقلِ فعال؟ کا 'قام دی ٠ذر اثسائؾ مییاڈٹھر کرنۓ ہے پہلے فکر > کرۓکی صلاحیت:
موجود ے۔ اس۔ خقی تلاحیت گر کو عقل .منفاتل کبہیں گے۔ امل میں ڈہن ائسانی
اترم ۔مؤم کی ننائند کۓۓ لچینءمیں نقش ,ڈول کز "گی پذِلاحیت تو ے لیکن اس پر کچھ
متقش نہیں کیا گیا ج غققلِ فعال-اسن موم یااعقل تل پز نقش ثبت کرق ہے ۔ ان سمام
_ قوعل کے مجموعے :کو روخ کہا ہے ججولجسم بی ہیئث یا فارم ے۔ روح جسم کے
بغیں موجود نہیں رہ سکتی کہ یں چیم کا قعل نے اس طرح ارسطوے نہ صرف
فیٹا غورس اور افلاطون کے نسخ ارواح ہے۔اننکار کیا ے بلکہ ان کے بقاۓ روح کے
تصوزکی بھی نفی :کی ہے۔ کیونکہ اِس کے حیال می ۔جسم کے خاممے کے ساتھ روح
بھی جو جسم کا فعل ے خم۔ہوجاتی سے ۔ افلاطون :روح کو:'شے؛ سمجھتا تھا اگرچہ!
اس میں۔بادی مانٹا۔تھا ۔ اس کے خیال میں روخ کو جیّم میں داخل بھی "گیا جاسکتا
ے اور نکالا بھی جا سکیا ے۔ گویاہ روح :اور-جعغ کا تعاق میکانی ہے ۔ ارسطؤ
کیپتا ے کہ روح کو جسم سے جدا نہیں کیا چا سکتا .کیوٹکد وہ جسم کی ہیئت '
ے ۔ جسم کے بغیر روح موجود نہیں رہ سکتی ۔ ان کے درمیان ربط و تعلق میکانی ٠
نہیں. ے عضویاق ےے۔ روح' کوائی شے نہیں ے .جو جسم میں داشل بھی ہوق سے
اور پھر باہر بھی نکل-جاآی ۓے۔ روح ججسم ا فعل ے جو جسم کے فنا ہوۓ نت
پچ جاتا ے لیکن ارسطو ۓ,عقلِ فعال کو مستشنول کر ذیا ۓ۔ وہ کہتا رے
-- عقلِ منقعل قانی .ہے لیکن علقلج قعال ین فانی ے ۔ یت
اور اسی کے پاس لوٹ چاق ۓۓء لیکن اس: استثنے*نے بھی بقاۓ روح 'لازم نہیں آتی
کیو کہ عقلِ منفمل اپنے جمام:قویلٰ ۔ منتخیلہ حافظع۔ ٴْعّذ ک5 رہ وغبزہ کے-ناتھٴکوت.
کے ۔وقت نا ہو جاق ہے۔ اسی۔ طح اردطوۓے تتخصی بقا سے انکار کیا کے بد
میں اس کے ایک یر و ابنِ:زشند نے بھی اسی بنا .پڑ تمتخصی یَقا سۓ انکاڑ کیا تھا ۔
جگہ ارسطو نے کہا ے کہ جس×ظرح روح خْنسَمُ کی ہیعت نے اسی .تد
سرک ہیئت ے ۔ ہارے ہاںن 7 کن 'قول کو وحدتِ وجوذ کے اثبات میں
پیشن کیا ہے۔ جب ۴
ٌ ارسطو کے اولیات مین :منطق کی تدوين بھٹی اہم ے ٹک و استدلال کےٗ ابتدآئی
اصول الیاطی فلاسفۃ اور ہی رقلیتز نے وضع کے "تا جن پر تثوفتظائییوں ۓ قابل قدر
انمافے کے :قکری: اصلال کت ازتظو نے ٴپلۓ جدلیات کا ثاع دیا مجاتاتھا ۔ ارمطو"
(ر) ٤ہہآ1 15 ۷٢ ز5 ۔ 9 1016 ۷6ھ -َ
)ھ--۔ : و
ے ان تمام اولوں :کو مرتب کیا اور ان ہر انا کر کر _منطلق قیاسی کی تشکیل_
کی جس کا ال اصول یمر تھا_کہ پنلے.یے معلوم کے ہووۓ کلیّت ,سے نتائج کا استخراجچ,
کیا جاۓ ۔ غلمالخیات میں کہیں کہہیں اس نے اس ستقراسے بھی کام لیا لیکن اس
کا رجحانِ الب قیاسن ک طرفِ ہی۔تھا ۔ جدیدِ دور بک آغاذ پر راس بیکن ینۓ ارسطو
کے قیاس کو رد کر دیا”اور استقرا ہر ژفو د دی "کیو کہ یہ .جدید سائتض کا طرز
تحقیق بھی ٤ے ۔ بیکن ۓ ارسطو پر یہ الزام :كیا کہ وہ حقائق کا براہ راست مطالم کر
کے اپنے تاب فکر اخذ نہیں کرتا بلک پہلے سے قائم .کے ہُو بے ککلیات کے مطابق جقائق
کو 'توڑ سوڑ لیتاے اور انہیں:اپنے نام ناد“ عقلیاق ظام کے مطابق کر لیتاے , پیکن
کی ید تغریض درست ہے لیکن یم کوتاہی اڑسطو ہے خاص:نھیں ہمام بوٹانی فلسفی ذاق
مشاپدے اور تجرے کی بجا کلیات ہی سے ۔استدلال کراے تھے ے ۔ برٹرنڈرسل :بھی بیکن؟
کی طرح ارسطو سے منخت غفا ہیں او رکپتے ہیں ا اب رئیم ہمہ
”ارسطو کا مار نوع اسان کے عظم ترین مصائب میں یوتا ے۔؟ٴ؛ ۔ ١
لارڈرسل کے خیال میں ارسطو کی منطق قیاسی.<ىےْ صدیوں تک سائٹس کی ترق کے
راستے:مسدوذ کر دیے۔ ڈوسری طرفِْ رینان. کہتاے کہ ارسطو۔سائنس کا بای ہے تس
اس. میں۔ شک نہیں کہ ارسطو باقات اور حیوانات. کا'ٴمشاہدۂ کیا۔ کرتا تھا اور اس
پھلو سے اس کا انداز مطالعہ تمقیقی اور سائیٹفک تھا لیکن قیائن ک_ ہمہ گیر مقبولیت
اور۔:اس ی موت, ے قد کے فکری .تنزل کےریاعث اس تحتیقی رچخحانِ کو پٹینے کا موقع
فویل سکاب ۔ سَ۷ ٔ ٔ 2۸4۸ھ باتے پے
سے مایعدالطبیعیاتا کی . طرح سیاسیات ت اخلاقیات اور خەہ'لیات میں بھی۔ ارسطو ے '
جایجا اپنے استاد یٹ اخراف کیا ہے ۔ ۔ وہ افلاطون کے اشتراک ٹیسواں کا خالف ے اور
کیپتا ے کب بچے کی ضجیح مجح برپرش اورقریت کے لے کئے کاہوٹا درا ہچ ڑے
بچے کو ماں باپ بے الگ کر دی جاۓ تو وہ اِن کی شفقتِ ہے حروم ہو جاتا ے“
جس رکاإ اثر اس کے کردار پر اچھا'نہیں ہو سکتا وہ کہتا سے کم پپترین زیامت کو -
ے جو کم و پیش ایک لا کھ ینوس پر مششمل ہویہ۔ یب ریاست:اتنی بڑئہ وکہ کسی
ٹیل پر۔کھڑے ہی وکر اسۓ دیکھا جائے تو سباری کی ساری نگاہوں کر ساہئے آجایے۔
اس ریاست ہیں تین طبقاتم کا ہونا روری ے ۔ طیقہ اعایل :علم و عقل سے آراستہ)
خوشحال یونانی نژاد ہو جیں کے سرد ملکت کا نظم و۔نسق اور دفاع_ کیا جاۓ۔
طبقذ بتوسط* پئر ہندوں اور صنعتِ کازوں پر مشتمنل ہو جو کاروبار اور لین دین کا _.۔
کاروبار کریں ۔ سب سے نھلا ابق غلاموں کا ہو جو بالائی طبقات کی خدمتِ پر ماہور
ہونع۔ ارسطوٴ غلاموں و مملکت کی فااٍج و بہبود کے لے اش ضروری سمجھتا ے
کیوں کہ اس کے خیال میں جپ تٗ میق اع لی کو۔روز مہ کے کاموں سے فراغت
میسر نہ آسکے وو مبلکتِ کے نظ وی کا تام ام احءن طریتے یہ مھی کزسکتاب ارسطو
بإ0 00110 -50160115 106] ۔ 7 ٗ7
٠ ),) رہیےے 1 ٠ 97ص زر تار 6۱"
بے
دں
ٹاجزلؤں کا ذکر حتازثث ۓےکرتا'ۓ کیون' کہ وہ دونروں ک غنت نت ے“بناں
7 - ۰ئ کرک دؤلت کا کی یں : امن ۓ سؤد خورؤن کی سْخْکَ
“مث یىی ے اوز کادتکازوں ۔ کان کنون ار تویٔشیْ ۔پالنے والوق کی تعریک کی ے۔
اس کے َال میں ظرز حکومت یاٴٹو جمہوزی ہونا چاہیے اور یا۔ -حْکومت کی باگ ڈوز
رونا کے ہات دے دیٹا چاہیۓے ب وہ ڈکٹیٹرشپ کا سخت خالف ے اور کہٹا ہے کہ
“جب کبھی کوئی 'ڈکٹیٹر ترسر اقتدار آجاتا ۓ لوگ یا تو-عل٘افق: بن جاے ہیں اور یا
“مُوشامدی نو جاۓ ہیں آ : اظہار را ےکی جرات اور حزیتِ فکر کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
ارسطو نے بچوں کى تعلم و تربیت کو بڑی اہمیت دئ ہے ۔ اض کے جوزہ نصاب تعلم
میں پہلے پان برس کیل کود کے لیے وتف ہیں ۔ پانچ ہے سات برس تک ابتدائی آسان
"تعلم ۔ سات ہے چودہ تک موسیتی اور ورزش وسر دوس کش تک مومیقی ۔ آدب
اور نقاشی کی تعلیم دی جاۓ ۔ اس کہ بعد طالب علم جس شعیہ علم“و ادب ہے غاص
شغف رکھتا ہو اسے اختیار کرئۓ کا جاز ے ۔ ارسطو ے بجا طور پر کہاے کہ
کرداری تعمیر ے بغیں تحصیل علؤم ایک ۓ کار مشغلہ ے۔ جو اشخاضإ. رسی
علوم پڑھ لیتے ہیں لیکن ان کا کردار گھٹیا ہوتا ے وہ علوم و فنون ہے فیض یاب ؛
” نہیں ہٹوسکتے ۔ پختب کردار اور اعلول اخلاق کے حصول کے لیے وہ مناسپب عادات کے ۔
اختیار کرۓ کی ترغیب دیتا ے اور کہتا ۓے کہ بے کے ذہن و فکر'میں شروع بی
ہے اچھی غادتوں کا راسخ کر دینا ضروری سے تاکہ پڑی عمر میں اس کے کردار ٴ
میں حکمی اور شخصیت میں بالیدگی آجاۓ ۔ اس کے عیال میں آدمی دو قسم ہکےہ ہوے
ہیں سید بالطیع اور عبدبالطیع ۔ ۔ سیا۔ بالطبع پیدائشی سرذار ہووۓ ہیں ۔ ان کے ہاتھوں
س زار کرے نا خرورینی یر اک ید اع حومار بندی ۔ بلند نظری ۔
شہامت دَ استقامت سے بہرہ یاب ہوے ہیں ۔ اس بات کا فیصلہ کب کون سُا طالب علم
کس یف ے اور کون سا:عبدیالطبع مکتب میں ہوتا ے ۔ ارشطو مرد کو آقا اوز
عورت کو :کی سجھتا ے خوزت او اف نی ید ےو مد کی خلمت پر
کمربستد رے ۔اوہ کہتا ہے کہ عورت میں قوتِ آزادی نہیں وق اور !ِس میں
شخصیت اور کردار کا فقدانہوتا ے ۔ کپتا .ہے ؟
”جب قدر تکس یکو مرد بناۓ میں نا کام ہوقی ے تو ےعورت بنا دیتى ے :۔)؛
ارسطو کی تعلیم میں سیاسیات اور اخلاقیات کو ایک دوسرےۓ سے جدا نہیں کیا
جاسکتا ۔ وہ ریاست کو فرد پر فوقیت دیتا ے او رکہپتا ۓے کہ فرد کا مفادبھر صورت
جاعت یا ریاست کے مفاد. کے مت رکهتا چاہےٗ اور اس کی تمام تز کوششنیں ریاست .
کی ہبود و فلاح کے ای وقف ہوئی چاہییں ۔ اسی بنا پر ہے ڈکٹیٹرون سے نفرت بے
. جو فوجی ظاقت کے بل بوۓ پر ریاست کو ذلق ماد کی پرورش کا آلہ کار بتالیت ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ ژندگی اور:عمران: کی بّمام آسائشوا وں. میں تمام افراِ کو برابر' کاشریک :
کرنا ضرورغ ے اس کے بغیر کوئی, معاشرہ صحیح معتوں میں منظم صورتِ اغتیاں
نہیں کر سکٹاٗ جو معاارہ عدل' واتصاف کی بنا پرٴقاٹم 97 ٭ عاغ افراد
ہے
٠>
مجر
۱ " : ۱ .ش٣
کے اخلاق خود یخود مندھر جائیں گرم ۔ دوسرئ طرف: جں بعائشرنے میں ئل انصاق
ہگ اس میں پند و نصیحت اور وعظ و إرشاد ہے افراد کے إمجلاق نو سدھار ۓ کی
تم۴م کوششیں بیکار ثابت ہوں گی ۔ ارٍسطو اہنے استاد: سے زیادہ حقیقت پسند تھا اس.لیے
آُس نے کسی مثالی. رباست کا تصور ِش نہیں کیا بلکہ قابلِ عمل مشورے دینے پر
ا:کتفا کیا سے اسے انسانوں کی کزوریوں کا بخوبی احساس ہے ۔ وہ کپتا ہے کی
آدبی عقلِ استدلال کیرۓے والا حیوأن ے معتول ائمان۔ : نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ
: افلطلوث الم ِحواس کو حتارت کی نکاہ ہے دیکھتا تھا اور نے غیر حتیقی کہتا تھا ۔
اس کے بر عکس ارسطو عالم مادی. کو حق حقیقی سمجھتا ے اس لیے انہإنی معاشرے کی
بہیؤد کے لیے اسے اصول وضع کرتا ہے جن پر عمل پھی کیا چاسکے. ۔وہ کپتا ے
کہ انسان کی تمام: کوششیں حصول سمرت کے لیے وقف ہیں لیکن یہ مسرت حظ نفسانی
سے تختلف ہے ۔ اس ہے ارسطو کا مطلب دہ ڈہنی سکون-اور آسودگ ہے جو ٹیگی,کی َ
زندگی بس کرتے سے حاصل ہوٹی ہے ۔ ۔ اس ي مثال دیتے ہوۓ وہ کہتا ے-۔ کہ۔ جس
طرح ایک صحت بند توائا نوجوان کے رخساروں ہن از خود گلاب کے پھول جیسی
سرخی۔آجات : ہے اسی طرح .نیک آدبی کا دل از حُود مسرت ہیۓ مالا مال ہوجاتا ے ۔
اس سرت کے حصول کے لے ضروری ے کہ پر جوش شہوات وجذیات کو عقل و خرد
کے تاع رکھا جاۓ ۔ جس شخص کے جڈبات عقل وٗحُرد کی گرفتٴہے آزاد ہو جاۓ
ہیں وہ حظ تقسانی ہۓ تو آشٹا ہو سکتا ے لیکن سبچی مہرت ہے ہمیشہ حروم رہتا ہے۔
ارسطوٴ کو جالیات کا بای بھی کہا گیا ے ۔ اس نے اس موضوع پر ایک تاب
لکھیٔ تھی جو غَائم ہوگی, ہ بوظیقا کے چتد َاب ذست برد زمائہ سے محفوظ ہم تک
پہنچے ہیں ۔ اس کتاب میں اس“ نے شیل کاری ہے تفصیلی بث کی ہے 7
استاد کی طرح, رآرٹ اور شاعری کو حقارت ک. ثگاہ سے نہیں دیکھتا ۔ وہ کپتا ے کہ
آرٹ ے شک ا کات زین ے لیکن چیسا کہ افلاطون نے کہا تھا ثقالٰی کی ثثا ی
نہیں ہے بلک اصل کی نقا لی ے۔ اثقالی سے آس کا مضہوم یہ نہیں نے کہ اص ل کی””
ہو بہو ثقا یل ک : جاۓے کیوٹکہ وہ کہتا ے کہ آرٹ میں ۔جدت .اور ندرت کا عنصر
لازم ٔے ۔ ارسطو کے خخیال میں ایک مُصور کسی شے کے محسوس و مرئی پھلوؤں ک.
نقالی نہیں کرتا بلک آس مثِل یا ہی بیشت۔یا فارم ک ثقالی کرتا ے جو اس شے کا اصل
۔جوبر ے۔ ۔ آرٹ فظرت میں انھی امثال کی تلاش ٣ کرتا ے اور اشیاء میں جو آفاق
اور از عنصر ہوتا بے آِس کی نقا ی کرتا چر ۔ ایک عامی کسی شے میں صرف ا
کے مقصوص پھلوؤب ہی کو دیکھتاٴے جب کہ فن کار اس شے کا جوپّر یا ازلی پہلو-"
دیکو کر آسے فن ک, گرفتر میں لے لیتا ے ۔ ہر شے مادے اور ہیئت پر مشتمل ۓ ۔
فن کار ہیئت ہیثت ہے اعتنا کرتا ے.مادے کو در خورِ توچہ نہیں سمجھتإ ۔ ارسطو تمثیل
کو المیہ اور فرحیہ میں تقسم کرتا رے ۔ العيہ کے ہیرد: کے لیے شروری ے کہ وہ
_ کوئی عتِلیم شخصیت ہو اس ہے قطع نظر, کہ وہ اچھا ے یا,برا ے۔ سی عظم
رآدمی کی عذابِ اک ذہنی کشمکش .اور قلبی اذیتِ ہی المیہ کے بھر پور تا گر کا باعث
۵ٰ۳
سے
ہو سکتی ے ۔ المید رحم اورخوف کے جذبا تِکو ابھار کر اظرین کی روح کو
پاک کرتا نۓے کیّوں رکہ ان چذبات کے جو مارئنۓ کے بعد سکون اور ط|ئیت کی
جو کیفیت حسوس کی جاتی ے آسے تزکیە نفس سے تعبیں کیا جاہکتا ے ب
آخر میں ارسطو کے مثالی ائصاِن کے تصور کا ڈکر ضروریٴے کہ اس میں خود
۔ارسطو کے ذاتی کردار و شخصیت کی وو و کا کی ےا ۔ ول ڈیورنٹ' کے
الفاظ میں ج : ۔ تار ےکا یت ۰
”وہ پر ایک کی خدمت کرتا۔ے لیکن کسی ہے خلمت لینا ٹیگۃ و عارسمجھتا۔
”ے رکیؤں کہ ااحسان کرنا برترزی ی علامت ے اور نون اِحسان ہونا
٠<. ., کہتری کا نشان ہے ۔ وہ اپنے آپ,: کو خواہ خواہ ج وکھُم میں تہیں ڈالتا
کیوں کہ وہ دئیا کی بہت کم چیڑوں کو در خور توجہ سمجھتا ے لیکن
۲ مناسب موقع پر جان دیتے ہے بھی گریزتھیں کرتا کیوں کہ:وہ جانتا ے
_ کہ بعض حالات میں زندہ رہنا باعت ننگ ہے ۔ وہ عوام کے ساتنے اپنے آپ
کی مود و ممائش نہیں _کرتا.اور اپتی۔پسند اور۔نا.پہند کا بر ملا اظپار کرتا
سے دورفاق ٣ تا ے اور کسی شخص5۔ می و۔ لحاظ آسے حق گوئی
ے باز نہیں رکھ سکتا۔ ا وہ کسی ی مبالقہآمیز تعریف نیں کوتا کیوں کہ
اس کی گا میں بھت۔ہی۔ کہم چیزوں :کو عظمٴسمّها جا سکتا رے ۔ وہ
دوستوں کے سوا کسی کی ٹالیفِ قلب: کا ۔قائل نہیں: ہوتا۔ کیؤوں کہ صرف
۔ غلام ہی: دوسرون کو خوش کرنے۔میں لگے رہتے۔ہیں ۔ وہ کیتہٴ پرور نہیں
ہوتا اور قصور معاف کر دیٹا ے ۔۔وہ یاتونی نہیں ہوتا اور لوگوں کی مدح و
- حم مہہ ےٰے تیاز پوتا ےے۔ ۔ وہ دشمٹو 2 کے غیبتِ نہیں کرقا بلکە انہیں سب
کچھ منہہ پر کہ دیتا رے ۔ اس کی چال باوقار “ آواز گہری از گفتگو نی تلی
. ۔ ہوق ےد وہ جلد باڑی سے کام نہیں لیتا کیوں کہ کسی شۓ کو وقیع نہیں
سجھتا۔ وہ دوڑ دھوپ اور تگ و دو سے گریز کرتا ے کیوں' کہ وہ
. کسی بات کو چنداں, اہمیت نہیں دیٹا۔ چیخ چیخ کر باتیں کرنا اور جلاد جلد
_قدم اٹھانا اندروی خلفشارل کی علامتیں ہیں ۔ وہ حوّادث زمانہ کو عّل اور
وقار سۓ برداشت ت کرتا ے ۔ وہ خود اپنا بہترین دوست' ہوتا ے اور گوشئہ .
تنہائی کو پسند کرتا ےچب کہ مرد گار خود پا ترین شئ ے ۱
: اور ت۔ہائی ہے خوف کھاتا ے۔ ٢ ۔َ
ہے لے
قلسفہٴ ارسطو کے اہم پہلوؤب ک تالخیض درج وا ۔ِ
_.۰۔() ارسطو اپنے استاد:افلاِطِون کی طرح کٹ ےچ کیوں کہ و بھی انان
ٍ8 , کو ازلی واہدی سمجھتا ے۔ 5 َُ یی
)۲( ارسطو کہ خیال میں اثال مادی .پ0 ہلکہ
سسشسشسىت ٠ و ۲ 2
_(ر) نلنے کی کہا ٰ کے ٦ 5 :
۵ھ -
ہم 8
ہ
خخودان كے بطون میں موجود ہف ۔' ا قی کرت
ے
پچ
۱ ر ےا ”” جب" جک ما یں نت و کر ا
َ (م) إفاطون ۔عالمر ندواس کو نیو عقیقی کہتا تھا اور ۔آسد 7 2020100
5 بث تھا۔ ارسط و عالمزظڈزاس یا پا الم ہ مادی کو حة حقیقی عالم:ٍ مات ہف وت ای
5 ہر شے مادے اور ہیثت یا فارم پر مشتمل ے۔ مادے اور پیئت. کا :تعلق
_ عضویاق ے یعلیْ وہ ایک دوشرزے کے بغیر نوجود'نہیں ہو سکنے ۔
(ہ) زماِن غیر حقیقی ے۔ کائنات:ازل ہے موجود ے اوز ابد تک رے گی۔
(ے) الاو سخ ارواج: .اور بتاۓ روح کا منکر ے ۔ اس کے خیال میں جسم, کی
وت کے سًَاتھ روح بھی فنا ہو جاق ہے۔ لی
ل( خدا کائنات کا خالق بھی آہ, وم فرد یا شخنیت ے وہ عفر مادی بت
ے مقناطیسی کشنش ہے جمن ک:طرف کائنات کھنچی چلی جا رہی ہے ۔
(۹) انسان کی ممام. آتگ و دو۔حمبوآی.بسرت کے لت کے جو صرف ٹیکی اور فکر
و تدبرا نے میسر آ سک یچ ے ٌ 0 35 س
.زی فرد کے مفادِ پر جاعت کابفاد۔ مقدم ے۔ فرد جاعت کے لیے ے ۔ آدمی َ ”
انسان کہلاے کا مشتحق جبھی ہو ہکتا سے کن وہ جاعت کے ساتھ
واہستہ ہو“ کسی ریاست کا شہری ہو
.(رر) آرٹ نقاظِ سے۔ ٴقن کا ر کسی شے کی مشل یا ہیشت یا:دوابی پالو کو اسلوب
کی گرقت میں لا کر غظم آرٹ کی تخلیق.کرتا ے۔ -.-۔
)۱١( کودار کی پختگی کے بغیںیعلمم ےج :ار ہے اچھی. می لا کرنۓ سے
۔ کرداز محکم.ہوقا نے 5 ۰٠ زم
جیسا کە مادیت پسندی کے ضن میں ذ کر ہو چکا ے ارسطو ي وفات کے بعد ہہ
فلسقہ* یونان تنزل پذیر ہو گیا ۔ رومۃ الکبریل کے عہد سطوت میں بھی افلاطون اور
ارسطو ی درس گاہوں میں تعلمٌ و تدریسٰ کا غلسلہ جاری رہا'لیکن جودت فکر کا خاممہ:
ہوچکا تھا۔ قدماء کی کتابوں پر خواشی لکھنا طلبہ کامحبوب مشغلہ قرار پایا۔ سکندریں
میں فلاطینوس ہۓ افلاطون: کے فلسقی کے عقلیاق پہلو سس صرف۔نظز کر کے اس کے
_اشراق اور باطنیت ک تجدید ک اور نو اشراقیت کی بتیاد رکھی : روئی شنہنشاہوں ۓ
مساق نترب نول کر وا تو ایتھنز کی دزض گاپیں بند کر دی گئیں اور فلاَفه کو جلا
وطن کر دیا: گیا ۔ وحشی اقوام جۓ سلطنتِ روس کا خامة کیا تو یورپ میں تاریکب ””'
صدیوں کا آغاز ہوا د۔یورپ کے اس عیدہ جاہلیت میں:مسلانوںاۓ یوثانی لاَْفہ ی کچھ
کتابیں عربی میں منتفل کیں ۔ آوزٴفلكنقہ* یوآن کا اخیاء کیا۔ ان رشد ارسطو کا بڑا
کیدائی. تھا اس ۓ ارنطِوک: کتابوں پر سین,حاضل خوآشی لکھےی جن کے 'ترجمے
اب سینا کی کتابٰوں کے ساتھ مغرب. میں شائع ہو گئۓے. اور ابل رو فکرو نظر
تہ رو ور من سر تو ول وچ کی ۔ مذھبی یو پیٹواؤں ہے ازسطو اور
٠ و
.۔افلطون کے۔افکار نے اپنے غقایڈ ی:توثیق لام لینا شروع کیا۔ افلاطون خاص :طور
پر عیسائیوں میں بُڑا:فقبول ہوا آگسٹائن ۓ آۓ ”ایغیں صلیب کاسیحا“ کہا ے ۔
راس کا یہ نظرید:عیساٹ مذاہب کے عین مطابق .تھا کہ۔عالم ماوراء عے۔بالاتڑ ایک حقیقی
عالم بھی ے'۔ مزید پرآں'افلاطون کے حیات بعد مات ۔ جڑا سڑا اؤازہہشت دوزخ کے
۔۔افکاز بھی غیسائی ٴمذہب کے موافقی" تھے ۔ یں حالات تھے جب مغربَ میں اخیاء الغلوم
:کی تحریک برپا ہوئی ۔ اور سائنس اور فلسفہ 3وئوں:مڈہب؛: اور باظثیت کے تصرف سے آزاد
_ تو گئۓے۔ کوپرٹیکس گلیلیو؛ کپلر اور نیوٹن لے کائنات٠ کےٴ تعلق انسان کا
۔نقطدٴ نظر یکسر بذڈل دیا۔ پیثت اور طبٔیعیات. کے نئے نظریات کی روٹنی میں
فلسفے کو نٹ سراے سے مر تب کرتے کی ضرورت: حسوس ہوئی ۔ یں فرش بیکن ۔
ہابس اور ڈیکارٹ ہۓ انجام دیا۔ - جیسا کہ: مادیٰت پسندی کے ضمن میں ذ کر آ چکا
ہے۔ ا ہم بے لکھا کہ ڈیکارٹ نے ننادیّت اور مثالیت دونوں روایات متفرع ہوق ہیں۔ :
اس باب میں ہم مثالیت پر آس قلمقے کے اثرات 'کا ذ کر کریں گے ۔ :
ڈیکارٹ ٣۔ مارچ وم۶ کو۔:تورین:(فرائس) کے ایک معروف و متمول
گھراۓ میں پیدا ہوا اس کی غیر معمولى.ذہائت کے آثار ل کین ہی سے ظاہر ہوے
لگے۔ اور گھر کے لوگ آئے. ”'نتھآ فلعفی؟““ کہہ کر پکارۓ لگے کیوں کہ وہ ہر
وقت سوالات پوچھتا رہتا تھا۔ اعليی تعلم کی تحصنیل کے لے آ سے لاقلش: کے یسوعی
مدریے میں۔ بھیجا گیا جہاں.آسی نے ریاضی ۔ طبیعات اور الآہیات کی تکمیل کی سے
ریاضی مین خاص شغف تھا ۔ بعد میں آس: نے تملیلی پندسۂ ایچاد کیاا ۔ مدریۓے سے فارغ
ہوکر کچ عزصے تک وہ۔پیرس میں دوسرے نوجوانوں کیطرح داد عشرت دیتا رہا اور _
پھر مطالعے اور ػفکر کے. لیے گوشٹہ گیر ہو گیا ۔ کُچھ مدت فوجی خامات بھی انجام
دیں ۔ فوجی افسر یہ دیکھ کر حیران ہوا :کر تے کہ ڈیکارٹ ہر وقت غورو فکر میں
_ غرق رہتا تھا۔ اور دوسرے فوجیؤں کے سشباغل میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ فوجی
خدمت ہے سبکدوشٗ ہو :کر اس نے پالینڈ'میں سکونت اختیار کی ۔ وہ آسودم حال تھا :
امن إ لیے آ سے مطالعہٴ فلسقہ اور فکر و تدبر کے مواقع پاسائی میسر آے رہے۔ آس نے
اپنے فلسفے کو مربوط۔صورت میں اپٔی تصائیف مر افنات 4 اور ”اصول فلسقہ“ ہیں
پیش کیا ے۔ معاصرین اس کی جودت فکر کے قائل تھے۔ نے لاح کا سی سے
یداح وہ خود تھا اور کسی کو نشاطر میں لاتا نہیں تھا۔۔ ۰
َ ڈیکاِٹ کا فلبقہ تشکک ہۓ شروخ ہوا وہ اپنے فلسقے کو محکم ؛ یقیئی بتیاووں
سم پر استوار کرنے کا تھائیتھا ٴ اس لیے اَبؾِداه میں: اس نے ہر چیڑ. کو ٹک و شیہ کی
گے دکیا اق :تک کر تسم نے' ک.اصطلاح میں ”'کارٹسي شک''٘' کر عو
شک وشببہ کے اس راس وہ۔ اس نتیجے ہز پہنچا کہ ”ہیں سوچتارہول اس لیے میں
ہؤں گا آٌُس .- تیال میں اس نے موا حاتل ہوتي چے جو اتی اف واج ہو
ع
(م) غا0ط حدندہءت) ۔ غ ا مج بن
ےھ
جتنا کین تا اپنا وجود یقینی ٴے ۔۔آمن کا :وجود پلا ش,ہ رے آور اس. وجود'کاٴجوہر
ذہن ے جو سوچتا اے اور شک ک رتا ے۔ شک کرا اور سوچنا بذات جو اس کے -
اپنے وجوڈ کی حتیقت حقیقت پر دلالت ک رتا ے اس طرح اس کی اپنی ذات اور اپئے اثکار یقینی
یں جن سے ممام عالم خارجی کا:وجود. استتباط کیا'جا سکتا سے ۔. اس نظر ےکی رو سے
ذن مادے سے زیادہ یقینی ے اور ”'میرا ذہن دوسروں کے اذہانِ سے زیادہ یتقمیي ے؟“ ۔۔۔
اض طرح ڈیکارٹ کے فلمفے میں,موضیوعیت کا عنصر پیدا ہو گیا اور مادے. کے متعلق
یہ تقیدہ پیدا ہتوا کہ و٭ ضرف ایسی شے ہے جس کے وجود کا انحصار ذہن پر ے:۔ بجی
نقطٴ نظر ثالیت: پیندی کا بھی ے ۔ '*میں سوچتاہوں ۔اس لیے میں ہوں““ کی بنیاد
پر ڈیکارٹ نے تمام علم کی عارتتععیں کرنۓ کی سکوشش بی ۔ پہل نتیجہ آس نے اخذ
:کیا کہ روح جسم۔ ہے کلی طور ہر آزاد ے :اور جسم کی بہ نسبت اسۓ جاٹنا زیادہ
سہل, ے اس لیے جسم کے نابود ہوۓ کے بعد بھی روح باق رے گی ۔ دوسرا۔نتیجں ۔-
یە ے کہ جن اشیاء کو ہارا ذہن واضخ طور پر سمجھتا ے وہ صداقت کی حامل ہوق
ہیں'د.فکز کو ڈے کارٹ ۓے ونیع مفہوم میں استعال کیا ے ۔ وہ بکیہتاد نے ”جو
شے سوچتی ہے وم ے' جو شکتا کہرتی سے . سممجهتّؾ سے ارادہ کرق ہے خیال کرٹی
ے:احساس رکھتی ہے چوتکہ م وچٹا ہنی ذہن کا جوہر ے اس لیے ذہن ہمیشہ سوچتا
ےے۔خواہ وہ حالتِ خواب میں ہو۔ خازجی 'اشیاء کا علم ضروری ے کہ ہن کے وسیلے
سے.ہو ئہ کہ حسیات کے واسطے. ے۔ یں نتیجں کہ فکر نہ کہ۔خارجی اشیاء یقیتی طور
پر موجود ے یوٹانی مثالیت پبندی ہے یاد کار ےت سار اس
ڈیکارٹ کے نظام فکرکی بینیاد مشاپدۂ۔ نف پر سے جیں کی ہاتھ دید لہ
شروع ہوا۔ اس ےۓ کہا کہ ”میں سوچتا ہوں ؛؛ دئیا کی سب۔ سے ٹھوس حقیقت
ے۔ اس طرح, ڈیکارٹ کے پہاتھ جدید فلسقے میں موضوعیت کا وہ رججان پیذا ہوا جس
ے بعد کے مثالیاتی نظریات پراسٹ اثرات یت .کے اسی.مون:ؤعیت کے باعث ہکالاسیکی
جرمن: مثالیت پسندوں ۓ ید دعویلٰ کیا تھا کہ ذہن مادے۔.کا یا موضوع معروض کا“
خالق ے۔ اس کی انتھائی صورت یہ ے. کہ ہر شخص کا ڈہن سممام دوسرے اشخاص
کے اذہٰان کا خالقٌ بھی ے ۔ اصطلاح میں اے (صودئەمناہ5) کہتے ہں۔ ۱
گائٹریڈ ولہلم لائب نٹنز اس دور کا دوسرا مشہور مثالیت پسند ے جو ؛ جون
۹ وع کو لسہژگ (جرمنی) میں ایک پروفیسر کے ہاں پیدا ہوا ۔ وہ بچپن میں باپ کے
سایہٴ“ عاطفت سے محروم ہوگیا ۔ بڑے ہو کر اس نے اپنے باپ کا وسیٔع کتب خائہ
کھنگال ڈالا اور بتمام وجب علوم کا گہرا مطالعہ کیا - قائون کا ابتحان دے کے-
. ایک رئیس کے یہًاں ملازم ہو گیا ۔ لائب نٹنز کو بھی ڈیکارٹ کی طرج زیاضیات میں
گہرا شعف تھا چنانیں بعد میں اس نۓ اس مض ون میں ایجادات بھی کیں ۔ اس نے
٭ ڈیکرٹ اور پابس کی کتابوں کا خاص ذوق و اِنہاک سے مطالعہہ کیا 'تھا ۔ ہابس سے تو
)١( غطعصہط] ۔
۵"ٔ۸
اس کی غط و کتابت بھی رہی ۔ پائینڈ میں اض کی ملاقات,وجوذی فلسٹی سپیٹوزا سے
بھی ہو تھی'۔ ۔ ہےہ وع میں وہ ہیبنوور کے والی کا مشیر اور اس کے کتب خانے
کا مہتمم امقرو ہو گیا - اس کی ساری زندگ مطالعہ کتب میں گزری ۔ ۱۹ع میں
ایک خظ میں لکھتا ے ۔ 'مجھے بیس بزس کے,فکر و تدہر کہ بعد اب شرح صدر ہوا
تَ کےا اس لے مذہبا اور لف ے کو ایب دوسرے کے قریب لانۓے کی کوششِ کی ہے
لیکن مروجىِ مذہب میں چنداں دلچسبی کا اظہار نہیں کرتا تھا ۔ اس بے سإري عمر
گرجا کارخ نہیں کیا اس لے عوام سے زندیق کہتے تھے ۔ و علم کلام ا ذکر نایتِ
حقارت ہے :کرتاً ےد لائ نٹنزعمر بھر ٹُرد رہا ۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اس بات
کافیصاہ کرنۓ کے لئے کہ کسی شخص کو شادی کرٹ چہے یا نہیں پوریٔ عمر
درکار ے ۔ وہ لکھتا ے کہ جوانی کے زمائۓ میں اسم ایک لڑی ہے عبت ہو گی اور
٠ "ایک دن اس ٌے اپنی حبوبہ ہے درخواست کی کہ وہ ُء اس سے شادی کرلے ڈالڑک
بولی سوچ :کر بتاؤ نی" ۔ لائب نز کہتا ے خوش قستی ہے۔جھے بھی سوچنے کا
موٹع مل گیا اوز میں شادی ہے بالِ پال بچ گیا لائب نٹنز بھی کلیلیو کی طرح کہا
. کرتاٴ تھا کہ ایک اچھا فَلسفی ایک اچھا شوبر نہیں بن سکتا ۔ پیبنوور کہ دربار میں
اُس کے تل و اساگ کے. افساۓ مشہور تھۓ : ایک دفعہ دربارٴک ایک رئیس ژاڈی
کی شادی“ ہو ۔ سب لوکوں ۓ إسے پیش قیمت تحائفبٍ دپے ۔ لائب نٹنز ۓ تائف
ی جگە چند نصاع لکھ بھیجۓ جن میں کہتا ے کہ ''ابَ جب کہ مھیں شوہر مل
گیا ے ہر روڑ نایا کرتا ہے ٤
, لائٹ اٹ نٹنز کے نظرے کو ہمد ری ١ کثرت: پسندی کہا و
استدلال ید ے کا عو و سس کی ے وہ لازما اجزا پر مشتەل ہوگق - جزڑو واحد
کو پھیلایا نہیں جا ہکتا ۔ جو پھیلا ہوا نہ ہو وہ مادہ ہیں ہو سکتا لہذا اشیاء کے
اجزاۓ ترکیپی مإدی نہیں ہیں چونک مادی نہیں ہیں اس لے لا حالہ ذہنی ہوں کے ۔
, ان اجڑاۓ ت رکیبی کو اس تے سوثاڈ کا نام دیا ے جو اس کے خیالِ ہیں ووحانی اور
_نفسی قوتیں ہیں ہر سواڈ میں ادراک کی قوت موجود ہوق ے۔ یام عالم ,اٹھی سوناڈ
سے سکب ہے اور ان میں. سے ہر ایک روحانی اکائی ے: جو ارتقاء پذیر ے: اور جس
'" میں کوٹی. رخدد یا دریچہ نہیں ۓے کہ روز ازلِ سے سر'جمہر دے۔ کوئی شے اس کے
اندر خارج ہے داخل نہیں ہو سکتی ۔ موناڈ میں ماضی حفوظ رہتا ے اور اس میں
مستقبل کے ممکنات بھی موجود ہوتے ہیں ۔ - اُس کے خیال میں جس چیڑ کو ہم مادہ
ہس کہ ہیں وہ انھی تفسیاق ماکز یا موٹاڈ ہے کب بے چو تعداد میں سے شمار ہیں ۔
.ہر موناڈ آزاد اورمستقل بالذات ہوتا ے ان کے مابین سبب و۔مسبب کیا رشتد قائم نہیں
ہو سکتا ۔ مواڈ روحانی۔الاصل ہیں؟ 7 غیر فانی ہیں پلکڑی کی پیا لے کو
روح انسانی تک ہر شے انھی سے بنی ہے ا
)ا( 2 ءنط ۷د ظ-ہ7 ٍ .۔
ا
خ اور ذافقح موناد نے سکب ہے ۔ دا صاف ترین سناڈ سے جو روج انسانی کی طرح
تر ےت پرمو نا“ قعال ہے موناڈ کے فہل
اشیاء ہیں اُن ےرک صفت لوانائی ہے نوانئی ہے اس کا مطلب حر کت یا
حرکت کو جاری رکھتے کا رجحان: دی“ کائنات توااٹی کی أ" انھی آ کائیوں سے بنی ے 5
جشہتؾٴة سوناڈ کا نام دیتا نے ۔ !نہیں تلفر نہیں کیا جا سکتا ۔ جادأت سے لے کر
خدا تک توانائ یہ آائیاں مرقب ومسلسل شُکلِ میں موجود ہیں ۔ ۔ لائب:نٹز کی آس
ہمه روحیت کے مطارتی زمان مان کا الم حواس سے مدرک ہے حقیقی ے کی
افلاطون کی مثالیت میں یہ غیر حقیقی ے ۔ و
لائي ئٹز ۓ احدیت کو بھی رد کر دیا ے اور کثترت پسندی کا نظریه پیش
کیا تق جس میں ے شار حقائق ہیں ۔ اس کے قلسقے کو مثالیت اس لیے کہا جاتا
ے کہ ایک تو اس کی رو ہے کائنات اصلا روحاف یا ذہنی ے اور دوسرے یہ کہ
لائپ نٹز کائنات کو ایک منطقی ریاضیاق نظام سمجھتا ے چس صرف عقلِ استدلالی
ہی سۓ جانا جاتا ے ۔ بعد کے جرمن مثالیت پسندوں نۓ اس کے افکار سے استفادہ کیا
کابر قلاسفں ے لائ ثب نٹزک جودتِ فکر اور عظمت کا اعتراف کیا ۔ اوسوالڈ سپنگلر!
کے خیال میں وہ جدید فلسے کا عظیم ترین ذبن و دماغ سے ۔ ہبارے ماۓ کے قلاسقه
-میں چیمز وارڈ ۔ وہائٹ ہیڈ۔ ڈریک وغیرہ اس کی ہہہ روٗحیت ہے. فیض یاب ہوۓ
ہیں۔ لارڈ برٹرنڈرسل؟ اس کے فلسفے پر تبصرہ کرتے ہوۓ لکھتے ہیں
8 لائپی کے 0ت و جسم کی دوئٹی اور سپیٹوزا ى أحلیت دونوں
9 کو ودک یا او ما کر و و ا کا ا سے
موناڈ کا بح اخ نے کے لےآئیند کی حیثیت رکھتا ے ۔ انسان
کی روح واحد سوناڈ ہے جب کہ اس کا جسم ہے شیار ورد ےق کت خرن
انمیں سے ہر ایک کسی ئە ئى کسی حد تک ذہنی ے ۔۔لیکن اتا صاف اور
سّزہ نہیں چتن کہ زو ح کا ذوناڈ ۔: گھٹیا درجے کے موناڈ میں کائنات کا عکسں ٴ
اتنا ضصاف تہیں پڑتا جتنا کہ اعلبی موناڈ۔ میں پڑتا ے ۔ ماد ہکبٔی موناڈ پر
شتمل ے اور اگر ہم صا طور سے دیکھ سکیق تو معلوم ہوگا کہ مادے
کا کوئی ۔وجود ہی: نہیں سے ۔ لاب نثو کا یہ اجتہاد جدیید طبیعیات سے
قریب :ترین سے ۔ لائب نٹز ے تٹیوٹن کے بر عکس کہا کہ زمان و نکالے
ا غلائق پر:مشتمل ہیں۔ .اس نظرے کا اثبات ائن سٹائن کے نظریہٴ اغافیت ہے
ہو چا ےا ٠
سترغویں صدی میں سائنس کی اشاعت نۓ سوچتے کے قلیم انذاز یڈل دے تھے ۔
۔ اٹھارھویںِصدی میں ہر کہیں عقلیت کا ذور دورہ ہو گیالٰ ہم 'مادیّت پسندی کے
۲
(ر) چوہ٭ دح ژہ غماد0ط- ر(ك) رمھومملضاط ےہ عُحنااتاہ'ص۸ ۔
باب میں تچریکپ خرد افزوزی کا۔ذ کر کرچکے ہیں -کم تع فراتیں میں والٹیر اور
دیدرو وغیر نے وقل دخید کو مژمل راہ بٹایا اور انسائی معائیرے کو ہائنس کے
انکشافات یق روشنی ہیں نے سرے پیم رتعوس میں کرک خواب دیکھا تھإ پرفرائس
_ ان تاسونیوں کو عقل پر 'اعتاد کال تھایادر ای پاپ کا یقین تھا کیہ انیبان سافنسی :
بزکات ہے رہ یاب ہو کر ہی ایک یتال انسانی معاشرم راغ کر سکتا ے۔ اِٹھارھود
مدی کی رلج عبر پا رد افروڑیک طرِف - افاہیر: کر ےر ہوےاہم. پولبا کا ذ
تذرے لعل سے کریں ٌ مك دوسرے قاموسیوں کا اخ یں تفعبل .بے |
چتا ہے ۔ ۔ نٹ کے اقیار کو سمجھئہے کے لئے پا حر افروزی کے اساسی الکارّجا
ڈبن نشیں کرنا خروری خی مد . رز 8ب و
.-. مو می رھ اک تا کر سےا
اقتیار کرلی تھی اور اس دور کے ممام خرد پسندوںِ کو انی, اِت تۃ کے .گرد جمع "
لیا تھا انتداء میں اسے کیمیٹری ہے شوق تھا ۔ دیدرو کی صحبت ے فلمفے کی لی
مائل, کر دیا ۔ اس تالیف '”'نظام فطرت“ کو بادیّت کا صحیفہ کہا۔ کیا سے س ا
قی ماذیت. آپسندی کو باقاعدہ ایک 87 فکر کی صووت میں بیئی_کیاہگیا ےا ر
متہبی آؤر زوحانی تتاریات ی تردید کی آئی یر ےد پولباخ روح کے بتعلق لکھتا ہے
ہم 'اس سے زیادہ کچھتھیں جات کہ روح یک صثت ہے جو مغز یہر ہے وابستہ
اک کوئی پوچھے کن مز سر میں یہ قش ہا سے آئی ہے تو اُس کا جواب یں
کت ”یہ ایک تر کیب ما نتیجم ے جو جانداز ہستیوں کے لیے خصوعی ہے اور جا
کی وجہ سے ےِ جان ے حس مادہ ایک ژندہ پسّی کا جڑو بن کر حیات اور احسائن
قابلیث پیدا: کر لیتا بے جس طرح أن سے یدن میں وودھ ۔ رو اور راب زندگ | ر
اضساس میں تيْديِل ہو ژوی ے وہ کہتا سے کت ہر ور شس انی خُوشی کا جویا
--حقل انسّان کو ہ'تعلم دیتی سے انان انی مسوت کو ذوسرے لوگوں کی
ے الگ کرے تو وہ بھی ہمرتل ہے بہرم اندوز نہیں ہو سکتا انسانِ کا مقر بھی
۷و ا وم کم
دوب“
پہنچانا ٹوگا۔ے۔
کو
رت ایک ام مق کو ےت ان
فطرتاً اعجویب پسند ہے ۔۔اں لے انھوں نے می دیوتاؤں یعنی چاندر۔ عورچ و :
ما عیر مرئی بستیوق سے غاد عدام سے دانوں تی فا دے۔
نظریں*“ رق عِل ُحاظ سے کے بنیاد 4 ایر بلاشیہ سار پروہّتوں کی غرض برآری ک5
(ر؟م) ہوفڈنگ ۔ ”'جدید فلسفہ“مغرب““ " لے
س اہ
ہے
َ
٦۹
شعبدہ نے ۔ ان لوگوں. ےۓ عوام کو یقیی دلا دیا کہ انسان کا ايک یر مرفی'
ہمزاد اما بھی ے- جہے صرئے کے بعد جڑا سزا ملے گی جمام دیٰوتا ُروہتون ڈی گے
تراشے ہوئۓ ہیں ۔ انی اپنداء پر غور کیا جاۓے تو معلوم ہوتا ے کہ یہ دیوتا
انسان کہ جہل یاٴ خوف کی پیداوار ہیں ۔ تخیلِ ۔ جوش یاٴمکر و فریب ان کی تزئین <“
کرتاِ ہے ۔ عجز-ان کی پرستش کرٹا ہے ۔ خوش اعتادی اتہیں قائم رکھتی ے -
رواج ان ک عزت کرتا ے :۔ ظلم ان کی ایت کرتا ے تاکہ انسان یىی ے بصری
سے اپنا ال سید ھا رفا رے۔ یہ ہے ہولبَاخ کا نننہ' مذہب ۔ وہ کٔھتا ے کہ
اگر ایک خذا کو “لیم کر لیں ت کسی ںہ کسی طرح ہوجا لازم ہو جاق ہے۔
پروہتوں کو اقتدار حاصل ہو جاتا ے ۔ قطری اخلاق کی صورت اُنسخ ہو جاتی جۓے
اور جور و ظلم کا:بازاز گرم ہو جاتا ے ۔ اس کے بعد ایک مصیبت ید بھی آق ے
کہ دنیویٰ آقات کو خدا ی سی کے ساتھ.متسوب کرتۓ کے لیے سوقسطایانہ دلائل
. دیے جائے ہیں ۔ ہولباخ کے خیالات پر دیدرو کا اثر ظار ہے ۔ اس نے متہب کے
آغاز و ارتقا کے متعلق ایک بھٹٗ بڑے مسئلے کو چھیڑا جس کی تشریج بعد میں فریزر
ٹائلرے ویسٹر مارک رابرڈمن سفتھ وغیرہ ےک اس کے افکار خرد افروزی کی عقلیت .
کی ممائندی .کر تق ہیں جس کے خلاف روسو اور کانٹ جیسے رومائیت ہسّندوں ۓ
خریک جازی کی تھی ۔ ول ڈیورنٹ خرد افروڑٌی کا ذ ذک رک ڑتے ہو لکھتے ہیں : 7
٠ - ”'نقل و دانش کی پرستش نے ایک مستقل مسلک کی صورث أختیار کر لی
-- ہت نت اسانی
_ کی ترق اور تکمیل نقس کے ہے پایاں امکانات موجود ہیں ۔ انقلابِ فرانس ۓ
عقل ػی دیوی کٗ ہر ستش کے لے معبد تعمیر کے اوز کرت
۶ گیا۔کم ععل درد انسان کے لے ولوضص و رات :ادن بو تی ے ۔ اس
پاکیزہٗ فا میں زوسو گھٹن حسوس کرتا تھا اور ایمان وایقانی فرورںت
ری وو ما کت مضحکہ اڑژاق تو وہ کہتا کے یں
ایک مرض ے ۔ ان ۓۓ کہا 'میں یہ اعلان کر ۓکی جرات کرتا ہو کہ
فکر و تدبز خلاف فطرت دا کت ٠
.۔. کائط ےجب خرد آیروزی کے خلاف جہادکا آغاز یا تو اس بے روسو بی سے
فیضان حاصل کیا 'تھا ۔ روسو کی رومائیت کے اثرات جرمنون کی مثالیت پر بڑے
گہرزے اور دور رس ہوۓ لیکن ان کا ذکز کرتے سے پہلے ایک اور مثالیت پسنا“”
کا ذکر کوٹا ضروری معلوم, ہوتا ے ۔ 5
سا جارج بازطے (ع ۸ذر ۵ءء آئز لینڈ کے ایک انگریز گھراۓ میں پیدا ٦
یں ہی سے ایت ہین "اور یق تھا ۔ ۔ چنانیں اس نے اپنے قلسغے کے اصول اوائل
شباب ہی میں سرتب کر لیۓ تھے ممے آغ میں بشپ کے عہدے پر الو ہوا - آخری
۰ 7 3
رے "۶ء 2 گت نج 7 ٤
() سور نسفہ۔ - َ -َ
ابد
می_
غمر .آ کیڈورڈ میں گزاری ۔ بشپ بازکلے نے فلسفے میں مذہب کے مقام ”تو بحال,
کرۓ کے لیے مادیت پسندوں کے خلاف آواز اٹھائی اوریں دعوعل کرکے علمی دنمإ
کو چونکا دیا _کہہ مادے. کا کوئی وجود نہیں نے؟ ے' اس کے نظرے کو موضوعیٰ۔ٗ
یثالیت کا ام دیا گیا ے ۔ اس ےۓیە ثابت ری کوشش کی کہ اشیاء ضرف ذہن
ہی میں موجوذ وہ سکتی ہیں: کیونکہ ان کے موجود ہوتۓے کے لیے ضزوری دے کہ
انهیں کوئی ئە کوئی ذہن ادراک کرتا ہو ۔ اک موجودگ ادزاک ہی کے ساتھ واستہ
ے۔ جیسنا کت گلیلیو نے کہا تھا کھجلی پر میں نہیں ہوق پارے بدن میں ہوتی ےا
بارکلے تادی اشیاء کا مٹکر نہیں ے ۔ وہ کپتا ے مام مادی اشیاء خیالات ہیں جؤ۔
صرف ذبن ہی میں موجود ہوے ہیں ۔ بارکلے خیال اور حیں کو مترادف سمجھتا ے ۔
وہ کہتا ے فرض کیچے کوئی ,شحص.اعتزاض .کرے کہ کوٹی بھی آدبی کہی :
درخت کو دیکھۓے والا نہ ہو تو کیا درخت معدوم ہو جاۓ کا تو اس کا جواب: یہ
ہوگا کہ اس صورت میں درخت خدا کے ذین میں موچود ہوگا۔ :ایں طرح بنطقی. اشکال
کو رفع کرتے کے لیے اس ۓ ۔خدا کا سہارا لیا_ے۔ بارکلے کے مکالاتِ آج بھی
دلچسہی' سے پڑھے جاے ہیں ۔ ان میں دو کردار ہیں. ہائی لاس جو سائنس دان ے۔
اور فلونس جو بارکیلے خود ے ۔ ایک جگہ فلونس خود کہپتا ے ۔ ”جس کا بلاواسطہ*
ادذراک ہو وہ خیال ے اور کیا خیال ڈن کے باہر بھیخموجود زہ سکتا ہے ۔ٗ ٢٤ اس
کا یں خیال کم صرف ذہن اور ذہنی احوال ی موچود ہیں پیگل کے یہاں بھی دِکھائی
دیتا نے ۔ ہت نع سر
دور جدید کے سیب سے بڑے متشکک ڈیوڈ پیوم نے بار کلے کی اس دلیل :کو
آخري منطتی حد تک پہنچا دیا کہ کسی شے کی موجودگی مدرکات پر مشتمل ے اور
کہا کہ ذنی کیقیات ہی کی موجودگ کا علم ہو سکتا ے ۔ ہیوم ے سلسلمٴ سبب و
حتصہّب سۓ بھی انکار کر دیا اور اس طرح علم کی چڑ پر کِلِہاڑا چلاٍیا ۔ موضوعیت کا
نتیجہ ہمیشہ تشکک کی صورت-میں ممودار ہوتا ے کیونکہ علم مؤضوع اورمعروضص
کے ربط و تعلق کا دوسرا نام ے ۔ صرفہ موضوغ پر زوز دیا. جائۓۓ کا تو معروض کا
انکار لازم آۓکا سواۓ اس معروض کے جو موضوع کے ادراک میں ے۔اسی موضوعیت:
کے باعث قدیم سوفیسطائی تشکک کے ٹکار ہوئۓ تھے ۔ ہیوم کے تنشککب یی کانٹ کاو
خواب آسودگی ۓ جھنجوڑ کر بیدار کر دیاے د۹ء رحملم ہے ٭
ہے _ عائویل کال ہم انژزیل کو 0پ ھ0 ایک زین ساز کا
پیدا ہوا ۔ اس کے ہاں باپ سیدھے سادے قناعث پہٹد _اہلِمذہب تھے کا کانملۓ ۓ
نیدریۓ میں لاطینی ژبان بڑے شوق سے شیکھی:اور اِں مینخاصی لیاقت پیدا کر ی -
دوٹیؤرسبٔی جا کر آس نے فلسفے۔-اور طبیعیات' کا اختصیاصی مطالعت کیا ۔ تحبضیل طلم سۓے| :
فارغ :ہو کر وہ ای یک گھراۓ میں ایق ۔ مقررہوا نضجے دع میں آِس نے کوٹگز برک
2 یہ** ا و 9ت ھی
ات ٰ
ٍ" () اصول غلم۔. او سو ا ہن
۰۹۳ " ظط
کی یونیورسٹی میں پڑھاٹا شرفع کیا ۔ سے طبیعی چغرائیے کے گآ زی ال چجی تھی
جس میں ٴُس ے قابل نر غلیق کام بھی کیا ۔ کان ماری عمز کرد وہا ۔ اس کے
متخلق عیب وغریتب حکایات مشور ام ۔ ایک ید ے کہ جوائی. کے ۔زماے میع)
کائٹ کو ایک' لڑکی ے حیث*ہو ہو کی۔ لڑک بھیٴآس ی طرت مائل تھی اوو اس انتظاری
میں ھی :کہ کانٹ کب سے رسمیٰ طور پر شادی کرنۓ کے لیے کہ گان بس وہ اتناق
ہے انھی ایا ہیں۔کانٹ ایک مابعد الطبیعیاق کتھیٰ کے سلجھاۓ میں ایسا مستحرق ہوا'
. کے :سرزاپا کا ہوش۔ند زپا:۔ وہ لڑکی:َر روز]من کے ”راستے-۔میئ۔ آ کر کھڑی ہو
1 جاتی کہ وہ]ُس کی جأنب ملثقت و لیکن کانٹ ہر تو حویت کا عالم :طاری ُتھا--کبھی/
نگاہ.آٹھا۔کر بھی نہ دیکھا ۔ آخر ژچ ”کر وہ لڑی چلی گی اوز اس : ۓ :کسی اور
شخمن ے شادی کر .لی ۔ اس واقغے پر کئی برس:گزر گئے ۔ ایک دن !تفاق ہے راستے۔
میں کائٹ کی مڈبھیڑ ]سی لڑک ہے ہوئی تجو اب ادعیڑ عمر عوزت ھی ۔ لڑی ۓ کترا کر ؟
نکل جاناچاہا لیکن:کانٹ ےآتے دیکھ لیا اور مُسگرا کر نہایث شائشٹ.لہجے میں کنہا؛
”''خاتونِ ! مجھے افسوس رے کہ میں آپ ہے شادیٰ نہیں ۔کر سکوں گا ۔ ٠٤ عام طور ىا
معلوغ ۓے کی کانٹا کی سیر کے اوقات ایسے معن تھے کہ لوک آنے یکھ کر اپنی
گھڑیوٴں کے وقت درحت تا کیا کرتے تھے - * تا -
ا اد“ کالطةِہر أوقت کستی ں۔ تی عقدے کے متعلق سوچتا رہتا تھا اور بعض اوقات
'دنیا و مافیہا ۔ سے ے خہں ہو جاتا تھا >آخن کے خیالات ہی'دقیقی نہیں تھے -اسلوب بیان
میں بھی ژولیدگی تھی ۔ اُس کی سشہور کتاب ''تنقید عقل عض*““ کی نثر خامتی.الجھی۔
ہڑٹی ے دیعد میں اس رك امن کی ڈلخیص ۶ مقاىہ؟ک عنوان سے عام ت زبان میں
”لکھی۔ تی ۔کانٹ کی آخری۔ عمر گوٹاگؤں پریشانیوں میں ٣ ی کہ کم سواہ اور
تنگ نظر نبادریٰ پنجے”جھا ڑ کر آس کے پیچھے پڑ گئے تھے ۔ ۴
"خجیساکہ ذکر ہوٴ چکا ہے کان کو ہیوم کے :تشکک 'اؤر لا ادریےے-
خواب یریں نے چگایا تھا ۔ ہیوم نے عق استدلالی ۔کؤ ے مصرف قزار سے یا تھا ٗ٤
کانٹ تۓعقل کے اصل مثام رہ کو ح ال کرمننۓے کا یڑا آٹھایا ۔ اح دورآن مؾ وہ روشی
کی کتاب ابمل کے بط لے سے بڑا مجائز ہوا اور۔اسن اتپاک ےآ سے پڑھنا وع کیا
کہ روزم لی “میں کو۔ بھی بھول, گیا جمن ہے اس کے ہمساۓےمتخث متعجب ہوۓ۔
روسو ۓ فرائسیسی قاموسیوں کی خالفت کی تھی جو مذہب کو داستِانِ پاریید سمجھتے
تھے آؤر اہے ماضی بعید کی یادگار مانتے:تھے کانٹ نے آن' کے خلاف:وجودِ ذات باری۔۔۔
قدر و اختیار اور بقاۓ روح۔کو ثابت ۔کبزے کا تہیں کر لیا ۔ ام طوح آس ,کا منصب
عق اجتدلالی اور مذہب دونوں کا دِفاع کنا تھا عقل کے دفاح میں ۔آمیں نے کہا
کہ بعض قوائین.اور؛ قواعد. انسانی تجرے اور حسی مشاہدے سے: سے نیاز ہوتے ہیں ۔
یثال میں. اس نے ریاضی کے_ قواعد پیش کی جن اٹیل ہیں اوزٴ جن :ہم محکم ننایج
حاصل کر سک ہیں ۔ کائپٹ کمہتا ے کہ ذہنِ انمائی منتشر حواس کہ جموعے کا نام
نہیں ہے جیسا کہ ہیوم ۓے ثاہ تکرنۓ کی کوشش ک تھی رو کہا سے کہ ین لک
“٣ ۰ ہت
نال بے جو حسی مذرکات پر آزاقالہ مل کرنے ای علم میا منتقل قرق رای
۔ اس کا امتدلال یہ ہے“ کہ اگرچہ بہار علیم تجرہا و مدِرکاتج سے ماوراہ نہیں
کا لکن بش قواعذ و متذمات ایسے بھی ہیں جو اگرچہ تجرے اور مشاہدے ہی
ہے کر وت او کے سے ے از ہی
کی سپ اش ہے رت
ہوا تھا ۔ اس کی جذالیات انی کی جع یر مر تپ کی کئی ہے 3
تبَيّدِغتلِ عض' کے دوسرہے اڈیئن میں کان بے دعویل. کیا اُس بےافلسفے.
کو پر ئیق'انقلاب برا :کر دیا سے کائٹ قدماۓ یونان کی طرح عالم کو دو
مین تقسیم رتا سے ظاہری' عالم اوز باطنی 'عالم ۔ وہ کہتا ہے کی زان ہکان
ير ۲ەجہ ٠۹
رن ا
عالم جیں سے سائنس اعتنا کرق ہے جقیقی نہیں ,ہے بلکہ بح ظواہر پر مشتبلِ
الم بارے ذہن ار حواس . سے باہر موجود نہیں ہے مہ اسہ حقیقت ننس ۔الاس
کہا جا مکنا سے - خقیقی الم وہ سے جس میں حقیقت >بقس الام موجود ہو ۔
ہے نا کل ایت ہی کر سہکتے ہیں ۔ سائنس کا تعلق ظا ی۔
فا جۓے دی ا مر و
نے او ر بح لم یہ اس کا ہے نام فوع پر زوٹ :کر
ا
جا؟ فی سے کی رط ازع ےط و کا ا ۔مذہبی شعائر وہ ید
کے آئباتا تا کے لیے”وہاخلایٰ وجدان کو ضروریٰ سمجھتا ۓ یه کہنا ےرام
عقلی اُنتدلال“ ۰ سے وجود یاری ۔ ۔ بتاۓ روح اور قذر واختار کو او خہیں کر تم
چنائچہ اس نۓ ایک ایک کرک ان ماع دلائل کا تجزیہ کیا ہے جو مشکلمین ائلاء
کاذغ“ ما ا لاف ہیں وا جا ے۔ و ا ےک ذأت عدا ون -
قدر و اختیار اور بٹاۓ ریح ے شک ضصداقتیں ہیں لیکن عقل استدلالل بی اع :
نیٹ دلا سکتی ۔ انا یقین ہمیں تُقلِ عملی سے ہوتا جح تا
نام رے,, اس طرح کانٹ بھی افلاطون کی طرح د تھا علوم اور ان ہے بالاتر فلسنیانہ
: کرٹ ےت اور ر آرادہے کے درمیان پواری
() ئلەھاندنچمتط۔ '٭ (,) صدئلكٰة1 لفُدونادھ ۔
۵
کا سب ہے مشہور شارح شوہنہائر تھا جس ےۓ کہا کہ اسان عالمی ارادے کے.
پاٹتھزؤں نمیںاے جا کھلوئۓ کی تائند ہیں ۔ یہ نفطم نظر جبری اور قدوطی ہے“
+7“ اخلاقیات ) میں کان قدر ق اختیار تا قائل سے جس ن سے وو تام مذہبی عقاید کا
جواز ہی پیش کر جے ۔ وہ کہتا' ے کہ جب کس یکام کا واجبٍِ ہونا قرار پاۓ
تو اسی ؿْجوبٰ میں اختیار کا”“عنصر بھی شاملّ ہوتا ے ۔ اس ے زوائین کی طرح
””فرض براتغ فزٍض؛ کا 'کڑا نصب:العن ہیی کیا ے او کہا ے کہ فرض, 1
اڈائیی , ہی حدن اخلدق تن خواۃ اس کے نتاح کچھ بھی ہون ۔ اس کی اخلاقیاث میں
لحکم۔ فاطعما“ اتور سکزی حیثہ ث رکھٹا ہے۔ یہ تصنور اس کے ال میں انسای
ترے یا مشاہدے سے علیدہ ہ مِمتقل فقام کھت سے۔ -قدر و اغتیار پر کرے
ہوٹےامؾے کہا سے کہ جو نو شخو شخْض اپتے افعال کا شّے دار نہیں ہوگا آۓ“ اُخلاق
عامل تہیں کہا جا سکتا: 'کیوتکہ وہ آزادی ہے خر کا انعخاب کرتا ۔ اخلاق
عامل کے لیے تا ہونا لاؤم ے'۔< ۶<
کان جرمتوںن ک قلسفیانہ روماثیت کا بالپڈے اور چرمن رومائیت پسنذ بقول,
برٹرٹلزمل آزوسو کے انی بچے یت -۔ - قلسغے میں زومائیٹ کان کی ذات کے ات ال
ہوئی اورادب وشعر'میں۔لسنگ اور ہرڈر ہے ہوی بی ہو کوٹ اور شا پر مشہتی ہوئی۔
شلر ۓ رقسو وی ملح میں ایکتظم بھی لکھی تھی رومانیت نے جرمنوب کے ادبْ ی
ظرح ؟ن کے فلسفج پر بھی ۔گہرے اثرات ثیت کے ۔ یں اثرات فنۓ اور تھیلنگ میں
زیاذہ ممایاںِ ہو گئے'ہیں' جرمتوں کے'زآومانی قلسفے میں مادے ے کے بجاے ہن,پر اور
مشرؤش کے بُجاۓ موضوع پر زور یا گیا او اس میں اس قدر غل و کی گیا کہ جرىِ
مثالیت : پسند کہنے لگے کہ _صرف ذہن ہی موجود بے اور ذبن ہی مادے كا خالق
بھی لے اس طرح بیکارت کے ساتھ فلدنقے میں نجس موضوعیت کا آھاز ہوا تھا_ و
قشٹۓ او ابیگل می اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔ تا کے
“نٹ کے فک “کو ماورائ* لیت کہا جانا ہے ۔ وہ خود آے تی کٹ
کہا کر تا تھا ۔ منعاتی لحاظ سے کائٹ نے ٹتقید عققلٴعَقَن> میں چو اریہ پیش کیا ہے
وہ مُوضوعی معالیت کا لے ۔مجائٹ معالیت پسند نے کی نکد : :
():کانٹ افلاطون کی طرح عال م کو دو حصبوں میں حسم ڑکا ہے عالمِظوائی
ار اور عالم باطیض > 5
۰ (ء) کاٹ کا حقیدہ ہے کہ بای تک'حولیں'' اور عقلِ لی کی" وسائیِ نہیں
< ہو سکتی:-افلاطون کے خیال, میں ضر عق ستدلال, پی حتیقی' مال کو
٦ اسقا ا : .اہ ہے ۔ ج ۔ لہەتیىٔ ے
0ڈ٭ھ >
ّ_ ہچ 1 ٦
)) 1006 نوَغءای َ ّح 6 اجہ - - َ
(م) ستلعَةَة17 لخد قدہء:رتہ:ا - ْ۰
(م) ۲۸۰781 ۔ ا (ھ) 21٥٥8صا0آ7( ۔
: ٹ7 ٭ يہ لہ
٦
٢
٭“ () کائط لے ڈیکاوٹ کی طرح موضونخ پر ژورڈیا۔ ے ٠اس ۓے زمان و مان
اےےے کے معروضی و یس یس اور کہا ے کۃ ان دوئوں کا
امصاو ذہن پر ے۔ >.تد۔ 97 ۹ھٹ ۷"-+پب ےر ہا ٠
(م)۔ کانٹ کائنات کو بامعنی اور با نتصد سمدطقتا ہے اس ھ7 7 شیال میں “انسائی
اہب آرڑوؤں اور آمنگوں کا جواز موجود سے ن ام طرح سی نے میکانکیت-:کہ
٭ خلاف مقصندیتکا پہلو ۔اختیار کیا“ ےد سس بعلِ قلسقے' و موضوع
۹ ا ۔ دو ہیں ''اوہر۔تارول۔بھر اآمَان اوز:انمَأن کے باطق میں قانوقِ اخلاق عم
"۰ ۔(ھ) کانٹ کے آرٹ اور خسن سے نظرتۓ کے ینظابق ختننوجال خی لذات ی
ہماع تخلیق نہیں سچچھس ہیوم نے کہا:ت جِ_ بلک احمن و جال کا تعلق
...۴گ“ وجدان ہے ے جو حلیات ہے علْعذہ اپنا'مستٹل وجود در سد 2
كھ () انساتیق ذٍع الات و الکار کا خالق ے ے۔ و ہے وک
بن (ھ):سائنس دان کے ظرزفکڑ اور فلس ی: بصیرت میں 'قرق ' کے بی روہ کک
کائك با نظریں۔ مثالیاتق ے لیکن اس میں تجربیٔتن ارزادیت۔ لا ادریت آود
موجودیتا کے رجحانات بھی ملتے یں جدہوں ۓ بقدامیں سمتتل اتب فکر کی صّورت
اختیا رکر ی۔تھی ام طور سے کائٹ کو دور جدید کا ظیم تَریِن :قلسفی سمجھا جاتا
ے۔ لیکن برٹرنڈرسل آيے حض ایک ' ابد قستی؟“ آدیتے درد
ات فلسلہ میں باطنیت: اور انتشار فکرۓ بار پایا آن دونوں انتہآؤن
درمیان- حتیقت یہ سے کن وہ ایک بلند پایہ فلسٹی ہے چو'اپتی مم کرتاہون س
بایجزد رف ایی:اور جردٹ فکری ڈزات مالا مال تچا۔ جْدیْد لسّقیالد تحریکوں:
میں ہر رکہیں اس کے ارات کا کھوج ناتا ے۔ ذ۔ مع ا الا مک ما
0وت کانٹ۔کے متیکین فشژں۔ شیلنگ اور ہیگل! ا نے کہا کہ کان بی- ا ادریت- سے
سم قلسفیائہ تحقیق. ہے :تقاض : پورنے نہیں 'ہوتے۔:اہوٗؤں نے کانٹ کی ظاپْرٌ اور باظن کی
دوٹی کو رد کر دیا اور اس نظرے سے ھی قطع ثظر کر لیڈ کہ انسانی علم دوّدِ
عفن سے - انہوں۔ نے کہا کی خقیقت خقیقت کامل اکمل منلم وحلات: ے جمن کا ادراک
صرف عقل .ہی کر کی نے انھنوں نے فکر کے 'منظمکل“'اور حقیقت ک زی“ کو
واحد الإضٍل قرارڑکیا چسے وہ روحٌمطلق, معین نظطاقٰ۔ وجود مطاق' -اوز خاڈا کہتے
لگ ۔۔فشٹے کا وجود:مطلق اخلاق سے شپلنگ ما جالیای ےا پیل کا عقلیاق ہے ان
فلامض ہیں .اخلدطات کے بلوجوڈ اساسی مو تر فکلری ال 7 زجوڈ ہے نعلی فلسفیالہ
وخعدت وجود انسي میں قذر نشٹرک وے و مہہ
2 ریوخنا کوٹ :لیب نے ۹ب رسک لک خرقب تکسان کے گر زذا
ہوا ۔ حافظہ بلا کا۔پایا تھا اور نایتر ذہین تھا۔ ایک رئیمن ےۓے ان 5ے کاوت لے متائز ہو
کر سے متبئول بنا لیا اور اعلٔی تعلم دلوائی ۔ فشٹے نے جینا میں فلسغے اور دینیات
کی تحصیل کی ۔ آُس کی ماں چاہتّی تھی کہ وہ پادری بن جاۓ لیکن ]س٠ نے انکاڑ- کر
دیا ۔ تعلم/ تے فارخ ہو کر۔مں نے شادی کر .اور زیورچ میں درس دیٹے لکا - فشۓ
جے
5ْ
۔ خی ئکائٹ کی تعبائیف کا ئظر غائر سے مطالعب :کیا تھا إور اِن ہے:بڑا شتائر بوا: تھا ۔۔
ہم ۹ے:1ءِ مین چیتا میں :پروفیسر ترزلیڈ ا .- یوئیووسئی میں ٌے اپنا خاصس
قالش مر کب کاچ تما عودی کہا جات سے بی جا ہنا
. فئٹے نے وجود مطلق کو خودی کا نام دیا,اور :کہا کة خودق یا ۔!اناۓ اکبیر' __
۔غییر شخصی آفاتی آزاد فعالیت چھ دہ کہتا ہے پک کائیات میں ضرف ٴ :خودی ہی
'موجودِ سے اس, کے موا کسی ش ےکا وجود: نہیں بے۔ ایکب دِنِ اہں بطق خودی نے
نے بات ہیں ٹھوکا سا جدوس ۔کیا, جس کے نتیتے ٴ -7٦[ ڈیا | چودی؟ ہکا ظہور ہوا۔ اس
کے .ینہ اس ہے مادی اشیاء متفرع ہوئینم فشٹے ایں بطلق؟ چو دی اور جُدا کو
مترادف اتا ہے۔ وم بکہتا اےۓ؛: کہ خودی تی امبول۔ے۔ خودی اپنے راستےمیں
28 لق ہے ا کہ ا کے لاف کشیکش کر کے,اپتی تیکمیل کر بِکے۔۔. عالم مادی ات
مطلق خودی کے لے ایک اکھاڑے کی حیثیت ررکھتا بے یں ہین کشنکش )کرے
وہ اپنے آپ کا شعور حاصل۔ تبرق ے۔ازم وابدی وديمطلق ی بخداےۓ اِہے عالم, مادی
یا نا خودی کو اپنے:رآستے میں۔راحم بتایا ے-, ی نقطہ* نظر. :موغنوٹی مثالیت کی
کِ آخرق انتا ہے کموں کہ ایں کی وو سن کالبات میں ماڈے کا کوئی: وجودینھیں
رے ہر نے ذہن ے روح ہے ۔ :قشے. تے پکافاکی نادے اور ذہن ی:دوٹی نے إار
کیار۔ جائناتج سے نات تو ضرخاں کرجا اور دعوعا: کیا. کم پریشے 'ذزن۔ ے
ریحے عالم : صرف ری :طور پرماڈی:معلوم ہوتا, ہے ۔۔کائنات ق الحتیتت ذبن نے
خودی رے۔ سے فشۓ کے۔نظدے میں انسإنِ بی چودی بھی مطلق جودی کا
-چڑزو ہے اور:قاعل تر فشۓ ؤفح یا یا خودیِ کی ا نک قائل سے لیکن کہتا لئے
کس اخودی یا ماڈی رکاوٹوں کے خلاب کشیکئ کزے ہی۔ انفرادق خودی
غیں فا وو سکتی بچزء پیڈم دئ ٹل تن پش ی بوضوغیٗ مثالیت کاٴ_ذ کر“ کرتے
'ہوۓ ایکی دقع مزاحاً کہا تھا ہہ باِت کا ت وفٹۓے کو بھیشیہ ہوا وکا کہ' آسنے-
و رت چے - رحاےے پا ینا ںی
افش کی خودی۔ حتطباق جا ہیں, لکنا قعال :اور تخلیی. سک زقوت ہے م چودی کا
اہار اہن وتتیوتا ے جب جبر انان نیچرڑیا نیخودی: کی بخالقرتڑل ہۓ اتبرد-آڑنا
ہوتا نے اس جارے ہیں انان پر إلاق رض ,عائد ہوتانے جس:ی ادائیگی“مین>وہ
فاَعل تار ہے۔ دہ خودی کوعلیلہٴ یىی ومسیب میں مقید نہیں مایّتا یلک انے آزاد
فعالیت ع تسلم کرت سج اتباقِ خودي بإِذيٍ واقعات ے دلسلرکی ایک کڑئ خی ے
بلکہ اپنے مقدر ی تشکیل میں آزاد ے ق فشٹی کا یں نظریع کشمکٹ .او عسل کی
دعوت ”ڈیتا۔ زے ۔٭ ہارے ول تہ فِمْ فٹۓ کے" نظریب یہ چوڈی کو۔ اَی قالعب می
ڈھال ز کور پیش کیا ہے دج ٹنوی |سرار و رتوز میں" خودی پر جاو بث موجود ے ہےے۔دہ
>
کے
ْ2 دْٰ ٴ گی 6 8 ہ ہج
سے ہی سے م دو" ہے کے ہے _ تد اپ کے وا جا كت ْ۰ ّ ات
٠. -_ >” 7 ج7
٭×سسسہ--×سسىست-رمسلدھ 4 بے ے کات کی الم جع و“ ۔ گھ
ٌ نت ڑر ۔ بی
۔ ( بئ-۔ ص ۰ ۔(م) فبتا-ں2 بے ا (م) ۔80 6واآہ مم ۔ بس
.5ا کلاسکی رچژمی قلتفے کا :دوسا ایفکی فریرش ولہلم جوزف شیلنگ جرسن۔
فلسفیانہ رومانیت کا صحیح مائندہ ے ۔ ہ وہ ےب جنوری جےے:ء کو لیون پرگ میںِ
پیدا ہوا طالي علمن کے زمانۓ یں ان انتلاب ۔فرانس. نے متاثر ہو کر انقلاب۔ پسندوں
کے جنگی تراے مارینیل ڑکا ترججمد کیا جس سے ڈیوک خؤا ا ہوگیا۔ شیلنگ نے کائط ۔
> فشلۓ ,اور سپیٹوزا ک _کتابیں٭خاصِ توجد مد پڑھی تھیں ۔ روہ بیعی علوم ہے بھی واتف
تھا. - اس کی عمر کا پیش حضہۃ روساء يک بچوں ک تالق میں گزرا ۔ اُس زماۓ میں
چیٹا ی7 وومانیث کا سس کز تھا۔ یہاں شلیگل, اور 4ذ فشل میں گہرے مرآسم 7
و و ہی : ۱
- وجود مطلق فشۓ کے لیے اخلاق۔ ہے ار شیا کے لیے جالباق ے۔ اس کی
تعلم یہ تھی کہ کائنات ایک فن پارہ ے جسے ایک عظم فن کار ۓ تخلیق کیا سے ۔
یھی یِقطہٴ نظر لیسنگ۔ پرڈر او رگوئٹے جیسے رومانیوں کا بھی تھا ۔ زمائۓ کے ,گزوۓ
کے ساتھ شیلنگ مثالیت اور وخدتِ وجود کی طرفِ مائل ہو گیا آ٘س کے حیال میں
ٹیچر مرئی وعحسوس روح ے. اور روح غیر مرئی ٹیچر ے۔ اس, خیال ہے بعد کے
رومانی شاعروں نے قیضات حاصل کیا اور انہوں ۓ عالم اور .ٹیچ ر کو حیات۔ اور ذہن
ے متصف کر دیا اور پھر اس ہے قلبی رابطہ پیدا کرۓ کی دعوت دئء ورڈز ورتھ
کی شاعری. اسی عقیدے يی- صداے با گششت ے۔ یلیگ نے خود بھی فطرت کو
'عظم نظم کہا ے۔ اواخر عمر میں وہ تصوف ک. جائ بٗمائل ہو گی اور کہنے لکا
کہ روح اپنی ذات سے آزاد ہو کز وچود مطلق میں فا ہو جاق ے۔ ٠ .
پیکّلی کے فلسقے ہیں جرمن کلاسیکی بثالیت نقطہٴ روج کو پہنچ گئی۔ جار
رولم 0007 ۔اگست ہو۶۱ کو سٹۓ گارٹ میں پیدا ہوا آس نۓ ڈوبنگٹن
می دضیحئ ہیل ۔ آب انت +كه نگ بھی دواں بڑھ تی ۔ پیگل ےن فلمفے
ب طبیعیات :کا بھنی غائز نظر سۓ مطالع کیا۔ اس زناۓ میں وہ کانظ:اورِ رق ہو سے
شرب ےت تر کے
ایک اتالیقمقم زہا۔اوز ہیں سا ذاتی”فلمفہ صورت ہڈبرہوا۔ کچھ عرصےٰ تک _
ہیگل اورشیلنگ ایگ رسالہ بھی ٹکالتے رے۔ ٗی" ہت ّ
. _ اوائل عمرمییِ ہیگل تصوف کی طرف مائل تھا کل ار یہ عقیدہ اخ :کیا
تھا کہ وجودیطاق ہے'کسی شے کے علیحدہ :ہونۓ کا تغبور غیر حتیتی ۔ے ۔۔اور
0ب سس کوئی شے حقیقی نہیں ہو سکتئ ۔ التب پارمی نائُدیس اور سپینوڑا کے
پیگل اس۔بات میں اختلاف ,کرتا ہے کہ دل؟ کوٹ وہر واحد سے وہ "تل ؟ ,کو
: عضوٴیاق' نظام .۔سمجھتا سے ۔ ا گی؟ .کو 'عیتِ مطلق کا نام دیتا ے اور کبتارکڈ یں ٠
. روحانی شے .اس کے حا ہیں“ کوئی شے حقیتي نہیں ہو نکی جب تک کد وہ اس .
غین مطلق یا حقیقت۔ کبرعل سے عضویاتی نبت'ء رکھتی ہنوے کیوں: رکد عرف بگل؟
۔ یا عین مطلق ہی حقیقی ہے۔ بے ۔ کثرت اور انفرادیت سب غیر حقیق۔ ہیں ۂلیشّہ
کے لے صداتجیاگ؛ نے۔ کوئی جزدھا د شے۔عداقتِ یی رکھ سکتیء ہیگل کا عین
جک
مطلق؟ ازل؟ اہدی ۔اوز اکمل ے جس میں عالم ,کی تام مثتضاد زقوتی توفیق:و اتماد
حاعبل کر لیتی ہیں۔ آدد ری“ دے کی رحے ر لہ مہ ط ہت ےم
< بگل کے نظرے۔تیں ٹیچر اور ڈوی یا۔عقلیایکندییں الإلہ وہ ٹیچر۔کو عقل کے
تحت رکھتا ے ۔ آسن کے خیال میں ہمام وجود اور۔عقل متحذ الاصل'ینَ × جوعظ ے
بقل میں ےه وہی عمل نیچز میں بھی ہر کک یں کارفرتا نے ۔اس لے. جو کچھ بھی ٭
عقیقی ے عقلیاق ےٴ اور جو کچھ بھی عقلیاقی ے عقیقی ےےٗ۔ ۔نیچراور تار ُوتوں
میں منطق موجود ہے اور کائنات بنیاذی طورِ پر ایک مئطتی نظام ے : وجود مطلق
بذات خود عتلیاق ہے۔ وہ منزل جس کی طرف سطلق وجود رواں دواں دے خود
شعوری“يے ۔ تمام ععل کا یعشیل ایسے ڈن کا حول نے جو کائنات کے معنی وامتصد
کوسنجھتا ہو ۔ ۔ اور کاثناتقی مقصد کے ساتھ اپٹے' آپ کو لمعتمل کر سکے ۔ ہیگل کے
تیال میں فلسفے کا منصب ہی بھی ے کہ نیچ کو :سەجھاجاۓ اور ٢س میں عقل ”
استدلالیٗ کا کھوج-لگایا.:جاۓ۔ کیؤں۔ کہ عالم کے تمام اعال عقلیاق ہیں ۔ سیاروں
کا تظام عقلیاق ے۔ خقیقت بنیادی طور پر عتلیاق ہے متیلتی عمل+ے۔امن لیے اس کا
ادراک طرف فکر ہی کے ہے مکنا ہے۔ عالم چاماد ہین حرکی ہے ۔امی. طرح :قکر اور
عقل بی حر ہے “'. ہلل .ا یہ اب
. ہیگلی نے کانٹ ٹل ار یلیک کے نظریات کو فکری وحّت دی کی کوشش
کی اور کہا کد کائنات ڈہن کا ارتقاء 2 ہے۔ ۔ ٹیچر سے عینِ مطلقٰ یا خدا ک ارف عالم
طبیعی کا اور ذہن انسبانی میں ہر جگم' تدریچی اُنکشّاف کا عمل جازی ے بھی سے اس" تے
جدلياق'یآ اصول تضادکا نام دیا' ے وہ کہتا ہے ک ےتہر ابی می طرف مائل
ہو ربی- ہے ۔ کائٹاتا ایک کل کے جس میں عقلیای اضول کاز فرماے اس گل میں
جُوٴارتقاء ہورہا ہے جدلیاق عمل ہے ہو رہا تب پہلے ہم ایگ شے سا اتکعاف کرے
۔ہیں:+جسے ۔مشثبتڈ کہا جاۓ گان .پھر لم اس کی ضد معلوم کرت ہیں یع بٍ لفی۲ ات ہے
دوٹوں کا احاد* عمل میں آتا۔- مچا جو (ذات خود نثبت بن جاتا ے ۔ ای پیل اس با ”
۔جاري _رہتا. ۓے ۔:جدلیات کا :یں عفغ(:ٹفکری: ےکیوں کم کائناتِٹکر ہے اور فکز
ہی کے قوائین کے تابع ہے جس طرح ہم فکر کرتے ہیں۔اسی طرخ کاثنات کا ارثقاء ۔
ہوتا ے ۔۔_یہ ممام عمل ایک فکری گل ہے :جس میں ۔ٹیچر اور انسإن ایکا ہیں ۔ ۔ جو
تعمل انسانی ڈہن مین ہوتا ے وہی نیچر میں بھی۔پایا۔جاتا, ہے ۔ :نیچر میں .يەّ عنل
لاشغوری- ہوتا ہے جیسا “ام پودے۔کا :پھول لانا انان میق 5 ُغوری:ہوتا ہے
.اور سان چانتا بے آنکہ وہ ارتقاء“پذیر ے بھی۔عمل ارتقاءَ ہو کیہں جاریٰ ہے ۔ -
×ہیگل کے ہاں کائنات کل > ہے چو ای اییک ٹکری عمل۔ے ,اور ایہے۔ہی ارزتقاےٴذیر سے
:سے کہ فکر کا ازتقاء ہَوتا ے ۔ یُعنی ٴمثبت ۔ منفی اور كاد ۔ایں ایسٰی دبثالیت ےِ
بج ججؤ سنطق کی آغرق اندہا تیب پہنچ .کئی سے ۔ ےج2 ہم بی سے سے مہ
”سٹتممسےس-یہ نکیل رجہ ۹ )" ۴۰م س ع یہ * جم ن۔ ۹29ٌ 0 .
رہد ()) وامعطے۔ ۰٠ء ٭ (ت) فتففطا-تقتعف۔ ب تب '(م) ۔مافغطااسرکاءے ہے 24
7 ٠
ل۔ یکل کہتا ہے کہ حاثات اتقاء مااعل ہے مل مین عین مطلق ُہو۔ازل میں
خی طوز پر موجوةاتھاً بالآخر صعوزت پڈیٔر ہوتا :نے ۔ اس کے خیال میں دا کائنات
کی ژندۂ تحرک عقل نے جو:انسآن'میق باشعور ہوکئی لے اس لیے کائنات مکبل طورِ
ىر انمانی ذہن بی میں متشکل ہ وی ۔ ہا شور فردکائنات کا مل ترین انکشاف ےد
من نظزین'ی رو نے -ذہن ارتقاء کے تین اح سے گزر رتا ے۔ - موضوعی ذہن ۔
معروعی ذہن او رٴڈین مطلق ۔ مودوعی ذن کا اصصار روج ک خیثیت سے ٹیچر پر تے۔
شنعوز کی عیثیت ۓے وہ ٹیچر کا خالف ہے اوز روح کی حیثیت حیثیت سے ٹیچر کے ساتھ مفاہمت
کے ہوے ےن ۔ اپٹی 'بلنلاثریغاضورت میں ڈپن عالم کا خالق "ہے ۔ پنیکی کہتا ہے
کہ ذہن مادی دنیا گا خالق ہے اس لیے ذہن اور مادی دنیا میں ایک ہی جسے جدلؾاق
اضول کارٴفرا ہن ۔ ذہن سمام کاثناٹ میل عم تخلیق کر رہا۔ے اور:اشیاء بی ۔اروں
َ میں اپنۓ آپ کو صورت پذیر کر زہا نے ۔ ' ۰ے
. ہیگل کا خدا اقص اور آرتقاء پذیر ہے۔ ۔ وا خدا کوعین کہ نے ۔ جدایاق
مل چو إرتقاء پڈیں ۓے خدایٰ کے بظون مین وقفع پثیر چورہا ۓ ۔ٗ خدا دنیا کی
تتلیقق عقل ےٗ ۔ یں عیت یا خدا جب صورث پذیٔر ہو تو آنے ذبن یا زوح کہا جاتا ے۔
۔لیں کا مطلیٰ یں ۔نہیں کہ بمحیثیت' عین ہوۓ کے خذا تلیق و تکوین سے پہلے بھی
موجود تھا ۔ ہیگل کپتا ے کہ عالم ال ہے موجود ہے خداٴعالم ی زندہ حر
”تل استدلالی :جو اپنے آت کو کائنات میں تیر میں تارج میں مُنکكشق“ کز رہی
ہے۔ ۔ پیچر اور'تازنج :خدا کی “لود شعوری میں ارتقاء کے ”لاڑنی سراحل ہیں ۔ نیچر ایک
محلم نے جس میں مُتطتی خیالَ اپنے ارثقاء میں ہن یا رؤّح میں منتتل ہو چاتا بے 7
آُس کی شکل اختیار کر لیتا سے ن ٠ ارتقاءم کہ جدلیاتق مراحل نے گزز کر ڈپن اپ آ. آپ
کوٹٹکٹنا کر چا۔ کے ے
ہے. ۶ عقل آفاق: یا عینِ مطلق فرح یور اور ارد انا ہار کرق ے بلک
-انسانی ادارون :اوز تارف ۔ٴاخلاق اوَرز ضمبر اور زسم و روج یں تھی اپنے آپ کا اظہار
کرت نے ۔ اس صورت میں اس نعروضبی ڈہن کہا چاتا ہے ۔ متطتی فکر کے ارتقاء کا
بلند ترین محلم ذبن مطلق کا ہے جس کاام سے ٹیچز من اپنے آپ کا اظہاز کرنا
اور جو آزاد اور لاعدود روح ے دزن مطلق تین مراحل ۓ گڑنتا ٴ ے اور اپنے
آپ کو بتدریج جٍ آرٹ ۔مذہب اور فلسفہ میں مٹکشف کوتاہے۔ :و آرٹ میں وچدانی
ن کر مذوپ ہیں تی ب کر اد لس میں خالی علق نی فکر کا مورت ہیں ظاہر
” ہوتا تے۔ ' -
ہیگل کی مانعدالطبیعیات ۓے تذرتاً ا بے اط او كت نات “کو مٹاثر کیا۔
وہ کہتا ے کہ ایک عالعی ”روح جحن کے ععلی ٢ رثقاء کی صداوْت کر زہی ہے اور
مختلف* اقوام 'کو- آله کاڑبناق زہتی“ّے ۔متصریوں ۔ غراقیوں ء یونانیوں اوڑ رومیوں
کو یکے بعد دیگرے اپنا ترج|ن بنا کر اب آُس نے جرمنوں کو منتخب کزلیا سے
جن کے ہاتھوں میں آج کل مقدر اشنا نکی ہاگ ڈور ے ۔ جو قوم عالمیٴروِغ ی:ترجان
ے۵
یا ال کار بی ہے آسے اس نا وو تو إإقوام پر حکمرانی
ان جو بھی قوم اس رہ رگزیدہ بلت رکا مقاہلم کرے گت تباہہو۔ جاۓۓ گ۔ کارلن
ا سے رہ اب ا مم ۸ہ .ترسم
ٌ اپیکار کو ظقات* نعاثرہ کی کشکش پ ہیں ت مھ ومک
ماڑکس کے خیال میں پل اشرآقہ تق کے علم بردار تھے ۔ انقلاب آرائسں کے بعد یہ
۱ کام. بورژوا نے سنبھال لیا“ اتا ی انتلاب کے بعد یں فرض پرولتاریوں کے سرد ہوا
ے'۔ گویا اشرافی اور بورژڑواکی کشکش,پ 2 اور پرزولتاریوں ی لات ہیں
بدل ,کئی ے۔ ۱ اھر
لے اپنے فلسقے میں ىجرمنوں کے نل توق اور جرمن حکوست کے استبداد
کا جواز پیش کیا ے ۔ اس کے نظام فکر میں جزا غیر حقیقیٰ ہے اور اپنے وجود کے *
لیے“ سراسر ك٢ پر منحصر ےر ۔ وہ کمہتا ے کہ مملکت ایک گل کا درجہ رکھتی ہے
جس میں قرد کا وجود غیں حقیتی ہے قرد اس گل کی سیت اور رعایت ہي ہے :اپنا
وجود رکھتا۔ ہے ۔ ملکت ہے علیحدہ اس کی کوئی حیثیت حیثیت نہیں ہے۔ ۔ افراد مملکت کے
لیے ہیں مملکت افراد کے لیے موجود نہیں ے۔ ۔ قرد کی آزادی کا مفہوم سوا اس کے
کچھ نہیں ے کہ وم مملکت کے قوائینِ کی پیروی کرٹا رے ۔ - 1
فشۓ ۔ شوٰپشپاثر اور ہیگل کائٹ کے اصولِ فکر بے تحرف بھکۓ درا فان
لے نعرہ لگایا کہ ”' کانٹ کی طرف واپس لوٹ جاؤ“ ۔ انہوں ۓ نہ فشۓ اور ہیگل کی
اما الات کو رہ کر دیا ۔ ان مشکرین نیں رولف پرمن لوٹرے قابل کر ہے۔
وہ٠ جئے برع "کو وزرن نی ینا برا تاس ے یدائے سے قلبقہ پڑما۔
اس ہۓ ایک ہی برس ہیں فلسفے اور طب کی اعلول سندیں حاصل کریں اور قلییفے کا
پروقیسر بن کر بھی طیب کا درس دیتا رہاۓ رلوٹڑے بظاہر قلہئی اور بباطن فن کار ادرے,
شاعر رتھا وہ مذہب میں شخصی خدا کا قاٹلِ تھا اور فلمفے میں نما ثیت کا ترجنان تھا۔”'
سائٍي میں: وہ اپنے_ آپ کو تجربیت وٹ کہتارتھا۔ مارے زسانے میں ا کین نے
چرمؾ نثالیت کے احیاء کی کوشش کی ساب _ ےھ ٦
. . کلاسیگی رن مغالیت کے.اساسی افکار دوچ کی ہیں 7ك"
١ ٠ صرف ذبن پی موچود ہے -۔ نے ٦ ان ا نی
٦۔ صرف ڈبن ہی حقیقی ہے ۔ ےم 2 : 7 0 نا :
ہے۔١ 0 ذہن مادی کائنات کا خالق ہے۔ یں عقیدء انتہائ مزع عیت سا ٣
م۔ جسا ذین انمای ہے ویسی ہی کائناتا بھی ہے راس کے کات کر بای :
کک ذہن.انانی کی رعایت ہے کرنا تجروری ے۔
7
5 حٹے ٍ 0
3
37 00 وق کسی کسی سور ید رع تاد خی سازف ہے"
ے۷“ ۷ا بج
انس
جنر
اس نحلہ
سیت <۰ ۰ 0 ٤ 0ٰ ٦ و
3 ہہ سے کر کا یی او ا“ وں ہہ دئے ے “1یچ
/ 8 ہے
07 کا پ کر ١6+) عم ۷۷۔ در ہے ے
ُ .
ٌ
اھ پ پٹ جم ےا
۰٥ : 5 ے٢
ہے ہکات ایکاعطح قاو نید چک للا رک ما کم
ی ب مھ ےی لاثٹات باہمی نر امن میںڈاینۓ 0 جو معزوشی این اوذ یت
مس مت واإِنکكشاك ہم ہم پک رسک نز ہویں ںا گر* >“کائنات آئیں : مقَزؤضٌی معانی ہیں تو حتیقٹ حقیقٹ
سں ”لد کی چدزییی نکی 0٭:کشی نوع کیاذہقی خیات' کو مائٹا پڑے گا۔ جر جرمن.
سم مثالیت پسندوں کا یہی اِدعا ے ۔ حر ا مک مپم
”ح چر کائدات با معیع ے إىض ای'انساق کے لیے 'اجن یاحیکاندائیںن ے۶ ۔
ہیگل کے نظریات کے خلافیشدید زدعمل بڑا“جس ۓۓ.مستقل فکری تھریکوں ی
صورت اختیار کر ی ۔ کیرکگرد فوئر باخ پرہارٹ ذ لم جیمز۔ کازلَ مارک سے
فالسقے اس رِدغنل کی بختلف صورتین پیں۔جن تکا ڈنکز 'آگےہ آئۓ گا۔ پٹیگلی. کے . پیروؤں:
رنے اس کے افکار کی نشے سربے سد ترچانیکز کے 'مثالیٹ پسندی کا مقائم بحال کرتنۓ کی
کوشش کی ۔ ان میں بریڈلے ۔ بوڑنکوۓ ۔۔زائس ۔جنٹلے اور کروجے۔قابل ذ کر ہیں ۔
ٍبریڈلے ۔ بوزنکوۓ اور رائس .کو ” نوبگییغٌاک؛ کہا جاتا نے ۔ یہ سب ہیگل کے
اس نظرے پر صادکرے ہیں کہ کائنات کی فنہ کو سمجھنے کے لیے فکری تضاذ یے پہلو
بچچانا ضروری نے ۔۔ وہ کائنات کو ایک مبعبوط نظام مانتے ہیں: اور کہتے ہی ں کہ اس کے
رظ و صضفل کی نشان دہ یکونا فلسفے کا سب ہے:اہم منصیت ہے ۔ ہؤزٹکوۓ 'حقیقث
کبرعا کو ۔ایک ہمد گیر عقلیاتق انفرادیٰ۔ تجربہ ۔قزار ذیتا۔دے جس میں آفإقیت اور
.انفرادیت :کا اتحادۃعمل میں آیا دے د بریڈلے کہتا۔ ےکم؛شعوری.تجریں ہی خقیقت نے
جو یہ نہیں وہ غیر حتیتی, ے ۔_ اس کے خیال ہیں:وجوہ مطلق انسان مین: ظاہز ہو کر
دشعور ہوگیا ہے ۔ جادات:۔ نبانات اور حیوانات مین آچے اپنی ذات :کا شور کین تھا۔
بریڈیلے.اوازراس بے ہم خیال کہتے ہیں کہ خارجیعالم۔وریەہ ے لیکن کس کا جریم ؟
اس کے جواپ میں وہر کہتے ہیں کەه اؤہ کسی فؤد کا تجرپہ نہیں تچ بلکہ, وجود مَطلق کیا
ریہ سے ۔ اس لیے:آن کے نظرے .کو ؛٭مطلقیت؟؟؟ نھی کمہاجاتا ےہ بزیڈیلے کا
”'” روجود, مطلتچ. حیایت, اور ح رکچ سے مہٌرا ہے وه عقیقت کبرعا۔کو واحد:اور غیر
سٌغیں مانتا ے اور کممتا ے حقیقت تت٢ ساز ہے کر ید نشار رید +مُطلقیت
_پسنپوں کا سکزی خیال یہ ےک عالِمۃظواہر ےک پیچھے ایک اور عالم :مونجوَّدِ نے
جو زیادہ حقیئی اور روعای ے۔ بریڈلي کو جذید لم 5 زیٹو ”کہا گیا ے۔ اس
کی سشبہور تالیف 'ظاہر و حقیقت٤؟؛ منطقق رجودت فکرز ی ایک عمذہ معال ے وەہ
,چزہن وثالیت پسنیوں ہے اس یاررے میں ۔اتفاق کک راز کت منابعك الطییعیات :ظواہر
یبر رک پیچھے عالم۔ حقیقتِ کى . چستچو زکا۔نام ہے۔ پابامبول' اول اور جتیشت: کبزیا۔ کا
مطالعہ بے یا کاثنات گی نیت لگن کے ترچائی:کا نام دے ۔ اوہ کپتا نے تی سم
ظاہر حقیق نجیر ہے تاہم اسے یقت حخقیقت ہے علیہ یں کیا 'خا: سکتا ۔ ۔ حقیقت کیا سچ
اس کے جواب میں وه کہتا سے کہ حقیقت : حقیقت ایک ”'م بوط ل/؛ ےچ جی کال کے
کات و جو
(١) عممنادع78ت۔ ہآ( ۔. ۰ م)دجمول صا مەطھ - ٠ جت
سے 8× 3
۳ : ما 4
می
ے ۔ اسے وہ ,'مطل/ٌ کا نام ٠دیتا ے جو ےخصی نریں۔بلکہ ماوراۓ شخصی ہے ۔
اب یکہ ہیں زائن نے :اس انظزے کی اششاعیتہ کی ب۔ پیکٹے گارٹ ہیگل۔ کا ںو تھا۔ وہ
ذات؛ کی حقیقت :کا 'ائباٹ :کرتا یچ اس* لیے روح نی بتا ہکا قائل ےے۔ بعد میں وہ
لائی وی تی ود پہندی کی طرف ئل وکیا ۔ وہ روح کی پقا کا قائل ہوۓ
کا باوجود شخصیخا کا مٹکر ے ۔ ٠... ہے ریےے مہ
بریڈلے بوزٹکوۓ اور ان کک ہم خیال اسم :مشہوم میں مثالیت.پسند ہیں کہ آآن
کے خیال میں حقیقت کبرعل مادہ میں چے۔ بلکب ۔ذہن ے ۔ بریڈلے کے نظریات سے
اطالوي نو مثالیت پسند جنٹلے !وز کروچے: متائز ہوۓ تھے ا ۰
. .کرونچے اور جنٹلے يٍ_ تو مثالیت پسندی فلسنہ' پڑگل .ہی کے ایک پپلوک
'ترق یافته صورت ے , ہیگل کے دو اہم نظریاتس کے خیال میں ایک: دوسرے:ی
تکمیل ,کرتے ہیں اگرچہ ُس کے سعترنہین کی .راےۓئیں وہ ایک دوسرے کے متغارض “
ہیں ۔ (,) فکر ایک ٹوس زندہ حقیقت ہے کیوئکہ اس کی مدد سے خقیقت کبرتا کا
کھوج لگیا جا:سکتا ے ۔ () ہاری فکر کےٴ پیچھے ایک لی ٹهُوس خیال ک فحدت
۱ ے جس کی رعایت نے انفرادی تجربہ قابلِ ہم ے, اور حقیقت بنتا ے: ۔ فکرکی مکبل
وحدت ی حقیقت کلی کو پیگل نے ”'مطلق؟“ کا۔ام۔دیا تھا ۔۔ یی خیال بریڈلے اور
بوزنکوۓ کے قلسفے کا ص کز و خور۔بن:گیا۔ ۔ جنٹلے "اور کروچے کے-خیال می بھی
فعیال خؤد تخلیقی ذہن ہی حقیقت:ءے. جسں_ سے علیجدہ کسی شے کا وجود نہیں سے
حتیل کہ ”بطلق؟“ کا وجود بھی اس سۓ الگ نہیں ےہ ۔کروچے تے مادنے کے وجود
.نے انغار .کیا ے.او ر کہا سے کت ذہن یا روح ہنی حقیقت :واحد ےجس کے علاوہ
کوئی بھی شے حقیقی نہیں ے“- حقیقت. جو صوزت بھی اختیار کرے گی وہ 'لازماذہنی
یا روحاق ہو ہن تخلیقی ے۔اور حقیقت کی :ترجا کرتا ہے ۔ یہ کہنا>کہ قب
حقیقی. ے ید کسہئے کے برابر ہے کہ حة حقیقت تمبریں لے قعلیت ےا جیں کی صووتیں ایک _
دوسرسے ہے مختاف ہو سکتی ہیں لیکن امام طور پر وہ ۔واحد الال بئ ۔ ۔ وہ کہٹا -
ے ”کعو حقیقت حقیقت ایک نظام سے یلک ہے اور۔سراسر سر ذہنی ہے - مونوع اوز معزوؤضصضی
کا فرق ڈہن کی پیداوار ے - قب پت معروض عودخاق کرتا رت کروچچے نے
نظریاتی پہلو سے دئیا کو جالیاتی,منطقی حقیقت کپا ے۔۔ کے
ہ ۔کروے ادراکم' کی عتدے نے چتداں اعتنا نہیں کرتا ۔ آُس کے خیال میں ذہن
اپنا مواد'مثا ل٣ پیکروں اور روایات کی ضوزت میں: پیدا کرتا ے ۔ اس فعل کو آُس
.ےۓے جالیاق؟ فعلیت کا ام ! ذیاے جو سراسر وجدا :ہچ کروّچے کے خیال میں انمان >“
کی نظریاتی: فعلیتر ذو'کونں ہے ء وجلآق :اور عقلیاتی <س لے وجدانیٴ پھلؤ ہی کو
تفصیل سے موضوع جٹ بایا ہے ۔ ۔ وہ کہتا ہے اظہار وجدان کا گا
ے_.۔ ہے کے ع سط ًہ ثَّ +۰ ٦ 3
(ہ) گاء؟ ۔ (م) ھمناجہ07ط ۔ سے اس سے
(م+) [038٥٥ ۔ ےم ہہء (م)- نزازوناءد ماعط 66م دا ای
ست ذ2
-و'جدان کا اظہار ایک بىمثا ی پیکر می ہوتارے تو و مثال پیکرِ:فن کر" کا
جاتا ےی آعق کے لاق نظرے کا امیل امٍول ذہ سے کہ ”'حسن انلھاراے
ہم کسی فن:دارے بن حظ ائدوز ہو۔ے ہیں تو درحقیقتِ اپنے ہی۔وجدان کا 2
رے بتوۓ ہیں ۔ کروچے_ تارج :کو بڑی إہمبت: دیتا, ے اور۔ کیہہتا سے کیر صر
فاومقہ ہی تاریخ نکاری کبز کت :ہیں جنٹلر اور کبرقنے کے فلسفے میں ماد حقیقت حقیقت
کا خیالِ ے معنّی_ے کیوٹکس حقیقت حقیقت کازادراک :لا الم کسی نہ کسٔی وت
مہ کیا جا سکتا۔ ےۓے چین .میں اس حقیقت کي ترجا ی ئیہو ۔ سے ا
٭. ” چیسا۔کیرماڈیت کے باب مق ڈکو ہو چکا ے.طبیعیات جدیدہنۓ بادتے اوربذبن
ک قد تصورات بدل دے,ہیں ۔ مثالیت پسندی کے بمختاف مکاتب کا جائّزہ لیتے ہو ۓے
:ہم ۓ دیکھا, کیہ ان سپ میں۔ تندر سششترک: یب ۓ کہ حقیقت١ اہباسی طور پر ذہتی
الاإصہل سے اؤر,انہای: یاشعور پہونۓ کے باتمث کاثنات میں سی ۔کزي۔مقام کا مالک ہے۔
ہبازے زساۓ میں ماڈے .کے ٹھوس ہوۓ؛ کے۔ تصور کے پاططل: ہو جاے کے بید بعض
اہلٰ علم ۓ ین رکہہکر مثالیتِ کی تصدیق کی ے .کہ حقیقت :اہٹی ناہیت میں موضوغی
یا ذہنی ے -ہ وؤسری طرف. اوہ ۔سائتتی دإِن اور نیہ جُو مذہب وسائن یی تطبیق
کے قائل یہیں ہیں .جدید ۔طبیعیات کی :مثالیاتی ترجا کو قابل قبول تہیں:سمجھتے۔أور
کمہتے ہیں کہ اِس انکشاف بے کک ماد ٹھنؤس نہیں تے بلکہ۔جوہری توانائیْ کک للہروف
(یرٹرنڈرہبل.نۓ انہیں ”ولقعات“ کہا رے) پر مشتمل "سے یہ لازم نہیں [تا کہ توانائی کی
لبہرپں ذہنی یا روجانی پیوں کیو ئکییتیجربہاگاہوں :میں اس بات کا کوئی ںثبوت نہیں مل
سکا اس موضوع ۔پڑ اظہار خیال کیا لی ۔ اچ جؤڈ کت ہیںد ٠<
ر ٭ _ ”اغلاۓ طبیعیات ت مك حال ہی میں جن خیالات کا اظہار کیا ےے :ان کا:رد عمل
ت7 فلمنی ی۔د نیا .میں ۔بھی۔بولاننے سید رد عمل معاندائذ قسم کا سے تد .جب
وب لے سائنس دِأن اییے' مسائل میں دخل ۔رر ۔معقول ہین لگینن جن کہ تعلق ہمیشہ
- فلسنے رہا۔ .ے تو ان :پر وہی:غلطیاتٌ کز وك کا الِزام : لگایا جا کا جن
۱ کا ارتکابر خود قلاِسشی نے کیتھا اور تق تزدید اع فلسفہ کے صر
ترہ سا ۔نقصل ۔زہاء ے ۔ جیمزسچئیز+اورہ !ڈنگین کے مثالیاق نظرنب اشی نوع نک
__. ہیں جو پہلے۔ہیوم .7 کلے تے سترھودل اؤر آٹھارھویں ختدیون میں پیش کے
۔ تھے اور جن کو رد کیا جا چکا سے ٗ یامجن. کا رنتطتی صوڑت تستتغطذاہ5 ہر
منتخ ؛ہڑؤنا کھایا .جا کا سے .(سدنڈمناہ؟ کی 'زوگ سے لعاہدہ کرۓ والا
ے موضوج ہی حتیقتاً کائیات تئ) اڈنکٹن* َو جنیزِ کے متعلق یہ بھی “تھا جاتا
پ8 "و تو اس انان تاس اپکار پی کر“ رےے ین٭جیستن کے وہ:حقیلت
ی۔ پسددوں ۔ ک ی اس حڑیک ۔سمطلتا ے خز ہوں چسی کی !ٹا نیس یئ لی ۔ ٹور
ہے کارب
ج- ےک ہتھی۔۔اور جسے ۔یعد میں چنڈی" رواں ککے اوائل 'جیئ نٹ ہیڈ اور
5٦ 5
سسصحدںد۔ سی و لے |, کے وت تھی تو کن ٭
جج وک وہ کت و 5 ف ےڈ ۔2
- .* ۰ ۴
خٍ : سی وک 5 .
2 ل٥ہ ر چے یل علیہ .2 ہیی حافی +۳۸۶ ریں
جی -
گے
ار
٤ پرنزٹدرسُل ے ہزوان چڑھایا تیاۃ × بث “٠ رلاڈ فکر:جدید)
“ جدیت طیفیاٹأےۓ مادنے کہ ٹھوی'ہو ےہ تصنوز کا ابطال کرک قدیج ماڈیت
کے فی کی ہے تو جدید رہیئت لے معالیتپسنندی کے اس روابین نظرے اتا انم کر
دیا کے کم کائنات میں کوئی'-آفاق:شنعور یا۔ذہن:کارفرناٴ ے۔ قذیم "یوائیوٴں کی ہیثت
ان کز انسان تھا کوپرٹچکی ۓ اہك- کر دکھایا کد کرةازغق ٠ہو انان کا
یکن ہے کائنات کا کز نہیں . سے اہلکی نظام شممیَ کا- ایک چھوٹا ٴا ضیازہ ہے۔ ٠
.اس انکشاف ہے انسان کے روچ فن کو سخت ٹھیس لگ او کائنات اسے ایک اجننی
دیئی ڈکھائی دینے لکی جلے اُس کے وجود اس یىی آرزوؤں: اوواستگوں سے کوئی
دلچسپی نہیں یہ ُفسیاتی:دچکا اڈنا شلذیذ تھا جیسا کہ'اس شیر۔غوار بی ۓ کا جے مان
کی گود سے کھینچ کر زمین ہر پٹخ دیا جائے۔ چنامچہ اس ذہنی و جذباقٰ جراحت کے
انال کے لیے جرمن. رومانی قلسفہ تب کیا گیا. ۔ اور یں دعویل کیا گیا کہ کاثنات
'انسان.کے ڈہن کی تخلیق, ہے یا انسائی ذہن اور آفاق ذہن اصلڈ ایک ہیں ۔اس طرح گویا.
.انان ۓ اپنا۔ کھویا :ہوا مقام ڈوبارہ پا لی ے لیکن ۔جدید ہہ ہیثت ے. جا۔ ہی اس
خود قرتّی :کا خاتمم۔کز دِیا ۔۔یؤان قدیمع کی میئت- میں زی کائنات کا سکڑ تھی جس
کے رد پان پیاز کر لہ ک طرم یم در کیں کے ہوئے تھے۔ ۔ یہی ہیقت بِطلیموہ
اور ڈینٹےٗ کی کتایوں میں نظر آق رے ۔:ڈینٹے اس کائنات کا' چگر چُویس گھنٹول میں
پورا کر لیتا ے ۔ بثالیت پسندی کا نظریہ اسی قد یونانی یا یطلیموسی ہیئثت نے
وابستہ رہا رے جیں میں رکائنات ذات اِنسُاتی سے ملتّی جلتی ایک عظم ذات بے جو
انسان ہی ى ۔طرخ ب پا شعور یے۔اور۔ جس سے انسان شعوری و قلبی ر تد استوار۔کر
سا ےئ جذید کے بد ۔جتصور کائنات کو جو مثٍالیت کی ساس ۔اول ے یاطل
۔قرار دیا بے : ریڈیائیلذور بینوں تی جو۔ کائنات:منیکشف ہوئی ہے وہ ے کراں ے
اور انسان:کا ذہ نٴهنٍکا اجاطہ کرتے ہے قاصر ے ۔ جوستارے ہمٌ کے قریب ترین ہیں
وہ بھی کئی روٹتی کے سالوت ى. سعاقجر پر واقع ہی۔ ہیی بش
هی ہزار میل ئ شیکنڈ کی رفتار ہے:حر کت کرق ہُوئی 'کئی۔روشنی کے سالو
میں ہم تک پہنچتی ہے آسان پرتجو سید مفید:سے۔ ذہیے دکھائی دیتۓ ہیں ای
۔زوقتی ایک:ارْب چالییں کروڑ شالؤں میں زمیں تک پھنٹٹی ے۔ جیں کہکشاں کے
راع میں ہم یمتج .ہیں _اسں میں.'تین لاکھ تین ہزار ارب ستازے ہیں ۔ پیہیت
:جسے قین کروڑ او زکپکشا اب ,ٹک دور پین میں نے ڈیکھّے جا چکے ہیں مر
کپکشان ہے دفیری ہکہکشاں تک تی مسافت بیس لاکھ روشتی کے سال ے ج-
ۓ "جو کھکشا: ببپ سے زیادہ دورہے وہ اد یک:ہؤار لاکھ ۔روشتی کے سالوں کی
ہسافشرہر وائم ہے 2 یب کمپکماں انتہائی برق رفتاری: کے ساتھ ای“ دؤسرے سے“
*جفر ہتتے جا رے ہیں ںہ ظاھر_رے, کید اہن ے.کراں کائناتِ ۔کو ایک رٹقھج من سیارے
کی نٹھی می خنوق ہے کیا دلچنسنی ہو۔ سکتی ہے ۔ یاد رہ کہ نا قبل اجس '
انسان تے سورچ چاند وغیرہ کو اپنے آپ پز قیاس کر ے انہیں قی اللہ و ڈیٰ شعوز
سی
۔قرار دیا تھا اور دیوتا بنا لیا تھا جو آُس کی خوشی اور غم میں شریک ہوۓ تھے۔ ان
کوشش نۓعلم اصنام کی بنیاد رکھی جو قدیج مذاہب کا ماغذ بن گیا ۔ تہذیب و مدان
کی ترق کے ساتھ علم اصنام کا خاتمہ ہو گیا تو اسان نے مثالیت اور روىانیت کے
_ نظریات سے کائنات اور ٹیچر کے سیاتھ اپنا شُعوریٰ اور "جذباتی رشتہ بحال کرنۓےکی .
کوشش یىی ۔ مثالیت پسندوں نے کہا کہ کائنات با شعور ے 0 لیے آُس کے ساتھ
انسان کا شعوری رابطہ قائم ے۔ رومانیوں ۓ" کہا فطرت زندہ ے ذی احساس ے<
ا لیر ایا ا سے جوا تماق نامک چنا سے ۔ ہبارے دور کے مثالیت پسندوں
توانائی ک لہروں .کو روحاق اور ذییٰ کہنا غروع کر کر دی ام۶ کہ اس کے
2-2-1 تعلق کو برقرار رکھا جا مکے ے2 جدیڈ ہیثت کے کے انکغافات ج .
پیش نظر اس بات کو جسلی کرفا نا مشعل ہے کہ ید سے ۶ دا حائا سا ا
کی پیداوار سیا اُس کے ٍ بس پردہ کو ذہن یا ضوع کارقرما ے چو انساق موقتوعٌ
یا ذبن ہے واجذ الاضل ہے ۔اس طرح علم بیشتم پیشتوکی ٹرق کے ساتھ مایا مابعل الطبیعیات
فرسودوہو چک ے لیکن اُخلاق ہثالیت باادیہ' اقم و برقرار ۓے ساس اخوام تی
ترق کر جاۓ قبریں اور نصب العینِ اس کے دائرۂ تحت ہے خارج ہی رہن کے اور
ان ک موجای کا حق قلابقہ کو پہنچتا رہے گا۔ اتا ضرور ہے کی یہ قاریں اور
تب العبن سائنس کے الکاقات کِ روشنی میں معاشرةاتشّاق کی تبڈیلیوں کے ساتھ“”
ساتھ بدلتے رہیں گر کیہ ان کی ایت داہدیت کا تصورنثالیا ابد الطبیعیات کے ساتو
دم توڑچکا ہے۔_“ 2.0 ٠ عو ر.- رہ کپ ئ رہ
یەرایکب تلخ حقیقت ہے جس کا اعتراف کے" بغیں چارہٴ نہیں کہٴ مغالٰیاق '
سابعد الطبیعیات کے خاتے سے انسان کا قلبی وشیتہ کائنات یٔے ماقطع ہو چکا ہے ابرع
اپنے آپ, کو تدہا عسوس کرے لگا سے “ پارتر کا نظریہ" ہوجودیت "آسی عذاب ناک
سیب اچساس تدہائی ی,ترجانی کرتا ہے ۔ لیکن یہ غبروری نہیں چے کہ لایس ذہٹی وجذباتی
صدمے کا نتیجہ سنک اور یاسیت ہی ک٠ ورت میں شکلے حقیقت پسند طبائع نے نی
صورت حالات کو قبول کرکے مثالیاق ماوراثیّت ثیت کے قطع نظطر کی ے اوز کسی
حقیقت کبرعل سے بُعوری یا جذباق.ر شتہ قائم کرت کے بجاۓۓے اسی اکٹھے می ” بیارے :
5 1
٢
حعہربت رت ٦ 2
ہیں سرت و۔طانیت حصوْلِِی کوشیٰ شروع کر دي_ ہہ یی بجع آ انان کا
٦
اِصل مقڈرے ۔ے۔ 1 5 ۱ پیٹ لس
ے 6ا٤ نل ِ1 7 ہد آ۱ مج ھ ي ٦ ٠ ڑے ھھے
سیے 5 كت یی کی ہم“ ٛٔ رح ہک وگ - سس إے ے
- .۰ سس“ ہے يّہ سًَ
ٴ٠ چ- - ے 5 ٠ کک
ہم 6 رت .لے - و0( َ ۰ ج >۶ ۰ ہہ سے
ہے ع ہج فو سد ۔-
8307 ۰ س ۱ 5
و هاے 4ا ہمہ ہے ہد ۔ نپ ار ۶
۰ ے پ ہے ےد
َْ۔ ۰ ہے تھے کے . - 5 بمعتد 5 ج-
- تد 5
ٹہ .-.-- ععیہ ت۷ کی ا سض ہے رتہ جم ۔>
۰ ہے -
ذِ - َ یسا ٹاو بجع ۹ 7 ر۔ نے -0898+/, اھ 1 - ح
کكکھ
ہ ً - َ سس
یَّ و رر ا ری کا -٦
7
ےج کن ٠ 7
٠ 3 ۰
ز ےی يے حتقۃھ ہے فلا ,ء,.+08 ع اتک می در
یہ۶۱۷ یت ۱
پا کی وپ 7 ر؛ کور د3ا مر وگ ساد 2
۔ژَ کے رپچے ہے ٭ مم 3 ٍ
ہت ہت روہ کے عل ہے در ق٤ سی 2 . ڈ جا > روم
7-
ُفلاطون 7 سی کے مابعد الطبیعیاق نظزیاتَ میں فلّفٰ* ونان تعراج تکال
کوپہنچگیا تھا ۔ سط ۓ اپنے ]ساد کی مثالیت ب پڑ معرکہ آراء نقد لکھا تھا جس تد-
مثالیت پہندًی میں حقیقث پَسندیٰ کا رجحان پیدا ہوا ۔ لیکن سیامی زوال :اوزز تعاشی
بدا یل کے یاعث اس َجَحان کو بین موأَقم لہ مل سکے اور ارسطو تی ذات پر
فک یوان کا ایک رشان دور لحم ہو_ گیا۔ پریکلیز کے غہد زریں ' کے بعد جلند ۂی
سپارّا۔ ۔والوں“ ۓ آیتھٹڑ کوٴ قتح کر کے آساکی ٴآزادی کا نخامہ ”کر ڈیا ”تھا لیکن
سپّارٹا والے بر حال یونانی تھے ۔ ان کے عہد تسلط میں ایتھدز والوں کو ایک حلہ
تک, کر و نظر ى زی میر تھی و داد ام پھًتھ فلپ شاہ مقدو نید
ے جنگ قی ریہ میں یوٹای ریاستوںَ کی مل فو ج کو شکستٗ فاش د ےکر انہیں اپنی
مملکت میں شامل کر لیا۔ سکنڈر کی وقات کے یع بھی اہلِ یونان بند ستور باہمی نزاعوں
اوز سازشوں میں و رہے حتلی کة رومۃ الکبزیل کے غلیے نے انہیں“ “ابدیٰ٠ غلامی کی
زنبیروں میں چکڑ دیا۔ تنزل و ادیار کے دور میں اقوام توف سے زجَوع ! لای ہیںں,۔
چنانیم اہن مراف اس عہذ اتخطاط میں باطلیت اور تصیّوف کا دامن تھاماٴ لیکن جس
تصوق کی ظرف وہ متوجہ ہوۓ وہ کوئی ملق مکتلٍ عرفانَ نچیں تھا بلکہ آن عتایذ و
افکا رکا ماغویدر تھا جوزٴ سکندر اعظم لک سای اتید“ ”پابل ۔ مصر اور ایران و جند
۶
سے اپتنے ساتھ لاۓ تھے ۔”جہاں اپل نان نۓ ان مالک سے علم بیئت کۓ اصول اور “*“
مٰتاحت و ہندے کے یہادیات سیکھے'تھے وہالَ مقر و سیمیایئےبابل - یں رت کات
اْڑ عرفان بد ایران ک تصیْل بھی ک تھی و ںار ا
: سکندر اعظمٴفلسفے کا شیدائی تھا اور ارسطو کا اگرد تھا لیکن وَہم َ پزشتی نی یہ
حالت تھی کہ کلدانی قال گِیروْنَ اور کاہنوں'ػی ایک جاعت اپنے' سُاتھٴ زکھتا۔ تھا اؤز
ہر سہم کے آغاز میں ان سے استصواب کرتا تھا۔ یوئان کی عقلیت اور مشرق۔ُک
تصوف و عرفان کے امتزاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں اہل مغرب کو متصوفانہ افکار نے ہے
متاثر کیا وہاں اہلِ مشرق ۓ بھی اپتے مذہبی عقاید کی تاویل کر کے انہیں فلسفیانہ
نظریات پر ڈھالنے کی کوشش شروع ی جس سے علم کلام کی داغ بیل ڈا لی گئی ۔ اس
تائیر و تاثر کا سب ہے بڑا مر کز سکندریہ کا شہر تھا جسے سکندر کے ایک جرنیل
بطلیموس نے مصر کا دارالحکومت بنا لیا تھا۔ اس کے جانشینوں کے زیر نگیں
سکندریں کو بین الاقومی شہرت حاصل ہو وئی۔ سہذب ذئیا کے سمام مالک کا مال
۸
چارتِ بری ویچری رامتوں سے۔اسشبر ہیں آتا تھا ایْران ہندوستان:اور عرب کے
اجروں” نے ہر کے مضافات میں _ اب پی اپنی بستیاك پہنا ن:تھیں. دن رات کے میل
جولِ اور ذربظ ضبط ہے ختلف اقوام و مذاہب۔ کے لوگ اوسنع الیظاز: :اور فراخ: امشرپب
ہو گئے اورہے تکاف ایک دوسرے کی ک مذپی مجالیں ہیں شراقّت کرنے تھے اور ایک
” دوسرے کے تیوہارو ںکو مل کز دھوم دھام سے مناے تھے ۔طلیموس انی ںۓ سکندریہ
یں شہرۂ آفاق دوک ینیاد رکھی' جس میں ا عظج این کتپ۔خان بھی
ائم .کیا گیا ۔ 2 روھ وٹ ۰
"اس میوڑج میں یونان ٢ روم آور شام کے اہل عم کے غلاوہ چو بلیئی ںذیب و
دن کی عائندی کرے تھے ہندوستان, اور ایأن کم لم دونہت :تاج بھی_ آپس میں
تل بیٹھۓ تھے اڈ_ٹ- اور فلنقیانہ موضوعات پر.تبادلی :خیالب کررۓ تھے ۔ امن:
بات کے تارٹٹی شواہد موجود ہیں کدَٴ ہندوستان کے سیْکڑوْنبدھ . اور جین .بھی ان
مباحثوں میں حصد لیتے تھے ان ے علاوہ قلبعطین کے“ وی ,اخبار :تھے جو۔ سب
کو حقازت کی تظروں ہے دیکھتۓ تھے لیکن اُس کے باؤجود اپ کت نقدسہ کا ترجمہَ
یونائی زبان میں کر رے تھے ۔ عیسائیت کو شروع روغ یں یهؤدنت ہی کی ایک
شاخ سُمجھا جاتا تھا لیکن مسیحی, اولیاء قدع یت پرِبْب اقوام کے قتص کو اپنے
مذہپ میں, جذب کو کے اے عالمگیر رواچ و قبول۔ بخشّنےههاجواب دیکھ رے چھے۔۔
۱ "ینان میں افلاطون اور ارسجلو کے قائ _کے ہویںۓ اتی میں در وتدریس کا۔
سلسّلہ جازی تھا لیکن ہر ور زمانہ سے ان کے بانیوں یئ تعلبمات می ربھت کچھ تخریفتہ
والحاق واتع. .ہو چکا تھا اور ان ہدرسوں کا رجحان,تککاىی چائّپ ہو گیا تھا ب:بہلی٭
دی بعد از مسیح ہیں ایک طرف ایران کے متورامت قی ہمہ گی ترونج ہو دوسری
فیٹا غورس کی عرفانی تعلیات ت کا احیاء عمل میں آیا جئیۓٴ ٠ٹ فیثاغوازرسیتب کا ۔ 'نام۔دیا-
گیا اس میں تٹاسخ رارواح۔ تتشفو وریائج اود 'نظریبہٌقضْل :و جذّب پر نعاص طور سے ٴ
زور دیا جاتا تھا۔ متھرا (سہر ؛ آفتاب) سورج دیوتا تھا ےآ کے جازی ]ہے شفیع و
منچی سہجھتے تھے ان۔کا عقید تھا کہ پتھراٍی سفارش ہے ارتؤزانزذا:گشپکارؤں کِ
نی دے کا ۔ شفیع کا یبر تو بھودیوں نے ایران تد نے'ہستھار لیا تھا ۔ وہ اتی“
سیا کہتے٥ تھے ۔ اسلام میا جی تصور یسح مود کٗ صورت :میں ظاہر: ہوا
عیسائیول ے جناب تسیح کو متھرا. یق جگں' اپنا شفع ”سمجھنا: ٠شروع کیا ۔اوز
_ متھراستم ہے کیسس کا تیوہار بھی مستعاز لیا ۔ مشرق تفاذی :ك قابلے میں بی
ناورم نے بھی اپنے عقاید و ابکان کؤ مذہی یتاڈورب:زیں بننظلیم کرت کی کوشٰ ۱
کی۔ ۔ رواقیئین بے اس _ رجحان .کو ”خاإص طوں پر تتویت کی ,اك ہیں پوسی: دؤئیس-
قاہل خٍ کر ے۔ بعض مورخینِ افلسغیب یے ہو فلاطؤئیت بت کا آغاز اٰیٌ کی ذات او تعلف
سے کیا ہے۔ ٍ فرینک تھی کہتۓ یہ .۰- کر ہے پان ات بت
''افلایلو ن اور ارسطو کے بعد فلسفے کا جحان توافت کے وا٘نظے سلمدہبیت
کک ک طرف ہو گیا تھا ۔ رواقیئن کائنات کو نا ای تل تو اور اس بات
۹ھ
۔
رن کی دغوت یل تھے کہ النتانی ازادے کو کاثاق اراائ ےس ھت ' رکھنا
ہہ فروزی ے. .نائکہ کات کی غایٹ: :کی کیل ہز سکے۔ اس مذہبی حریک کو
برک ام وقت تتوَژتٰ پھٹٹی ٹڈ مکندر افظم کے آندکیزنانیوں کو ملدائیوںا۔
داع مصرپوں ادر بہودیوں قد بل" جول کے تتواقع - - سکندریہ کے قپز کوے_
بینالاقومی'حیۂ 'حیثیت حاضل“ٹھی اسی شہز میں یفاھوڈسی سے انز برای نک
رت مذ ہج کی - روکھٹینی' کوکش کی گی آور انلاطون- گے فلننے کو مذہبی
رنگ دے کر با ابا کے مذہبی رنگ پر مشرق تصُوف کا اہ ا کھ
تو فاظویت یآباد رک کی سی و ۳ ا
نو فلالوثیت ک'آغاز و ازتقاء کا تازجتی لیٹے سے ہے اس منیی زان ْ کے دو
ںہ“ کپ
میشٹھور ترج|نوں فلو پچودیٰ از را ا دیسی کا ذکر اڑہیں: ضرور سے 0-
فلالییوس کا پیٹز رو ھا جات سے ا رے >> ع اہچی .-
بے فلقمودی یی ق ہم ضے 82 یڑ 5 ق نام تک تکندریہ میں می رباد آس
کا پھائی,سکندریہ ینہ روغ کو ال تجارزت۔برآند-کرتا تیتا'۔ فلو ا وف کا ارئیس تھا
جس ؤدیوں۔ن:شنشاہ زومككٌالن گڑلا کے ذزبار میں بھیجا تھا< اس ن کا عقید عقیدہ تق
کہ ہودیوں کے یثہبی عتاید-ازر فاقافہ“ یونان لے۔افکاز دونوں اك و اہدی مات
کےحاہنل ہہت ان مسذرہجئق لا لیشداور خلت ثابت: بحسرت تن سے ین
دموعا کنا :کر افلاطون اوٰڑ ارسطق چتاب ممعیٰ کے وو تھے اور نوا کا تلمات
سے قیق ع باب ہنون تھے بی'وجد اس ُک۔ُقون فلو ٹورات“ی تعام ورا نے لسن
میں ۔بنیادی !توافق پایا:جاتا سپ ے ا ئے لف و ذہب ام وی طَي کی
کنوششئ ک'۔ آس کی:پیروی۔میں بِنک“میں میسسائی اور تلان متعلہ ین _ نے بھی آہتے آپتے
مذہبی: اصولوں کی ثاویلیں کر کات یئ توثیق فلْفہ* یوناث کے نہات نساٹل سے کگ
تھی ۔ :اسی ارح فلو یہودی:کو علق کلام کا ابواآباء سمجھا جا سکتا جے۔ اس کت
تکوینِ کائنات کا ذکر۔ کرۓ ہوے لکھا ہے کن لوگ (لةوی معنئی : علمد ۔ لقظ ۔
ھ۸ [خَدا,اور کائنات کے درمیإن وہ ضروریٰ واسطہ ے جس کے بغیرۃ :مائنات کی ی تلیق
ممیکن نہیں تھی۔ لوگئن :کا لفظ ہتٹریة یتسس یڑقانی نے عقل کل کے سشمہم دیق پہلے جہن ا ال“
کیا او رکہا_کہ یہ ہعگیر ح رکٹ ق ہیجانِ کائنات میں اہ بن کزشرایت کے ہوئۓ
سے د ات اکسا غؤونی نے امن۔ واسطے کو عقتل اول کا:نام :دیا ے اور آےے عالمگیر
دن یزیر کر ی١ تخاطاب کیا شنے چو ۔کئنات می ٭توافق او تاذب جا برتڑارے
کر ے8 ظ5 ید
رکھتا ے۔ باد ےگ یہودیٹ میں .اسلام کی طرم خذا کا تصوز شخصی ے افرخدا
قادر بطلق.یۓ جو منڑف,!؛ػ٘ن)' کہنے :ئے ”آشیاء۔ ک وعدم ہے وجود ئیں نت
ےس فلاسفہیونان کیا کثریت ان ٴبات'کی قائل۔ تھنی کہ“ کوئی” 2 قدم: سے وجود
میں نہیں آ سکتی۔ اس لیے فلو ھودی نے لو ػس.کا"شہارا لیا۔اؤر ٣ اہنے مذبی عتیڈے
کو فلفسیازہ استدلال پر قزبان' کر دیا۔۔ مزید برآن فلو ہوڈی رد وفیثاغورملیت ے اس
نظرد سے مثائر ہوأننھا کہ مادہ-شتر کا میدام ہے اؤر خدا 'خیر کا۔ مادۂ آلایش ہے
2ٰ
٭
اس لیے ُس سے اجتناب ضزوری ے۔ یہ غیال بھی یہودیت کی تعلیم کے مناق ے--
کیوں کہ اس میں دنیا کی لذتوں ہے متعتع ہوۓ کی دعوت دی گئی ے۔ علاوہ ازیں
فلو 1 متفراق ۔آور سراقبے یی اہمیٹ کاقائل تھا ۔ یہ خیالات بعد میں یی کے
قلسنے مین داخل ہو گئے۔ - “ ا :
۔ سکندر افرودیمی یوٹانی ألاصل تھا ۸ء کا تک و اینھدر ءّی
درس دیتا رہا۔ اسے اپنے ژہماۓ میں. شارح ارسطو کے لقب ے یاد کیا جاتا تھا ارمطو
کی دوسری کتابوں ی طرح سکندز ۓ اس کے _ رسالہ* روخ ی شرخ بھی لکھی جو
ے حد مقبول ہوئی ۔ عربوں مین اس کی مابولیت کا یه عالم تھا کہ اس کا باز بار عربی
میں ترجمہٗ کیا گیا. اور متعدد سرب علاء ے اس پر سیر حاصل حواشی تحریر کیے ۔
اؤر اس کے ملخص قلم بعد کیے 'حتلی کہ ۔بقول اولئیری اس کی ئفسیات جمام عربی
. فلسفے کا سنگ بنیاد قرار پائی ۔ ا کر ہیں س کے ارطو کے نظریات کی ترجانی
مذہیٴرنگ میں کی تھی اور ارسطو کے ”عحرک غیر متحرک“ کوالوہیت کا جامہ پھٹایا۔
تھا۔ علاوہ ازیں اس نۓ کہپا کہ ارسطو'”انہائی روح کو غیر قاتی سمجھتا ے ۔ ارسطو
کے ایک اور غارح تھی میسٹیس ۓے سکندر کے ان خیالات کی تردید میں ایک رسالہ
. لکھا اور ُس پر الزام لگایا کہ آُس نے ارسطو کے متن کو ایسے ذاتی معتی پپٹا دے :
ہیں جو آُس سے متبادر نہیں ہوتے چونکہ زساۓ کا رجحان عقلیت کے بجاۓ باطلیت
اور مذہبیت کی طرف تھا اس لیے تھی سٹیس کے اعتراضات کو نظر اندا زکرکے لوگوں,
نے سکندر کی ترجانی کو صحیح سجھ کر قبول کر لیا ۔ سکندر افرودیسی کی :اس
شرح ے نو قلاطوئیت کی تشکیل میں اہم حصہ لیا ۔
فلاستہ* یوئان خدا کے شخصی تصور سے ناآشنا تھے چنائیہ افلاطون کے 'خیر
محض؟اوز ”اوسطو کے حرک لامتشرک؛ کو ان معنوں میں جدا نہیں کہا جاسکتا۔
خدا کا شخصی تصور جو بعد میں عیسائیوں اور سسلانوں میں شائع ہوا سب ہے پہلے
” یہودیوں:ٴۓ پیش کیا تھا۔ قدیم زماۓ میں ودی دوسری بت پرست اقوام کی طرح بت
پرست تھے ۔ جب پابل اور اشوریا کہ ہے در ہے حملوں نۓ 'ن کی بساط سلطنت الٹ
دی تو مصائب و آلام کے اس دور میں انہوں ۓے ایک قبائلی دیوتا یهواہ کو خداوند
کائنات سمجھنا شروع کیا ۔ یھواەک جو تصویر عہد نامہٴ قدیع میں دکھائیٴ دیتی ے وہ
ایک تُلی اور توی خدا ک تضویر ے جو اپنے بتدوں کو ڈراتا دھمکاتا ہے۔ بادلِ اور
دخان میں ان کے خیموں پر اترتا ہے اور دھویں کا ستون پن کر ان کے آکے آکرے
سب چلتا ے ۔. فلاسفہ* یونان مذہباً کثرت پرست تھُے۔ افلاطون اور اِسطؤ بھی جن کے
نظریات میں ایک عالمگیر اصول اول کی جھلک دکھائی دی ے اپنے مل دیوتاؤں
کو ماٹتے تھے ۔ ارسطو ستائیسے باون دیوتاؤں کا قائل تھا۔ افلاِطون کے مکالبات
میں بھی کی دیوتاؤں کا ذ کر آتا ے۔ - مہور ژمائیب ے جب فلسقہ حض شرح و
ترجانی تک عدوڈ ہو ک کر رہ گیا تو لوگوں نے فلاسفہٴ قدیم کی اصل تعلیات کی طرف
رجوع کرتا' ترک کر دیا۔ انلاطون 'ی اکیڈمی میں کھلم کھلاتٹکک کی 8م
۸۸۹
دی ی جائے لگی ۔ اسی طرح ارسطو کے شارحین اس کے افکار کی تاویل کر کے اک تطبیق-
رَائٌ الوقت نظریات سب کرۓ لگے ۔ ان لوگوں میں سکندر افرودیسی کی شر سب سے
زتادہ مقبول ہوثی “اس نے ارسطو کے رسالے ریع_ کی جو مکہبہی ترجائی. ک تھی وہ
دنیاۓے علم میں حرف آخر سمجھی جاۓ لگی ۔ اس کے بعد ابنِ رشام کہ زمابۓ .تک
کسی فلسفنی ۓ ازسطو کی اصل تعلمات کو بعرض بحث میں لاۓ کی ضرورت غسوس
نہیں ی۔ یذ وہ زمآئہ تھا جب رقح عصبر تصّوف و عرفان کی دعوتِ دے زی تھی ۔
ایک طرف تو قیثاغورسی۔ مشرق مذاہب اور فیٹاشورس بے ٴظریات کی آبیزش سے ایک٠
لئے مذہب “کی بنیاد رکھنے کی فکر میں تھے دوسری طرف, .متھرامت چاروں طرف
سرع ت سے پھیلتا جا رہا تھا ۔ عیسائیتم کی اشاغت بڑے چوش و خروش یۓ کر جا چا رہی.
تھی ۔ عیسائیت میں عوام کہ لیے ے بنا کشش کا سامان تھا کیونکہ اہں ے شریعت
موسوی ۔ ختنہ اور سیت کو مشسوخ کرکے بت پرسوں کے رسوم و شعائر اغذ کر لیے
تھے اور رواقثین کے عالمگیر اخوت کے اصول "کو اپٹا لیا تھا ۔ دوناِ اور روس فلاسٹںِ
کو جو معلوم تھا کہ اس نئے مذہب کا مقآبلہ کرتا بڑا کٹھن نے اس لے ایھوں:
ے قدماء کے فلسفیائم* افکار اور مشرق کے صوفیائہ اصولوں کے امتزاج سے ایک ایسا
نیب مرتب کرۓک اضطراری کوشش کی جو عیٗساثیت کا سدیاب کر عکتا۔ اسی
شش ا دوسرا نام ۂ فلسفہٴ“ نوفلاطوثیت .ہے چے گلہرٹ مرے متذہبٍِ یونان
کے آخری مرحلے, سے تعبیںکرتا اور جس ے سٹیس أ قلسفہٴ یونان آخری اضطراری:
کوشش "قرار دیتاٴ ے جوٴمشرق تصوف و عرفأن کہ خلاف کی :بی اوز ٹا کام رہی ۔
اس کشمکش میں فتح بالآخر غیسائیت ہی ک ہوئی لیکن جس طرح یونان کی روح عتن,
ۓے روسی فاتحین کو مسخر:کر لیا تھا اسی طرح ثوفلاطوی نظریات عیسائیوں کے
فکر و نظر می ایسے دخیل ہو ۓ کہ آج ات کے تارو پود کو ایک دوسرے ہے علیحدہ
کیا جاۓ تو عیسائیت کا وجود باق نہیں رے گا۔ ٠
< فلاطیٹوس مم .مع یا ۵ وع میں معبر سے ایک شہر لکوپاس ىق بدا ہو ود
رومن نژاد تھا اور ایران کے مشہوْر جلد ہمہ مانی کا ہم عصر تھا: اس کے شاگرد
فرفوریومن نے اس کی ایک ختصر سی سواخ حیات لکُھی تھی جس سے معلوم ہوتا رے
کہ اے اوائل عمر میں تحصیل علم کے لیے سکندریہ بھیخ دیا گیا جہاں اس کے اوس
ساس سے تعلم پائ۔ بعض اہلِ حقیق کا خیال ہے کہ ثوفلاطوئیت کا بای بی ساس
ے۔ فلالیٹوس ۓ صرف اتنا کیا کہ اس کی تعلباتَ کو قلم بند کر لیا جیسے افلاطون
ے اپنے استاد ستزاط کے۔افکار کو اپنے الات :میں عحفوظ کر لیا تھا ۔ سکاس نے جوانی
میں عیسوی مذہبٴقبول کر لیا تھا۔ لیکن بعد میں نے ترک کردیا اور اِس کے غلاف:
تتریریں کرۓ لا ۔ شایا۔ اسی وجہ سے قلاطینوس اور اس کے شاگرد شروع ہی سے
عیسائیت کی بغالٹڈٹ ”کو اپنا فزض اولین۔ .سمجھنتے تھے ۔. ہسکندریہ مہ افلاطینوس کو
ایران اور ہندوسٹآن کے باغنندوں ے میل جول کے مواقع ملتے رہے۔ یہ لوگة اکر
ارت پیشہ تھے . ۔ فلاطینوس کی دی خوآہش تھی کہ وہ ایران اور پندوتاثِ :جا کن
۸۷۳۳
قُّ
وہاں کے حکاء سے استفادہ کرے اتفاق سے انہی دنوں شہنشاہ روکارویاں دوم
ۓ ایرآن لی فوج۔کشی ی۔ اس موقع کو میمت جان کر اینوس اس کی فوج میں
بھرٌق ہو گیا لیکن زیادہٴ دن نہیں گزرے پاۓے تھے کہٴ شہنشاہ گاردیا کو قتل کر
دی گیا اورٴفلاطینوس نۓپھاگ کر انطاکید میں پناہ می ۔ وہآں کچھ مدت قیام کریۓ ٠
.- کے بعد وہ روم چلا گیا اور وہاں اپٔی درض گاہ قائم ی۔ > اس کی صحت اک دوش
رہتی تھی لیکن اُس کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی اس کے عادات و خصائل
ایٹے ٹ شستہ و (ڑفتہ لد تھے تید جو شخص ببند نؤں کے لیے اس کے ٌلدہٌ تدريسَ میں
”شائل 7 ہو جاتا وہ غمر ٴبھر کے لے اس کا گزویدہ ہو جاتا تھا ۔ فلاطیئوس طبعاً تنہائی
پسند تھا اور ہمیشم تعٛق* و کر میں وبا اوہتا تھا ۔ یی آستغراقِ بعد میں اس کے
مسلک کا لازسی جڑو بن گیا“ > فلاطینوس کی خوش قسعتی ہے اس کی ذات کے۔گرد قابل
. شاگردؤں کا جمکھٹ ہو گیا تھا جن مین اتیلوس ۔ آنٹوکیں اور ةڑفوریوس نے شہرت
حاصل کی : ىقلاظینوسض و اپتے غعقاید و افکاری اشاعت میں مانیاں کاتیا بی ہوئی حتول
کیہ شنہنشاہ وم گیلئس اور اس کی ملکہ طلویئیاۓ بھی اس کے ماحوں کی صف میں
تشامل ہ وگئے ۔ قلاطینوس کی دی آرزو تھی کہ وہ کمپینیا میں ایک شہر ”فلاطون آباد٭ٴ
کے ام سے بساۓ جہاں اتی کے پیرو اور ہم خیال یاہم مل جل کر زندگ گزارین
“اور جہاں ایک دارال میق بھی کھولا جاۓ۔ شہنشاء اور اس کی ملکہ ۓ اس تجَویز
کا خیر مقدم کیا لیکن فلاطینیس ک زندگی نۓ وفا نہ کی اور یہ خواپ شرنندۂ تعبیر نہ
”ہوسکا فزفوریوس نے فلاطینؤس کے مھ 'رسائ کو چھ چھ کی ''اینڈز“ ۔ا لغوی می :
”تو میں تقسیز کیا۔ و کے عذد کو فیٹاغؤرس کے منملک میں مقدس و کامل سمجھا
ْ <جَاتاکه اس لےٌ بظور:تبرک و تفاؤّل یہ ترقیب عمل میں آئی ۔ اك رسائل کٗ چوتھی
آینڈ میں ؛ زوحٴ کے سشثلے پر بحث کي کی ے اور اس کا ایک حصہ ٴ(ساتواں ردالہ)
بٹالۓ رؤح کی تا کے لیے وتف کیا گیا ہپ 2 اس کا شار فلاطیٹوس کے اہم" ترین
” رسائل میں ہوتا ے۔ فلاطیٹوسٰ کے رٹل میں رطب و فابس بہت ے لیکن صوفیانہ
ور اد نقط* نظر نے بعش مقامات ایسے اعلیٰ و ارقع ہیں کہ بقول برٹرئڈرسل
”ذوق جال کے لحاظ سے دنیاۓ ادب میر۔ صرف دانتے یىی افردوس؟ ؛ ے کچھ حمے
٠ ہی آن کہ مّآبلے میں بشی کپّے چا سکتے ہیں ہیں اور لططت.یہ ے کہ یہ بھی فلاطینوس
ہی سے سُاخوَذ ہین ۔)٤ َ2 و <-
لم فلاطیتوس کی وفاتا کے بعلر اس کے شاگرد فرفوزیوئ نے درض و درس کا سلسلہ
.جاری رکھا۔ اس ہے نوقلاطونیت کا دوسًرا دور شروع ہوا۔ فرفوریوس (متوق .٠م
م) کا اصل ام مالخوس تھا اور وہ سامی النسل تھا, ۔ وہ فالطینوس کا عض مقلد
ہی نہیں تھا بلکە اہن ۓ آپتے نامور:استاد کی تعلَِت میں اضافے بھی کے۔ برٹرنڈرسل
کے خیال میں اس ۓ فلاطیٹوس کے افکا رکوٴ مابعدالطبیعیاتیق رنگ دیا جو اس کے استاد
کی تریروں ہے نہیں چھلکتا ۔ اس کی وجہ یء ے کہ وہ فلاطینوس کی بہ نسبت فیثاغورس
سے ژیادہ متائر ہوا تھا ۔ علاوہ ازیں فرفوریٰیوس ۓ فلاطوثیت میں ارسطو کی منطق کو
ےھ
۳۴ھ
داخل کیا اور اُس کی 7 9 - پ-پ 9ۃ ۔ اس کا و
٠ علمی اقدام تاریی لحاظ ے بڑا اہم ے.۔کیوٹکہ- >دور عباسید کے عرب حکماء کے پاس
افلاطون 'اور آرسطو کی جو تعلمات سریانی ترجمون کہ ڈریعے سے نہنچیں وہ فرفوریوس
کے اسی نظرےۓکی حامل 7 تھی کہ افلاإطون آور ارسُطو کہ نظریات میں. کسی قسیم
کا بنیادی اغختلاف نہیں ہے۔ فلالینوس نے اوسطوٰ کے مقالات عشرہ پر بخت تقید کی
تھی فرفوریوض اور اس کے متبعین ۓ دوبارہ ازسطو کی طرف رجوع کیا تمسلانوں
کی طرح بلکہ ان کی پیروی میں دور وسطو کے عیسائی مشیلمین نۓے اپنے فکز و نبِلز ى
نیاد اشرافیٹ اور مشائیت کی اسی مفاہمت پر استواری تھی۔ '
فرفوریوس کے متعلق یہ بھی مشہور ےے کہ اس نے ارسطو کی 'قاٹون؟ ک تمہید
لکھی تھی ۔ وہ اپنے استاد ے زیادہ رہہانیت پر ژور دیتا تھا۔اور ۔اس معاملے میں متمّاہد
تھا۔ مات ک طرح اِس کاخیال تھا کہ ت زکیم” نفبن کے لیے گوشٹ خوزی اوڑ اختلاط
جنسی کا ترک لازم ہے۔ لیکن اس نۓ ماتی کے اس عقیدے کی تردید کی کم خواہشن
شر کی تخلیق کرق ہے اس لیے ترک خواہش پی سے روح نجات پا سکتی ے۔ عیسائیت
کے رد میں اس تےۓبھت کچھ لکھا۔ اس کے خیال میں عیسائیوں کی کتب مقدسہ الہامی
نہیں ہیں بلکہ چند کم علم لوگوں کی تالیفات ہیں۔ بھی وجہ ے کہ بعد میں عیسائی
حکومتوں ۓ بارہا فرفوریوس کی کتابوں کو نذرِ آتش کیا۔
قرقوردوس کا ایک شاگرد جملیٹس تھا جس نے افلاطوت اور ارسطو 5 کتابوں
شام کو چلا گیا اور وہاں وقلاطزثیت کا درس دینے لکا۔ اپنے امتادوں کی طیحم سک ْ
بھی فیثاغورس کے افکار میں گہرا شفف تھا اس موضوع پر اس نے رسالے بھی تالیق
کے ۔ فیثاغورس کے نظریات نےۓ اس کے توقلاطؤق عقاید کو متاثر کیا ۔ وہ ماقوق الطبع
پر اعتقاد رکھتا تھا۔ فیٹاغورس کی طرح وہ بادے کو نر کا س کز وعور خیال کرٹا
تھا اور ترک ہذات پر زور دیتا تھا ۔ اس نۓ عیساٹیون کے اس عقیددے کی ست غالفت
کی کہ دا نے جناب ممیح کے جسم میں حلول کیا تھا۔ ُ :
سور زمانہ سے نوفلاطونی نظریات میں تجریف ہو گی اور اس میں ٹوبمات .اور
خوارق عادأت کا شمول ہوگیا۔ تؤفلاطوثیت کا آخری علمْ بردار پروقلس بازنطینی .
(ہ رم تا ۸۵ئع) کو سمجھا جاتا ے ۔۔اس ے یوٹائیوں کی کثٹزت پرستی کے ُجواز
میں کتابیں لکھی۔ وہ عیسائیٹ سے سخت متنفر تھا اور ساری عمر اس کے خلاف
تقریریں کرتا رہا اس لیے اسے ڈوفلاطونیت کا مبلغ کہٹا چاہیے ۔ اس کے بعد کوئی
ٴقابل ذ کر وفلاطوئی پیداتھیں ہوا ۔ جو وقلاطوتی نظریأت شام کے عیسائیوں اور
ْ مسلانوں تک پہنچے اور جنہیں صوفیہ ۓ اپتایا وہ اکثر نو بیشتر پروقلس کے نظریات
ہی تھےے 3
۹ء ْع میں شہنشاہ جسٹیئین ۓ یوٹانی فلدفے 5 تدریس کو نوع قرار دیا اور
ممام مدرے.بند کر دے۔ نوفلاطوی حکماء بھاگ کر ایران چلے گئے جہاں غسرو
ں۷
۲۳ھ
ٌ
انوشروان نے ان کی بڑی خاطر تواضع کی اور گندیشاہور کہ طبی مدرےے میں انہیں
تدریس کا کام تفویض کیا لیکن نہ فلاسفد لن ہ ماحوّل ہے ہرگشتیر خاطر ہ یکر واپسِ
چلے گئے ۔ اور بقول.یرٹرنڈرسل ”گتامی کے شہرے میں غائب ہوگئے_4“ ۔“
فلاطیٹوس کے فلسفے کا سنگ بئیاد تبلی! کا تضور ے ۔ ۔ اس کا عقیدہ تھا کہ“
ذات:احد ہے بتدریح:عقل : ذروح ۔رؤح نم انسائی اور مادہ کا نزول٢ ہوتا ہے ۔ تعمق وہ
تفکر کے طفیل .روح النباتی مادے کے تصرف سے آزاد ہ وکر دوبارہ اپنے مہداء حقیق
سے جا ملبی ے'۔ اسے صعود (اوپر جائا) کہتے ہیں۔۔ عربی'زبان میں اس نظطرۓ کو
فصل و چذب (ذات احد ہے جدا ہو کر دوبارہ اس میں جذب ہو جانا) کپ ہین ۔
فلاطینوس کی تثلیث ذات احدیت:۔عقل۔ روح پر نشتمل سے اور عینبوی تثلیث ے٠
ہے مختلف ے ۔۔عیسوی تثلیث کی طرح اس کے ارکان کا مقام ایک جیسا نہیں سے ۔
ذات احد سپ سے ارفع و اعلول ے ۔ اس کے بعد عقل کا مقام ے اورٴاس کے بعد روح
کيا درجں ہے ۔ اس تعلیت کے تیسرے رکن یعنی روخ سے آفتاباد قمر اور دوسرے
اجرام فی کا ظہور ہُوا۔ روح سے انسان کی روح ۔علوی 'پھوئی ۔ انسانی روح جب
مادے کی طرف مائل' ہوئی تو وہ اپنے مقام نے گر گئٔی اور روح سفلی کا ام پایا۔
مادے کے تصرف سے مبات پاۓ کے لیے وہ پیہم کشمکش کرتی ہے اور اپنے مبداۓ
جقیقی کی طرت پرواز کر جائۓ کے لیے نے قرار رہتی ے ۔ اس ے قراری کو فلاطینوس:
ۓ عشق کا نام دیا جوٴ بعد میں ابتِ سیٹا کے تصور عشق اوز صوفید کے نُشق حقیقی
کی صورت میں ممودار ہوا پرواز یا صعود کی کوشش میں روح انسانی کو ناکانی ہو
تو اسے کسی ردوشرے آجمی یا جانور کے۔جسم میں حلول کرنا پڑتا ے اور مادے
ی آلائش سے آزاد ہو جاۓ تو وہ رو کل میں جذب ہ وکر ثشاط جاوداںک یق حق دار
ہو جاق ہے۔ َ
ثریہٴ تجلی کی واحت کرے ہوئۓ فلدطلینوس ےۓ آفتاب ی- یل سے کام لیا سے ۔
وہ کہتا ے کہ ذات احد ہے عقل اور روح کا بہاؤ ایسے ہوتا ے جیسے آفتاب ہے
نو چھلک پڑتا ے لیکن جس,طرح نور کے انعماسں سے سرچشمہٴ آفتاب متاثر نہیں
ہوتا ایسے ہي عقل کے بہاؤ سے ذات احدِ اثر پذیر نہیں ہوق ۔ مادہ وہ تارییق ے جہاں
۰ آفتاب حقیقت کی شعاعیں تہیں پہنچنے پاتیں نی کائنات کی تمام . اشیاء کا ہیولیْل ہی مادء
ہے ۔ روح اسے صوزتِ شکل عطا کرق ے۔ انسانِ کی روح علوی کا رابطہ روح کل سے
بدستور قائح رہتا ے ۔ روج سفلی جو مادے سے قریب تر ے گتاء کا سرچشمہ اور
ہوا و ہوس تفسانی کا می کز ے۔ ء
اس مابعدالطبیعیات ہے جو دستورِ اخلاقی مرتب کیا جاسکتا ے وہ ظاہر ے۔
جب مادہ شر اور گناہ کا کا سک ٹھہرا تو بد بھی طور پر اس ہے کنارہ کش ہونا پڑے
گا تا کہ > دیج انسانی پاک اور منزم دو کر روج کلک غرف پدمز کر سکے ۔ نتیجه ایک
ج<ھ .-
ج
سس نہ چ. گل
ر2
٠ ([)ہدمنادددوظد رو حت ا ای ہد کٹ ہے لہ
۶
ر
ٍ ۸۵8
وافلاطونی کا فرض .اولیں یہ ہوگا کہ وہِعالم حواس ىیٴمیہ موڑ .کر شبائہ ول
ہس اقبۓ میں۔ غرق رے۔تا کب پب اس یق روح میں پرواڑ کی -صلاحیت پیدا :ہو جاۓ۔
اس طرح نؤفلاطوئیت اخلاق و عمل میں زاوین نشینی اور وہباثیت گی تلقین کرق۔ ے ء
ا فلاظینوص :سے دِم تک اپنے عقاید پر -کاربند رہا۔ اس :کا دعویل تھا ۔_کد مراقۓ یی
حالت میں اسے کئی بار روح کل:میں جذب ہوئۓ کا جربہہ ہوا لیکن ازغودرنتق کات
کبیفیت گریڑ پا ثابٹ ہوئی آور مادڈے کی کشش نے روح کو دویازہ ِغٔالم سقلی مین
کھینچ لیا۔ شاید'اسیٰ بنا پر فلاطینوس کی وت کے بعد اس “کے پیزوؤن ےی کہا
کیا کد اتے:الہام ہوتا تھا اوز اس سے مغجزات کا صدور بھی ہوا تھا۔ ایک
تبہ ایک معبور ۓ فلاطینوس کی تصویرکھینچئے کی خواہہش ی۔ فلاطینوض نے انکاز
کونے ہوۓ کہا میرا چو ا خی مہ ے اس کی تصویر
کھینچنا ے سود ہے۔
بعض اہل علم ۓ یك سوال اٹھایا سے ے کہ آس قلاطیٹوس کے بیسلک کو
نوقلاملوثیت کا نام کیوں دیا گیا ے اور افلاطون کے افکار سے اس کا رابطہ تعلق کیا:
ےل رات یا ہے کم سح معن میں توفاب وت کو آفازعاوق کے قلفی کا اجیاء:
نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کم اس میں افلاطون کے فلیبقے کا صزف وہ پھلو پیش کیا گیا:
. سے جس کا تعلق اشراق ۔ تصوف اور خوارق عاداتِ ے۔دے آفلاظون کی تجریروف:
سے نظریمٴ امثال ۔ مکالمٌہہ فیدو کے متصوفانہ افکار۔ 01ت ۔جمہوریہٴ اور سمہوزع
:سے عشق کی بث ماخوذ ے اور افلاطون کی سیاسی دلچسپیوں ۔ خیر کی مختلف صورتوں
کی بحث : اس۔کے ویاضیاتی افکار ۔ اس کے اسلوب کی گفتگی اور۔ڈرابائیث .کو قلاطینوس
ۓ نظر انداز کر دِیا ے۔“ اپنی عمر کے اواخز ہیں :افلاطون قیثاغورس کے نظریات
سے بڑا متاثر ہُوا تھا حتول کم اس ۓ فیثاغورس کا نظرید اعداد بھی۔اخذ کیا اور
۰ اغلاق ہیں اسی کی طرح رہبائیت* اور گوشہ نشی کی طرف مائل ہوگیا۔ یھی وجە سے . :
کہ اس دور کے ما ات میں وہ فلسفیائیںہ نسائل کو عقلی استدلال یی کت
دیکھنے کی بجاۓ ان ی وضاحت کرتے ہوۓ استعارون اور اساظیں سے کام لیتا ۱
فلاطینوس. نے فلسفہ افلاطونِ کے امنی اشراق پہلو کو اص کی تعلمم کا اضل ان حاصل ۱
_ سبمچھا اور اس پر مشرق یاطنیت کا پیوند لگا کر فاسفۃ وفلاطؤٹیٹ کی تشکیل کی۔ ٴ
فلاطیٹوس کا تیلی کا نظریہ بھی افلطون ہے۔ماخوذ ے ۔ افلاطون کے ذات:احد کو
خی عض یا حسن ازل ۔کا نام دیا تھا۔ اس کے خیال میں خیر :اور خسن کو ایگ
دوسرے ہے جدا تھی ں کیا جاسکتا۔ - ذات احد لاعدود اور مطلق عحقٌن ہے۔ '۔ انسائی عقل
اس کا اخاطب کریۓےٴ سے قاصر ے۔ وہ کائنات بۓ ماوراء ے کیو کہ اگر وہ,
جائنات پرعمل فرما: ہوگی:تو اس ماوزائیت میں فرق,آجاۓ گا۔ نظام کائنات کو فرقراز ٴ
رکھۓے کے لیے چند ارواج 'ہیں جو ذات احد اور کائنات کے مابین رابطے اور واسطے۔
کا کام دیتی ہیں ۔لوگس ان ارواح کا ممائندہ ہے جو ذات احد کی تبل ے اور کائناتِ۔
کے مظاہر اس ضۓ پھوٹتے ہیں ۔ چونکم ذات احدد زان و کان سے بالاتز ے اس لیے :
کی
َ
ھ۸
1ج
عتل اسان“ ىُّ رضائی اس ولک ان ہوتکی2 رن ٹور ر باطن (اشراق) ء سے ای 5 معرات
غامل ی جانکی ے۔ عالم ستلن و مادق آقال؛ 37 عکس ہے؟ تنایہ ے ٭ا رک
وضاحت کرے ہوۓ افلاطون نے نماری یور اقیل پیٹ ی۔ اور یں ثابت کرے
نی کی کون کی وع جازم حزاسس خی فو کاب سذ عالمدہی سے جو امثال کا
سکع ان" وی
7ت ڈات آع د کو ائل کاڈ س 27 قدر ٦ اور ماوراء سمجھتا تھاکپ ٠
اس سے لے ”ایک“ کا لفظ اسخعال کرای تاب خیال کرتا ٹھا۔ اس کا خیال تھا
کہ ایک کا تصور ”کہ ت؟ کے تیور کے بی نھیں کیا جاسکتا۔ یعنی صرف 'ایک؟
کہ دینےیے. کثزت لازم آجاتی ہے ۔ فلایتوض بے اس عقذدے کو عقلىی استدلال سے
چ ,خل ککرنۓکی کویش نہیں کی بلکە عقیدٌُ ماث: لی کہ ذات باری ایک ہے اور کثرت
سے ماوراء ہے۔ اس سوال. نۓ ٠اس پریشان نہیں کیا کہ 'ایک؛؟ کثرت سے ماوراء
کیوں کر ہوسکتا ے اور اگر وہ کثرت ہے ماوراء ہو توکثرت اس: سے متقرع کیسے
1 وگ ۔ جب ذات احد اور کائنات کے مانین کسی نوع کا تعلق نهیں ہوکا تو وہ کائثات
خلیقیقکیس ےکر سکےکا۔ اس دقت ”کو عق رفم کرئے کے بجائۓ فلاطییوس نے شعرامٴ اور
صوفید کیَ طرح استعارول سے کام لیا اور کہا کم کائنات ذأت باری سے ایسے متفرع .
ہوئی آفتابَ نے شغاعیں یا سے پرف سے سزقی یا مکڑی ے جالا وغیرہ۔
چسے سے
افلاطون کى طرج فلاطیتوسِ کے ہاں بھی انسانی زندی کا مقصد واحذ یہ ہونا
چاپے کہ وہ مادی اور حواس کی دئیا سے ےج تعلقی. ہوۓ کی . کوشش کرے۔ اس
کوشٹ میں انسان کو سب ہے پھلے اپنی رف علوی کو جسم اور حواس کی قیذ نے ۱
آزاد کرانا ہوکا - اس عمل کو وہ تصفییا کا۔ ۔نام دیتا ے۔ اس کے بعد تفگر و تڈیر
- کو بروۓکار لاتا ضرؤری ے ۔ جپ, استغراقي او مراقیے کے طقیل. روح کی توجب
عالم سقلی ہس یکسر ہٹ جا ےکی تتو روح تفکر و تڈبر سے بھئ ے ٹیاز ہو جائۓے گی
اور بلاواسطہ عقل؟ اول سے رابطہ استوار کر لے گی ۔ اس مرحلے پرروح پر وجد و
یف کی حالت'طاری ہو جا ۓ کی اور:اس ٍ عالم کر و نشاط میں اسے ذات احد کا وضال
نصیبٌّ ہوا اور وہ اس میں جذب ہو کن وہ جائۓ گی اھ و ےت
: وارفی گریزاں, ہو ہیں۔ اس چٹ کو سٹیس ےإِنْ الفاظ میں سمیٹا ہے
۳ و136 رو )خقنطا٤ڑ
××
"'نوقلاملوٹیت کا. بنیادیںپ 8 ہی ہے کنا انسان وجد.ؤ کیف میں ذأت باری,
تک زسأئی حاصل کر گیا ۔ عقل و۔خرد کا عجز و قصور نوفلاطوثیت کا
نقطہ' اناو نے جہاں عقلیَ استدلال ابی ے چازی ک اعتراف کرتا ے وہان : "
وفلاطونیت وجد و حالِ ک ماد راستے کی رکاوٹوں سے گزر جاٹا چاہتی_
ہے۔ ۔ یوتاقفلہم جٔں مقام تک عقل کے وسیلے ہے ئە پہنچ ہکا نوقلاطولیت۔ ۔
' وجدان کے بے وہان تک : چیخ جانا چاہتی ے۔ اس کے مطایق جہاں عقلِ,
- 31009 25 3
لی برہم
کت
کی کوششیں ناکام رہیں وہاں والہائب ے خودی کامىیاب ہو جاۓگی۔)؛
مشہور سورخ گہن نۓ ڈوفلاموئیت بر یہ اقڑام ا کہ آنْ لوکود نے فہم
انسانی کو ملوث کر دیا ے وہ کہتا ے-۔..۔
. ''نوفلاطوی بڑے تی اور عمیق فکر کے ماک ' تھے لیکن 7 ے -
< “ کے مقصود کو نظر ائداز کر دیا اور انساتی فکر کی تزبیت کرنۓےکی بجاۓ لٹا
اسے بگاڑ دیا۔ انہوں نے اس علم کو جو.ائسانی قوعا سے موافقت رکھتا ے
قراموش کر دیا اور اخلاقیات ۔ طبیعیات اور ریاضیاتٍ ہے قطع نظز کرکے اپنی
تام قوت مابعد الطبیعیاتی بجثوں أور یناظروں میں ضائم کر دی ۔اس کے بعد
ان لوگوں ۓغیر سرئی عالم کے بھیڈذوں کو دریافت کرۓ اور افلاطون اور
ارسطو کے ایسے نظریات کے درمیإن مفاہمت کرۓ پر کمر ہمت باندھی جن
ہے عامۃ الناس کی طرح یں وفااملوتی فلاسفد خود بھی ناآشناۓ عض تھے ۔ ے
بعض اہل علم کمہپتے ہیں کہ وفلاطونیت ہندوستان کے نظریہٴ آپتشد ہے متائر
ہوئی تھی-اور فلاطینوس نے تناسخ اور فریبِ ئفس (مایا) کے تصورات اس ماخذ ہے
لے تھے۔ لیکن اس مفزوشے ک: توثیق کے لیے تارینی شواہد بہم نہیں پہنچ سکے ۔ اس
میں شک نہیں کہ وفلاطونیت اور آینشڈوں کی تعلم میں اقدار مشترک موجود ہیں۔
آپنشدوں کی تعلم بھی بھی ے کہ پہلے آنما (انفرزادی روح) کو دریافت کیا جاۓ اور
پھر اسے برہمن میں فنا کر دیا جاۓے؟ اور برہمن یا آفاق روح تک رسائی صرف وجدانَ
سے ہی ممکن ہو سکتیے۔ عقل استدلالی اس کوشنش میں نا کام رہ گی ۔ لیکن تبّلی
کہ جو مراحل نؤقلاطوئیت میں گناْۓ گۓ ہیں ات کا اپنشذوں میں کہیں بھی کھوج
نہیں ملتا۔ یہ نظریہ خود افلاظون کے فلسفے میں موجود تھا اس لے فلاطینوس کو
آپنشذوں سے رجوع لاۓکی شرورت حسوس نہیں ہو سکتی تھی ۔ رہا تناسخر ارواح کا
مسئلہ تو یہ معر قدیج میں بھی موجود تھا۔ غالب اىكان ہی سے ,کہ مصر ہی سے
اس کا پھیلاؤ دوسرے مالک میں ہوا۔ بقول ىیرو ڈوٹس:اسے فیثاغورس ۓ مر قذیم
ہے مستعار لیا تھا اہل مصر روح کے غیر فانی ہوۓ کے قائل تھے اوو موت کے بعد
جسم کو ميٴ کی صورت میں عفوظ رکھۓ تھۓ ۔ ان کا خیال تھا کہ روح تن ہزار
بپرس کے بعد مختلف نباتات ۔ حیوائات وغیرہ ۔کا چکر کاگ کر دوبارہ می میں. واپس
آجا ۓگ ۔ فیٹثاغورس:اور ایەپی دکلیس ۓ تو اض بات کا دعویل کیا ھا کہ انہیں اپنے
گزشتہ جنموں کے حالات وی یاد ہیں ۔ ''جمپوریہ“ کے اواخر میں افلاطوّن نے بیان
کیا ے کہ لکاس دیوی لوکوں کو نٹ نئے جنر عطا کری ہے۔ علرفیوس ک روح
ے اپنے ! لتے راج ہنس کا قااب انتخاب کیا۔ تھرسے ٹیس نۓے پندر کا اور آ کامیمنون
ے عقات کا ۔ اسی طرح مایا کا تصور بھی افلاطون کے یہاں ملتا ے جس کے .مطابق
۔عالخ ظواہر یا عالمٍ حواس غیں غمیں: حقیقی ے اور غضٌ نیرنگِ تظر ے - ان حقایق میں ید
دعوقل کرنا: کہ فیثاغورس ۔ افلاطون فلاطیٹوس' وغیرہ ہے نظریاٹ پر آپنشدوںِ ي
تعلیات کا اثر پڑا تھا ایسا ہی بعید از قیاس ے جسے یہ خیال کہ آپنشدوں کے انکر
۸ھ"
لج سرے
یوٹائ فلاسفہ سے ماخوف ہیں ۔ ۰ ٠ - ےب
. فلاطیوسٰ تے عیسائیوںِ کے عقاید پر اسم اور عارقوں! 2 افکار پر بالخصوص
کڑی کر ہی ک ے۔ وہ عارفوں کے اس۔ عقیدے کا الف تھا کہ دیا شر کی
_ تنلیق ے اس لے اس میں دلچسبی لینا گناہ ے۔ ۔ فلاطیدوس فطرت ےچ حدن و جال
کا پرستار تھا کیوں کب“ اس کے خیال میں فطرقِ حسن بھی ,ح-ن ازل ہی کا پرتو
ے۔ فلاطیٹؤس ٴ کے نظریات اس. لحاظ۔ ۔ سے .بڑے اہم ہیں کہ وہ یراہ راست عیسوی
کلام پر اور بالواسطب مسلانون کے تصوف اوز عام کلام پر اثر انداز ہوۓ۔
آگہٹائن وی آس کا مداح و - آِس کا خیال تھا کہ فلاطینوس کی روح میں و
کی روح نے حلول کیا _ے اور افلاطوں کو وہ فلاسفہ ایح کہا کرتا: تھا۔
7 سوا حتت اور نو قلاطونیت میں بنیاڈی توائق پاپا جاتا ے ٠
7 فلاطیٹوس کی تعلیات میں خفیفِ سا رد وہدل کر دیا جاۓ تو ٢ ہے عیسائی کہنے میں_
کوئی تائ٘ل نہیں ہوگا۔ اسی بنا پر ارڈمان نے اپنی تارج فلسفە میں نو فلاطوثیت کا
ذکر ات وسطلی کے مسیحی علم کلام کہ من میں کیا ہن اھ کے خیال میں
اس مسلک کو یوٹانی فلسقےک شاخ قرار أدینا غلطی ے-لیکن یہ راۓ بوجوہ قازل
کت ے۔ بقول سیٹں عیسوی عقاید اور فلاطینوس 2 افکار میں بنیادی اختاافات,
۔ تو فلاطوثیت میں یوثان قدیم کی إصنام پرستی کی روح کار فرما ے ۔ آ گسٹائن
ول کی طرح کایتٹ' ول بھی نوفلاطوئیت کا بڑا شیدائی تھا وہ سکندرید کا پہلا
عیسائی اہل قلم ے جس نے قلفے اور عیسائی فکر و نظر میں مفاہمت پیدا کرۓ کی ٠
کوشش کی تھی۔ چنانچں ازم وسطبی کے عیسائی متکلم عیساثیت کے پردے میں
فلاطینوس کے افکار ہی کی تبلیغ کربت رب حتعلی کە طاەس.اکوئٹس نے ارسطو کے
افکار یىی اہمیت واضح کی ون ان روم کے ٦ میں 2
سے تعلیمات باق و برقرار ہیں : ۔
مسلان مفکرین خلافت عباسیں کے عہد زریں میں اتل کے افکار سے ات
ہوۓ تھے کیوں کہ انطا کیں۔ نصیبین اور حران کے نسطوری عیسائیوں اور صابیئین
ے یونانی فلاسفہ کی کتابوں کو سریانی سے عر میں ترجمہ کر دیا تھا ۔-غلسطین
اور شام کے عیسائی مدارس میں جس قلسفہٴ یونان کی تدریس ہوق تھی وہ بنیادی طور :
پر نو فلاطوی تھا ۔ سریانی علاء ارسطو۔ فیثاغورس۔ ہیریقلیتس 'وغیرم فلاسفہ یونان
ےکا شرح نو افلاطونی افکار وعقایذ یی روشی میں کر رے تھے۔ جیسا کہ ذکر
ہو چکا ے سکندر افرودیسی ے نفسیات ارسطو کی شرج مذہبی نقطہٴ نظر سے کي تھی ۔
نتیجۃ وہ عربوں میں بڑی مقبول ہوئی ۔ ”'اللہیات ارسطو“ کا عری ترجہ مھ میں ہوا
تھا ۔ یہ ارسطو کي تالیف نہیں تھی بلکە فلاطینوس کے زسائل کی آخری تین: کتابوں کی
تلغیص تھی جو ایا آہو۔وی ے لكویٗ تھی کرو مکی سے اسے ارسطو کی
65105:11. )١(
۸
سن وت اور النھیات کے نو فلاطوق افتار ارسطوٴ نے مشتوب۔کرٴدیئے۔ اس
طرح دنیاۓ “اسلام مین. افتار۔ ارسطو کک پردے ہیں“ تو فلاطوف: التازٍ کی غوب
اشاغثظ ہوق'۔ لے ئن اٹلامی- نو فلاطولیت؟ٴ؛ کو آن سَتا- او وءابي۔ زقد تۓ 'پایت*
تکیل تک پہنچایا۔ ۔ مسلان صوفقیۃ پر غاضل طور سے تو فلاطوئی تعلیأت :کا گہرا۔ اثر ے
ہوا۔ چنائھہ جنیدابقدادی ۔ بایزیا۔ بسظامی ۔ غنہاپ الدین سہروزدی' ا اث شراق مقتتولءٗ
۱ شیخ اکہر غیْ الدین'ابن عری' ۳ حخلی کہ غزال تک کے بنیادی انکار تو فاطیَ کہے
چا سکۓے ہیں ۔ تل کا نظریّہ مس(]نون "میں 'ہ زکہیں رواج پڈیز ہو گیا ۔ الکندی سۓ لے
گر فارأبی- اخوان الفا ۔ ابنِ سینا وغیرہ تک سارنے فلسفہٴ اُسلام کا سنگ بنیاد یہی
نظریہ ء فلاسفہ' الام نے سکندر افرودیسی ک پیروی میں عقل کل کو عقلِ فعال
٢ *ص"ڈ*؟٭" ۔ ان کے خیال.میں عقل فعال ذات:باریٰ
فرع ہوئی ہے اور اس کے عمل. ہے عقلِ مستفاد کو فروغ ہوتا ے۔ انسان .
ود کرے تو عقل مسفاد عقلِ اول میں جذب ہو سکتی ے۔ این رئتبد کہتا
تھا ۔کہ سان روح کا وہی خصہ باق رۓ گا جو عقل اول یا عقلِ فعال میيی جنب ہو ٠
جاۓ گا ۔ ا نے نظریں* وحدت عثتل فعال کہتے ہیں ۔- ۔ این رشد بے اس کا منطقی تتیجّہ
پ" یا اور حشز نشر ہے انکار کر دیا فرینک تھی کے الفاط میں ٍ
سللان قلاسق, ی رسای ارسطوک اصل تعلیات تک.نہ ہو تی ی٭ٗ ان کی
ترجاؤم نو فلاطوق رگ میں کرتے رے۔ دراضل نو قلاطوق شرح کے
پردے ہٹا کر ارسطو کی تعلمات تک پہنچ سکنا اس زماے میں سخت
مشکل تھا کیوں کہ وہ عندیوں سے شرح و ترجانی کے ملیے میں مدفون ہو
وا ناف کو البت مستثنیل کیا جا سکتا ے ؛'منطق اور ریاضیات ۔
جن میں سنلإچوں ے سای ےی کے
مسلانون کے تصوف پر نوقلاطوتی انکار کے بڑۓ گہرے اور دوررس اثرات””
,نوۓ ۔”یاپزیدا ختطافی جو پھلے صاحبِ :حال صوف ہیں تنا ی اللہ کے مبلغ ہیں
بنید۔۔۔بقذادی ۓ قاد طینوس کی پیروی میں اتآ کو حسن :ازلی اور عہوب اوْل٠
مہم کر پکارا اور عشت حتیقی کو توف و سلوک كا از قرار دیا ۔ حلاّج کےٴخیالات
ہیں -اوتاز کا آریائیِ تصور مایا ے لیکن اس کا یہ خیال کہ.انسنانی روح میں ریح گل
جلوؤہ فرما ہے فلطینوطن بت ماكوڈ نۓے۔ ابن غربی ۓ نظریہ* وحدت الوجود اور
”قصل وجذب فلاطیٹوس سے لیا تھا۔ قلاظیٹوس:کا خیّال تھا کہ ڈات احد کائنات ہےب۔
ےے تعلق اور:ماوراء بھی سے اوز اس میں طارف سار بھی ہے۔ ابن عربی نۓ بھی
.ھی کہا سے ۔ ۔ این غرن کا الہ ۔ اقلاطون کا خیر عض اور فلاطینوس کی ذات احد ایک
ہی مضہوم میں“ استتال کے گے ہیں ۔ ۔ شیخ غ اکہر ئے فلاطیٹوس عقلِ اول١ کو
۶“ سے
ا لمقیقت عمدید؟“ کا س کہ ہسپائە میں 2 قلاطوئیت یی تروج ارمائنع ۱
۰.
“
)() 1089( ۔
اعان می اشاعت سے ول جن سان غرع بھی اِتفای کیا تھا ۔ ابنِ عری
کے شاگرڈ زشیدٴ اور لے الک دَُولانا در الین قولوی مولاٹإ رہم کے استاد 7
نولانا زوم :ایک ممنتانک ان کے درض تة. شریک چ پر کر نبزحات اور نز پر ا
< کی شرح و توضیم سے ففن یاب ہوتے رے۔ وق مولانا روم میں' تصل و جذب کا
جو نظریہ پیش گیا“ گیا“ ہے وہ ابن عرب ہے واسظے سے فاطیتو ہن مالغ
بازگشت ہے۔ مثنوی کی ابتدا ا بھووزھیرے پو ے تھے ای
اہ , بشنیاز نے چوں کات بی ”ند 7 "جڈائیہا“ شکایت سی
اس میں روج ائسانی کے اضطراب و الَہاب کا نکش قش کھینچا ہے جو۔ اپنۓ نیستان یا
ماخذ حقیقی میں دوبارہ جذب ہوّۓ کے لیے ے قرار نے۔ اور اس ,کی جدائی میں نال
” و فریاد کر رہی بے عبد الکریم الجیلی نے اپتی کاب 'انسنان کامل؛ میں ابن عربی
کا نظریں وحدت الوجود پیش. کیا ے ۔ الچیلن بھی قلالینوس کی طرح وجود مطلق کا
نزول تین سراحل میں تسلیم کرتے ہیں البتہ انہوں ۓ عقلِ اول .کو ہویت (وہ ہونا) .
اور روح کو اثیت (میں ہونا) کے نام دیۓے ہیں اس يَ طرخ روح انسانی کا. صعود ٠
تیؾ مراحل میں دکھایا ے جنہیں طی .کر کے وہ انسانِ کامل بھی ان۔ :اق ے۔ اور
دوبارہ وجود مطلق میں جذّبا ہوجاق ے ۔ مولانا روم عرٴاق ۔ جامی مع
عطار ۔ سنائی ۔ ابن الغارض وغیرہ صوف شعراء کی پرسوڑ اور دلدوز شاعری:ےان
تو فلاطوی افکار و تعلیت کو اسلامی دنیا ہیں دور دور تک پھیلا دیا۔ صوفيب کے
اکثر سلسلوں ۓ عامۃ الناس میں ان تعلنات کی ترویج کی حتبی کہ یہ مسلانوں کے
فکر واحساس کا حور بن گئیں ۔ ابن تیمیں۔ شیخ احمد ہر پندی ۔ محمد بن عید الوہاب
دی ؤغیرہ کی خالفت کے باوجود ابھی تک ان کا اثرو نذوذ باق و۔برقرار نے ۔:-
__... فلاطینوس کے افکار وآراء پر حاکمہ کرتے وقت اس حقیقت کا پیش نظر رط
ضروری ے کہ ہر عظم مفکر کے نظریات میں چند دواىی عناصر لازماً موجود ہوے
ہیں اگرچد اس میں.۔شک نہیں کہ نئے نئے علمی انکشافات قدماء کے بعض نظریات کو
پدل دیتے ہیں اور بعفن کو اوہام باطل ثابت ک ر دکھانۓے ہیں۔ آج فلاطیتوس کا ہ
لی کا نظری کون تسلم کڑے کا یا اس کی رہبانیت ۔ جذب وسکر اور نزول و صّغؤد
ک و کون ماۓ گا ۔ اس کی تفسیات ذاستان پارینہ بن چکی ۔ اس ی۔اخلاق قدزیں فرسودہ
ہو چکیں لیکن کائنات کے مظاہر میں تمّعق وٴنفکر کی جو دعوت فلاطینوس نۓ آج سے
“کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس پھلۓدی تھی اس کی اہەیت ہے کوئی شخص انکاو نہیں کرسکتا۔
برٹرنڈرسل اپی کتاب ”بدلتی دنیا کک رئا میدیں؟؛ میں لکھتے ہیں۔,
”'مپرا خیال ے کہ فلاطینوس دوامي مظاہر عالم میں تفگر و تدیْر کی دعوت'
دینے میں حق بجاتب 'تھا: لیکن اس کا یں خیال غلط تھا کہ یہ تقکز پّی کسی ٠
شخص: کو نیک بٌّدانۓ کے لیے کا نے تفگز آُس: وقت مفید اور صالح ثابت :
ہوگا جب اس کا رشتہ عمل ہے استوار ہوگا۔ اس ہے عملِ کو تقویبٍ ہو
جا وڈ ا خی ا ا میٹ ےک ٴ
7
۰
توف غارس سے راطق نتر 'عمل کو. تحرریک و تثویت
.ہو چاہہے لیکن اس خیال کا آظہار یوں بھی کیا چا سکتاے کہ عم مق و تفکر
سےغاری ہو ت ٴي اتمان کو اپتے تب نے گر کر وجوشکی سطح پر لے آتا ے۔
لن ادورکی مقرنی تہذیب کا المیہ بھی ے کہ مغرب میں ضرف عمل ہی عمل رہ گیا۔
ہے۔ ۔ اہ لٴمغرب ایک : ختم چوے وی دوڑ دھوپ میں مشھمک یں اور ادھر]دہر
دیکھے بغیر ڈیوائہوار آگے آگے ھا جا رچے ہیں۔ ٴ 7
حسن ازل کا تصور جو ,فلاطینوس کے نکر و نظر کا ور تھا شا آج: قابل ول
مو لیکن اس کا یہ قول کہ حسن کيی قدر صرفٴنُحْنْی عشاق اور قلاسفہ ہی جان
سکتے ہیں آج بھی اثتا تی صحیح سے ”جتتا کہ صدیوں پھلےٗ تھھا۔ دالتے کے طربیہٴ
خداوندی کی جان ''جلوۂ' حسن حسن ازل“'ے جو تدنیاۓ آدب میں ہے مثل سمجھا جاتا ے ۔ٴ پ
بہ خُیال فلاطینوس ہی ہے ستعار ہے“ آج ہم پاتی مین چاند کا عکس دیکھ کر شاید
لیو کی طرح چاند گی قلاش میں سرگرداں تہ وں لیکن چائد ے حہین مکی .کر
ٴ پائی'میں دیکھ "کر متاثر“ٹہ ونا تو ہارے بھی بس کی ی بات نہیں ے۔ اور اس حسین
ا عکس کی طرف توچ دلانا بھی کوئٹی معمولی کارئامہ نہیں سے کم بڑے سے بڑے
_.. فنکاروں اور شفزاء کو بھی ا سے زیات کی قوفیقِ ارزانی نچیں ہو سی ۔
۱!
۹۳ مم
۴ ٰ 8 . َ
پ8 رہ کا .
ہے مج یی
7 ۰ ' دا
۰ متبلق ت حریکیں ' ۹
٠ وت تحر کے
سی ٠ ہپ ٠٢ ور س ٤
سے 4 >> کچھ لے 7 9 چس پدد
۱ ازج فلسفہ میں عثل َال اور مئات کا تال عو مرو کہ
یوان ٢ ن تدم کے سوقسطائی یا ت کو علیز اِنساتی کا ماخذِسجھتے تھے جب کہ انلاطون ۰
اور اس کے ہم خیال ککہتے تھ ےکہ ذہن بذات خود مشاہدے اور حسّی تجرے کی صلباقت
٭ کے پیر بہداقت کے انکشاف پر قادر ے ۔ سوفسطائیوں کا ُھیال تھا کہ حقایق خواه
کتنے ہی بسیط اور جرد کیوں ٴٌہ ہوں ہہرصورت انسانی تجرتے ہی. سے.لیے جاتے ہیں
اس لیے صداقت صرف اثمانی تجرے سے حاصل ہو سکتی ہے اور انساق مماہدے اور ٭
تجرنے کے ماوراء عبداقت یا :حقیقت کا کوئی وجود تہیں ہے ۔ٴ پروتاغورض سوقسطائی
کہتا ے حسّیات حصول علم کا وسیلد ہیں ۔/؛ سوفسطائیوں نے صداقت کے ساتھٴ
غیر کو بھی ازلی قدر ماننے ہے انکار کر دیا۔ غورجیاس سوفسطائی کہتا ے ۔
7 7 ہا ا سی ا ای ا کا
اور معاشرے ہے مٹاسبت و کھتی ہو“ ۰
سقراط کے سوقسظائیوں کے ان خیالات کٍ تردید مین سارا ور صرف کیانتھا. اود
آزی و ابذی قدروں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ افلإطون اور ارسطؤ بے بھی عقلِ
استدلا ی کو اولیں اہمیت دی ہے۔ ان کے بعد مثالیِّت اور عقّت کا چولن دامن کا
ےباتھ ہوگیا اور یہ روایت جرمن مثالّیت تک باق رہنی۔ إ٘ کا ہج ۴ ۰
. زوالِ رفس کے بعد یورپ میں اس عہد کا آغاز ہوا کے توران ن تاریک ہدیاں
کہتے ہیں اس زمائے مین عیسائی مقتدایانِٴمذہب نے فلسفے کو مذہبِ کی کئیز بتا
دیا اور اس ہے اپنے مدْہہی عقاید ی تائید و تو ثیق کاکام لینے نگے۔ طامس اکئوئاس
ابیلارڈ وغیرہ ۓ افلاطون اور ارسطو ۔ے نظریآتہی: سے عیسائیّت یی ابدی صداقت
کا اثبات کیا بے ۔ تارج فلسفہ میں .انہیںٴ ”'حقیقت پسند؛“ کہا جاتا ے ۔کیوں کہ وہ
بھی افلاطون ىَطرح امٹال کو حقیٹی مانۓ تھے اور کہ تھے .کہ امثال مادی عالم
ے کے ماوراءَ ہیں ۔:ان کے برعکس روسکیان کا دعویل تھا کہ |مثال حعض ام ہیں جو ختلف ۔
ااء کودے کے ری ۔ یں حقیقی وُجود نہیں رکھتے ۔ اس بنا پی۔روسکیلن اور ائ کے ,
ا پیروؤں کو ''اسآئی“ کہنے لگے ۔ ان فریقول میں پمدیوں تک نزاع جاری رہی چس کیا۔ ۶
پنیادی۔خمال یه تھا کہ کون' سا عالم حتیقی ہے ڈٍ وہ عالمِ ,جمن کا ادراک۔ہم اپنۓ
٦ ۔ 7ج
چا مم >
0 سواہ ہام
۳
-
حواس سے کرے ہیں یا وہ عالم جسے ہارا ڈہن خلق کرتا ے۔ تیرہویں صدی میں
ایک انگریڑ عالم ولیم آ کم نے روسکیان سے اتفاق کرتے ہوۓ کہا کہ خاص ایاء
ہی اضل حقایق ہیں اور جو عالم مارے سیماہدے اور تجرے میں آتا سے وہی حقیقی
. ے ۔ امثال حض تبزیدات ہیں جن کا حقیقی وجود کچھ تہیں ۓے۔ اس طرح کاثنات کی
حقیقت سے متعلق ڈو نظرے وجود میں آۓ۔ ایک' جو افلاطون اور ارسطو کی۔۔
۱ روایت ہے بادگار تھا اور جس ا گکارہ سے 'اتثال خقیقی ہیں“اؤز ڈُوسرا وہ جنں ک رو ے
کائنات: کی حقیقی اشیاء خاص اشیاء ہیں جو ہارے تجرے اور مشاہدے میں آتی ہیں ۔
پہلی روایت 0 تصدیق کا کام لم لیا اور دوسری روایت نۓ جدیا سائنس
:کی بنیادیں استوار کیں۔ یہ نظریہ کہ عألم امثالّ عالم اشیام ہے علیحدہ ے آس مسیجی
عقیدے کے عین موائق تھا کہ خأّے مادی عالم کو عدم ہے پیذا کیا اور خود اس
'عالم سے تاوراء ہی رہا: × اسائیت کی ترویج سے اہل ثظر سُیاق تجربات ہے زیادہ ہے ۔-
زیادہ دلسّہی لینے لگے او جدید سائٹس کا'آغاز ہو- ظاہر ہے کہ جب تک اشیاء
کو امثال کے ساۓ تٹُجھا*چاتا ٹھا اہ علم امثال کو حقیٹی سُمُجھ کر اشیاء میں
'پندان دلچتّی نہیں ایٹے 7 تھے لیکن جب سیت کی ترویٔج ہے یہ خیال 'راسخ'چوا کہ
۔اشیاء حقیتی ہیں تو علاء مشاہندے اور تجرےٴ کو بروۓ کاو لا کر ان کی اصلیْت کے
”تعلؤم کرتۓےکی طرف متوجّہ ہوٗئۓ۔ اس' کوشش کے ساتھ اسان علم کلام کے ذور سے
نکل کز نسائدس کے دورمیں داخل ہوا سائدس میں گلیلیإور فلسلے میں یکن اس نئے
رجحان کا ترجان سمجھے جائھ ہیں" “٠
یکن بی کہ کر کہ عم کا اخ حنباث کا لم مرف انس ید ہے سے
'خاصل کیا جاسکٹا: تٌے 2 بت کی بئیاد رکھی۔ بیکن نے قلسقے کو متہب ہے چدا
کی اور کہا کہ مذہی' عقاید کی عقلباق توجیہں کی کوشش ش یا علِم کلام ےصرف
۔اور نے مر سے - وہ کہتا ے تب اس س عالم ت3 چمله" اشیاء حقیقی ہیں اور ان پر غیر
متّفیر قوانین:متصرف ہیں جن کی مدد ہے کائنات گے رازوں کا انکش٘اف کیا جا سکتا ے_”
ایک جگہ لکھتا ےھ ”٭حتیق حتیقی الم دوہرے لوگوں کے خیالات یا ا قد تعصیات سے
حاضْل نیت ہوتا یلک ذاق 2 :تجرۓے ہے حاصل ہوتا ے؛“ پابس ۓ بھی یکن 1: 'ہمنوائی
میں سائنس اور فلسقے کو لم کلام کے تطرف نے جات دلاۓ کی دعوت دی.اورکہا
“کہ حمیّات ہی کو علم کا.اصل ماخذ سنھا جا مکنا سے ۔ انگریزیِ تجربیت- کا دوسرا
ماز شارع جان لاکتے ۔' لاک [٘س٭ ۔م ۰ع نیوٹن کا ہم عصّر تھا اور ٹیوٹن
بی کپ رح وہ بھی مد اور مشاہدنے نے عابی نتانج اخذ کرنا چاہتا تھا۔ اس تے۔
اکسفورڈ میں ٹعلم ہائیٰ جہان ائے کہسٹری ہے خاص دلچسہی تھی ۔ فرع ااتعمیل
ہوکر اس ۓےٗ طبابٹ کا پیشہ اختیاو کیا ۔ لاک ۓ پیک ن سے اتفاق .کیا کب حسّ ببارے
علم کا ماخذ ہے اور ازلیٴو ایدی صّداقتوں کا کوئی وچود نہیں" ہے۔ اس نے اپنی
فلعفیائن جستجو کا آغاؤ ا سوال ے ٭ :کیا 'انسان اشیاء کا علم کیسے حاصل کرتا
ہے؟؛ جواب میں وہ کہتا ے کہ علم حض حسٗی مدرکات سے حاصل ہوتا ے۔ اس
۹ُ.
سے خیال میں ادراک ہی حعبول عم کی فی جلاعم ہے دنیاے فلہب میں یہ نطریہ
خاصا انتلاب 'پرور تھا کیوں“ کہ صدیوں ہے فلإسقد علم کا ماغذ حسیّات سے ماوراء
عالم ابثال میں تلاشن کمرتے آئے تھے لاک ے افلاطون کی ازیو جبّلى مداقتوں سے
انار کیا اور کہا خہ ابد ہین ذبن پانپمآنی ایک لو لوح سادہ کی طرح ہوتا ے جچیں۔ ہی
ٴ مینرے اورمشاہدے سے تاثْزات ثبت ہونۓےریں۔ ۔ انی اثرات پر بارا ماج علم مبنی ہے۔
إلیتہ ذین اذ نقاثرات تو منظمم کے و صلاچت رکھتا۔ ےب اسر ضمن میں و ,کہا
ے کە صنقات ما رگرسی۔ ذائقہ ۔ رگ وغیرہ کے میں :یں ہوتیں بلکن ہہارے حلّّی
ضا کے باعث موجید بی جیسا کہ کلیلیزنۓ کہا تھا کم رکھجلى :پر میں نہیں ہوق
دن میں ہوق کچ ت ۱ہ ّ مان ٠.
_سیاسیات میدر, لای کا نظریمیہ ,تھلل:کب پر شخمن پید ثشٹی طور پر:چند
. رکھتا ے جن میں سے تنسب ہے ابچ ہیں اد دہ ویش ای ۴۔-. آزاد دہئ کا خی
۱ حصول اسلاک کا حق ۔ .وہ ہر شخ٘ص و جصول ؛ ایلاک تا ق۔دیتا ے لیکن اٹ
کے ناتھ ہی یہ بھی. کہتا ہے کہ دنیا ہین ُجہات کہیں بھی ااتصاق ہوگ اس ک تہ
میں ملاک ہوک ۔ اسی کے الفاظ ہیں ید تبیہ
" جہاں ملاک نی ہوک دبان قانصاف نب ہوک فات اتی ہی لی ے
چتنا کہ اقلیدس کا کوئی میسٹلم؛؟
لاک کہتا سے کہ :عدل وانعباف کے قیام کو کن یقاۓ کےٴلیے عوام إ اپنے بعض
حقوق سے دست بردار ہو جاتۓ ہیں ۔ سیاسی طاقت کا ماخذ عوام-ہیں.۔ حا کم کے ہاتھ
میں طاقت اسی وقتر کک رہٹی چاہے۔جمبزٹک: وہ عدل واتاف ہے حکومت کرے۔
حکام عوام کے خادم ہیں جنہیں برطرفب کر کا بحق عوام کو حاضعلن تے جو خکام .
اپنے فرائض کو ادا کرۓ ہے قاصر رہیں انہیں عوام.پر حکومت کرنے کا کوئی خق
نہیں رہتا ۔ ان خیالات کے باعت لاک کو۔سیاسی آزادی اور عوام کی حا کمیت کا :علخ
ہزذدار کہا جاتا ے۔ وہ اس باتِ کو اچھا خیال تھیں کرتاٴ کە جو لوگ قوائین وغع
کریں وہی ان کی پاپندی بھی کرائیں:اس لے وہ کہپتا سے کہ مظنتہ اور اقتظامید ا
ایک دوسرے سے علیحدہ ہونا ضروری ے ۔ اخلاقیات میں لاک اث ضر کے وجود کا
منکر ے اور کہتا ے ,کہ اخلاق یموائین نی نہیں ہوتے بلک خسیّات کے وانشلے سۓ
حاصل کے ہوۓ علم کروشنی میں ہم جو صحیح یا غلط راۓ قائم* کرتقۓ ہیں وہی
ضعیر ے۔ یاد رہے کہ ہمارے ژمانے میں تعلیلِ تقضی کے علإ> نے ضمیر کے پیدائشی شی
-یجود سے انکار کیا سے ۔ لاک کے فلسفے پر تبضرہ کرت ہوٹے برٹرنڈرسل لکھتے ہیں ۔
”لاک کا ائر نہایت در رض ہوا۔ شلرنۓے کسی شخص کے۔متعلق کہا تھا“
اس کی ہڈیوں میں اتنا گودا ے کہ صدیوں تک خمر نہیں ہوگا ۔“ يہ بات-لاکَ
پر صادق آتی ہے ۔ باریلے اور ہیوم۔اِنی.کے.پیرواکار تھے ۔ انگ اس ٥ین متائر
ہوا۔ اس کے اخلاقیای نظرے نۓ شافشی بری ۔ پیچی سن ۔ ہیوم از آدم سن
کو متاثر کیا روسو کے ۔افکار پر اس کا ار ظاہرے - والٹگر ے اُس کے ٔیاسی
5
۰ٔ
۹۵
نظریات ہے استفادہ کیا ۔ لاک دور جدید ی روح کا ممائندہ نے ۔ آزادی؟ خیال
- - آزادی راۓ؛ انفرادیت؟ جمہوریت اور نقد و جرح کی روح کا ترجانِ ےے۔
. بشپ پارکلےٴ کا ذ کر مثالیت پسٹذی کے ضمؾ میں آچکا ہے شراسی نے مادیّت اور
الحاد کے رد کے لیے لاک ہے استفادہ کیا۔ لاک لے کہا تھا کہ ممام علم حسٗیٰ
ادراکب سے عاصل ہوتا ے بارکلے ے کہا کہ وہی اشیاء موجود ہو سکتی ہیں جن -”
اد راک- کیا جاۓ قی تک کے یہ کیپد کر امن نے
الم بای کے وجود ہے انکار کیا۔-۔اس. کا اہم منوال تھا ؛٭کیا الم مادی ذرن کے
یغیر موجود ے؟ “ جواب میں.اس ۓ کپا کہ ذرن کے بغیر مادة اپنا مستتل وجود
نہیں رکھتا لہڈا صرف ذہنی کوائف موجود ہیں۔ یں کوائف میرے ذہن میں نہیں
ہوں گے ت وکسی ند کسی کے ذہن .میں موجود ہوں گے اور نہَیں تو خدا کے ڈہن میں
تو لازباً موجود ہوں گے انہی ڈپنی توائف نک راط و تلق کا نام علم سے لے“
کے افنکار میں لاک کی تچربیت ۓ مذہبی رنگ اختیاز کر لیا-.
ہوم ۓ جو اٹھارعویں صدی کے تشکک کا امام ہے لاک اور بارکلے کے فلسقہ*
تچربیت کو ننطتی غایت تک پہنچا دیا ۔ ہیوم بھی لاک کی طرح کہتا+ے 'کہ انسانی
تچریہ ہٹی انسانی:علم کا ساخذ ے اور ہہارا علم ظواہر کی دنیا تک حدود ے - ہیوم
. کہتا ے کہ بارکلے بھی راستے ہی میں.رہ گیا تھا کیوں کہ ہمیں خدا کا تصور بھی
ترک کرنا پڑے گا۔ اس کے خیال میں ہم تو صرف ہنی کوائف کے تسلسل کو
جانتے ہیں جو ذہنِ ت۳ 2 ثیت کرتے رہتے ہیں ۔ پیوم اس باڑے میں بارکلے
سے اتفاق کرتا سے کہ صرف -ا نی اڈیاء کا وجود ہے جن کا ادراک کیا جائۓۓ مٹا
جب میں کمرے میں بوجود ہوں تو میز کا وجود بھی ہوگا کیوٹکہ میں اس کا ادراک
کرتاہون کمررے ہے باہر چلا جاؤں کا تو میز موجود نہیں ہو ۔ ہم تو صرفع
ذہنی ۔کوائف کے بپاؤ کو چان سکتے ہیں جو یکے بعد دیگرے وارد ہوۓ رہتے ہیں ے_
لہذا دا یا۔عالم طبیعی کے وجود کی کوئی شہہادت ہہارے پاس نہیں ے۔ ہیوم
معجزات.کا بھی سنکر تھا ۔ کیوں کی اس کے خیال میں ات کی کوئی تاریقی شہادت
سوجود نہیں ہے۔ بارکلے ۓ طبیعیات میں سے جوہ را ١ کو خارج کز دیا تھا۔ ۔ ہیوم نے
اسے نفسیات. نے بھی خارج کردپا۔ وہ ,کبپتا ے کہ ات٢ کا کوئی تاثر نی ہوتا
اس لیے ذات کا کوئی تصور بھی پیدا نین ہو عکتا۔ وہ کہتا۔ ے کہ جب میں اپتنے
بطون میں جھاٹکتا ہوں تو مجھے کہیں بھی ذات کا۔کھوج نہیں ملتا صرق "کسی نم
کسی شے کے ادراک کا نمامنا ہوتا سے ۔ آمن لیے انسان حض چنذ مدرکات ہی کا جموعۃٴ”
ہے جو چمیشہ جرکمت میں رہتے ہیں ے ذات کے اس.انکار. سے روح کا تصور بھی کالعدم
ہو جاتا ے۔ جا جج 8 .ت8
. ہیوم کے اثرات بڑے دور رس'ہوبے۔ ائیسویں عیدی تین اگست کونت ؛ بنتھم)
۱ ()-505518266 ۔ 7 )( 0(1 ۔ ْ 7
ہہ
۹٦
٠ > تو یں ای
یں 0پيیپ لپ ھ .5 8
ى رم ٠ چا .لی گی
پیرس ٤ ول جیمز ےۓ اور بمارے ژماۓ میں بر رٹرنڈرسلی؟ ۔ڈیوی اور لیوس ۓ اس ے.
استفادہ کیا یا نے ۔ ا 7 کی 7
ہم ۓ دیکھا کں فلسفہ* تجربیت جدید سائنسي ثتطں' نظ ٔ آئیٹہ داز یت
کا اصل اصول وہی ہے جو سائنس کا ے یعنی حواس غمسہ ہے ماوراءّ ۔
کوئی وجود نہیں ے -, اِس میں انسانی مشاہدے اور رن پز ئل اعتاد کیا چاتا
عقلیت پسند عقل استذلال کو علم کا معیا یار اورماغذ سمجھتے رہ ہیں اور از یل و
اہدی۔ صّداقتوں کے قائلِ ہیں ۔ تجربیت پسند کہتے ہیں کہ صداقت صرف ائسانی تچرے
سے حاصل ہوق ے آور ازاؤٰ قدروں کا فبوہداضرف عَایّت پسندوں کے ذہن میں ے۔
آن کے خیال میں عقلی, استدلال حتی رن کے کے بَغیر بات خود صداقت کے انکشاف پر ؛
قادر نہیں ,ہے _کیولکہ ذہن حسّیات کے دریچوں میں سے دیکھنے پر مجبور ہے ۔ ڈہن کا
کام یرف یں ے کہ وہ تاثرات میں ضبظ و نظم پیدا ,ِکرے د عقلیت پرستوں کو
شروع ہی سے یہ دقت پیش آی رہی ہے کہ وہ فکر کے لیے مواد کہاں ہے لیں ۔ آخر ۱
کچھ مواد تو ہوگا جس پر ذہن اپنا عەل .کر نکے اور تجربمٴ انسانی کے بغیں سے یہ
بواد کہا ہے مل مکنا ۔ حقت یہ سے کہ علم ہے دو پا ہن ہیٹت اور
موضوع ے خالص عقلیتِ پرستی صرف موشوع کو درخور توجد سمجھتی ے ۔ ہیئت"
ری مرشرتک کی رکیل ری ے ارم وفوع رخی نے ہیثت کے انتشار بن جاتا ے ۔
علم اِن:دِونوں کے باہمی ریط و تعلق ہی کا دوسرا نام سے -۔: عام
جدید دور کہ مکاتب فکرِ میں نتائجیت! ۔ اعحابیت؟ ۔ منطتی شلیل٣۔ منعطتی اعجابیت؟
اور اصالت عمل* ریت ہی کی ختلف صووتیں ہیں۔۔ اس لیے ان کا ذ کر تجربیت پہندی
کے ضمن میں کرنا مناسپِہوگا ۔ ۱ :
ایجابیت کا بائی فرانس کا ایک مفکر اگست کونت تھا ۔ وہ .امجابی علم کی تعریف
کرتے ہوۓ کہتا ے کہ حقیقی ۔ قطعی ۔ مقید ۔ یقیتی اور مثبت علم کو ابجا بی کہا
جا سکتا ے ۔ |یجابیت ایک ذہنی کیفیت بھی سے اور تظام فلسفہ بھی ے ۔ ایک اجابی,
ممام علمی عقدوں کو ایک ایک کرکے سلجھاتا ے اور ' آفاق مسائلٴ سے اعتنا نہیں
کرتا ۔ بھی نقطہ* نظر ایکی نمائس؛دان کا بھی سے ۔ -
۔اگست کوقت پیکن اور۔لاک کی طرح مشاہدے اور ترے کو علم کا ماخذ خیال
کرتا ے ۔ وہ کپتا ے کہ ہم انسان یا کثنات کے بطون کے متعلق کچھ نہیں جان
سکتے ۔ ہم تو صرف ید دیکھ سکتی ہیں کہ کائنات کی کل کس طرح چل رہی ہے ۔
بھی ہارا مبلغ علم ے.اور یی کچھ ہمیںٴ جانتے کی ضرورت بھی ے ۔ کائنات میں
افسان کا جو مقام ہے اس کا ۔تعین انسانی“مشاہدے اور عیرے ی روشنی ہی میں کیا
جا سکتا ے ۔ کونت انسان کو سک ز کائنات سانتا ے اور کمہٰتا ے کہ جو کچھ
(ر) معاقدعصع۲۵ -۰(ص) صعائضمظط - ب(م) داسراەصۂ لم نعہ.] ۔-
(م) مہ٢ نائدہ ٥ء8۱ہ]۔ (م) 'صدازئ ہز وطءظ ۔
۹ْ
انان کے تہرے میں آتا ے وہی حقیقی ے ۔ دوسرے الفاظ میں خالص تجرہہ ہی
خالصس حقیقت ے ۔ اس لیے انسان اپنے تجرے کی بنا ہر ہی کائنات - سے متخلق کوق :
نظریہ قاثم کر سکتا ے ۔ ایک ایجابی کے ہاں کائنات وہی سے جو انسانی تہرے میں
آۓے۔ حقیقت حقیقت کبرعل یا جوہر قائم بالذات کی جستجو لا حاصل سے - انسان اپنے تجربات
اور مشاہداتَ کی حدود ہے جاوژ نہیں کر سکتا اس لیے مابعد الطبیعی بجٹوں میں آلجھنے
کہ بجاۓ انسان کو چابیے کہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بناۓکی کوشش کرتا رے۔ --
کوئنت کے خیال میں خدا پر ایمان لانا یا کسنی وجود مطلقی کو ماننا ہمارے تجرےج سے
متجاوز رے - کونت صرف ایک ہی وجود مطلق کو مانتاإ ے اور وہ ے انسائیتِ
عالیں ۔ انسان کی خدمت اور اس کی فلاح و بہبود کی کوششش ہی اس کے ہاں نیکی ہے ۔
اس طرح آس ۓ روائتی مذہب کو ماننے سے اثکار کر دیا ے ۔ اس کا عقیدہ ے کہ
ایجا بی فلسقے کی اشاعت ایجا,ی مذہب کے فروغ کا باعث ہوق۔ یہ مذہب انساثیتِ عالیہ
کا ہوگا اور اسے '' کایساۓ روم بغیر عیسائیت کے “ کہا جاۓ کا ۔
کوثتا کا تاریخی نظریہ یں ے کہ ذہن انسانی تین ارتقائی ساحل سے گزرا ے ۔
پہلا مرحلہ مذہب کا تھا جس میں واقعات ی توجیہہ کسی یزدانی قوت کے حوالے سے
کی جاتی تھی ۔ دوسرا مرحلہ مابعد الطبیعیات کا تتھا جس میں واقعات کی ۔توجیں ختلف
قوتوں کی نسبت ہے کی گئی ۔ تیسرا اور آخری مٰحلہ سائنس یا ایجابیت کا ے کہ اپب
واقعات کی تشریج و توجیپد سلسلة سیب و مسببٔ سے کی جاری ے ۔۔ یہی انسانی عقل
و خردی معراج ے ۔ مذہب اور مابعد الطبیعیات فسائہٴ پاریئہ بن چکے ہیں ۔ اب خدا
یا حقیقت کہریل یا وجود مطلق کی جستجوے حاصل ثابت ٹوگی - ...>>
نتائجیت کی پیش قیاسی کرتے ہوۓ کونت تے کہا ے کہ اصل علم وہ ہے
جو مفید مطلب اور کارآمد ثابت ہو ۔ وہ علم کے نظریات کو درخور توجہ نہیں سمجھتا
یلک اس بات کی جستچ وکرتا ے کہ کون سا علم انسانی زندگی میں عملا تتیجہ خیز
ثایت ہو سکتا ے۔ وہ علم کے عملىی پھلوؤں کو اہم سمجھتا ے کیوں کہ 01
کے سائنس ہمیں یہ تو بتاق ے کہ واقعات کیسے رونما ہوے ہیں یہ نہیں بتاق کہ
کیوں رو نما ہوتے ہیں ۔
اٹھارەویں صدی کے فرانسیسی قاموسیوں کى طرح' کونت بھی ذہن کو مادے کا
ُ ایک جزو یا فرع قرار دیتا رے ۔ وہ کہتا ے کہ ۔ نفسیاتی واردات تا و کیفیات مغز سر
کا فبل سے ۔ اس کے مسلک میں ذہن یا روح کا: کوئی وجود تسلم نہیں کیا جاتا
کیوں کہ انہیں حضِ مابعدالطبیعیاتی مفروضات خیال کیا جاتا ےے ۔ اس کے خیال میں
-ِ
ہم اپتی نفسیاتیق کیفیات کا داخلی مشاہدہ نہیں کر سکے۔ ہم صرف معروشی طریقے*'-
ہی سے نفسیاتی واردات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔.یہی خیال بعد میں ڈاکٹر واٹمن کے
اصالت عمل کا اصل اصول بن گیا تھا ۔
قاموسیوں کی طرح کوئت کو بھی انسانی ترق پر کامل اعتاد ے ۔ وہ کہتا ہے
. کہ بنی نوع انسان سائنس کی بدولت ایک مثا ی معاشرہ قائم کرۓ میں کامیاب ہوجائیں
۹۸ٛ
گے ۔ عمرائیات! اور ہسلک؟ ایثار کي ترکیبیں بھی اسی کی وغع کی ہرئی ہیں ۔ وہ
انسائیت عالیه کے ثصب العین کی عملی'ترجانی کو ترق کا نام دیتا ے اور قدج مذہبی
اور مابعدالطبیعیایٰ روایت کو ترق. کے راستے میں حائل خیال کرتا ے ۔ ان کا ذ کر
کرے ہوۓ وہ کہتا ےت
: ”مر دے زندوں پر حکوست' کر رے ہیں؟؟
ہارے زماۓ میں درخائم اور لیوی بروہل ۓے کونت کے عمرانی نظریات کی نۓے*
سرے سے ترجانی کی ہے۔ تین اور رینان بھی اسی روایت ہے تعلق رکھتے ہیں۔
کوثت کے افکار ۓ اسیک کے تتائجیت پسند فلاسفہ ولم جیمز اور ڈیوی اور دوسرے
دور کے تجربیت پسندوں سٹوارٹ مل اور بنتھم کے نظریات پر بھی گہرے اثرات
کے ہیں ۔ دوسرے دور کی انگریزی تجربیت کا سب ہے متاز فلسفی جان سٹوارٹ مل
. (۱۸۰5-۔۱۸۰۳۴ع) اگمت کونت کا بڑا مداح تھا۔ اس کے والد جیمز مل اور
چیرہی بنتھم (۸۰۱۸۳۲ءء۱ع) کونت کے افکار کی اشاعت سے پہلے اپنے نظریات
مر تب کر چکے تھے بہرحال سائنس کی قرق اور ایجابیت کے باعث تجربّیت کو دوبارہ
انگلستان میں اشاعت پذیر ہوۓ کا موقع مل گیا اور لاک اور ہیوم ک روایت جان
سٹوارٹ مل کی منلق میں نقطہٴ عروج کو پہنچ گئی ۔ اس دور کی انگریزی تجریّٔت
اور ابجابیت میں اقدار مشترک اس قدر زیادہ ہیں کہ بعض مورغین فلسقہ اول الذکر
کو ثانی الذکر ہی کی شاخ تصور کرتے ہیں دوئوں مکاتب فکر میں حقایق٣ کو قابلِ .
قدر سمجھا جاتا ے ۔ اور سائنسی طرفق تحقیق کی اہمیت تِسلیم کی جاق ے ۔ دونوں
نابعد الطبیعیات کے خالف ہیں ۔ دوئوں معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور انسانی
ترق اور مسرت کو اخلاقیاق نصب العین مانتے ہیں ۔ فرق یہ ے کہ ایجابیت انسانی
علوم کی ترتیث و تنظیم کو اہم مجھتی ے اور سٹوارٹ مل ک تجربیت میں تفسیات
اور منطق پر زور دیا گیا ے۔
ہے سٹوارٹ مل کے پیش نظر سیاسی اور معاشرق اصلاح کا نصب العین تھا اور وہ
معاشرے کے ترق پرور رجحانات کا ترجان تھا اصلاح معاشرہ کے لیے وہ مناسب
تعلم و تربیت کو نہایت اہم سمجھتا تھا ۔ اس کا سوچا سمجھا ہوا عقیدہ تھا کہ تعلم
و تربیت سے انسان کے خیالات کو بدلا جاسکتا ے اور خیالات کے بدلے جانۓ سے
کردار بھی بدل جاتا سے ۔ الیتہ صحیح علم کے حضول کے لیے صحیح وسائل کا اختیار
کرنا ضروی ہے ۔ اٹھی وسائل کا تجزیہ اس ۓ اہی مشہور تالیف ''متطق؟“ میں کیا
_ ہے جس میں تجربیّت کے ہہترین اصول ملتے ہیں ۔ سٹیؤارٹ مل کا منعاقی نظریہ تمام
تر ذہئی واردارت کے ربط و تعلق پر مہنی ہے مث بچھ جانتا ہے کد آگ جلای بے
کیوں کی اس کے تجرے میں چلئے” اور چلاے کا عمل بہ یک وقت ظہور میں
آے ہیں ۔
(ر) :٭چمامزەہ> ۔ (۶) [٤18٥07 ۔ (۳) :5ء178 ۔
لم
اخَلاقیات تَ سٹوازٹ مل جیرہ 7 طرح انادیثٗ اق ے اور اش کی
طرح:* ”'زیادہ سے زیادہ انسانوں کو زیادۃ" سے زیاذہ مسرت؟؟ ہوم پہنچانۓ کو اغلاقیات
کا سب الع قرار دیتا ے۔ اپی تا یف ”افادیت)4 می اس مر یر .۔یث کرے
ہوۓ کہتا ے کہ چونکہ صرف لڈت کٍ خواہش کی جاق ہے اس لے لت ہی بی نستحن
ہے۔ یں ایک فکری مغالظ رے کیوں کہ محعض خواہش کرتۓ سے کوئی لڑّت 0
سنتحن نہیں ہوسکی ۔ اس کے حسنِ وقیح کا معیاز خواہش سے خازج میں ہے'۔ بنٹھم
اوز سٹوازٹ مل کی افادیث میں ایک ہقم یہ بھی ہے کہ جب ہر قانون از _۔ابنی بی
لذت اورزرسرت کی جستجُو میں ہوگا تو وہ دوسروں کی لذّت یا سرت کے لے ٹُوانین
کیسے ینا سکے کا اور افراد ک مسرتی ایک جگہ کیے ٍ جمع ہو سکیں گی ا
طل ک رات تی اری ورےے ک عو رت کا راز شخصی” انادے میں تلاش
کرتا ے جب کہ سٹوآرٹ مل اس گی بنیاد معاشرق جذبات پر استوار' کرنا چاہتا ہے۔
آنے بنتھم کے اس خیال سے بھی اختلاف ے کہ لت خیں ے اور اذیت شر ہے
کیوں کہ بعشٴ'حالات میں خیں اڈیّت ہے وابستہ وق ے اور لڈت شر کا لازمد ثابت
ببوتی ہے۔
سٹوارٹ مل کا ژمائ آزادیٴ رات ےکا فور ھب وا تو کرای
فکر وراۓ کا علم بلنذ کر رکھا تھا ا مشکرین کا خیال تھا کہ رائۓ کے قائم کزیے
اور اس کے اظہار کے حقوق پیدائشی ظور پر ہر ٴانسان کو حاصل بین ۔ ک کسی حا کم
کو کسی صورت میں بھی انسان کے یہ حقوق سلمیۂ کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا -
یہ وہ زمانم ے جب خوشحال متوسط طبقد جاگیرداروں کے استبداد ہے آزاد ہو چکا .
تھا۔ انگلستان میں سٹوارٹ مل آزادی خیال کا فلسفی ترجان سەجھا جاتا تھا ۔ اس کیا
خیال تھا کہ افراد کی جا معاشرے کی اصلاح سے وایستب ے۔ جب تک کہ
معاشرے کی اصلاح نہیں کی جائۓ گی افراد کی اصلاح ممکن نہیں.ہوسکے گ۔ پھتمین, ے
معاشرہ وه ہوگا جس میں ہر شخص اپنی استعداد کہ مطابق کام کرے گا۔ بقولِ سے
کے ”جو کام نہیں کرے کا وہ نہیں کھاۓ گا -““ مل عورتوں آزادی کا ہرجوش
حامی تھا اور کہا کرتا تھا کہ عورتوں کو آزادی ہے حروم کر اتا نقصان
عورتوں کو نہیں پہنچتا جتنا کہ معاشرے کو پہنچتا سے ۔-
اسیک نتائجیت کا شارح ولم جیمز ٤ لاک ہیوم ؛ کانٹ ؛ پیرس اور کونت کے افکار
کا جامع ے ۔ جب سی ۔ ایس پیرس نے عقلیت پرستی کے خلاف قلم اٹھایا تو آس ےۓے
اپنے نقطہ نظر۔ کو واضح کر نے کے لیے کائٹ' سے لفظ 2508003816 مستعار یا تھاإجں -٭
پر اس کے مکتب قکز کا ثام نتائجیت پڑگیا۔۔جہاں تک معروضی عالیم >تعلق ہے
کانٹ بھی نتائجیت پسند تھا ۔ ”'تنقید عقل عض؛ ' میں وہ کپتا ے کہ ہم روح ک بتا
قدر و اختیار اور وجود باری کو ثابت نہیں کرسکتے ۔ ان پر ایمان لانا اس لے روری
ے تاکہ ہم اخلاق زندگ گزار سکیں ۔ پیرس اور کانٹ کے علاوہ ولم چیمز“ چارلس
۲+
سے
رینوویر ی تعلیم سے بھی متاثر ہوا ہو |حدیتِ کا منکر او رکثرتٴ'پسندي کا قائل تھا۔ ۔
٠ جیمڑ کہتا ے کہ ریوویر کی کثرت پسنّدی ۓ اسے ”'احدیث کے عفریت“' سے نات
دلائی تھی ۔ چرمن احدیٔت پسند انہان کو وجود مطلق ق کے سامئنے ہے بس اور جبور
_عض سمبھتے تھے ۔ ان کے نظرے کی رو بے انسان قدرٌ و ختیار اور جا و جہدا ہیے
عاری ے - چیمڑ لے اي جبزیت کے باعث ہیگا لک احدیّت کو رذ کر دیا تھا۔
ا دلم سٹیوٹ صداقت مٌطلق شا قائل نہیں ے۔ وہ ٭وجودمطلق؟ کو۔
مابعدلطبیعیاقق تفریثث؛ کا ام دیتا ىچے۔ اس کے خیال میں ہر صداقت ان احوال کے ساتھ
أضاق سے جن ہے وہ ظہور پڈیر ہوق ے ۔ جب ید احوالِ بدل جائے ہیں تو صداقت
"تھی :بدل جاتی: ہے صداقتٹ کو بدلتے ہوۓ احوال کے ساتھ بدلتا ہی پڑتا ے۔ <ولم
جیم زکوئ قطعیظام فکر پیش نہیں کرتا 7٥7ھ" لیت* حقیقت پسندی
اوز 'تصوف کے افکاز پھلو یہ پھلو ملتے ہیں ۔ و کسی جوہر تام بالثات کو تلم
نہیں کرتا اس کے خیال میں 'وہی آشیاء ہوشوءم رع بحث. بن سکتی ہیں جو انسانی تجرے
یی کی ووان چیم زکمُتا ہے کو ایسی شیا کيا وجود مکن ہو سکتا ے چو ٴ
' انسانیٰ تجرے ہے ٴماوراء ہوں لیکن انہیں فلسقے کا موضوع نہیں پنایا جاسکتا۔ جس
شے کا انسانی مجر ٹیہ کوئی واسطہ نہیں اس پر غور و فگر کا کرٹا ے مصرف ہے ۔
> یی ارد من ؿْں معلوم کرنا ے کہ کون سا عقیدہ زندگی کے. سّوارۓ میں
مَدد ڈۂے سکتا ہے۔ ۔ جیمژ کے لیے تتائجیت ایک طریق فکر ے جس کا مقصود کسی
ٌ < نوع ی ازلَ صداقتول کا کھوج لگانا نھیں ے ۔ وہ کہتا سے کہ اس.یات سے انساق_
رج یا طررٍ عمل میں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آیا وجود متطلق سے یا نہیں لے ۔
جیمز کا خقیقی عالم تجربات انسانی کا عالم ے جس میں انساتی قدریں اور سائنس
دولُوّں شاملٰ ہیں ۔ اہن عالم کے ماوراء فکر کی پرواز ممکن نہیں ے ۔ ہوسکتا ہے کہ
اس ہے تاوزاٴ کوق عالم اور بھی ہو لیکن انسان اسے جاٹنے ہے قاصر ے ۔ تفکر خلا
میں نہیں ہوسکتا پہ ند سے الگ ہ کر فک رکرتے کی کوشش مفید ثابت ہوسکتی ے۔
اس کے خیالء میں اننانی تجربہ ہی حقیقت ے۔ ۔ وه اگست 'کونت ہے اتفاق راۓ کرتا۔
ے کہ صرفٗ انسانی مشاہدہ اور تجربہ ہی علم ا اصل ساخذ ہے۔ اس سے ضرف نظر
کرتے کسی نوع کا علم جاصل نہیں کیا جاسکتّا۔ وہ کہتا ے کہ کسی نظرمے کی
صداقت کا مطلبی یہ ے کہ اس ہے کسی انساتی ضرورت یا حاجت کی تشفی ہو سکے
اور وہ کسی ئں کت کسی صورت میں کآرآمد ثاأبت ہوسکے ۔ چوٹکۂ عقاید و نظریات کی
- افادیت ایک عہد سے دوسرے عہد تک بدلتی رہتی ہے اس لیے معروضي یا از ی
صداقت کا کوئی وجود نہیں ے۔ بنتھمٴےۓ کہا تھا “اقادیت ہی ہر شے کا معیارٴے؛٤
بیکن کا قول ے ”وہ قاعدہ جو عملا سب ے زیادمؤئر ہوتا ے نظرے میں بھی سب
سے زیادہ سوثر ہوتا ہے ۔'“ نتانچیت بھی کسی ۔+داقت کو جانھنے کے لیے عملی افادیت
ے۔
ہے ۰ )٢( کائٹ ۓ :ا :ائ٥ء2 اور ءا نا ہہ میں فر قى کیا تھا ۔
۰ 2 یت
۷ -ف 7
کے معیار کو ضروری سمجھٹی ے ۔ جس عقیدے سے مفید نتابج ہرآمد ہوتے رہتے ہیں
وہیصداقت کا حامل ہوسکتا ے ۔ - ٍ
ُ نتائجیت یں ارادیّت کی روایت بھی خاصی اہم ےے ۔ ولم جیمز کا خیال ے کہ
عقل و خرد کو ہر وقت عمل کی غدمت ہر کمربستد وہٹا چاہے ۔ اور علم کو زادگ ”'”
کے تقاضے پورے کرنا چاہئیں۔ فلسفہ زندی کے لیے سے زندی فلسفے کم لیے نہیں
ے ۔ اس طرح نتائجیت میں عمل کو تفُکر پر اور ارادے کو عقل پر قوقیت و اولیت
دی گئی ے ۔ عقیدے کے معاملے میں نتائي حاصضل کمرے کے لیے نتائجیت عقل کی بجاۓ
ارادے سے رجوع لاق ے بلکہ فکر کو بھی عمل ہی کی ایک ضّورت سمجھتی ے۔
جیمز کپتا ے کہ ہم زندگی گزارنۓے کے لیے فکر کوتے ہیں اس لیے فکر زندگی گزارے _
کا ایک آلہ ے۔ ۔ وہ عقاید کو جاتچنے کے سعیار سے زیادہ عقاید کے مآخڈ میں دلچسپی
لیتا ے اور اس کا میلان واضح طور پر آزادیت ی طرفِ ے ۔
جیمزمذہب کو بھی تنا کی کسوٹی پر ہ رکھتا ے۔ اپنے ایک مقالے ”نقیدہ
رکھنے کا آلہ“ میں وہ کپتا ہے کہ امان کا چوہر تہ جذبہ ے تد عقل ے بلکہ
”ایمان لا ۓکا ارادہٴ““ ے جسے سائتض کے طریقوں سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ مذہب
میں کسی صداقت سطلق؛ کا کھوج نہیں لگایا جاسکتا البتە یہ سوال پوچھا جاسکتا لے
کہ کیا خدا؟ حیات بعد ممات اور قدر و اختیار پر عقیدہ رکھنے سے ہمیں کوئی عملی
فائدہ پہنچ سکتا ے اور کیا ان عقاید میں کوئی قدرو موجوڈ ے۔ اگر جواب اثبات میں
ے تو ان عقاید کے اختیار کرۓ میں کوئی مشائقہ تہیں ے۔ یہ بذہی عقاید صحیح
اس لے ہیں کہ ید انسان کو ٹیک بنانۓانے سسرت بخشنے میں مدد دیتے ہیں۔
نتائچیت کا دوسرا مشہور شارح ڈیوی ے جو جیمڑ ہی کی طرح فکر انساتی کو
حض ایک آلہ سمجھتا ے ۔ وہ کہتا ے کہ فکر معدے یا ٹانگوں کی طرح کا ایک ہے
آلہ ے جس کی مدد ہے انسان زندگ کے عقدے حل کرتا ے۔ اس کے خیال میں
ہی نظریں صحیح ہے جو کامیا ری سے ہم کنار کررے۔ کسی نظرےکی عملی کامیایں
کی طرف رہنائی ہی ام ںی صدافت کا واحد معیار ہے ۔ ڈیوی کہتا ے کہ اسان اپنے
سشاہدے یا تجرے ےے ماوراء نہیں چاسکتا۔ شش احمقائبد ہوگی۔ اس کے خیال
میں کائنات ایک بدلتی ہوئی نشو و ما اق ہوئی ترق پذیرئے ے جس کے مشاہلرے
سے انسانی تجرے میں ہردم اضافہ ہوتا رہتا ے ۔ ایک مفکر کے لے تجریات انسانی ہی _ے
اہمیت رکھتے ہیں ۔ اس کا کام حض یہ دیکھنا ے کم یہ تبریات کینے ایک دوسرے ٭'
کو متاثر کرتۓ رہتے ہیں ۔
ڈوی کہتا ے کہ فکر کا عمل مسائل اور عتدوں کی ملیل کا عمل ے
کیوں کہ انسّان سوچ ہی نہیں سکتا جبٴ تک کہ اسض کے سامئے کوئی حل طلب عقدم نہ
ہو۔ ڈیوٹی کے معترضین کہتے ہیں کہ اس ےۓ فکر کو آلە کہہ کر اس کے صرف
یک ہی پہلو ہے اعتنا کیا سے اور ان کار کی تخلیقی فکر کو نظر_انداز کر دیا ے ۔
ان کے خیال میں فکز ؛ض عقدے سلجھاۓ کا ایک آلہ ہی نہیں ے بلکہ اس کا ایک
مین
تخلیقی پہلو بھی سے جو فنون لطیفہ کے شاہکاروں کا عنصرِ ت رکیبی سمجھا جاسکتا ے ۔
انگلستان میں پروفیسر شلر ۓ نتائجیت کی ایک :نی صورت پیش کی اور اسے
”انسان پسندی؛ کا نام دیا۔ اس کے استدلال کا حاصل یں ے کہ جو کچھ بھی انسان
“ ے لیے صحیح ہے اسے کسی مافوق الفطرت ہستی کے بجاۓ انسافی مفاد ہی ک
پرورش کرنا چاہےس ۔
نتائجیت پر نقد لکھتے ہوۓ ایک اطالویٰ مورخ رگیروٴ کھتا ے ”ننائبیت نۓے
امریکہ میں چتم لیا جو ایک کارویاری ملک ہے اوریں خالصتً ایک کاروباری ملک ہی
کا فلسقہ ے؟“ اس میں شک نہیں کہ عملی کامیا ری ؛ نتیجد خیزی اور افادیت کو انکار
کی صداقتِ کا واحد معیار قرار دیتا کاروباری ڈہنیت ہی کا کرشم ے۔ برٹرنڈرسل
3 ے نتائجیت کے ایک اور لو یىی طرف توجب دلائی ہے۔ وہ کہے ہیں کہ اسیک
نتائجیت کا آغاز آزادی کے تصور سے ہوا تھا لیکن رفتہ رفتہ یں فلسفہ حصول اقتدار پر ۱
منتچ ہوا۔۔ ان کے الفاظ میں ”نتائجیت گھز میں جمہوریت. .اور گھر کے باہر ساس اج
کو قائم کرنا چاہتّی ہے؟؛ وہ کہتے ہیں کہ نٹشےن ے. طاقتؤر فرد کو سراہا ہے
ڈیوی جاعت کی قوت کا پرستار ہے۔ جاعت کی قوت سے اس کی سآد اسیک
۔سبرمایہ داروں کی طاقت سے جو اپتے سرماے کے بل پر ہمام دنیا پر چھا جانا چاہتی
ہے ۔ ایی سرمایہ داروں کے ملوکی عزائم کو نتائجیت ہے تقویت ہوئی ۔ امریکی ہے
سرایه داروں کی ایک دلیل یہ بھی ے کہ اگر وہ اقوام عالم پر ساساج اور تجارق
استبداد قائم کرنۓ میں کامیاب ہو گٹے تو یہ کامیا بی بذات خود اس۔یات کا ثبوت ہوگی ٠
کہ ان کا سام اجی استبداد حق وحداقت پر مبنی ہے ۔>
ہم دیکھ چکے ہیں کہ تبربیت فلسفے میں سائنس کے نقطہ* نظر اور طرز تحتیق
__ کو رواج دینے کی ایک کوشش تھی ۔ دور جدید کے۔مکاتب فکر نو حقیقت پسندی'۔
منطبی حلیل؟۔ منطتی :انجابیت٣ وغیرہ اسی ۔روایت کے ترجان سمجھے جا سکتے ہیں ۔
حقیقت پسندی کی روایت جرمن قلسنی پربارٹ ہے شروع ہوئی تھی جس نے ہیگل
"َ کی عقیلت پرستّی سے اختلاف کیا تھا ۔ برٹرنڈرسل “ ڈریک اور سنٹے آنا ۓ ا سے تتویت
بخشی ۔ -۔ نو حقیقت پسندی میں ان تمام نظریات کو شک و شید کی نگاہ ہے دیکھا جاتا
. ہے جو وجود مطاق یاٴذات احذ کا ذ کر کرے ہیں ۔ تثالیٹ پسندی کی ردے ذہن
اپ سمام اشیاء کا خالق ۔ے جو بظاہر:ماڈی دکھائی دیتی ے ۔ مثالیت پسند ذہن کو
عقیقی مانتے ہیں.اور ماڈے کو ذہن کے کی تخلیق قرار دیتے ہیں ان کے خیال میں ماد اپنے
ویود ے کے دیو اعت ے ۔ نوحقیقت پسند کہتے ہیں کہ .ذہن اور مادّہ دونوں
ہی مادی ہیں اور ذہن بھی ماڈی عالم کا ایک جزو ے ۔ ڈریک ایک حقیقت پسند کی
تعریف کرتے ہوۓ کہتا ے کہ اشیاء ہمارے علم سے آزادائہ حیثیت میں موجود ہین
(ر) سسنلدع-ہہ (17 ٭ (م) عنزلەھم لہ نعہ٥]
(۳) سز زازئدہ لوء اوہ1 _
۹.۳
اور اپنے وجود کے لیے ہارے ذہن کی تاج نہیں ہیں ۔ نوحقیقت پسندوں کہ خیال میں
انسان کی داش مندیھئ ے کہ وہ کائٹات میں اہتے اصل مقاغ کو دی- اور-اس
شعور ى روشی:میں زندی بسر کرے۔۔ 7 تق وت سے
۲ او حقیتقت پہندی کی رو سے خارجخی عالم -حتیقی عالم سے ۔اور اسے جانا جا-سکتا
ہا۔ ارد اس فری پر تیر کرت ود اھب کان نظرے کی ر3“
سے )١( اشیاء اپنے وجود کے.۔لیے کسی ذہن کی تاج نہیں بہ ہیں (م) عالم ایک نہیں
متعدد ہیں اور صحیح علم تحلیل و تجزیہ ہۓ حاصل ہو ہہکتا ہے۔(م) احدیت کا نظرید
سہمنِ ے اور غیر اخلاق بھی ے کیوٹکہ رید ش وکو۔خیر کے ہاتھز ایک ہی وجود
میں سکو کر دیتا ےر مثالیت پسنن کیِنہتے ہیں کہ ےہُنوسات وٴ'مدرکات ػلی ظور
پر ذہن مد تعلق رکھٹے ہیں حالانکی منطقی لیفاظ ے وم ہن اور اشیاء دونوں سے
'متعلق ہیں - برٹرنڈرسبل کہتے ہیں کہ یہ اس بدیھی ے کہ اشیاء پہلے سے موجود”
ہوتيی ہیں اور بعد میں آنہیں جانا جاتا ے۔جاننے کا مطلب یہ ے کہ ایسی اشیاء کو
جانا جاۓ جو۔علم و شعور ے علیحدہ یوجوٴ3 ہیں ۔ مثالیت..پسند کہتے ہیں کہ ٠ ذہن
آشیاء کا خالق. ہے حالانکو ذون اٹنیاء کو پیدا نہیں ۔کرتا بلکہ, ]نہیں ممعلوم کرتا سے ۔
برٹرنڈرسلِ ے ابی ۔طویل' عمر میں کئی ہسالک ؛ فلغہ اختیار کیےٴ ہیں۔یا اپٰنے
نقطہٴ نظر ک وکئی نئے نئے تام دلے ہیں۔ ٢ن کا منطقی تجلیل کا. نظرید جدیذ طبیعیات
۔اورریاضیات پر مبٔی تۓ اور اضاقیت سے متائر ہوا ام وہ کہّے ہیں کہ ۔جدید 'طبیعیات
,نے ماڈے کو کم ماڈی .اور ذبن, کو کم ذہنی > بنا دِیا ہے ۔ وہ ذہن اُزر ماڈے
کی 'تفریق کے قائل نہیں ہیں اور کتے وا حومی اور دوئی تذہب ہے یادگار
ہے۔ آة کی غیاق :ہیں عدیت اشن شود کی كػ:سائاس سے علیحدہ یہیں سمجھتا- ئہ عالم
کو ایک ۔عضویاتی کل قرارِ دیتا ہے ۔ث کابِنات کا مطالعہ کلیای انداز میں :۔کرتا ھ2
جدید فلبقہ:سائنس کی طرخ ۔یہائِل اور عقدوں کو ایک ڈوسزۓ ہے ۔علیجدم غلیحدِ
کر کے ؟نکی تحلیل کرنا چاہتا رۓ۔ آن کے کال مسا ا تی
حضِ اس بات کا ر٠ٗ گیا ے کہ قلسقے کے بممائل٠ ,زیادھ عەومی ہوے ہیں اور ئیز یں
انسانی قدروں ہے اعتنا کرتا ے ۔: برٹر نڈرسل* نے فائٹ پیڈ ہے ملِ۔ کر منطق کو
ربایات کے'اصولِوں .کو از سر نو مہ من کمرٹے کی کوشن بھی کہ ہے تا کہ وہ
سائنیں کے قریب قر آ جااۓ۔ : مک ہد ہے ۹5 چو
منطقی ایجابیتِ کا مکتب فکر بھیی تیزبیت کی زوایاتد لے تعلق رکھتااۓے اسے
”حلقہ*ٴ وی آنا““ بھی کہا جاتا ۓ, جسے میرٹڑانشلک تۓ ۹+۸ ۱ء میں منظم کیا تھات”
اس حلقے کے دوسرے متاز مفکر روڈلفٹ: کارناپ۔ اوٹو پیورتھ۔ بی فوینک اور
کے گوڈل تھے :ایِکلستانِ: میں ۔اسے اے۔ جے۔ آئر اوو ا یکہ میں سی ڈبلیوٴمورس اس
بکتب ہے تعلق رکھتۓ ہیں۔ منعاقی انجابیت پسند-مابقد الطيْمیاتِ کو ے مصرق
سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سائنس* کے ججملہ شعروں :میں جو تحقیتیَ نتای حاضل
ہوتے ہیں آن کی اس طرح مسنطقی ترجانی ی جاۓ کہ:ان سب کے لیے ایک ہی زبان
۔ 7
هٍ۰۔
٢۔ہم
بماات مبز جح کی پیدا ہ َ
ت پذیر ہو تاکہ علمی انکشائات مین یک جہپی' وس سے
متطتی ایبابیت پسند تسلیم کرۓ ہیں کہ عقلِ انسانی بعض اہم قرین مسائل ور عقدو
کا کوئی شاف و کاق حل پیش نہیں کر سکی لیکن ہد کے ا کہ :
کہ عقل ہے بالاثر بھی کوئی ایسا وسیلہ غمیل علام کا موجود کی سے عیال میں
انکشاف کر سکے جُو عقل اور :پائنٹس کی دنٹرس سے نے ہیں ہا
فلسقے کو صرف معانی کے تجزے اور فتروں ػٗ منطتی ساخت کے انکشاف ہر
کر ا چاہے بلق سب کچھ ساس پر چھوڑ دینا چاہے ۔ ۱ اب بملوئٹ
آس'میں شک ہن کہ جدید طبیّعیات کے انکشافات نے بج زبیت کک بعضش ہم ٌ
همسوشس کے 1 ماجردۓ تہئگج ۔ بدولت
ی نفی کر دی ہے لیکن جہچاں تک:انداز نظرەاور ظرز تمحتیق کا تعلق ہے اس کی ٦
فلشخد نسائنس كے قرب تر آ گیا ے ۔ اب قلابتفہ قساء یطرح گوٹم' تتاف ہے
کر تتبریدیٰ خیالات کے تاۓ باۓۓ نہیں "بُنتے بلک سائنس کے دوش بدوش اپنے فک ر کو
آگے بڑھاتے ہیں ادر اور اپنے سوضوعات فکر عِإلی زندگی میں تلاش کرے ہیں۔
ف
- ہے 7 ۱
7 ےے 7 ہے
کے سے 7 ٠
سجچہ ۔- :
1 ۔ . 7 ٦ .- ٰ
رے .8
80
تدے ۱
..٠.٠. ۱ "
٠ الک ۲- 5
ے :
7 ر٢ - ے ِ
َ 5
ۓ ٭+ھ
٥٠ 0, ۔- ر
.۸ 21-۔ ر ء
سس ا کا عبمہ
َ 2 لت ۳ ل :
٦ خی ۱
٠ -ْ
٦ 7 : - .-
لت اہ
. 5
:
ے :
٠ ۱ 1 ا سم
2٠ 7 ۔
۰ "ے +
٦ : > کے 1
٠ ْ 7 7 -
سے ا ٹہ لے ِ_
3 اعت 7 5 5
3
0
, 7 7
- ۳ +-_
٠ 5 1
سک ۔ ٭ِ :
- ۰ سم
" خَ
ٌ سم
٠
م۶ َ
ُ ک
“4 َ
- ٴ
۰ ے کے
٠ 0
ے
7 . -۔
. -ک
۱ ۱ ْ ََ"
٠ .۰
ى۵
۵
ے ۔
ھِ
۱ ٴ ٠ ارادیت:
َ
تاز فلسفہ میں اراڈیت١ کو فلسفیائہ روىانیت بھی کہا گیا ے ۔ اٹھارھویں
صدی عیسوی میں غرد افروژی کی جو تحریک فرانس میں پھیلی تھی اس کا ذُکر ہم
مادیّت پسندی کے ضمن میں کر چکے ہیں۔ ہم ۓ دیکھا کہ والٹیر۔ لاہتری۔
دیدرو- ہولباخ وغیرہ قاموسیوں نے عقل و خرد اور سائنس پر کاہل اعتاد کا اظہار
کیا تھا۔ آٌن کا استدلإل یں تھا کہ عقل انسان کو حیوانات سے متاز کرتی ہے اس لے
عقل ہی تہذیب و “مدن کی اساس ے اور اسی کو بروۓ کار لا کر ترق پذیر معاشرۂ
. انسائی قائم کیا جا سکتا ہے اس کے بر عکس روسو ۓ کہا تفکر و تدب رکا عمل غیر
فطرق ے کہ انسان کو فطرت ہے دور کر دیتا ے ۔ انسان کی بہتری اسی میں رے
کم وہ تفکر کو خیر یاد کے اور فطرت کی جانب لوٹ جاۓے۔ اس خرد دبممتی کے
باعث روسو کو روماثیت کا باوا آدم کہا جاتا ے ۔ رومائی تحریک شاعری میں
جذبات کے پر جوش اظہار۔ علم میں سائنس کی خالفت۔ اخلاق میں انائیت و
انفرادیت ۔ سیاسیات میں استبداد اور فلسفے میں خرد دشمتی کی صورت میں ممودار
ہوئی ۔ دنیاۓ ادب میں اس کے اولین ترجان ہرڈر۔ گوئٹے اور شلر تھے ؛ فلسفے میں
. کانٹ کے واسطے سے روتانیت شوہنہائر اور نٹئے کی ارادیٔت کی صورت میں
ظاہر ہوئی ۔ .
۱ کائٹ روسو کا پڑا مداح تھا۔ آس نے روسوک ہم نوائی میں خرد افروزی کے
خلاف جہاد جاری رکھا۔ کانٹ کے افکار میں عقل اور ارادے کے درمیان مفاہمت نه
ہو سی ۶ اس تضاد نے دو فلسفیائه تحریکوں کو جن دیا۔ (:) جرمنوں کی عقلیاق
مثالیت پسندی جس کا مشہور شارح ہیگل تھا۔ پیگل کے خیال میں خود شعور ہن ہی
حقیقت کبرعل سے نتیجة رجائی نقطہ نظر پیدا ہوا یعنی جو کچھ بھی صحیح معنوں میں
موجود ے وہی خیر ہے ۔ (م) شوہدہائر کی ارادیت اس کی عین ضد ے شوہنہائر
ے شعور اندھے ارادے کو حقیقت قرار دیتا ے اور عقل کو ارادے کی سطحی اور ٭
ذیلی حالت سمجھتا ے ۔ نتیجة اس کا نقطہ نظر قتوطی ے یعنی زندی دکھ ے۔ یہ
خیال شوپنہائر اور نٹشے کی خرد دشمنی کی صورت اختیار کر گیا۔ چنانچہ آنیسویں
() 0ةاءه؛صٛٛاہ'٣ یہ نظریدں کہ ارادہ ([[ذ١١) کائنات کا اصل اصول اور حیات
کا حرک اولیں سے ۔ ۱
۹٦
صدی کی غخرد دشمنی اٹھارہویں صدی کی خرد افروڑیٰ کے غلاف رومائی ردعمل کا ٠
نتیجہ تھی ۔
آرتھر شوہدہائر مرے ١ء میں ڈانرگ کے شپر میں ایک خوشحال تاچر کے گھر
پیدا ہوا ۔ چوان ہوۓ پر وہ پیمەبرگ میں کارو بار کرۓ لگا۔ جس طرح موت :۔اور:
بڑھاچے کے خوف ۓ بدھ کو دنیا سے برگشتہ غاطر کر دیا تھا اسیٗ طرح شوہدہاثر
بھی لوگوں کو الام زیست کا شکار دیکھ کر نی سے بیزار ہو گیا ۔ آُس کی مان
ادبیات کا ذوق سلم رکھی تھی اور فسانہ ٹویسی میں خاصی مشہور تھی۔ ایک دن
دوران سفر میں آ٘س کی ہاں نے ایک حسین فطری منظر ی ے ساختہ تعریف کی تو
شوہدہائر چیں بجبیں ہ وکر کمہنے لگا سوال ید نہیں ے کہ فطری منظر حسین ہے
سوال یں ے کہ کیا دِیکھنے والے خوش بھی ہیں ؟ اوائلِ شباب ہی میں شوہنہائر
کرب ٹاک ذنئی کشمکش میں سبتلا ہو گیا۔ ایک طرف تو سائنس اور فلسفہ کے
مضامین عالی آسے اپنی طرف کھینچتے تھے دوسری طرف لت کوشی کی ہوس دل
میں چٹکیاں لیتی تھی ۔ وہ مطالعد و تفکر سے اکٹا کر حسین عورتوں کی آغوش میں
سکون حاصل کرتا اور ان سے سیر ہو کر مطالعد* کتب میں غرق ہو جاتا تھا ۔
شنوپدہائر کی ماں ویمرگبٔی جہاں کے اد یٰ حلقوں میں .اس کی ملاقات گوئٹے سے
ہوئی - شوپنہائر گوئٹے کی صحبت سے فیض یاب ہوا لیکن وہ استاد کی رجائیٹ کو
قبول نہ کرسکا روماثیت دونوں میں قدر مشترک ثابت ہوئی ۔ گوئٹے شوہشہائر کے اس
نظرےۓ کی قد ر کرتا تھا کہ عقل کے مقابلے میں وجدان ادراک حة حتیقت پر ژیادہ قدرت
رکھتا ے۔ گوئۓ اپنے نوجوان شاگرد قی مْدم بیزاری افرنٹک کے باؤجود اس کا
مداح تھا ۔ ایک دن گوئٹے ۓ اس سے کہا
”اگر تو اپنی قدر کا ممنائی ے تو دئیا میں قدر پیدا کر؛““ ہد ہس
شوہدہائر نے اعلیل فلسنے کی تعلیم گوٹنجن اور برلن کی دزس گاہوں میں ہائی
جہاں اسے فشٹے کے لیکچر سننے کا اتفاق ہوا۔ اسی زماۓ میں اس ۓکانٹ افلاظون
آور اپنشدوں کا یہ نظر غائر مطالعہ کیا ۔ شروء رع شروع میں جرمن فلاسفہ نے شوپنہائر
کو نظر انداز کر دیا کیوں کہ جرمتی کی درس گاہوں میں پر ہیں فغۓ شیلنگ
اور ہیگل کے قلامذہ پڑھاے تھے جنہیں شوہنہائر ناپسند کرتا تھا۔ ہھرکیف زماۓ
کے گزرۓ کے ساتھ اہل نظر ۓ اسے ایک بلند پایہ قلسقی تسلیم کر لیا اور دورِ دور
تک اس کی علمیتِکا چرچا ہو گیا ۔ فلسنی ہوۓ کے علاوہ وہ ایک زیرک کاروباری
آدمی تھا ۔ خوب روپید کایا اور خاصی دولت جمع کر کے گوشہ تشیں ہوگیا ۔ اُس قے
عمر پھر شادی نہی کی قلسفہ ہی اس کا اوڑھناٴ بچھونا بن گیاء ۹۰ع میں
وفات پائی ۔ و
شوپنہائر اپنے آپ کو کانٹ کا جانشین سجھتا تھا ۔ تکٹیکی لحاظ سے وہ بھی
مثالیت پسند ے کہ دوسرے فثالیت پسندوں کی طرح وہ بھی کائنات کی ترجانی فرد
انف او رعاات کت ے۔ وہ ا کائنات میں ہمد گیں اراد کی
۔کارفرمائی سے اور وہ ہر شے.تیں ازل سۓ موجودِ ہے ۔ ایران کا مشہور قنوطی مانی تغلبق
کائنات میں شر کے عنص رکو فعال مانتا تھا اور خر کے عنص رک و م:فعل اور ضنی غیال
کرتا تھاہ شوپٹپائر کا آفاقی ارادہ بھی فعال اورِ شر آكیز ے ۔ انسان کی عقّل پر ارادہ
_ غالب .ہے چی سے آبادۂ عمل کرتا سے ائسانی ازادہآفاق ارادے کا جزو ہے جو تام .
شر ی بنیاد ے اور جیں ۓ انسانِ کو سخت خود غرض بنا دیا ے ۔ انفرادی ارادہ
آفاق ارادے کی طرح غیں انی ے موت:پر جسم ننا و جاتا ے لیکن ارادہ باق وہتا
سےٴدریہ خیال ویدانت اور پدھ مت کے کرم کے نظرے کی صداۓغ باز گشت ہے جس
کی روےے:کرم ہوت کے بعد بھی پا رہتا ےب شبوپٹہائر کہتا ے کہ مام فطرت
ارادے کا اظہار ے۔ پتھر میں یہ ارادہ اندھا ۳ انسان میں آ کر سے اپنا شعور ہو
جاتاے _ : ۱
کانٹ نے کہا تھا کہ حتیق نفْسي الا ا ادراک اسان : کہ بس کی بات نہیں سے
ر لیکن اس کے متبغین ۓ اس ہے اختلاف کیا اور ہآ کہ ایسا ممکن ہے ۔ چنا چہ فشۓ
ے بطلق خودی ؛ شیلنگ ۓ وجود ہطلق ٴ ہیگل ۓ عین ہطلق اور شوپدہائر ۓ آفاق
ارادے کو حقیقت قرار دیا۔ :شوپٹہائر کے خیال میں عقّل ی تگ و تاز ظواہر ڈُک:
حدود نے ۔ ۔ ہم آپنۓ دن میں.وجاداق طور پر جیی حقیقت کا شعور حاصل کرے ہیں وہ
۔آزادہ ے۔ ارإدۂ حیات زندی کا تبادیٰ اہول ےد دازا ا و ا لونڈی ے
شوپتہائر کہا پکے ا "
عقل ابی فطرت میں رع وت کی طرح ہے۔ یہ اسی وت کچھ دے سی ہے
' جب یہ کچھ لے لیتی ہے ۔ پّی ڈات میں یہ عخق ایک کھوکھلے چھلکے کی
مانند ے۔)؛
شوہنہائر نۓ آفاق إرادے کو مویہ ی روج کل کے مائل قرار دیا ے جو مادّی ۔
کائنات میں طاری و ساری ے۔ 0 پي تظزیں وحدت وجود کے قریب معلوع““
ہوتل ے اس کے خیال میںَ عالم کے ظواہر ارادے ہی ک معروضی صورتیں ہیں ۔ یہ غیر
شعوری غیر عقلی اندھا آفاقِ ارادہ ہی حقیقت کبرىلٴ سے یعنی کائنائٹہ میں ایک ہی شے
حتیتی ے اور وہ غیر منطتی آفاق ارادہ ہے۔.
شوپنہائر کی اض مابعد الطبیعیاتٴ یَے جو اخلاق ری تفر َوَ وھ ظاہرا قتوطی
ہوکگا۔ آفاق ارادہ ہمہ گی بن بر آمیز ے تمام درکھ درد کا ماخذ ے۔ انسان میں
_ ارادۂ حیات تمام شر کا سیب ہے ۔ ژندی دکھ ے اضطراب؟ خاجان اور غم ہے بھری۔۔۔
ے۔ دنیا میں سّرت کا کوئٹی وجود تھیں: ے کیوں کہ جب کوئی آرزو پوریٰ نہ
ہو تو اذیت حسوس ہوتی ہے اور ہوری ہو جاۓ تو اس کا نتیجب اکتاہث ہے جو۔
لُذات خود تکلیف دہ ہے۔ علم میں اضاقے کے ساتھ ساتھ دکھ میں اضائم ہوتا ے۔
شوہنہائر بدھ مت اور ویدانت کے قنوطی نظریات سے متائر ہوا ے ۔ وہ مایا “ آواگون
: اور نروان کو اساطیر قرار دیتا ے لیکن کپتا ے کہ یہ اٹل صداقتوں پر مبنی. ہیں ۔
وہ کہتا سے کم مایا کا پردہ چاک کیا جاۓ تو اس کے پیچھے خبیث شیطان کی صورت
یبد
سسوچے
دکھائیٰ دے گی جس نے السا کو مساسل عذاب از دکھ می مبلا کر رکھا ے۔
شوپدہائر کے تیال مُیںَ اکثر لوگ سٹگینِ ة قسم کے اختق ہیں و ضا و وی کک
موٛت کی تلوار ہر وقت مر پر لٹک رہّی ے وہ >َ کھوکھلی مناؤں۔اور ےۓ مر آرزوؤں
کے جال بتتے رہتےٌ ہیں۔ گوتم بدھ گی طرخ شودہائر بھی ود غرضی کو:شر کی جڑ
. سے ےد ےت
ارادعے کی ثغ۴ی کر سکنا سے۔ آرادے کے ۓے پناہ تضرّف سے مات پاۓ کے لے
کشی ضرورزی ے ۔ ارادے کی موت انسان کی نبات ےٴ ا ای کے
چھٹکارا ہپاۓ کے لے انسان کو چاہے کہ وہ بے پیدا کرنا چھوڑ دے ٹہ زند زرۓ
کی نہ دک ہوکا۔ شوپنہائر کو تسلم سے کہ اُس کے یں خیالات عیسائیت کے متاق
ہیں لیکن وہ کہتا ے.””بنی نوع انسان کی قدج دانش سے حض اس لے صزفِ نظر نہیں
کیا جا سکتا: کے خلیل (جناب عیسول کی چائے پیدائش) میں چند واقعأت روعا
بیۓھے۔٠ : ٌ
شوپدہائر جنسی جذڈے کو نشر۔آمیڑ آفاق ارادے کا مخلیقی وسیلد سمجھتا ے اور
کہتا ے کہ جنستی فعل کے ساتھ شرم و یا کا احسامن'اسی لے وابستہ زہا ے کہ
پر شعخص جانتا سے کم وہہ س پیدا کرہے انہیں دک کھ درد میں مبتلا کر رہا ے۔
عورت اتل جڈے کی تمویک کا باعث ہوق ے ائ لے وہ گردن زدی:ے ۔ شوہنہائر .
بہت بڑا و ا اک ا کے اک
طدز ز آجاق سے ۔ 5 ا دَ
"تچ طرح قدرت ۓ شیروں کو پنجوں آور دانٹوں ہے ۶ ہاتھیوں کو سونڈ اور
دانتوں سے اور بیلوں کؤ ا و ا امن کے عورت کو
نکر و قریب کا ہتھیاز دیا ے ۔“ ٌ : جا
”” صرف وہی شتخص جس کی عقل و خرد پر ہوسٹای کا پردہ پڑا ہے اس
پستہ قد چوڑے کولھوں ۔ چھوٹی ٹانگوں:اور تنگ کندھوں'وا ی خلوق
کو صنف ناڑک کا نام دے گا۔ عورت کو حسین :کہنا غلط ے کیوں کم
وہ احساس جال سے یکسر عاری ہُوق ے ۔ ایے موسیئی؛ شاعری یا دوسرے
فنون لطیفہ سے کوئی دلچپسي نہیں ہوق جو غورتیں ان قئون میں بصیرت کی
مدغی* ہق ہیں وہ محصض۔ مردوںٴ کو خوش کرنۓ کے لیے ایسے دعوے
٠ کرق ہیں جع ویو کرو کسی وہ سرت دلچسپی نہیں لے
ت کس _ ٤٤ ۰
-۔-۶ٴ غورتوں آور مدّہی پیشواؤں کو آزادی دینا خظرناک ےک
شوپتہائر کا جالیایق نظریہ بنی آُس کی مابعدالطبیعیات ہے وابستہ ے ۔ وہ کہتا
ے کہ :فس کشی اور آرٹ سے ہم ژندگی اور وجود کی ہے حاصلىی کا شعور حاصل
کر کے آفاق ارادے میں اپنے آپ کو کھو دیتے ہیں -٠اانیت کو مٹا دی کا کام خیر
ے اور حسن و جال میں تعمٌّی و تدبّر ہے ہم انفرادیت سے ماوراء ہو جاۓ ہیں ۔
: 0”
اس طرح عارضی طورِ ہر ہی سہی ہمیں خواہش کے چنٹگل سے آزادی مل جاتی ہے ۔
. اس بقصد کے لیے موسیقی سب سے زیادہ موثر ے ۔ موسیقی سے ہم پر ازخود رفتق کی
کیفیت طاری ہو جاتی ے ذات کے بندھن ٹوٹ چاے ہیں اور ہم ایک ایسے عالم میںٴ
چلے جاۓے ہیں جہاں خواہش کا گزر نہیں ہوسکتا ۔۔ہزار افسوس کہ یہ وجد آفریں
کیفیت گریز پا ثابت ہوق ے ۔ تھوڑی دیر کے بعد سارا طلسم شکست ہو جاتا ےٴ
اور پھز وہی قابوچیانہ خود غرضی ہمارے روح میں اپنے نےرحم پنجے کاڑ دیقی ے ۔
گوتم بدھ اور مانی جیے قنوطیوں ۓ جو کہا تھا وہ کر دکھایا لیکن اپنی
تعلیات کے مطابقِ زندگی بسر کرنا شوپنہائر کے بس کی بات نہیں تھی ۔ آدمی آسودہ
حال تھا۔ پر تِلف کھانا کھاتا اور مزے سے رہتا ۔ آسائش کے سب سامان میسر
تھے ۔ دوسروں کو نفس کشی کی تلقین کرنۓ والا خود نفس پروری ک ٹکر میں رہتا
تھا ۔ اور ہر وقت کسی ئب کسی حسین عورت کے پیچھے ساۓ کی طرح منڈلاتا رہتا. _
تھا۔ اتنا ضرور ے کہ مرزا غالب کی طرح وہ مصری کی مکھی تھا۔ عورت کے _
خلاف زہر اگلنے والا یہ فلسقی ایک دفعہ سیاحت کے دوران روم کی ایک ماہ پارہ پر
ہزار جا سے فریقتہ ہوگیا ۔ ایک دن وہ حبوبہ کے ساتھ سی کو گیا تو راستے ہیں
آن کی مڈبھیڑ بائرن سے ہوگئی ۔ اس ی مبوبہ بائرن کے سردانه حسن اور رئیسائہ
ٹھاٹھ کی اسیر ہوگنی اور شنوپدہائر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔ روے پیسے کے
معاملے میں وہ نہایت خسیس تھا-۔ ایک دن وہ اپنے ذرواڑزے میں کھڑا کسی سے
باتیں کر رہا تھا کے ےت
لینا تھی ہے دیکھ کر شوپنہائر ید مزہ ہوگیا؟ آُس نے بڑھیا کو ٹالنے کی کو:
لیکن وہ بھی بلاۓ ے درمان تھی برابر تقاضا کرقی رہی ۔ و ےت
آسے دهتا جو دیا تو وہ لڑھکتی پڑھکتی سیڑھیوں کے تیچے جا کری اور اس کی ایک
لک ٹوٹ گئی ۔ بڑھیا ےۓ فلسفی پر دعوعل دائ رکر دیا ۔ عدالت ۓ قیصلہ سنایا
کہ شوپنہائر بڑھیا کو حینِ حیات سال بھر میں چار دفعہ ایک رقم متررہ ادا کرتاسمد
رے گا بڑھیا سخت جان تھی بیس برس تک زندہ رہی اور ہرجائہ وصول کرق رہی ۔
آخر جب وہ مکئی تو شوپدہاثر ے اپنے روز نامچے میں لکھا : :
- _ ”*بڑھیا مم گئی ۔ بوجھ ]تر گیا۔؛“
!نانیت کو شر کی جڑ کہنے والا یہ فلسٹی نہایت خود بین اور خود پسند تھا اور
کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا -۱۸۱۹ء میں اس نے برلن میں لیکچر دیناا شروع
کیا تو اپنے لیکچر کے اوقات وہی رکھے جو ہیگل کے لیکچر کے تھے ۔ اس کا خیالي__
وک و و یک کک ا و کر آئیں کے لیکن
کسی لڑکے ۓ آدھر کا زخ نہ کیا ۔ اس پر وہ ہیگل کا سخت مخالف ہوگیا ۔ وہ اخبار
نویسوں کو آجرت دے کر ملک بھر میں اپنی شہرت اور مقبولیت کے ثبوت فراہم
کی کرتا تھا ۔ آس نے اپنے پالتو کتے کا ار ھا زودانت ی اقرائی ر6 کیا
تھا۔ اس کتے سے آے بڑا پیار تھا ۔ وہ کہا کرتا تھا دنیا بھر میں خلوص کا اگر
کہیں وچود ے ہو سس ہے ق انکھوں میں ے ۔ شوپنہائر کو اپنے فلسفے پر
بڑا ناز تھا اور اس پر برملا فخر کیا کرتا تھا ۔ اپنے بعض مقالوں: کے متعلق کہتا
ہے کہ یە مقالے روح القدس ۓ آسے لکھواۓ تھے ۔
شوہٹہائر کی قنوطیت اور کابیت نے قطع نظر آُس کی تحریزوں سو گہری.
ای یک ورک ا رق ا ری اک ےا نے ارسطو_
یا ہیگل کی طرح منلق کے زور سے کوئی با غابطب .نظام فکر پیش نہیں کیا لیکن
کائنات میں انسان کے مقدر۔ انسانی فطرت کے تضادات و مضحکات اور طرز عمل کے
عجیب و: غریب محرکات کا آُس نے استادانہ نجزیە کیا سے ۔ اس کے مقالات میں جابجا
حکمت و دائش کے موق بکھرزے پڑے ہیں جو انسای ببصیرت و آ گہی میں اک گوئں
اضافہ کرتے ہیں ۔ ہم ان میں سے چند اقتباسات ڈیل میں درج کریں گے ٠ _ٴ
" ایک صحت مند گداگر ایک مریض بادشاہ سے زیادہ خوش ہوتا ے ۔؛؛
” پرشخص اپنے شعور کی حدود ہیں گھرا ہا ہچ اور ان ٴحدود کو پار نہیں
َ - کرسکتا جیسے وہ اپتی جلد ہے باہر نہیں آسکتا ۔ َس
1
و ٴدمی جتنا زیادہ دولت مند ہوتا ۓ تنا ہی ] کتاہٹ کا شکاز ہو جاتا ے۔ ؛؛
” اکر لوگ اتنے احمق ۔ فرومایہ اور بازاری ہوۓ ہیں کب بقیر خود بازاری
بنے ان ہے بات کرنا مشکل ہو جاتا ے ۔“_
” ایک عالم خواہ کعنی ہی فروتقنی اور کسرنفسی کا اظہار کرے لوگ ]ہے
ذہنی لحاظ سے اپنے سے برتر ہوۓ کے باعث کبھی معاف نہیں کریں کے ۔ ؛٤
”جو لوگ تم سے ملنے آئیں آن سے اپتے ہی متعلق باتیں ک رکے انہیں_ بیزار نہ
کرو بلکہ انھیں اپنی ذات کے متعلق باتیں کرۓ دو کہ وہ اسی لیے مھارے
پاس آتے ہیں -ٴ
زندگی کی عیت الال موت کا خوف ہے ۔ “
جو شخ بڑھاے میں بھی مجلس آرائی کا شوق رکھتا ے دہ بالکل تہی
مخڑے۔۶“
” عقل تجرے سے آتی کا رھ مھت
”اک٥ آمسراء نا خوش رہتے ہیں کیوں کہ وه تہذیب نفس کی دوات ے
حروم ہُوے ہیں ۔ دولت ضروریات انسانیق کو ےشک پورا کرق سے لیکن
کے تک تک دولت پریشانی کا باعث وی ے
کہ اسلاک کی نگہداشت جانکاہی چاہتی ہے ۔ اس کے باوجود اکثر لوگ
حصول زرو مال کے لیے بھاگتے پھرتۓ ہیں اور صرف گنتی کے. چند اشخاص
تہذیب نفس کے حصول کو اہم سمجھتے ہیں ۔“؟ ۱
"جس شخض کے۔ متعلق۔ یں کہا جاۓ کہ نوہ تنہائی پسند :نے تو اس کا
مطلب یہ ہوگا کہ وہ غیر معمولی ڈہن و کردار کا مالک ے ۔؛؟
"کو دو چیڑیں اتی متبائن و متخالف نہیں چتٹی کہ قدماء کی سادہ تحریریں
َ ا
3- کا
دعہ
مم بے 7 رہ
5 رپ کے .۰
نا 0000۶ لکھے: ہوئۓ عالانہ حاشے۔؟“ کاو تار
''غیں معمولں ذہن ودماغ رکھۓ والنے کا کول دوست تی ہوتاِ کی ون
اس کی باریک پین نکاہیں دوستی کے فریب :کو قوراً بھائپ لیقی بق ۔ “٠
'٭انسان اہی ے پناہ اناتیث کو شائنیڑی ادر:حین اخلاق کردود مت
چهہاۓ کی کوشنشي کرتا اریتا ےس“ ے ج٦ < ۔ ہہ “و ٦
۷غ کسی دوبت کو۔قرش دؤ گے یاٌُس پرااحسان کرؤگے تو وہ مہارل
دشمن بن جاۓۓے گا۔ اگر' تم کسی دودت کو یا یئ إہداد دیئے یا آُس کا کام۔
ز. کرے سے بعذوری کا اظہار کروگے تو۔وہ:,کبھی تم ہے ناراض نہیں ہوگا۔ ٴ٠
”جس شخص کی ذات میں کوئی جوہر ہی]س کا شہرت حاصل۔ کنا اتبانی:
خو و ا ککاب کی
غرور داخلی عمل سے اور اپنے آپ یىی بلاواسطہ قدردانی کا نام ے ۔
۱ خود نمائی خارج ہے تعلق رکھتی سے اور اپتے آپ کی بالواسطہ قدردانی ے
. یھی وجۃ ے کہ ود مم .لوگ پاتونی ہوے ہب اور مغرور خاموش رہ ہیں ۔ “٢
"چو لوگ دوہروں کے سامنے کک رونا روے ہیں وم نہیں جانتے
کہ لوگ ظاہرا ہمدردی کا اظہار کرے ہیں“ لیکن بہ بایان دوسروں کے
_ مصائب پر خوش ہو یں پک اد اسب سم بدا
فے ا انسان کا مشاہدہ س شخص جْ ہوتادے جو رات کے ناج کے
ائے پر _لوگوں. کو اپنے نائل چہریۓ آتازے ہوۓ دیکھتا ے اس ک
جس ہت
”فرض "ڈرو ۔بہت. ہے ذہین اكخاص ایک محفل میں مل بیٹھے۔ہیں اور ان میں
صرف دو احمق ہیں ۔ وم دونوں پ یقیناً ایک دوسرے کو پالیں کے اور اس
بات و لت کم بارے, اس حفل ہیں ایک تو ذہین 2 بھی
نوجود ے ۔)4 :7
”ایک معمولی شکل و صورت تی لڑی ایک ٴ بعبورت لڑی ۔ھھ ات تپاک
سۓ ملے گی ۔ مر دوں میں اجەق اور کودن اور عورتون میں یڈ صورثا ہمیشہ
:ہر دلعزیز ہوے ہں۔۔ ایک حسینہ کو کوٹ عورت پسند نہیں کِرق سب
ر اس سے دوربھاگنیئ بی کہ ان کے سامنے لوگ نہیں بد صورت تب خیال' کریں ۔
اسی طرح جو مرد غیر معمولی ذرن و دماغ رکھتا ے لوگ ٢س کے تر
نہیں پھٹکت کہ کہیں آن ی ابی حاقدِ ۷ڈ 0 ہو جاۓ۔
اس طرح وہ نے چازہ اکیلا وه اتا ے گا ہے
”مال و زر سمندر کا شوراب ے کہ جتنا پیوگے اتنی ہی پیاس بھڑکے گی ۔ٴ“
”مد آزاد وہ ے جو تدہا رہٹا رے اور اپنی ہی رفاقت پر قناعت کرتا ے ۔/
''بھلا دینے یا معاف .کر دینے۔ کا سطلب تو:یہ ہوا کہ بڑیِ سشکل سے حاصل کیا
ہوا تجرہە ضائم کر دیا جاۓ۔؟٠ <-
گ۳'َ"
ا
: ''مہارے دوست مہ یلوم ووشیت کی یقین دلائیں ۓے . ۔ یہ عض, دکھاوا
>> مبازے دشن شدن* ة تم 7 دز ”خلوطن' رظن کم ایک لنچے کے لے
ے بھی لن و بے کی لے لیے 5
نا5 ہیی غازت"پز مم ضحرتے وا ما آر ور بس کے مکمل نم کے کا علم ۰
ہیں ر رت ۔ اتتاق کی ہم بھی سی شالت ہے و لال وجار یہ چک میں نے :کر
وسی اجام تصور سے غافْل ہو جاتا پک ہے مد حر کی
جج اکش انان کی کشزوری کو ا اس کی خیاثت ات کو اورمتہی ٹوا
2 انی جات “کو وب با جاناانچت)ٴ ۰ ٠
سج لن لوگ دنٹڈن کیانفظلوںاکی خواہں کر ےاویں جک ئن كجھوکھلا
ہوا نے وہ داہن تاغل کفائ بت گور کر ا دومتوں کی ماس میں پناہ تلاش -
رہ
' ۶ مر ساس نر
کر ہ ےہ ا ایی نم ٠
2 کے ١ حیہ
ر َ1 غروبونا میں اجپالت ج.- اک وی جنی ۳ مو نی ہوٹیٰ
آمد٤اربں یپ مرع رما لات .۔ 5ے 5 کس رے۔
بیس - کے را -
ہے۔۔ الفاظ” میں" :کم خیالات کا اظہار ”مال ہے۔ تھوڑے 'الفاط میں زیا
خیالات کا اظہار علمیت ہے۱ ہے
_ شوبدہائر دویمرے خر3 دشعنوت کی طرزح انسای خڈن اؤز تڑق کے تصو ر کاسخت
غخالف, تھا۔۔ اس عغ اہی : کتابیٰ ”؛دنیا سیت" تارادے:اؤر ال کے میں تی کے
تصور پر زبردست حملہ کیا ے ۔ وہ تدن اور ترق کو کی وکھلا قرازْ قیت ۓے اور
کچتا بے کہ:آنیان اَی فطرع خنو دنغرضی سے باعك کبھی ترقی وین کر سکے کم
ارادیت کا دوسرا مشہور شارح فریڈرک پش مع می جرمٌی رکہ صوہ
سکیستی کے قصیے روکن میں ایک پادڑیٰ کازل' تیر کے گھر ید ہوا ۔ چار بپرس
ے کا تھا کہ باپ کا ساید سر ہے اھ گیا نَ نے ایت ہونار اور ذی تھا اور چھوٹی عمر
میں موسیقی اور شاعری میں دلچسپی کا اظہاز- کرتۓے لگا ۔ اس کی طبیعت پر داخلیت
کا رنگ غالب تھا ۔ انی عمر کے لڑکوں کے ساتھ .کھیلتے کے ابچاۓ وہ گھر کی
چار دیواری میں گھسا رہتا اور شجز کہا کڑتا۔ ۱۸۹۴ ۱ع می اس نے بان ری
'نہں؟ داخلد .لیا۔ ات وہ, گھر کی پاپندتوں نے آزاد ہو کر بجوب ,کھل کھیلا ۔
کے:تباب کا یہ دوز بڑا ہر آفوتِ تَا شرائبا میق۔ اہدست و کر ساتھیوں سے بای
بکڑنا: ا کا حبوب :مشلہ بن گیا'۔:آخر اس تا زاہ زی ہے کنارہ کی ہو کر اس
' رے: لسائیات؟ حیاتیات :او رٹاستے ِک تحصیل: شروغ کا داؤْرآن مطالعد وہ عیساثیت
سے یدظن-ہوگیا ۔ لائپ: ژگذی لیوٹیورڈٹی میق ان يٴ نلاقات شوزٹہائر اور مشہور
۔موہیتار رچرڈاواگز ہے ہوئی جن سے سے گہرجۓة عقیذت ہو گٔی۔ ۱۸ع میں وہ وج
ہیں بھری'ہوگیا لیکن جزابیٴ ہحت کی ینار اسے سبکدوش ہو پٹا۔ ۔ ان ایام میں
انی تبنحت آیسی یگڑی کہ 'پھز کبھیٰ اللہ دوس ۔" ٭ 27
د3 شجھلےہ لت میں: گے کو پالینڈ :جا کا اتقاق تو جباہراد ایک بر7 کو دل دے۔
جی ہے سم
ےا لہ تید کے ریہ ںا پت 5-
ٔ"۱َ"۰٣۳٣۳
لے کی تہ تی سے اس لڑکی ے اس کی مادی ی پیش کش کو پائۓ حقارت
لوکڑا دا جس سے نقشے کا سر چشمہٴ حیات مکڈر ہو گیا اور اس کے سوچنے کے
انداڑ بدل گئے۔ اب وہ شوہدہائر اور واگز پر نقطہ چینی کرئۓ لگا ۔ واگڑ نے وہ اس
ْ: بات پر خفا ہوگیا کہ اس کے ثغمے پارسیفال میں عیسائیوں کی تفنٰ تُکشی کا عنمبر
پایا جات ے ۔ شوہنہائر سے منحرف ہوۓ کی وج یہ تھی کہ اس قدوطی فلستی بے
۱ رحم و کرم کو اخلاق حسنہ کا اصل اصُوَل قرار دیا تھا ۔ وہ سیر و سیاحت کے لیے
. اطالیہ۔بھی گیا جہاں ایک حسینہ پر جس کا تام لوسلومی تھا ہزار جان ہے عاشق ہو
گیا ۔ لوسلومی نے اسے ستکی سمجھ کر سرد نہری کا برتاق, کیا۔ نٹشے کی یە
دوسری نا کامی پہلی سے بھی ژیادہ تلخ تھی ۔ وہ عورث ہی ہے متفر ہو گیا اور
شادی کا ارادہ ترک کر دیا ۔ - ۱۸۸۸ع میں نٹشے پر مض کا غلیه ہوا اور اس کے
دماغ میں خلل آ گیا ۔ ”'بتول زردشت“ میں جس مزیضانہ انانیت اور خود چ
"کھوج متا تا ے وہ اس کے اختلالِ ذہن ہر دلالت کرق ے بعض لوگوں کے خیا
میں دہ شروع ہی سے فاتر المقل تھا - ''بقول ززدشت“ می کیہتا ہے ۔
.ٰ س؟'میں دجال ہوں؟“
۔-۶ ”میں اپنی دانش سے زچ آ گیا ہوں اس یہد کی سکھی:کی طرح جس نے بہت
_ زیادہ ے شہد اکٹھا کر لیا ہو میں چاہتا: ہوں کہ لوگ ہاتھ بڑھا پڑھا کر یہ دانش مھ
سے لے لیں ۔)٤ 3 7ی
- اسب خدا چکے ۔ آگر خدا کا کوئی ونجود ہوتا تو مین کییۓ یہ برداشت
کر سکتا تھا کہ میں خدا نہیں ہوں'“
-۶'میں ہوں دیو ٹیسیسں- مسیح کا دشمن؟“
نٹشے کی خود نوشت سواعغ عمری کے چند عنوانات ہیں ۔
: میں اتتا بڑا دائشند کیوں ہوں ؟؟ ۔ .۲
میں اتناٴ چالاک کیوں ہوں ؟٢؛
. میں ائنا اعلی| مہنف کیسے بن گیا ہوں ٠ ۹١
نے ے . . وع میں انتقال کیا ۔ اس کی تعبائیف میں 'خیر و شر سے ماوراء“
'شجرۂ اخلاق؟ ۔ المیں یق پیدائش“ ۔ بقول زردشت؛ ۔۔حصول قوت کا عزم اور ؛بّردید؛
_ مسیحیت“ نے شہرت پائی ۔ نٹشے کے مقالات کو اس کی لائق بہن الزبتو ۓ تب
کو کے ان پر مفید حواشی لکھے اور اپنے: بھائی ہے متعلق اہم معلومات ہہم پہنچائیں ۔
نٹشے ۓے شوپنہائر کا یہ نطرین قبول کر لیا کہ ارادہ ہی وجود اور انسانی زندگ
کا اصل اصول ے ۔ لیکن وہ کپتا ےے جیسا کہ وپٹہائر نے کہا ے یہ ارادہ
ارادۂ حیات“ نہیں ے بلکہ حصول قوت کا ارادہ ے ۔ نظشے :کسی۔آقاق اور ہمد گیں
صداقت کا قائل نہیں ہے ۔ اس کے خیال میں فطزرت میں کسنی قم کا کوئی مقصد
فی نہیں سے ند اس کی کوئی واضح منزل ے ۔ وہ اشیاء کے ازلی و ابدی اعادے کا
کا قائل ے ا؛ر اسے اپنے ”ہاں کہنے والے فلسفے“ کا سب سے اہم اصول سمجھتا ے۔ ۱
"۹َ"
ہے ان ان ١
ابدی اعادے کا غیال رواقیئیت کے یہاں بھی ملتا ے ۔ آس کا مطاب یں ے" کہ
کالنات میں ہخیشّہ احوال و اشیاء ۶ مسلسل ومتواتر ىر اعاتہ ہوتا رہتا ے4 اور تاریخ
ایک دائرے میں چکر لگاتی رہی۔ یچ“ چی۔ زمان کا دولای تصور ے جو قلسقه“
یونان و 'ہند میں شروع سے موجُود رہا ہے۔ اٹشے ۓ جابجا زردشت ہے اظہار
عقیدت کیا ے .ایک جگہ کہا سے کہ ویٍوں _کے:مصنف اس قابل بھی نہیں ہیں کہ
وہ زردفت ے چرۓ سے ہو کوریں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس نے
زردشت کے زمان کا تصُور قبول نہیں کیا ۔ زردشت کے خیال میں ہر ہزار:برس کے
بعد ایک یا ہادی پیدا ہوتا ے لیکن وقت ي حرکت آُس. کے-خیال کے نطابق دولابی
نہیں ے بلکە خط مستقم ہر ہوتی ے ۔ یعنی وقت کا آغاز بھی ے اور انجام بھی ہوگا۔
بتول ٹوئن پ یہ نریہ بھودیت کی وساطت ہے عیساثیت اور۔اسلام تک پہنچا تھا۔
نٹشے کے فلسنے کو الفرادیت کا فلسفد بھی .کہا گیا ۓ کیوں کہ وہ عظیم
افراد ی پیدائش کو توع انسان ی ترق کے لیے ضروری:-سمجھتا ے۔ وہ کہتا ہے
کہ چہابِ حیاتِ ہوگ"ّ وہانِ جصولِ قوتِ کا ارادہ یھن ہوگا اور حیات کا متصد واحد
فوق الائسان کو پیدا کرٹا۔ ے اور عظاء ک ٹسل کا ظہور ہے۔ وہ مساوات اور
اخوت کے تضورات کے ساتھ جمھوریتہ کو بھی رد کر دیتا ہے کپتا ہے : ---
”سماعد حالات میں عظم افراد کی تخلیق ضروری سے جو آن مام انسانوں :سے
. عظم تر اور برتر ہوں گےٴجو آج تک یہدا ہوۓ ہیں ۔ یھی ببٔی نوع انسان کا
. سب بے بڑا فرض ے؟““ - 8
و تماد ہوں گے ۔ انہیں اس بات کا حق حاصل
ہوگا کہ وہ عوام پر حکوست کریں ۔ کہتا بے :
”لنگو رک و آدمی ہے کیا ثمیت ہے۔ وہ انمان کے سامتی مضحکہ خیز دکھائی
دیتا جیسے عام آدمی عظمٌ انسانوں کے مقابلے میں مضحکم خیز ہوں گے ۔)؟
نٹئے اور میکیاویلی کہ سیاسی نظریات ملتے جلتے ہیں۔ میکیاویلی کا دیج
سیزر بورجیا تھا. اور نٹشے پولٰین ہونا ہارٹ کا مداح ے جے وہ عفریت اوڑ .
فوق الائمان کا عجنؤعم کہا ےے۔ وہ اي پات پر افسوس کا اظہار کرتا ے کہ
نبولین جیسا فوق انمأن گھٹیا اور حقیر دشنتوں ے شکسٹ 'کھا گیا۔ سیاسیات میں
نٹشے ہیگل کی طرح ریاست کی ہمہ گیر قوت واستیلا کا قائل نہیں نے تِلکہ حد درجہ
انفرادیت پسند سے اور عظاء کے وجود کو زیاست کی:ہبود کے لیے ضروری سمجھتا
ے۔ آسے قومیت پرست اور عپ. وطن نہیں کہا جا سکتا۔ وہ جرمنوں کؤ بھی
۱ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ے ۔ وہ چاہتا ے کم دئیا بھز میں عظم انسانوں کی ایک
ُ نسل ظہور میں آجاۓ او ےم اک وو کا انار کرت ریم
پیریقلیتس کی طرح نڈ لئے بھی انسانی معاشرے کی ترق کے لیے جنگ و جدال۔کو
ضروری خیال کرتا ے۔ کیوئکہ بقول نٹشے جنگ کے دوران عظیم افراد کیا ظہور
ا ا ا و ہی دائش و خرد سے ہہرہ یاب ہوتا ے ۔
ض۵(
و ؛ مسلانوں حشیشین کو قدر و اجترام کی " سے دیکھتا ے کیونکہ وہ نڈر قاتل
ویہا وہ جس رر ید دورت سب یتلم ل کے لہ ر۵د؛1
تھے آن کا قول ے۔ مو شی ئم00
۰ ند ایانم پر عم باب کو مظان بتا' دی 20 0
ےہ یں خیال میں یں اس موت سے اور" چنگ: زندی۔ نے ء پنگ تہ ہو تو لو ون
!میں 'شجاعت “اور جُوامر3ئ ا جذات ا تہ جائیں دہ دو کو جن
آزدائی کی تریبت دنا چاہتا۔ کہا کی با کے سی ای زا کے اث قھکغ
گے جہھا 7م ززت: کا پر 'عفن۔ ک0 کی جا“ اوز بروالڈ چُڑھانا ہے “بای مث
ٍ کی باج شئسی ٭لیا دہ بامة یا ٹل یا غ٢ شس
وت ہو
بج6 رڈ لت کہتا یب روخ تی ضورطوت تن ظا ز ہو نے وہ اون بی ےن
حا رت جۓے<اوودتظیر جج یس سا” اب داز لے“ ا ام کا مطلب كاہاجے کہ
اونٹ' نگ قبظ ََ سے انسايی روخ نیت شی کی شجاعتا پیا بے جائی نے اور م
یطنجاعا نعط نئی قدروں کی لی “کرقا نے نا ےج 7 کن
توف کی 0-1 طرح اس کی:اخلاقیات اط فو ہز خی کے اقسول پر نی
۰ اس کے اخلاقیاتی تضَورات انقائی کھاوں' وا مر و ٥ر سے ماؤراء مک اور و ارادۂ
غصول٠فزت““میت۔زیر بت آۓے لین ان می اع عیزوہاز میں اغا کرت کے
اور انتاق عل کے عرکات قدیم م اخاحیأت: اور چَدیٰڈ فقائوں ج2 تلق پر قام ُٹھاتا
ے۔ ۔اارادڈ حضول قونتگہ کے ص0 ٦ وو اریخ ۔ کے“ تَعْصّبات 66“ میں اُس تے اپتا
نئظر رید ”'اراذهۂجمبول قوتە“۔ 'پیٹن کیا و و کا او اس ”بات سا کول سے کس
- صداقت اٹل اس نہیں ے بلکە اضاقِ اور تغیر پتیر جے .ادس کے بعد اد حصولِ قو
بی ا ہر پر وہ نی اخلاق' قدریں تخلیی رن ےک 3 د غوكتاذین' سے اود کہا نے لاق
دو قسم کا ے۔ اس اخلاق اورغلاتوق کا الا ۔ وہ شجاعت* اون ابلند نظری
کو تھیں کا نام دیتاٴۓ .اور کمزوریق ار تنتکنت' کو نر تقر قزاز دا سے ''پقول ِ
لح وچ 2
زردشت؟ میں کم دی اتآ اہ رسی! رڈ ٤ جے -
ہہ
مس !_ 2ت7 ۱
+90 افو کچھ بھی قوت ہے ظازرا ہو ففخیر لے اور جو ہو کن 7
۱ء بے مھ
ا ا توشر یچچ ۔ا مر لا اگ ار ری سے ىا
3 ھ
۴
ىاھ
رک اش ز اخلاق؟ میں ننشے لے شنوپہہناڈر کے او طرے رکز شعلٌ٘ی ہے کک
۔ازمذْلىَ اور فک حا کاووی جو جڑاے ت ےوہ ان 'غَاسٰن> کی توخ انان
کے لیت لکچعیال کر تا' ے“او زم مو نتر کے الا تک یوبن ولب ى٣
لگا۔ نام ڈیتال سے جو مفرفیەکی تا یکااباعظ عتکٰ> ا عم و کئزم مدردی“انتاتی۔۔
:اورسکشت کی تبیغ پر اس گے عییص ایت چر: :مانخت کڑدی' کی ےا وک ہنا" ہے کی .
تین ریھودیزل 'عبصیٰ ۔پطزس چھیاڑےج۔ پال“خیفہ* دوز اور الکایؤلا دم عذرا
کی تعلیات ۔ۓعظم:ڑویتی سلطنت کو اوه زت کردیا تھا عيائی گی کے یع معن اور
. سلہیٰ ۔اثرات۔ احیاءِ العلوم دی صدیون: مین" ژائْلِ ہوٹا ٹہ شروع جو لے جا زوم کی حم
..,کلاسیکی قبروں کا اسَیاء عمل میں-آیا اؤز: لا مغرب رب .“کو عیسائی' رایت اور امن“ کے
ے جس نر چم
یت
0
سے کے کے ور ٰ٭× سا ان ساٹ ریچ پالہ۔
7 ۹
“٤ > > سس
(َ)|٦
جے لے
030102
: کے جک ےم .2 ٴ
لت جوا کے لہ ( کے یب پت 7 ہج کا ادا دیجھ جیا
طرف قیم اڑھایا۔ رجش ہت منمتلح ارۂ ان لوت ں کا ڈیختا خالفتا
تھا کہ اس ۓ اصلاح یافتہ کلیسا ی بنیاد زکھ کر عیساثت کے اکیڑۓ ہوۓ قشم
پھر ہے جا:دیں بداحیام الیلوم ہے تب کادخا کب کر:دیا:تھا/: لوٹھز ہنۓ :پھر ایے
انِ, کڑھا جج َ الله ط۔ بت یھ رجہ ےووہ ت3 لی اگ 5 ہم < لے ٭ :
[..۔۔ نل شیبافیتءکاا دثنەن۔ اس لیۓ ۔چ دکہ کت غزورف تکق کو جِسی:نٹشی'
حاسنِ اخلاق میں شار کرتا ے برا بھلا کہاگ گیا کےا“ جنگ واجلال ذ پت
غیظ و بغضب ؛ ہے ہم جوئی.اوں علم کی تنقیصس کک نے ے تجالانکہ یه راس اخلاق
میں داخل ہیں ۔ سیحی عالم پاسکل پر تقید کرتے ہو لکھعاے ےئ ۔ سےا
”عیسائیتِطاقتِ 3 ۔لوگون ' کو آبزیادِِ ا ا جوش 0202130" ۰
.. ... دھما کے لان“ رکے۔کمزڑورہلمحات تے فائدہ اٹھانۓ ان شے متکیرآنہ اعتاد
کو ”. کو اندیشے* اور خیئیر ,کی جو چیٹی میں تبدیل کر ۓ کا کوٹیٹی 'کرق ہے ۔
ہے غیسائیت شتریفاٹۂ تل جذبات: 7 'ژہزآلؤد:کر دیتی نے۔ أب:میں:َغیَ کا چھوت
آتاز پھیلاتی: سے ۔حتول کہ آ نکی قوت آ 'آرادۂحضیول' وٹ دپ۔کر زھ جاتااے ۔
رےے ۔اوز: طاقت وز لوگ ۔اپنے آپ سے نفزتِ۔کرۓ لگ ہیں'اور۔ثضی کشی. کرک"
تر من جات ہیں ینا نے خودرکمہنی.کا وہ طریقاۂ جس کی یثال ہمیں ہانگ میں
ماتی ے ۔ ے4 - و رض.۰"٭
- داسی' بنا پر نٹئے کو مو او یی ہیں۔ کیو کہ
وہ ہمسیحی ثقیں کی ایم "منمچھتا ۔ آئششہ نٹشے کنا نے' ۔دوستوقسیق گناہ
ا' ” لیۓ کرتا_ لے ےت نے ےت
موحست بد کے حیت کا بھی:خالف رے ۔'نٹشی عیساثیتِ کی خالنت کے جوٹد
ہیں مذیب جی مل +ثان ہد ہوگیا تھا نہ کیڑھا سے کڈ ج2 آ2 ات رم
ں۔ز _ ۔ جب اجھے ین یعلوم ہو جا کو 0
کر نان .2“ بقولی:زرڈشت ت میں کہتا اپ : 6
ے ےط ابزڑماعداس گی ےب ا دی ٦ ۲ ۔ ٭> عا
بات ادا میں , چکے * ۔ اي ہم چاہتے۔ہیں کہ عظاء 9000 6ت ہنا
ہہ ”بعةاس چگا۔ اے فوق الانسان خدا تیرا سب نے بڑا خطزہ تھان وہ قبر میں
کت دح لا ان کےا
و ے'(عیساثیت ایک ایت میلک اؤردیکا دینے ولا جھویٹۂ ۓۓ ماف ہد"
ہس چان اھک کیٹ ا کت اس مہات ککزئی اچھی
بات نہیں ہوگی ۔؟ با ث ا ا اس ج رش بے سے
_۔. اش کے خیال میں عیسائیت غلامائہ اتلایٰ ی۔ >تلقت کر ہے ۔ ٴغیسائیت کے
علاوہ وہ سقراط کے اِخلاق اور اپنشند اور یوہنہائر کے افکارکؤ:؟'زند گی کو ند کت
والے“ نظریات خیال کرتا ے جن ہک باعث کا لے انساتی معاشرے کی جڑوں میں
ر2 نب
(۱۳
حبات کش نطازدات سے بجابت پیل کی نیج ”ازل بغریدِ ۓدوبازة تقلب و تصإط .
زہر پھیل گیا ہے۔ وہ ایک نۓے مغخربی تمدن کا ئقیب ہوۓ کا مدعی ہے اور کہتا
لیے ۔کع فلسقے کا 'مقعند بھی ہے کہ:'پزاے نصبالعینؤن .کو ژّد کر کے" گے نی
نصبا ألعین اغیار کے جائیں: اک گزل پڈیر سارہ مغربا کی آمردہ رگوں میں زندک
کا خون دوڑ جاۓ۔ ای ن۔ٴ'- ہی جح ہے
دومرے ارادیت پسنیؤں اور زفایرں کغ طزح :نٹشۓے بھی :خردردشمن سے ۔
اس کے خیال میں عتل جبّت کے ہاتھوں میں عض ایک ے جان آلے کی نائند* ے ۔
افلاطون کی عقلیتاہ کو 9و۰ ے اکر آیادۂ خُصولِ وت حسن
کا اماسی تر کی اس کول سی 6 1 کی ا ار یک
- ”جب طاقٹ آتادۂ چرم .2 مرو حسوس'صورت میں ڈھل جاۓ تو ہم
اس حسن کا نام دیں گے ۔٤٤ ےد وی عو سس کت
لیکن شاعروںِ کی غخالفت میل وہ افلاظون کا ہنم ج نوا ے سی کھااے میش ٠
ٍ 'شاغر بڑے درقغ باف ہوۓ:ہیں۔ ممیں۔ ان سس ا کٹا گیا ہوں۔ قذماء سے
__ بھی اور آج کل کے پاعروں سے بھی.۔ جھے یب لوگ سطحی اور ۔کھوکھلے
'لگتی ہیں ۔ ید لوگ اپنے پانی کو گدلا کر:دیتےۓ ہیں تا۔کد وہ گہرا لگے ۔)؟
٠ _اطالوی, یں ؛ تراشوؤں می۔وقظ بائیکل آنجل و کو رفائیل سے بڑا فن کار مانتا سے
. اور کہتا۔ے .کہ رفایٹل ے صرف: نمی رواجی مسیحی,قدرؤل ک.ترجانی کی ے جب
کب ہائیکل آتجلو جبروت ۔ سطوت اور مدائق ۴ ے چو عظلاء کی
صفات تھی ۔
: ےت جعث قابل۔تذؤ اور خیالٰ انگیز ے.۔ المی ا از سرے
'ۓ اس نے آرٹ: کی: دوٴ قسمیں گنائی ہیں.۔ دیوئیسی۔(جے ہم روما یکہتے ہیں)
جس مین_تند و تیز جذباتِ کا رنےعابا :اور پر جوش اظھار کیا جاتا ۓٔ اور اپولوی
2 ہم کلاسیک کنہتے ہیں) جو ضبطر نفٰض ی دعوت دیتا ے ۔ ”'المیہ ک پیدائش؟؛
نٹشے کپتا ے کہ آرٹ دیوٹیسی اور !پولوئیٴ رجحانات ہکےہ امتزاج ہے ترق کرتا
کی ا نے سی تا ہے ۔ اس کے خیال میں دیوٹیسی
داش کا اظہار اپولویق اسلوب میں ہوتا ۔رے ارسطو - کہا تھا کیہ إِلعیەں ہے رحم
اور خوف کے جذبات ابھر آے ہیں اور ان کی تنقیح ہو جاق ہے ۔:نٹشے کو اس ہے
اختلاف ے ۔ وہ کہتا رے کم المید کا متصد رحم اوز خوفبِ کے جذباتِ کو -ایارنا
۰ نہیں بلک تباہی اور بربادی کی لذت سے آئینا کرانا رے وہ اپنے آپ کو !'المید کا٠
فلسفی“ کہہتا ہے ۔ اس کا قول ہے : --:-.
”'میرے اندر دیونیسی فطرت ٴ ے جو تباہی۔اور بربادی .پر خوش ہق :سے ۔
مہب کے خائے کا اعلان ککربے وٹ ایں نے کہا تچ نپ آرٹ
مذہب کا ئعم البدل ثابت ہوکا۔ ٠ چ٦ ٤
5 شوپشہاثر جورت کن مکو و قریٔب 0.21.7027 0
نفِرت کرتا تھا۔ نٹشے عورت یگ کمزوری کے باعثٹٰ اس کا دشمن ے۔ اس ۓ
و تھے .لے ٦
ےا نے یم کوک میں ف ہن 7
۰ ئ٦
چابجا عورت کا ذکر حقارت سے کیا ے ۔
۔۔؟۶اعورت مد سے۔زیادہ جاک ور خبیت ے6 ۔
س۳ کیا تم عورت کے باض جا رنخچ پو؟ اپنا۔چالک نہ بھُوْل: جانا۔؛“ -
.جب کوئی.شخض کے مک پر عاشق: ہو جاۓ تو ایۓ شادی کا فیصلہ
کرئے کی اجازت نہیں ملیا چاہیے کب خالتِ دیوانگی میں کاوئی شخمناپنے ستقبل سے
متماۃ صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا اس
۔'نچو عورت علمی و غتلی مسائل میں دلچسپی لیتی ہے اس کہ جنمیاق ۔نظام
میں لازماً غلل ہوتا سے ۔““ _
س ”عورت ایک معمب ے اور حمتل اس معمہ کا حل ے ۔)؟
-- مد ا وسیه ے لیکن عورت مرد کے لے کیا
“٤
ہے
ہ۔؟'حقیقی مد دو 0۳7 خواہش مند ہوتا ے ۔ خطرہ اور تفریج ۔ اسی. لیے:
وہ عورت ى خواہش کرتا ے کیوں 00 ع 5 سیجے خظر اک ارات
ےے۔۱
عق ناف ھن ضز ا کر و
'عصمت قروشی کے ادارے کو شادی کی رسم نۓ غخراب کر دیا ے۔)4
۔۔۶۶انتقام اور حبت میں عورت مرد کی ید نسبت زیادہ سفاک ہوق سے “٥
۔-”'جپ عورت عشق کر.رہی ہو تو مد کو اس سے ڈرنا چاہے کہ اس حالت
میں وہ سب کچھ 7 کرنے پر آمادہ ہو جاتق ے اور حبت کے سامنے ہر شے کو
پیچ سمجھتی ے ۔
”جرمن لوگ عورتوں ک طرح ہیں ۔ تم کبھی بھی ان ک گہرائی کو نہ پا سکو
گے کہ اس گہرائی کا کوئی وجود نہیں ے ۔؟
__ نٹشے انگریزوں سے نفرت کرتا تھا کیوں کہ وہ جمہوریت پسند ہیں اور عورت
کی عزت. کرے ہیں ۔ اسی بنا پر اس نۓ جان سٹوارٹ مل ہر سخت طن زکیا ہے اور ٠
کہا ے کہ صرف ایک احمق ہی عورتوں کے حقوق کا ذ کر کر سکتا ے ۔ یا ان
کی آزادی کا حامی ہُوتا ے ۔ انگریژون کے متعلق آ٘س کا خیال > وہ کبھی _
فلسغی نہیں ہو سکتے ۔ انگریز عورتوں کا ذکر کررے ہوۓ کہتا ے و
۔”انگلستان کی حسین عورتوں کک. چال کیسی ہے ڈہنگی سے ے حالالکر دتیاْ پھر
ن مالک میں یہاں کے زاج ہنس اور فاختائیں زیادہ خوبصورت ہیں ۔““ _.
نے تت8 ظ
شوہنہائر کے نظرے میں نفس کشی کے ساتھ آفاق ارادے کی ہمە گیری کا تضاد ملتا
ے جب کہ نٹشے کی ما بعدا ہیعیات اور اخلاقیات دُونوں میں ارادے کو فوقیت
۔حاصل ہے۔ نٹشے شعوری سطح ہر رومانی نہیں سے لیکن اس کا ثقطہ نظر اور طبیعت
کی افتاد رومائی ہی ے ۔ وہ.رومانیوں پر تنقید کرتا ہے لیکن بائرن کا بڑا مداح ہے ۔
-,
لے
یھ
ہ کے لاڈ ے ہے قبواتڈ پ2
ذوسرے رومائیوں کی طرح اس کا اہاء ال وی ےک جذوات ڑا ُزرے لئے ٠٠.
نصب العین معینل کررۓ ہیں ادرصتل ا ان کے کے حصول کے لی وعاؤل اہم کی نے حا
٠ جوہدہائر اور الف کر آرادیتِ اور رد !دی ا ریگماں : رو دسر
دارڈ اور ور فان کے ۔ کے نظازدات پر کے ارات اتدئبت کول لفا۔ ۔جد کنیا ئن ام
سر سے ہو
. انت 7ج ریت بط ا یف شیج
7
٣
دالٹا ریس ث را چے رجا کہی 6 2سي رچوە راالب را7 بدلہہ رج مت ہے الد :
ْ ۱ ہ 00-7 ۰
٠ پا کے لیر الد لھا تید
٦ _ ۹ سی 8ا ! ہے تی ٹڈ
ہدک رلیے ز ہعہ ربا یاجم ٤أ کے ہم بے رت میڈ
۰ 7 ْ ء:
پ ٰےے ہے ٠ ے پگ ٰ۵ تک یع ٣ر سے ٢ا8 ۔۔ ,1 ٠
۹ ہٰاے کیہ کریة سی کہ ہن بٗصوا یحک ہی کے کید ہہس َ
--
ہم :
5
ید جي
بت
٭ کے
ےَ 7 ظ
ہے ہے +٭ے ٠ ا ھ۸ ۶م ظط
وم ج ھتہ ٤ می رجہ ط3" 7د تتن یہ بت رت ٹیپ یت لیت ۶ سد چ0
7 کے را ےا َ 1 ١
ا ۶٤ پت 5 ٠. 7
٠ے یر سے ہج اٹ نے ٰ.
' حم ؟ ۱
- 7 5
َ <. 7
ب ہو ایج رت ر0 3> ۴ ٠ جد
17 و ا : ہے ۲الت 2“ ہ٠ رع ایت ی کا احقف
مناخ جے کے ول .ى اہ ئ ٴ۱ 5 لب ہم
7 ُ۶ .
٠ سح ہو وہ ا ہیٹا پرڈئ ٌہ گرا تک پر یت :
یت و لم اعت ٠ جو وہ ے جے ۰٢پ لے ںیئپ تشم :
5 ِ> : حر ٣ ہت رک لہ تا
مہ رہ لا شس جس مرج سے میمش مل
۰.3 ات ر1ےءم
: ہہ 4 ُ ار ہت ا شی * ہے یی ے بج 3یلہ
ے اٹ سڈ نے شا پلکاڈی کی تفر ک۱ در
جے لد ۰ ۰ ج :
سنہ ہہ ےہ بج مہا ہےۃ۔ ۱ ٤ نہی)! عپ یق لے
افلیا ے لا بارس آوپ 2
لب 7 حر تیم ..۔ ۰ ٦ تروع ہام گے و٥ آنے ٠
دک رب ہے رق متا > جلے ضس مک ہے کے تح تی نایا مر
0 ے2 : .
۔ کے :
یونان قاع بے 7 ازتانی تال جہن تچ نی شی اك نل دظائم تی
اشیاء:ا بباء از ۲ و اپدیئ اسثال چک عکسں اد امثال غیںبَعلال٠ ہیں اسں ٦ل ا ےشن ند فا مو : 7 ۱
۳
ارتقاء کا سوال ہی پیدا تھیںہوتا عمد سخراط شں'بطلی کے ايک فان و جم
0د
کہ ۔افیکار ہیں البعہارتٹا کا خزڈی یت لیکن 'یوٹان نما لیت سید اسیو کے
تاج حا یہ طوطی ک آواۃ تھی ۔ِتیصویی خْذیٰ میں طببّعی“ علؤمۓ رہ وقرق کی ان :
توذی جیات پر طبیقی. قواتین اور كائنات کی تار پز غیاتیات کے آء ز2ا اق ٠: ہے
کی لگیچس - 4 'تقادصورت“ذیر نات ایک فر قرائحی یعالم ارک نے ۷
7۳رہ سے لکھا 7 یک۶۳۶۳۶ ٌھ۸, لے
َ اجب موی نول خبران 'آپھے جسم من کتنی تحت وا آضاق یں کے"
تو اس کا یب یم ہوتاٴ نے ۔کہ وہ ایسل:کرنت ئء ضرؤزت علودیں کے ۰
ریا خواہی کرت نے۔ یء:لیا عو ورالتاً آ سے تچوںا می بھی تع ہو جاتاری
:
َ ۔ کت “۰ 2 بخا۔ہ سا ےط
سے حم ۔ کرو را رود اوخ ح حابے ات بات کے ںاشف 5 ە 3
۰
7 ہی ۰
و غبائنعق دانؤں ۓ لمینازک کے؛:اں۔داخلل اور قنتیاق اطول'ارقاء کو بت یت
قرارہ ڈیا سط باعث .]یں "کے نظزے کو مق مات حاصل لد ہوسی داروا کت
لمإرک کاپھلا اصؤل 'رھ کر زدیا :لیکن دوٹبر ا تسلم کر لیا اگازوثٰ ضرف خاڑجی' ماوق
کے اثرات عت' حث رک رتا نے یا کا نظریب آرتتا قا ماوق اک بادی نظر ےپ ٠
.بے -جئ کا رع ڈی'حیاتاً اس ٹیڑ وقتاری نے. ےب پیا کا ھی ا -<-
کہ:لینۓ خوراک:نسھیا:نہیں ہون ٹین اس لیے زندہ“ رہتے کے لے انواغ ..
7
1
2
2
شروع: آبوناقی .تے . ے ام کھنکو کے : تنموز ے ڈازوت کے فظر نے کا آغاز 7 سے ۱
انساِن ے۔ اصل کی جستجو بکزڑے ہونۓ: ذاروت :نے کہا کن انوا میتی نی زرفت×۔ : ۱
چہدللیتا! ۔حاریی: ہے چوچانور ارَجی ماحول نے ۔خنوافقت'پیدا کر لیت ہیں وہ یا 1 ید : ۰
تحت مد ْ۰
سرہتے۔ قنام باقیء ضمبعٌ .یٹ جا نے ہین < اتی نے والوں کو بتااۓے ال٢ لع کجہا: > ےے کو ےے
لیکن طبعی ماحو لن پدلتان تا ہے ان تقیريت کے دوزاٹ ۔انواع“ دوس رشن“ نوع ہے ہے
۹ تیلیل ہیجایق۔ ہیں تا ک بدا :ہے اتل انرم گیب 2ا لا عبل کو اڈ اتی :
7
سی سج ۶
اس
گے
٦ 6 )5م 107 086 جن 20-1
٠ 5 ڈ
7 گے سے کا
ا غاا ٤ سا
جو
طبیعی کہا جاتا ے یعبٔی یچر آن خاصیتوں کا انتخاب کرلشی سے جن کی مدد سے
انواغ نئے ماحول میں زندہ رہ سکتی ہیں اور ان غامیوں کو شا دیتی ے جو زندہ
رہنے میں رکاوٹ ثابت ہوق ہیں ۔ اس نظرے کی رد سے یج کے طویل زمانوں میں
اسساعد ماحول کے غلاف کشمکش :کرے ہو بئی وع انسان کا ذہنی جوہر ترق
کرگیا جس کے طفیل وہ بناحول نے مفاہمت کرئے کے قابل ہوۓ جب کہ دنوسار
جیسے کوہ پیکر جائور ماحول کے ساتھ مفاہعت ئە کرسکے اور فتا کہ گھاٹ آٹر >7
گئے ۔ اس تسقیق ہےڈارون ۓ یہ نتیجد اغذ کیا کہ انسان دوسرے حیوائات ہے
رف ایک ہی مرحلہ بلند تر ے ۔_
هار ق کے اس نظر ےکی فلسفیائہ ترج|نی سینسر اور پرگساں نے اپ اہنے رنگ
می غٴ ک اور ارتقاءے تصور نے فلسقے میں بار پایا د اس عیہد کی فلعفیانہ ازتقائیث
کو ٹیچریت کے خلاف ربعمل بھی قرار دیا جاسکتا ے ۔
انیسویں صدی۔:چریت' .کے عروج کا دور ے ۔ طبیعی سائٹ سکو-دوسرے شعبوں
میں.اس قدر حیرت نات ترق ہوئی کہ ذی حیات کے اعال .کو بھی طبیعی قواتین کی
روشنی میں مطالعہ کرتے کا رجحان پیدا ہوا ۔ او علم ارتقاء کے اصولوں کا اطلاق
کاثنات کی تار پر کرۓ لگے ٹیچریت:میں ٹیچر کو حة حقیقتت واحد سمجھا جاتا ہے
.اور جو کچھ بھی مافوق الطبع ہو یا اس عالم سے ماوراء ہو ہے نیچرےٗ خارج کر
دیا جاتا ے اس کی رو ہے چو کچھ بظاپر طبیعی قوانین ہے علیٔحدہ دکھائی دیتا سے
وہ انسانی حیات ہو یا انبائی ذپن کی تخلیقات,ہوں حقیقتاً ٹیچر ہی کا لازمی'حصہ ے۔۔
ہر شے ٹیچر سے آتی ے اور ٹیچر ہی کو واپیں چلی جاق ہے۔ نیچری کہٹے ہیں کہ
بعض اشیاء یا قوائین ے شک ایسے بھی.ہیں جن تک ابھی سائنس کی رسائی نہیں ہوسی
لیکن یں سب ہر-صورت ٹیچر ہی کا حعیں ہیں اس ہے علیحدہ نہیں ہیں۔ 'آن کے خیال.
میں ٹیچر زبان ومکان کی جدود می اشیا کے جموغے کا نام ے جس پر سیب و ہب
کا قاثوق متصرف ہے ۔ اگر مادے کو نیچر کا اساسی عنصر سمجھا چاۓ :تو تیچریت __
ماڈیت ہی کا دوسرا تام بن جا ۓےی ۔ نیچریت جم مطلق کی قائل. ے اور اس میں
قدر و اختیار کے لیے کوئی گنجائش نہیں ے ۔ یعنی وہی قوانین جو ستاروں پر حاوی
ہیں انسانی اعال پر بھی خاوی ہیں ۔ ائسان خارجی اوز داخلی دونوں پہلوؤں سے محہور
ے ۔ نیچریت میں آزاد ارادے؛ جوشش حیات اور یزدانی قوت کے وجود کو تسلم
نہیں کیا جاتا۔ ارنسٹ ہائزخ ہیکل (مم ر--و:۱۹ء) نیچریٔت کا سب ہے بشہور
ترجان تھا - ُس ۓ خدا کے وچوذ سے انئکار کیا اور کہا کہ صرف ئیچر کا وجود رے
وہ بتول خود ”سائنٹفک مذیب کا بانی ے جس کی رو سے ٹیچر ازل سے موجود ہے۔ ہت
اسۓے کسی خدا رۓ خلق نہیں کیا ۔ انسانی روح دوسرے خیوااٹ کی روح+ ہے ختلف
نہیں ہے اور ہہر صورت مغزسر کی فعلیت کا دوسرا نام ے ۔ موت پر خاتمہ ہو جاتا
() صمال 0 13[ ۔
"ںپ.
کی ا اع ان وا کے .جس طرچ انسای چس سے أ
روح کا کوئی وجود نہیں ہے اسيی طرح کالنات سے علیقبدہ دا کا وی وج
سے ۔ - پیکل نے ,انساتی شعور کو بھی نفْتیات یامنکوٹن فعلیت کی ارتقاء پائتہ
قزار: دنا کم یما خیالات آس ا الم ہشہُور تالیف ”مٰمنہ کائنات؟ ہیں ز
بث پیک کی یچریٹ پز ارْل مات ای کو چک ۔ ایک ذفدہ پیکلی 5
” جاے "کا انفاق ہوا< جب وہ واہس)آیا تو پوپ کے دیا کہ ہر کو أمقا
دھوٹی دے ککز پک پیا ان نی ےر رٹ کے ین اعاول کیا کے ہیں۔
رہ نکائنات پو اندھے قوالع تترف جلاک مٹل ح کت اور گردش کا
تب غ د قالوق۔: ارہ اعم ٠
کوٹ
سے
5 ۱ دنیا کک "کوٹ منزل نہیں ے: اوقایہ لے مض اورے مقصد ہے
جس تا اخلاق تظام یں ے اور اس ہیں فدڑوں کا کو وجود نہیں .
7 بعض اہل, فکر ے حسوس کیا" کہ'طبیغی ساَتديجیآت ات ؟ ذہن وس اتا
کی علمی توچیہں کرتۓۓ ہے قاصر روئ ہے اور ان چیزوں ہر اس کے پکانی قوا
اطلاق۔ مکن نہیں ہو سکتا۔ - چنا لد قلاصفہ میں برکتاں ڈ, الگزنرِ؛ عو
وائٹ ہیڈ ۓے اور-علا غ تقمیات میں میک کل اور“ پرسول نر بے مادی۔ بیکالکیت
کی تردید پر اپنے اپنے نظریات کی بتیاد رکھی۔-.
۔نظرید ١ رتقا کا پہلا فلہی تزجن ٹُزبرٹ نہتسر ٹھا سپنسر س- میں َ کے
ایک معلم کے گھر پیدا ہنوا۔ الۓے باقاعلة تغلم حاضل کوبۓ کے مواقع تہ مل کے ۔
ذاق مطالعۂیے کچھ قابلیت پَیْداکى ۔اُن لوگوں گی طرح جنہیں یاقاعبدہ تعلم کی حمصیل
کا موقع نہیں ملتا س نے پر شعبمٗ علم میں چَڑْویَ تغلومات بہم پہنچا کر بعہ دانِ
بننے کی کوشش کی جس کے باعث وہ عمر بھز انٹشار نفک کا شکار رہا ۔ اس کے باوجود
آُس اے اپنے :قلسفر- کا نام تالیقی٣ ٴۂ فلسفه رکھا: اپنے رماۓ میں اس کے افکار کی
۔_ااعت دو دور تِکك-ہوئی لیکن اُس نے اپتی نے شہرت کواہتی زندگی ہی میں. دفن
ہوتے ہوئۓ دیکھ لیا ۔: آج:اُس کے'ثظریات :کو وچندان در توز اعتتا نہ سمجھا جاتاي
سپنسر کمہتا ے۔ کہ غلم کال اوز جائع تظام فکر گا نام بے - نائنس تہ مر مظلؤماتِ
فراہم کرق ہے۔ فلسفہ آن میں توائق بدا کرتا نے ۔ سینسّر کے افکار میں تاد
بہت ہے۔ ۔ وہ خالمٰ یی نفکر بھی ہین ے کیوق کہ وہ نانتا ے کہ حقیقت
نفس الاس' کا وجود سے اگرچن سے جاناتیں جاسکتا ۔ بھی عیال کائٹ کا بھی تھا
.اط می کی طرح یداہ بات کا قائل کہ علض میرے سے َال تیب ہوتا بلکم
بش عمداقتین اٹل بھی یں ۔ اعلاقیات می آس ۓۓ انگریزی اقادیت اور جدید اریّتاِ
کے تضورات مزوچ کڑنۓ کی :کوشق شک خ کل سے کا ال اح ہی
کے 7 ا( دمناعج اہ ڑ “ “٠< 88 4ء٦7 ۰ دمنواہ .
(م) جرنجہدمانطط ءتا:طادرڈ َ
از
سے
ب۳
مثلعىله ہت کے پا ہے كت ہے ہپ کے کون ینہ 2
7ء و وا 0220
نا نہ ے
ا0ے رج
ہے ہہ
گر بچے روہ اث 3 جچت۔
۹
۔سگا و رجہ
جانِ۔ ے ے رز زوئں نک پمہیضس
یں کپ
8 لب ایہر
٠ ۲ قد لق ثك ج٤) ظَ یہ د چک
'
رحم و
رای وی لان میں دا ن0 ۱ ین سے مہایت ڈیینِ اور دڑاک تھا نا اود اون
یا 77 . جا
طبیقیات بین آمتیاز خاقیل این ہو چھرڑ کہ کو فلہمفے کی طارفا ال ہوگیا
فارغ التحضیل ہو کر فلسفہ پڑھاے لگا۔ اسر کی مشبہور کتاب !ارتقاسث ة تخلیقی/ک
0
رہ ہجو ماگ یف کہا ٢ف
2 عامیں شائع ہوئی اس میں مادی میتالکیت کی ڈر دید کی بے لے یوق
: یب کے 1ت رتا رہ نہ کے تح ُ کرک رک
حلقوں "با ا کا ران دش و ہیں مقدم کیا گیا حر کساں نے آخری) مز :القی پپتسمہ لے
ککر کایساے زوم کی پبروی اختیار کرلی ۔ پیچریوں کی ترذید ےت بوگمان
کہتا ے کی حیات آزاد اور ماب ہے اود اڑے کو ای مقبد دداری کے لے
استعال کرق ہے ۔ حیات سے اعال کی ڈوجیہم طبیعیات یا ۔کیمسٹرئا! کے قوائین سے
کت جاک یکپ ییچروں کیا اٹم ہر بسانت - تقیں اؤر ژنان _کو:بڑی
دی کی ۔ ہے 7 اس کا اصل اصول ) رتقائی ے ۔میکائکیت کے یرعکین جاتیتا
سک ثیت کی قلقین کریے یا ۔ پرگسان اس غاثیت کو بیکانکیت ہے ابی کا
پییتباپواتا
جا حے اٹ سا کا اب ا
ایک هو وت سد کس ہو کر اد انا کل اٹ یڈ کرت ے جے اق
نے ا زرتةاسۓ تطلیقیٰ جیا تام دی ہے ۔ وت ۳۴۰ 1 ا ۲ 2
7 خر
پوت اط یی حل× یے
: پر گساں نے اپنے فلسف کا ھا مین ور تقو کے سے کیا ہر > اپئٰ:کتاب
حا خی میں 1 کہتا ہے کہ 5 سیٹیں ۔ کے ریم زہاں, بر خور کررنے ہوا
آت-عموؤس زمل "وآ سی : عتیٹی زماق, کو ریاضی :کے ۔امبولوں میں مقید وحصور نف کان
جا سکتا کی یق بیو جوہز لان نا جچاؤ رے؛ سبائنس.| .اس چباؤ عس اعت نج کرقا×
نم 09,۵0/۵ نان تپ جا
كہ مکی سے ولک وہ ہر گے ٹی: ٹکڑے پکڑے کر کر کے آن۔ کا ابد تزل کرق۔
ہے۔ جوا کو صرف ششوس یا چا سکتا۔ ہے یاتنا لکھ ک5 : بنگہاں کٹا جن کہ این”
1
٢
١
انکثاف ت2 یعد ث می کے دوبازۃ آزندگ کے دا تقا ہر غور وزاکرنا ِا شرواع کیا۔تو چھۓ تپفلیلی
ء1 ا ۶و وو
ئا رقائیت کو آو سز او صرقب ت بکريے ى پرورت:عسوس ہوفٰ۔ اوڑ میں ہا یا بدرہ
ےیل لہ تہ وی مت
محض کے ے تصیرِ 7 غرق پو ہوک رہ گیاہ۔ بیوگہان طبیعیاتِ تھے کر رت
سان مادة ہج کت تواتاق وغیزہ کا مطالعہ کو کے امو نتیچے_ پر چھنچا کس لی
لت بج
سائنسں حقیظ حق ےت اشیاء کا ادراک دوۓ, نے قاص ہے ۔ حقیقی زماں کا ادراکِ داخلی بزندی۔
ے باتواسطہ ہنقاہدے پی سے مکن ہو سکتار۔۔ اتی لا واسبطہ ادراک _کو اس تج
پت
وجْدان ”کٹا جو اس کے نظڑے ے میں اہاسي اہمیت رکھتا یچ او جس کیاینا پ 7 کے
فسکے کا وجذانیت بھی کیا جاتا ہے۔ ۔ وه کہتا سے کہ رجات ے قد ای
حقیقت کو بایا ا خویں جا کت ۔ عم علمْ کو وہ خازجی/ اق اور جزوعل سمجھتاے
ہے۔ یں پ سے تا علم اقیاء کو ح ے کو ےھ و وی
ک ر سکتا ے لیکن ان میں انحاد قائم نہیں .کو سکتا پت -دیتے .ہوۓ وم کہتا
ر2
رر( ]ا سے ۹
* -
جج ۴ ہیں ہے ( ید ود
60 یہ
سے "2000
سر ذی حیات کو ٹکڑے ٹکڑے کر رک تی سے لیکن ان ٹکڑوں
“کو جوڑ کر ذوبارہ نت نہیں کر سکی۔ یٹ کام وجدات کے کے
یں ورس فاسفہ ےمان بی مابیت کے ہطالے ہے چو تاج ! خ کے ,نیۓ
مج
مان پر متطب کر آىْ گیا جس سح وا گن اط ماپ کت 0
حقیقت اس ٛاونٹ پتکقف بوق سے جب جمبۂ چس یں اس میں سس کان کو جارج کر دیا جادڈ۔
اض باتک ات ٣ کے ہوۓ اس ہے ]نان کی ٭اصلں ذاتِ ای ععرای ذات ہی
اعت
تق ک ہے آئ بے کہا ہے کو ریاری عنراق ذاتر و ُعوری رد کو چند 22
جو رکا کت
سے
ژُوں میں تتنتی کر دبتی ہے جرد جو کیفیات ادر وراردات کی 027.,ب ے
مر ضض6 1 ب0
بات تین میں وارد ہو ہیں۔ اس کے آہرعکیں۔ مارگ اصل ڈاتلہل:یرو
ر کت کا مشابدہ کرق _ ے۔ > وه مَشَاہلہ عمق اور مراقے کی جالت میب,جکئ۔ ہو ہیکتا
وکا اُس ئا ا پر برگساں نے زیو الیاطی کے تاریقی بجقدے کو چل رکرتن کا:دموعل ۱
اس ژیٹو کا عدہ د یہ تھا کہ یں چلایا چا تو یہ حرکت تہیں کرتا' کیو ںکہ
ے٠
2دزاسل 7 کیل رغاس بد ہے اس ملع زاس ےاسٹا کی نل
کی
بھی دی ہے۔ اس کے خیالہ میں اعقل چس کا تعلق عمراق ذات بے ےا سُبیب|۔فلم۔کی
چھوئی چھوٹی تصویرؤن کو ایک دوسرے ۓ الگ الگ کر کے جامد جالت یں
دیکوتی ے لیکن قسلسل ا با کی حالت ہو آسک جند جم بی چان یچ ۔, : ارتقابء
تخل مین سنشرکے تلق آ لکھتا ے و“ م وحم داام ےہ وا و سے
٠ے ت ور دہ یں ارتقاء ,کا تعتؤر ارتقا پافتہ اشماء کے ا کٹھا
رتے سے کرتا سے جس, سے وہ فکری ۔مغالطے؛ کچ شکارِ ہو ٹجاتا نے سوہ
2ھ قت حقیقت ڈو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتایے حارقاء لی کا_زاویۂ“ نکاو۔ الس
و وک ا کک مم
غافاے : ر٠ اک کے وہ ہی ہے“
وہ
لمی . در رای لے
کا
ہہ
2 ج۔ سیت
ٌ کساں کی نات نو و مغ پا رہی سے زندہ ہے خر کت میں چٴ اس میں
علق ۱ رتقا2۔ کا | مل جاری ہے جس کے نتیچے میںر پر لمحب نی نئ اشیاء کا ظہور ہو
رہا ے ۔ مادی عالم حیات ہی سے نکال ہے ۔ مادۓ کو بنتظم کرتنے کی کوشش میں
تخلیقی_ قوت مقید اور پابند ہو کر رہ کي, ہے۔اووِ مادڈے کی گرفت ہے آزادہونۓے
کے لٌے ”ہاتھ پاؤںامار دای ہم یہ خیال مثالیت اور توف کے ریب جار ات
١ ران کے خیال میں سی خرکین دنر ہر مض بی ۔حقیقت حقیقتِ رہ
ہی تس لن نے جوششِ حیات جاز قڑىا ے۔ مادوزاس کے راستے ہئیں۔ ررکاوٹیں
کھڑی کرتا ے جن پر التب نے سے جوشش ۔ حیات کی ورزش, اوں تکەیل ہوق
ہے “ہناد سد بنی نوغ زان کرٹ ' ختواروں کا ایک رسالہ یچ جو سرپٹ
گھوڑے دوڑاتا ہوا اور ہر رکاوٹ کو مال کرتا ہوا آے بڑھ یا ہے ۔تججہاں عتلی
استدلال سے کام نہیں نکل سکا وہاںِ ہت ہے۔ مثاؤ وہ کہتا
ہے کلامادم حیات امت نکلاچےإ آپارھے کے کک کے جواب
یج
ہر ہے۔-ے
ش۵" 2ھ
میں و دلیل نہیں دیتا قوارے کی مثال دیتا نچ "کہ فوارہ چل رہا ہو تو پاق کا دھازا
زور سے اچھل کڑ .اوہر اٹھتا ے۔ بھی جوشش حیات جا۔ بھی حقیقت ہے۔ اس
دھارے سے پائی کے ہوٴقطرے ادھر آدہر گرئے ہیں ]نہیں عقل ماڈے کا ام دیتی
ہے۔ ۔ ہزگیناں کے فلسفے کا' حاصل یء ۓے کہ حیات تئٹھیں سے : یی کا مطلب ے پچ
"مسلسل تخلیق -:ژندہ رہئے کا خل بذاتِ ود تخلیق کا عمل ہے۔ تخلیقی مضلسل کے
اس۔عمل بۓے اسان کو قدر وأختیار پخشا ے کیوں کیہ جیں تخلیق کے مُناقی ہے۔ٴ
. برگساں کے زمان یاٴ مور حض کے تصور کے ساتھ اس کا حافظے کاٴثظریہ بھی
واہستم ے ۔ وہ کہتا ے کہ زمان ایک بھاؤ ے جسے عقل ماضی؛ حال اور مستقبل
میں تقسم کر دیتی سے جیسے موجیں مارتۓ ہوۓ پاتی میں حد تفریق قائم کرکے آے
ختلف سمندرون کے ام دےٴدے جاتے یں ماضی مٹتا نہیں حال میں حفوظ رہتا ے ِ-
جس میں مستقیل کے امکانات موجود ہوتے ہیں ۔ -
ہرگساں کا قلسقہ دوئی کا قلسفۃ ے جس میں حیات اور مادے اور عقل اور
وجدان کی دوئی بڑی اہم ے ۔ ماڈے ہے اس کی سرآد وہ ے حس شے ہے جسے عق ۰
ے ماڈے کا ثام دے. رکھا ے۔ کائنات میں انہی دو اصولوں میں پیکار و تصادم
ے ۔.حیات اوہر کی طرف پرواز کرق ۓ مادہ پستی کی طرف کھینچتا ے۔ حیات
ایک عظمم قوت لے ۔ جوشش حیات ازل سے موجود ے اور مآدے کے خلاف صف آرا
ے۔ یہ آزاد اور خؤد مختار فعلیت ے جو ماڈے کی رکاوٹوں پر قابو پا لیتی ہے۔
بر گسان کے خیال میں ابتداء میں حیات تھی زمانۓۓ کےگزونۓ کے ساتھ حیانتہ تے جہّلت
اورعقل کی دوئی اختیار ی ۔ جّبلت اور عقل کی تفریق آس کے اہم اصولوں میں سے ہے۔
جِبُلت کی بہترین صورت کو آُ٘س ےۓے وجدان کا نام دیا ہے۔ جس طرح وجدان کا تعلق
زماتِ سے گہرا ے .اسی طرح عقتل ماڈے سی وابستہ ہے۔ ماڈے اور عقل کی ۱
نشو و مما متوازی خطوط ہر ہوئی ے ۔ برگساں ”ارتتاۓ تخلیقی؟٠ می ںکہتااے >٠
'عدود مفہوم میں ہاری :عقل کا متصد ہے بمارے جسم کو ماحولِ کے
مطابق کرتا۔ جارجی اشیاء کے علایق کی ممائندگی کرنا۔ غتصرآ ماڈے کے
متعلق سوچ بھار کرٹا-)؛ -- ٠
٠ عقل کا خاصد یں ے کہ عالم کو الگ الگ. اشیاء میں تقسم کر کے آن کا
سطالعب كزقی* ہے“۔ ۔ وجدان عالم کو ابی اصسل حالت میں یعی پہاؤ کی صورت میں
دیکھتا ے عقل کی دسترس صداقت تک نہیں ہو سکتی۔ وجدان صداقت کو پالیتل--
ہے۔ ۔ وجدان کی تعریف کرتۓ ہوۓ برگماں کہہتا ہے : ....
٠ ”وجدآن وہ جبلت ے جسے اپنا شعور ہوگیا ہو اور جو اپنے متصد ہے آگاہ
ہو کر اس کی توسیع کا باعث ہو سکے ۔)؛ 7
ایک اور جگہ کتھا ہے : "
''یہ (وجدان) ایک قسم کی عثلیاق ہمابردی ے جس کی مدد ے ایک شخص
کسی شے کے بطوث میں جگہ پا لیتا ے تاکہ وہ اپنے آپ کی مطابقت آس شے
۶")
<-
نعل مج ان الا ےک ےم
کے ۱
ایک قسم کي عقلیاق ہمدردی. - -ٍِ- ام
کر کر و ا او 010ا یت وا مر
اقابل اظہار توق ے۔)کں ب ٠. وا ۱
گویا وہ جِبْلت جو عود آگاہ ہو جاۓ وجدان کہلاۓ گی ۔ ظاہرا جبلت خود :
آ]٘س وقت ہو جب ا میں تفکرآکا:عنضز آۓ گا اورتفکر کا نہ عنصر لازباً
عقلی ہوگا۔ اس طرح جّبلت کے:وجدان میں نذللتے کے لیے عقل کا شمول قروری ہے ۔
برگماں کپتا ے عقل وجدان ہے تکىی<ے۔ اگر ایساٴنے توٴعقل کو وجدان کی
” ترق یافتہ صورت سمجھا جااےٌ گا لیکن ہرگساں آے وجدان کے مقابلے میں نائس اور
کوتاہ بین قرار دیتا ۓ اور پھر اسی تاقص عقل کی مدد نے وجدان اوز مور خض .
کے اثبات میں بڑے بڑے دقیق تقلی شواپَلا۔ ھی پیش کرتا بے ۔ سی۔ ای۔ ایج جوڈ
ے اس بات پر حبرت کا اظہاز کیا ے۔ کا ۔رد ادشمن عقل کو اقص ثابتٹ کرئنۓے ٭
کے لیے عقل ہی ہے استدلال بھی کرتے .ہیںان اسیٰ طرح خود ان کے ادغاٴ کے مطابق
آن کا استدلال اتص ثابت ہوتا ے۔ برگساں کا المیه بھی یھی ے۔ وەعقل کو ,
ناتس کپتا بے اور پھر آپنے خرد دشمؿ' فلسفے کی پئیاد عقلی استدلال ہی و استوار
کرتا ےب 26 ظط .5
برگساں کے ناقدین کنھتۓ ہیں کہ ٘ض نے قدیج تسوف کو جدید ساس کے روپ
میں پیش کیا ے۔ وہ کہہتا ے کہ تخلیقی قوت مادڈے میں مقید ہو کر رہ کئی ہے
اور ماڈے سے کلو خلاصی پاتۓ کے لے ہاتچ پاؤں مار رہی ہے۔ بھی بات صوفیں نے
.روح کل کے متعلق کہی ے۔ پھر کپتا ے کہ عقل حقیقت کی کہ کو نہیں
پا سکتی کہ اس کا ادراک تعحّق کی حالت میں بلاواسطہ:وجدان سے کیا جات سے
صوفیں بھی بھی کہتے ہیں کہ عقل ظواہر میں آلجھ کر رہ جاق ے اؤر حقیقت
صرف مرائے کی حالت میں وجدان پر منکشف ہو سکتی ہے۔ پرگساں نے اتا کیا سے
کە وجدان کو جّبلت سے وابستہ کرکے کا تصوف پر جدید سائنس کا رٹک چڑھا
دیا ے۔ برٹرنڈرسل لکھتے ہیب :
”برگماںئ کے فلسقے کا غالب حصہ عحض روایتی تمٍوف پرمکعل رو نے
کت قایه ٹٹی زبان میں پیش کیا کیا ے۔ یں شیا کی عقلی اللہ نظر ہے اشیاء ایک
دوسرے سے ختلف : دکھائی دیٹی ہیں ہارمی نائدییں ہے لے کر بریڈلے تک
۔مشرق و مغرب کے ہر صوق کے نظرے۔ میں دکھائی دیتا ے۔ برگلسان نے
دو طریقوں سے اس خیال میں ندرت پیدا کی +ے۔ :اولاٴ وہ وجدان کو حیوانات
کی جّبلت سے متعلق کر دیتا ے ۔ یە خیال اس کے ئظریا تکو سائنٹفک رلگ ٠<
_۔. دیتا ے ۔ ثائیا وہ 'مکان+ أشیاء کے آس باہمی تبائن کو قراز دیتاا ے جو عقل
کو بظاہر دکھائی دیتا ے اور ”'زمان“ کو اشیاء کا ربط باہم کہتا ہے جوف
کر ےھ
کر ۰
سے ۰ ۰ 1
5 ٠. - 7 7 ۰. سے
۰
ا ُ بث اك پر منکف ہوتا۔ ے۔ اس کے انکار کی رو ذلمزیز کے باعث اس کا _
۰ _ ۲ 5 تظزیہ 20ھ انی عاحب سے بڑی جد تنا جے “امن نے توف ۰
و ِ مہ ہے :پر ارتقاء اور حقہقت زسان کا۔پیوئد.لگا دیا ہے۔۔ ا ہم پ0
<5
” حَ ان تی تھی تارج فاسنہ :میں لکھۓ۔ ہییاےج "۔ راہ مہا کے ڑا ٦
ری و جردِ:دشین تھ کت رکا سیب ریل دالچسپ اور ہز دلعزیز مفکز-برگماں ے ۔” ٦
۔رومائیوں:؟ نتائجیت لسم ندوںآ اور صوئیوں کی طرح ای ہکا تقد ےکی سائنس 5 .
.اود منعلق ادراکِ حقج کے قامین ہیں ۔ زنٹی ا جر کر و تَغیتے کے مقابلے میں <
عقلی 297 بے شائئیں صرف تی تگاای ےن اورعامد۔امال و
اشیا کے چان ےسک ۔ ہے ۔اعقل جوشش حبات کے:هاتو و خیش اپکو آلے
دو کا بہانندرے۔ ؛ وجدان ند بے یق زندیا ہے۔ ِوجدانْْقود, اکا شائستہ
ث-.-- ث سد
رج : 2 7 جانیت آىیز جبلت ہے ۳ ٦ و ٤ ۷ لا ڑا حم ھت .- 3ں 5
ٌ این :میں شک نہیں کم یں سان کہ ب بنیادی افکار, فلالیدوسہٴ رک انواراتیت ہے
ٍ إماخوڈ بن ازر وہ نواشراقیوں“ ٦ طرح سریان, اور ۔وحدت-وجود د کا قائل سے لئ پھلو
-- ان لے تصوف پر مائنس کا زنگر چڑھا جٹ- جہاں, تکاس کا جردردشمیئ یئ ۔کا
علق ہے ئہ چرمن زفیانیت - اارادیت_ سے فتاثر ہوا ےک ہہ ںچ واٰ٤رحار
7 درگیاںن کے ارتیائے ایی مین تمرم کر کے بعض اہل فکرے ارتقانے:روزی!٤
--
7 :> نظرید پیش کیا2 ات ہیں :لائڈ یا رکز نّ٘ اور الگزنڈر قابل ڈکی۔ ہیں بارگن )٥7ہ
َ۰ +۱۹ع) پوگاں کی حاتیات کو ؟ تسلیم نہیں ک رتا وہ ۔کہتا ے کہ برگیان کے
: جوشش حیاتِ اور ور حض, جیہے۔وغروشات سائنھیں کے ققاضوں کو بن و نہیں ۔کرے۔
٠ اس ای ضروری ہے کہ انی ود کرک فلس ارقاءری عارت سائس:کی بنیادوبِ پر
الما جاۓچ۔ مارگن ۔ بے میتانکیت اور غاثیت کی درمیان مفارعنت کز کے طبیعی ارتقا
اور 2 ارتقام میں مطاردتِ یہ یا کرتے ری کوشتی شس کک ہے۔ مإرگن, کہتا کہتارنی کی
+ مل اوتقاء مہ دو قہم ک چوتیں کارفرما اپ ۔ز ر ايک إزتقاء کی رک حرک نے اور
دوسرے کی روے دوران ارتقإء میں. یک لخت بعض ہالکل. :ذئی ا اشیاے رویجوخ میں آجاق
ہیں۔ - پل کو وم نتیق٢ کی ہتا ے اور _دوسری کو بروز" کاظم خوتا سے این ۔ کا
زدوعل ج : کہ مادے ہے یا کانپروز پبوا٤ جیاتو سے جبّلتوں۔کا إور جّبلتوںمہے ذہن
کا بروز ہُوا۔ یہ ارتقا ذہن پر حم نہیں ہوگا بلکہی سساعد حالات کے ید باہو چاجے ,ھت
یزدای قوت کا بروز ووکای مارکن, کے نظررے کی رو یہ خدا ۔کائداتِ ہے 'بہائ؛ نہیں تھا_-
تاس کائنات کو خلق پی۔ کیا یلکم کائنات : کو عملی ارتقا سے قدا: پذا و ہے
2 ے یئ دن
پ< ارتقاۓ ی کا دھہرا توجام, الگزنٹن(و ۸۵( “.۹۳ واع) مھت سے کہ
ال حضی 2 ٴ۰
ٍٰ
.کائنات زان / ا
۰ ۱ لق کے چ
.کہ وجودٍمطلی کے پرے۔ فرق :دونوں جب یہ ہے یٹ کہ ید ا کای ۔ارتقا کی بنیاد
جا سا ترک وم ےی ! ئی مثالیت پسندی
سے مس 3 ھ 7 0 پ
2 َ 3 - 75 - تک رٹ سے
شیا - ات یا بت سک را ریہ باج سس :- بجی ےہ ے 6رث
() صوتاصلقتڑ چتمەومسظلا _(م) اصدالقذے 7 (م) اط٭ج+00
ْ وھ یا تۓ کے ل_ وونقےت
ے جرگ ےم 2-۰ ظط 8001 ٌ5 بت لا ٠ ٠
"۴۲۰۲۸
سسصصسےمہ
ے ۔ بزگسإنٴ ۓ مان کو مان سے :تتزہ ,کر کے مور محقض کا نظریہ بپٹن کیاءتھا اس
کہ, برغکیں الگزنڈر ے زمانِ میں. :نان بخلوط کر دیا تاپکہ اس میں تسلسل پیدا
ہاؤسکے: ۔ وہ کہتا سے کہ تسلسل۔اہں وقت پیدا ہوتا ےرجب جب زمان میں مان نفوڈ
کرچاتا ہےت اس کے خیال ئیں. اس پیسلمل کے باعث کایٔنات ریچ ار تقاء پذیر ہو رہی
ہے اس میں زنہ وقفے آتے ہیں اور نہ یہ اعیلزتنزیں, لاب کا ہوتادے ۔ الگزنڈد کپتا ے
کیہ حیات ماڈے نکے عم 133322ه8ءوء" ثرِ ماڈے. کا روز ےی ۔ آخری اور عظم
وجود جو زمان مکات اکائی سے وداد ووروہ خیدا۔ پا ۔ خلا ماڑے اور ذہن کی طرح
زہاٹ ] اکائ کی خلیق ہچرایں عالم َاخللق یب ے جیسے یکہ اہ منہب کہ ہیں۔
خیدا:روز ازلل سے کال ا کچل کيی.صورت میں_موجود نہیں:تھا:پلکە بتلریج وجود پذیر
بب رہا ے-۔یہ:انکمل عداکائیاتر کے,سات ساتھ ارتقا کے مناژل طے کر کے کملیت
کی طرف؟ قاع تڑعا ریا یچ یہ نے ۱
ارتقارغ :بروزی اور وا رجا تج یقتم دنوب ہیں قبر نشترک و پو زع کو دونوں
رج '"ازتقایغ برعدزی کاپنجائزہ لیتے اہی برٹرنڈرہل ماپنی کتاب
''منہپ و سإئٹن میں لکھتۓ ہیں وت
' ''پروفیسر الگزنڈر ارتتاۓ بروڑی کا ترجان ے ین رےے ُآند ما٤
_ حرک ماذہ اور ذبن انہانی بتبریچ:ارتقاء, پذیر ہوںغ ہیں,: اس نشو و نما کیا تصور
۲ دہ سے چو لائہ مارک بے پیش کیا سے اور اسے ہرک کا نام دیا سے ۔ جیات-
٠ _ کا بروز ماڈے: ےم ہوا۔ زیو ایک زنم شے ہاڈی شۓ:یمیٰ ے البتہ اس میں ,
رھ ۔رایک یی صفت کا ظہود بوتار نے جے حیاتو کہتےہیں۔ بھی بات ہم اس
. عو سے می کج ےئیک ,رجانپ ہوتا ے ایک
, 'یاذین شخص“ زنهو بھی ہو لٹ لیکن إحر کے ارتتا ہیس ایسی پیچیدگ ہرتقی۔
ے اور اس کے اجزاۓ ت رکیبی اس قدر مبوط ہوتے ہیں بالخصوص. اس کے
رر نظام عصہبی میب یہ ربط و نظ امن ؛قبر نازک اور دقیق ہوتا:ے کہ اس ہے
ڈین وا سز کی ام بوق ےچ ری بے کے سس کے
کو ا وہ کہتڑے یں کنوںن مجر لجاۓ کیہ ارتقاق ععلِ ذہن پر آکر رک ,
د اج ی؟ 6 نے قمت ےا کن
۰
پپ چھ ۸
تعلق سے جو ذہن کا جات ےاور حیات کا بادے سے رے۔ 7 چیقت یکو میں
.< پزداثیت کہتا ہوں اور جس شی تیں ونوپائی جاتیرے وہ :خدا ے ٠
اہی کے بقول کائنات اسی ربزدا ہے کر بے کے ئا را سے
بزدانیت تاْحال: ممودار نہیں ہوئی۔ ۔ وہ کہتا رے کہ خدا خالق نہیں سے جیسا
کہ تایقی مٹایب ٭ کہتے ہیں بلک خلاق ہے ے پروفیسر الگزنڈر اور برگسان
.کے تاریحی اپ ہیں گہرا رابطورمیچر ےد بی کساں کہتا ے کہ جتریت ,
غلظ ہے اور دورا یت ظہور ہوتا ے جن۔کا۔ابتداء
میں تصور بھی نہیں "کیا جاسکتا۔ ایک پراسرار قوت ہر شے کو ارتقاء ہر
۹ "۲۹
ر جایۓگا۔ ذبن جے آگدھی ریت نتش بلتا بے جس کا ذبن ید وھی۔ <“
:- ”۔چبور کر رہ یڑے ۔ مثال :کے طورہ :ہر۔ایک جأئذاز جو بمنارت شباعاری سے
اے نامغلوم ظورٴ پر احساس ہوتا نچ کہ تھے بصارت ملنے وٛال ےچ اور وا
تج ۔اسی طرخ علمل کرتا ہے جو ہخثارت پر منتج ہوتا۔ ۔ پر لح نئے نے نئۓ امال“ 8د
و او ہوتا۔دے 'لیکن تاضی بھی فنا تہیں ہؤتا محافظے-میں تا ناڈ
د لارفرانؤش کاری پحض :ظا رکا دھوکانےے'ە امن طرادنیا: سلسل تز تر کر رہق
۰ ہے ایک وقج۔آ نے کا ج جمتہ۔ و ای کیت ارد با ےہ طارفت ایک :آچ جی پت
ے-۔ نعائی۔ بھاناغروری ہے۔او رو غتل: :او خرد ےجو چامد ے اف ای ىٍِ
٠ رف :مائل رہئٌی مچے چکیں اپتےٴ روجدان کو برَوَۓکار۔لانا چاہے جم میں؟
ِ نی ٔی نی کیفیات نگ اخترا اع کرۓ کی صلاعیت ملوجُودداچ . کت میں ایڈ نہیں“
کہٰتا کہ پرؤفیسر انکزنت نے ب رگساں کے فلسفل کو :یه ام کال قبولاز
کر لیا ے بھرصورت ہی میں گہری ممائلت پائیجاق ںئ 7 اگزچہ: دؤٹوں
بل 7٭فالسفے۔ ۔آزادائی- اعوذاراہؤ ارّتتاآّۓ "زی تک غقاعی: امن:شیال: کا اظہار
تس ےا * رن2 ہیں “۔کربعدا کت خو میں کیا جات عد1 ۔کوتعلق
کر رہی ہے ۔ ۔ روابتی مذبب کے خدا کے سا اھ کا علق بزاۓ نام ہی"
۴
2
کہ ڑھ
چم 4
٥9۔ ارہ گیا ےکک سم ے کے سے تبسن رن ار لھا نی نو مہ ۶إ
"وت ود کے مانتے ذٛآلوں او راڑ تق برافزی کے فازحین اکنا طابرًا مذہب
ً خدا نہیں ےچ جو کائنات جے اناوزاءًٌ کے ”خالقع ہے٤ فا ز مطاقی 7ے ہے۷ ”حدم سے
د میں لاسکتا ہے بلک شریاق- ھُدا ۓ و کائنات' میں طازٌی' سار ے اور
ت ہے ألگ ا کا کو وخ تھی ےت جازنۓ ما می اہ مذزتب پچ سے نظریات
تقا' ہن جتاڈر اہوکڑ ماوزائی:خداۓ قطخ تعلق کر ليّا نے اور سریاق* کا ا کہ حق
مین: 403 تی ااغ >> اقبالٰ۔ ہے اپنۓ “خطیّات ایق ضریای عدا-“3 "بات تی دلائل
دلے ہیں۔۔* تگ تئیہ ج ا کل ک اچ ہی
۔: ازٹقائیتِ کا ایک اور ٹاو ترجْان, وآئڈپیڈ:(ربہ ١ ہ۹۴ ۱خ) پے َاكو ایک
بلند پایہ ریاضی دان بھی ے۔اس نے َ1" 4س بتو لق کو جدید
ریاضیات کی اسإں۔ پر:از موالو تاتٹب کر تۓ کی کوشش کی ۓۓ ۔ ؤائٹ پیڈ کے نظطرے
. میں ازڑتقاڈیث اور ہمد زو جیا کا اہ 24 بانی لاس تھا جی
کا ےکز مثالیت پنشندئ کتضعؾ 'میں ہو چکا ہے <ت تہ لائپ> نز لے کنہاپ کہ کائنات کی
ہر شے ارزاح ت طن کنب ہہ ان ارفاع ' کو ائں+ۓ۔موناڈ کہا. سے کے وائفاپڈ کا __
مابعد الطبیعیات“ بن ہچ" روعیبی؟ ح جس )میں“خداروج* اعلی کا یم وڑکھتا . ے ا
امن 'تظام ارواج کی تكمين کرتاےلد -وائٹ ہیڈ ۓ ۔طبیعات کے جدید تر “نظریات
اضافیت اور نقادیر عتصری لآ اقتیادم کیا ہے ۔ اض کا تحیال27 یہ ہے ےکا ان سٹائن ؛
منکونی ؛ شُروڈتگر اور'ہائزن دن پڑک سک اپکتافات کے باوجازڈ آج ٍ بھی نات سترھویں
مہ ان رر پر۔ .” ت* يٗ اھ ۔ ماك نہ سے
ط۰( منظارزءق- بط کا ٤ اے وا مہ مع ار ےے
۱٢۱۳۰ می
صدئی کے طبیعیاتی نظزیاص جی بیچھا نہیں اچوڑا کے آئن سائددن مْن قدزوں ےآ ای
کے سے ید کا سے رف ک لی کو جا
ےء تیجہ ید ہوا کہ انمآن کی یعقلی اور جڈبائی زندگ: کے درمیان خلا ید ہو گیا ۱
ہے اجذہ اور :عائل ایک::دوسرےۓ کی تقویتەکا:باعث جن ہڑے کت ان
” کے درمیان:رابطہ عال نُچن پچوسکا - اسسا:احاُس ”ے) وزائٹ چیڈ کو یبور کیا کہ وغ
ریاضیات کی دنیا سے نکل کز مابعد الطبیعیات کی دثیا میں قدم رکھّے ۔ ہے یا
2 وائ نیڈ 9 تظریظ دید 'سائس کے دو"عقاید یت ہے صورت پذیر ہوا ےا
(ن) یوقق کا نظریںٴ کت اشیاء اوز ری : ڈیکارٹ کا* نظریہ جس ک زو سے جسم اور
ذن: آایکڈدوسرے بے قلعي چداکاہ یں ۔ وہ کّھتا سے کہ سائنس اور آرٹ کو ایک
ذؤسرے ہے ہرد آزما چا نۓ کی نے ایک دوسرے کو قویت دینا اج انی
7 ایکتہ دوسرے میں ”قوؤ کر دڑنا چَاعا کیا2 < 7 ا وو کو ایا
وائٹ ہیڈ کائنات کو عضویاتی؟ وحدت خیال کرتا ے ۔ اس من میں ٹیچر
ایک جامد حقیقت نہیں ے جو سُاکن خلا میں واقع سے بلک ”'واقعات“ کا نظام ے
جس میں ایک مسلسل تنلیقی ہا ؤ کی کیفیت پائی جاتی ے ۔ اس ۓ ”واقعات“ کی نیت
عام مفہوم میں استعال نہیں کی ۔ اس سے مراد وہ برق لہرں ہیں جو ایئم کے اجزاۓ
ترکیبی ہیں ۔ وہ کہتا ے کہ ان واقعات کی خارجی ت رکیب سے مادّہ صورت پذیر
ہوتا ے اور داخلی ترکیب سے انسانی ذبن کی ممود ہوق سے۔ بھی واقعات کائنات کا
اساسی عنصر ہیں اور چند قوائین کے تحت صورت پذیر ہوے ہیں یا منتشر ہو جاے ہیں
اس طرح سوضوع اور معروض کا فرق سٹ کر رہ گیا ے۔
وائٹ ہیڈ کے عضویاق نظررے میں سائنس ؛ مذہب اور آرٹ ایک دوسرے میں
مدغم ہو جاتۓ ہیں۔ ان کے امتزاج سے جو اکائی شکل پذیر ہوق ے اس میں سائنس
۔_ کے حقائق ؛ روحاتی اور اخلاق قدریں اور آرٹ ایک دوسرے میں ضم ہو جاے ہیں۔
وائٹ ہیڈ روایتی سائنس کے ساتھ روایتی مذہنب کو بھی رد کر دیتا ے ۔.اپنی مشہور
کتاب 'سائنس اور عالم جدید“؟ میں تہایت دقیق اور خیال افروز پیراۓ میں اس ےۓے
مذہب اور سائنس کے طریق جستجو کا مقابلہ کیا ے۔ وہ کپتا ے کہ سائنس کی
دئیا میں خواہ کتنا انقلاب اور انکشاف کیا. جاۓ اسے فتح و نصرت سے تعببر نہیں
کیا جاتا لیکن مذہب ہمیشہ اسے اپنی شکست پر عحمول کرتا ے کیوں کہ اس سے
مذہب کے روایتی نظریات کو صدمہ پہنچتا ے یہی وجە ے کہ مذہب روز بروز
-رویہ تتزل ے ۔ دوسرے ارتقائیت پسندوں کی طرح وائٹ ہیڈ کا نظریہ اساسی طور
پر سریانی! ے اور نو اشراقیت کے قربن سے نو اشراقیوں کی ذات اور وائٹ ہیڈ کی
روج اعلیٰ٣ ایک ہی تصّور کے مختلف نام ہیں ۔
وائٹ ہیڈ کو سائنس سے یہ شکایت نے کہ اس کے انکشافات ۓ انسان کا ذہنی
(ر) ڈدہا ء1110 (ہ) ہاندتا ءنصمعء 6 ۔-۔ر(رم) عط رہظ 50:۰
"۳۴
اوز بی رایطہ ہکاثنات: سے منتطم::کر دیا یے ۔ وہ جرمن مثالیت پسندوں کی طرززح
چنہوں ۓےکیہا تھا کہ کائنات. ذہن ائسائیٰ کی نخلیق ہے اس کر نوئۓ ہوئۓ تعلق کو جال
ککرنا,چاہتا ۓۓ ۔۔ جیسا کہ ہم کر کر چکے ہیں*:کد وائٹ پیٹر کے پعروجتی
فلسفے کی رو ہے تمام اشیاء۔ اور ذی حیات ؟ارواج+۔پرمشتمل ہیں۔اوریہ نظام اروا
جیسل کب صوفیہ کا جقیدہ بھی ے روح اعلول :یا غدا کےروجود ہے. قائم ہے ے یہ کم
کر وائٹ ہیڈ ےۓ ثالیت پہندوب اور وفیوں ک طرح انبان:اور کائباِت بے درںیان
روعانی ربط و علق کو از سر نو قائم کرنۓے ي._کوشش ک ہے۔وائٹ پیل روما
شجراءم بالخصوصٰ ورڈھورتھ کا بڑا مداج۔ ہے ۔_کیوں کر وہ ٹیچر کو زندہ تصو رکریم
اس کے ساتھ چذہای رشتہ تہ قائح کرتا سن انی وجوو کی بنا پر فائٹ پیٹ یکی ناتنین,
کہ ہیں کہ اس ۓ جدید سائنس اور قلسنے پر تصوف کا پبوند لکا ےکی ۔کوشش کی
کے ۔ امن پلو سے اسے وفیؤں ؛ رومانیوں اور ب رگسإن کا جاڑمیں نشیں سمجھا جاسکتا ےہ
ہے پت .۹ 7 ہت ۹"
2 ہ !1 -.-.ے ہ 7 : مھ
گر یہ گے اج کے لی نے لہ سہ حسی یہ ساۓے ےا حديع ہ٭ ۲.-
۳
٭ ۶ 3 ِ 7
٠ٰ 6لا - 5 ٦ ہے٠ طط
سے سے سا ابی آ سپ جے ہاہنےا بے ٢٤ل جے رش ےک سی۔ ہب سی سے 1س کہ
چ 7 گ 7 5 ہو ہا کے ےی خ 3 7
3 ت .7 ! ے 5 حگ ہےے۔ ا 3
پ- ۔ نسا یا بے ھا کے گج ہے رع سح ہیک ہچ حخھر سص! ہپ رید
٦ - اپ 7
ہے ۶ 7 1 لو 2 و 1
ِ یہ ےم 2 0 0٤7ھ
جا ۔ہ ٠ ای ہہ تل٤٤٤ھ دیج یڈ جو رص ید یور
۰٠ َ ۔- 7 ۹ -
کھد ۴ یم مب ے عق دہ ے 2 4 4 ہے تح ھن مر“*+> 5
5 ۲ ۔ تے ٭ بڑھ نے 6د بے
للا سایسے - سے گی ےر ھک ہے ۔ے_ ہے حیع کت لت ےھ ہمہ ےے
٠ سے ہل ہے . َّ
سک 5 ہے ىھ لفجم۔ہ تم ےہ 4 7 “َ د ط .- کے بے
چھ . 7
ِ ۹ ٤ج ر دیدج
جہتے _ گثتاں سی ى١ .َ یع
٦ 2
ا مت ہم 8" بے روم . بس کن ای لا
ے۲ وامد ۔ سح 8 ہے کیج ۱ بے لے ڑے سے ۔۔۔ تک ٤ َ
٦ -
لہ 7 ہےے ٠ کپ یی پت چ۰ دھ سے2
- مے ےی ٠ ٦ ریگہ ئڈ۔- ٦ جا آر کے نج تح
ہے ین
72 7 نز یو ” 8 تب لا ےَ ْ کٹ
سے“ بے کی جج رتے ر[ے چمو بد حا ےا ریم ر 0 َ 2 ٦ ہے[أ۔ے_ے-
۰ َے یح َ - - - ٭
7 ر 5 7 : 2 ی گے
ا 7 گی نہب ہے سک را اے سے یچ ور کے ہے ہے لد وہ .8
٦ 6 سد
َ گج 8 . لٌْ ٦
٠ 200. کے سے دم ں۔۔ لق
سے فا درے_ے _ر_ ٭ لر .٭ وت ەدہہب سے ٤ ۳ - ہس
٠ - 5 .۰ ٭
- . رو ےم 7 5 ..
٤ - 7 مل یر _ تأ
ےر اس ا پا عا می پا رہ ہے ربعلں قب مم
اہ 5۹ 0
َ ھ > مر عم بت 2 د را
7 رہد 7 ۔۔ - پچ 4ں حا َ7 2 ہ ر4
یہ چپج- سے 'اظ ۰ ےت لے تس س٭ ات ت ت سرب ے ف٠
72 سے چ ہی ہے ۸ ے 5 َ ھ
۔ 5 ہے کم ا سے کے ا
دے ے . ۔ اص سے زدرچھے۔ ٦3 ج ےچ ایا ستھ م اکم 5 2
٦9 ۰ٰ 5 ۰
7 5 . 5 ےم ج- تے 4 گے ہے >٭
ما ت7 نے سو بح کے 2 رگد حق.. ہے ہے لی جٹے
٠ ۰٠ ۶۲۶ اج جم ٦ عو 7 ۲٢ےے ےسا
5 کالہ ہہ سح لہ نے ہے ۳ س سال ر ۂ پ٦" ہے جج دی اص نب کے متا
٢ ۰ٌ ۰: ہے 7 5 ہر ۔ہ ۰ ۱٢ً ٤
ہ وتاء ھ " ہے 8 پ دی
ے 5 ےَ پآ" ناب ےج ..ے -د گے سے یں > ےےٗ گٌ سے کیہ
٦
ہے ھت ٭ روس رہ
ہم رر کک آ۹ پک مب ہے - ے؟
3
۔" ٴ ہے ×حعو َ ٥ ٦
جم لے لاس ے۹ سے سے مت ہنا پعع رت* ہے دی لے
مہ ڈگ 23 ا
مرک کا ناف ٰ۵ و ٰ9 ظط ا کھ ر:
<
9۔- ي
۴۳"ٴ
دم ھ٘ر۔۔ ۱+ ۳ ٔ
7 جحہ ےم ٠ >
رِ ل ۔ 5 ۰ می ے ) لے یہ
7 0۲ ہے >> : ا
کل 5 بج ٤ ْ۰ س “ا .َ
7 3ئ . َ
ہے ملڈ ڑ2 یب وہ د
ُ ٍ2
ید سر گان تہ گی ہ۔
٭”جدلیان مادت:؟:ئننند فا
جیت یىی مادیک دی
و دہ ٤ب محلم ٗی ا : :
ہے وی ا ے۔ لٹ بے ار ََ<
ر . جدلباق مات سید یکا مار فلسئے کے جدید رین مکاتب میں ہوتا ے۔ جیساکہ
اس کی ت رکیے لفظی سے ظاہر ے اس میں جدلیات اور مآدیت کا امتزاج ہوا رے ۔اأان
اصطلاجات کی 7 تشخ سہولت فہم کا پاٹ ہوگ َ
ے لفظ مادیّت کا ام ہشہوم دئیوی _لڈات میں ليّی لیے کا ہے۔ اس کا قلسقیازہ
مفہوم زیادہ وسیع ے تخیصراآ اس سے مراد یہ ہے :کہ ماہ حقیقی۔ ہے اور ذہن بادے
کی پیداوار ے ۔ جیسا کم ذکر ہو چکا ے مادیت کا آغاز فلسفہ* یوان سے ہوا تھا ۔
قدماء .یوتان ماڈے کو ٹھوس سمجھتے تھے جسے اپآ اور تولا جا سکتا ے اور
جسے, نٹھے منے اجزاء میں تقسیم کیا جا کنا ے۔ و کہتے تھے کہ تقسم کا یہ عممّل
جاری رے تو آخر میں ایسے اجزا ممودار ہوں گے جن کی مزید تقسی ممکن نہیں ہو
ہکی ۔ اي اجزاء کو ایٹم کہتۓ تھے ۔ یہ تظرید دیماقریطن کا تھا - وه کہتا تھا کہ
انسان کے جسم اور اس ک روح دوسری ماڈی اشیّاعم کی طرح ایٹموں پر مشتملِ ے
اتد جسم کے ایم کثیف نت اور روح کے نہایت لعایف ہیں ۔ دیوتا لطیف ترین ایٹمٰون
سے سکب ہیں۔ ائیسویں صدی کے سائنس دانوں تۓ کہا کہ ایج نہایت ست ہیں
اور ناقابل تقسم ہیں جو ایک دوسرےکو اپنی اپنٔی طر فکھینچتے رہتے ہیں ۔ جدید
طبعیات ۓ یں ثظریں مسبترد کر دیا ے ۔ ہہر صورت رود کے فلاسقہ میں انیقوزس
سے اور ٴلکریشیس ماڈیت پسند تھے 2 رود کے زوال اور عیائیْٹٰ کی اشاعت سے مادیّت _
کی روایت دب کر رەگئی ۔ ازمتٹٴ وسطول کی صدیوں میں افلاطون اور ارسطٰو کی ئثالیت
کا چرچا زہا ۔ احیاء العلوم کے سائنس داتوں گلیلینو - ٹیوٹن ؤغیرہ ۓ مادیٔت کی روایت
کو نئے سرے سے ژندہ کیا ۔ جدید سائنس کی ترویج کے ساتھ مثالیٹ پسندی کے خلاف
دید ید عمل ہوا جو اٹھارویں :دی کے قامدوسیوں کے۔افکاز میں نقطدٴ عروج کو _
پہنچ گیا ۔ جدلں: ماڈیت کے :شارحین: کارل مارکس اور ۔ائبلیں' بھی امُوسیوں سے
۰-۰ فِض یاب ہوۓ ہؤں >۔ - سے کے تو سای
مادیت اور مثالیت کے تقابل ی:روایٹ فلسفہ“ یوئان بنۓ یاد کار ے ۔ مادیّت
پسند کہتے ہیں کہ مادّہ بنقیقی ہے اور اپنے وجود کے لیے ذہْن یا موتبوع کا حتاج:
نہیں ہے ۔ ذہن ماڈے سے نکلا سے ۔ مادّے“ کے بغیر ذہن کا تصور نہیں .کیا جا سکتا
ماذیٔت پسندوں کے غیال میں انسان ا لے۔سوچتا ے کہ وہ مۂز سر رکھتا ے ۔
خیال مغزسرھی کی پیداوار ے ۔ ار مغز سر ماڈی ہے ۔ ماڈے ۔ جسم یامغزِ سر کے
بعد
عو
بغیں سوچ بھار ممکن نہیں ہو سکتی ۔ لیکن مادے کو اپنے وجود کے لیے کسی ذہن کی
ضرورت نہیں ے ۔ ہارے خیالات و افکار اشیا کو پیدا نہیں کرے بلکہ اشیا خیالات و
انکا رکو پیدا کرقی ہیں ۔ ماذیت پسندوں کا دعوعل ۔ے کہ وجود اور خیال میں ایک
قسم کا اتحاد رے ۔ وہکہتے ہیں کہ وجود یا ماڈہ حقیقی ے - ذہن کا انحصار ماڈے پر
ے کیو ںکہ مغز سر جس کي وہ پیداوار ے بادی ہی ے۔ ان کے خیال می ںکسی ہے
با شعور ہستی ۓ کائناث نٹ کو پیداتھیں کیا ہلک مادٹیدئیا یا ٹیر ۓ ذہن و شعوری
تخلیق کی ے اور ذہن ۓ خدا کے تصور کو پیدا کیا ے ۔ گویا خدا ۓ انسانوں
کو دا ہت جق کیا بلک ذن زن اتاق* دا کت تجوت وو نی کیا ےت خدوسری
طرف مثالیت پسند کہتے ہیں کہ ذبن ماد نے کا خائق'“ سے اور مائہ ذین“ سے عابعلہ
کوئی وجود نہیں رکھتا ۔ ہارے خیالات وّانکار ہی اشیاء کی تخلیق کرے ہیں
مادیّت پستد کہ تیں کہ عالم معروشی حقیقت ہے ت ہیارۓ ڈہن سے علیحدہ موجود مد
ہے اور اے وجود کے لے ٹازے' ذہق "کا ختاج' نہیں نے َ ثثالیت پسندوں تی ادا نچ
حتیقت ہبارے ذبن میں ہے اس سے خارج میں ائُس کا کوٹ وجود نہیں
ے ۔ کانٹ کہتا ے کہ زمان و مکان ہبارے ذہن کی تخلیقات ہیں۔ مادیت ند پند
جواب دیٹے ہیں کہ مکان پیم میں نہیں ہے بلکۃ ہم مک مل بی از ما بارلۓ
2
اید
مس و ہب
و 9ب(
پا
سے اد ؛ٍ موچود ےب 5 -
جدلیات کی تدوینِ اف پوقا نان ہے یا تھی َ لعف ظا کا کی معنول
سے ایت کرئنے کا فق؟ اصٰطام یں اس کا مطلب وہ ےک پر تھے تجموعہ اقداد
ہج :یعنی ہر شے میں اُس کے کی ضد سوجُود جا ۴م ایا اپنی ضد کی شکلیں اختیار کر
لی ہیں ۔ اور ان, کے طون میں ہر وقت ثبت یت اور مت ی کی کشتخش شروع روتي
7-0 اس طرح ہتضاد قوتوک 5 یک کشتکی سے عالمِ میں رک و تَغیز ڑ پدا پو
گر اد لیا کارعظم قانون ہے زیقليتن جو جذلیات کا شارح۔ تھا 2
تضاد چدلہ ہے دی ویپ د یا ۔۔
کا قولٰ ہے: ات : 07 راس ” 3 ر ےہ تک َ ہے
ا کو تھے ہاکن خویں. سم شے 7 تیر پذیز ا کوک وس اکپ
ہے ندی ہیں ,دو با مل نہیں کیٹا 'ٗ یما ئل (<“
سس جرد
۰ -پریقلیتتیٰ حم اوک رکت یئ ااباقی+اہمیت +5 -٠ توجہ لاق ا
کہ تضادات ہی ایا کے تغیں:و ارتقا کا بائیہ بوے نی 2< >7 افلاظرنت اور۔اس زکامتبمین
کی سکوئی مابعدالطییعیات کی ہسگر مقبولیت کے پاعث جدلیات کو نر روغ دنہ ہو کے
ہیل نے انیسوتی ضدی میں اِس ککا ا حیاءِ کیا تاوی۔ اسۓ زنئی ۔سرے سے ۔مذون کیا ۔
-ہیگلی ےچ یتین نکی :ہم جوانیا کرتے ہولۓے مہا کہ کائناتز میں پر ککزیں تیر و
'۔حو کت ہف کر کارقومایدتے ب کوئی ش شۓ کسی دوی رك ہتے۔ ہے علقجدم پٹ جو میں
رکھی۔, ممیت | اہ انک دو نے ےم وا رو لک ہی :لیکن پل لے _۔جدلیات
تنےکو لیت پسندیو کے ران کیں دو یا جب با یف کہا کیا ذرن یق < مت إاتواتم
۶۳ :
اما
سے-
ہوۓ ہیں دہي مادی عالم میں بھی ہوے لیں۔ اس, ےۓےچدلیاتی عمل, کے چند قوانن
وضع کے چو اس لحاظ . سے اہم ہیں کد جدلی ماڈیت کے شارحین نے ہہ انھیں اذ
گیا - : کے تا
ے۔ 2
چھے
کے سی رع یا یلع ا ررامجھ؛
سی ۔ یی
ہیگل کی جدلیات کے تین پہلو ہیں ۔ ٦٦ ۔اثبات ۲ ثفی ۳ نی کى غی یا [تحاد ۔
اس نار ےی وضاحت کے لے وہ پوول کی مثال دیتا ے : رکہتا ے کہ پھول,
میں نو و ممایٔ قوت اثباق بے لیکن بھی نشو ى نما سے بنج مب تیدیل کر دیتی ے۔
جو بھول.ی ئن .کر دیتّا ۔ے. پھر اس: بج نے اکھوا بھوٹنا جیے جس سے ری ک تی
ہی-جاق پچ لیکن جن مین پھول اور بیچ دونوںِ کا چوہر حفوظ رہتا١دے .اس طرح!
تئی کی : نی یا اتاد کی صورتِ میں مثیت اور میقی دونوں صلاحیتیں جبع ہو خاىق جچں۔۔
ای آخری ممل کو ہیگل کی اصلاح"میں ''قدرؤں کا عفظ؛“ یپا اتا ے۔۔ یہ عمل
اسی صورت میں رکائنات میں پر ۔کہیں-جاریی: ےئ اور”اسی کے طفیل پر منور ہے وسیع
تر تصورات عالم وجود : میں آنے رہتے ہین - ہییگل کے خیال کی ٴرو نے یہی عمل کائناتِ
کے ارت کا اصل سبجب لت - وہ کپتا ہے" َ جم ہہ سمم
۰ ' ”تیفتاد اور ح رت زندی کی بنیاد لے اشیا ائ.ثیے تقر پذیر ہوقق ہیں۔اور
حرک تہ کرق ہیں کہ خود ان کے بطون میں تاد:کا عنصر موجود ے ۔
8 حفظ۔ اقداز کے ساتھ ہیگل کا ایکةاور اعول وارے اور وہ یہ ے کہ جدلیای
ختل عٔے می کیقیت مین 'بدلہ جاق نے >۔ پیل اکچتا سے کک پر انبدبلٰ متشضادۂ
قؤتوں کی کشمکش کا نتیجہ ہڑوتی. بے ۔ کوئی شے ارتقاء پذیر اس لیے ہوتق ہے کمہ
میں اس کئ؟ لی موجوڈ ہوق ے د-یۂ تقیز دو قسم کاہوتا۔ ہے جم کوئی شے
بی اضل صزرت میں رہ کر بلالی دے تو أے کیت ری تخل کو ری سوب وا
4 صوزت-یدل کر ۔َ :صورت' اختیارِ کر' لیٹی لچ تو اسے کیثیت کی تبدۂلی
رک ہت بت اس طرح* ک میک کیفیت سی بدلئ: ریچ دپاتی کی مال 'لیجے۔
جب >پانی انی <اصلی صزرت مین متاتّے+یا غٹلف شکل اختیار! کرتا _ سے تو
دہ اب تی کعی کی تبذیلی ہو - ے- لیکن روما یُوں می منقشم ہلو'جاۓ تو ا کیقیت
کی قبدیلع _کہیں گے '۔ ےہ عمل'اسی طرع عاری: کائیاتِ میں پر تک یل جاری نے ۔
ہیگل کی مثالیت کے خلاف رد عمل ہوا تو جومنی:ییب لٹوگ فویںباخ'(م٠ ی رخ
ندنہ۱ع)زمث ھیتل, کہ انکار بی رکڑی کرفت کی ۔ہلیں. نے اڑمارعویں عہدی کے
فراتہ سی قاہوہیؤں کی طرح مذہب, الہیاتہ اور بنا بعد الطبیعات۔ کی تردید سواڑلی
اِٹھایا اور کایل. مادییت کا ابا کیا : بن کارل: نما رکئی و افجلس . ےج ہل .کے
یتبغین ہیں و کی-مثالیت و سے قظع نظ کر کہ اسرکی جد ات
میں پنتقل. کر دیا اور جدلِ بادیٔت پجنیو پوپری بتیاد رکھیی۔ ٦ یہی نژ ںا
2- ۔کارل سان کم 4۸ ۸غ میں خرن کی ایک ؛ شہر ٹریز ہیں ایک .ہہوڑی پیرہای
کچ گھر۔ َیدالہوا ۔ اس کے" آبا ی:اچداد ربا تھے لکن :اس کے باب تن ملصّلجتا:
میسائیتزقیل کر ی تھی ب مٹازکتن ۓ یان اوز برلؤ کی : دم :گاچہوں میں ۔اعلل تعلم
ہچج۔
َ
ش۵" اک
ہائی ۔ قائون کی تمعبیل“ گے بعد اس نے تارج اور فلسفد کا" وع مطالعہ_کیا ۔
١۵ہ رع میں تشہور رومی فلسئی 'ایپیگورس پز مقالہ لکھ کر ڈاکثزیظ لق ڈکری'
لی ۔ فارغ التحصیل ہو کر تعلیم و تدربس کا پیشہ پیش اختیار کرٹا چاہتا تھا لیکن وہ ايٰ
انتلاہی تحریک کی لپیٹۓك میں آ گیا چو شاہ فریڈرک مم سو كکی وت کے بعد چر
میں شروع ہوئی ۔ مارکن تجاگیرداری نظام کا سسخُت الف تھا جیاے صدیوں ہے سد
عوام کو ابتدائی حقوق' سے بھی روم کز زکھا تھا'۔ اپنے انقلابی آفکار گی اشاعت
کہ لیے مارکمن نےۓ ایک رسالے ریئش زائی ٹنگ؟ 3 زمام ادازت سنبھال لی ٴاوز اس میں ٭
ایسے :زور دار اور 'پر۔مغز نضامین لکھے“ کہ د3 از دور:تک اس کی علمیت اور جودت:
فکر:ی دھاک بیٹھ گی ے۔ مم ْغ .میں حکومت ےید پرچد بند کر دیاے "زمہررع)
میل:پیزس میں مازکس کی'ملاقات انچلیں سے ہوئی:اوز دوٹوں کی یمر بھر ی ذوستی:کا'
آغاز ہوا۔۔ ان ایام ہیں مارزکِس ”کو ۔اپنے والد سے ایک معقتول رقم ملی جیں سس اس بے ید
اپنا چھاپا خائه خرید لیا اور ایک نیاٴ پرچہ نیو رپنش'زائی ٹیگ“ کے نام سے جازی,
کیا ۔ حکوفت نۓ یہ پرچہ بھی بند کر دیا اور ما رکیں کو ب'ایْت پریشاں حائی میت
ہجزت کرنا پڑی جمن سے اس کا سارا۔ _اثاثی:دریا بد ہو گیا ما رکیں کی انتلابی
سرگرمیوں کے ٍیاعثِ مکربی مالکِ ىی حکوت متی اس سے”جائف رہتی تھین اور اے
کہیں بھی چینِ سے ئد بیٹھنے دیا جاتا تھا ۔۔ شیا تی سے نگل جاۓ کا حکم
دیا گیا تو وہ'پیلجم چلا گیا اور وہاں سے خارج الیلد ہوا تو پیرس پہنچ گیان ما کس ٴ
کی اس درریدری میں اس کی با وفا بیوی چینی بے رفاقت کا حق:ادا کیا۔ جینی
جاگیں دارون کے ایک متاز خاندان فان وسیٹ فالن کی فرد تھی پ پ وہنہایت حسینِ و
جمیل تھی اور ناز و ئعم میں پلی تھی نار پاٹنے اور لاہال جسے مبصرینِ حسن وا
جال نے اسے خزاج. عقیدت پیش کیا نے جیئی بے شوہر کی عبت پر اپنا سب کچھ
قربان کر دیا ہ زندگ .رک آسائشوں کو یں باد کہا اور شوہر کے ساتھ جلا وطبی
ي زندی گزارنا قبول کر لیا ۔ اثمتالی جاعت کا منشور چسے۔ مارکمی اور انبلی نے -*
متب: کیا تھا ۸ع میں شائع ہوایٴ اس کا مشہور نعرہ تھا ”'دنیا بھر کے حنت
کشو! متجد ہو جاؤٴ“ ۱۸۰۹ میں ہر طرف سے یایوس ہو کر او تے لندت
کا رخ کیا اور وہیں کر پیوئد زمین ہوا سح ہے ۔ _ نے
مہ الس رد عری کی رک میو ازس ا1 ۔ اکا باپ ایک -
متمؤل کارخاۓ دار تھا۔ ۔ تعلیم ہے فارع ہ وکر انجلس باپ کی طرح کاروبار کرۓ لکا۔
انجلس:کا خا ندان اپنے شہر میں بڑا معزز سمجھاٴ اتا تھا اس ۔ لیے جب انی ۓ -
اثقلاِی نٹرگرنیؤن میں حصہ لینا فرومٴ “کیا تو اس کی باپ “کو بڑی:مایوسی ہوئیٴ۔
انتلابیوں ۓ حکومت کے خلاف مسلح بغاوتِ کی تو اتجلس ۓ بڑے خوش وخروش
سے امن میں حصۃ لیا ۔"پیڈن کے قریب ہتھیاروں کی کعی اور رسد کی مشکلات کے
باعث انقلابیوں کو منرکاوی فوج' ۓ شکست دے کر تر تر کر دیا۔ انجنس لچ
نکلا اور مانپسٹر چلا کیا چہان اس کے باپ کا ایک کارخائہ تھا ۔ مانسٹر کے دوران
٦
ِ
قیام یں اس ھے تزذ تڑٹورژن کے مصائتِ کا پںہ نظر غاثز نطالعب کیا۔ ایدی کتاب
*انكِشعا کے مژدؤر طبقے کے احوآل؛؛ ذاقی۔ تشاہدات پڑ ئببی:تھی ۔ :اس ؟کتاب کا
انگلستان میں' ہڑا چرچا ہوا 'اور”غؤام۔ نرفوروںی۔ زبوں' حا لی ستل مرو ات ہوۓ
اجس ےہ ؛ تک 'مانھنٹر میں مقم رہا:أوزتازکس لندن میں اپنا تحتیق: او انتلای
س. کام کرتا رہا ۔ ان سالوػق:میں ان کے دِياق 'خط و کتابت کا علبتلہ تبارق رہا۔ یہ
خطؤط چھپ گۓ ہیں ان ے مطالعم ہے“ دوجگریٴ دوسغوٰں کے گہُرے علمی و ذوق
وت پٹہ چلتا ہے۔ ٭عِاع' میں الس نقلِ مکان کر کے لن ] گیا ۔ اس دوران
میں. اس کا باپ وفات پاءچکا تھا اغبلس کو لامکھوںَی جائداد ترک میں ملنٹلیکن اس
ہے اباب کچھ اتی بشریک پر الا یا۔ او اغاتوین تزنیت پائی تی لم حرب
کا ماہ ہے کی باعث اس کے دوزست ےل رفیل نیل؛ کہا۔کڑے تیے'۔ سے بڑا
یت پکا تھا اس کا مقولہ ے
*ھارنے وانتے نمی رکاوٹ آجاۓ تو کاوا ذے "کر سُثُنکل جاؤن“اس کا
۲ سامنا کرو اور کود کر آے پا رکرو؛4““”' رو ا تھے وت رش کن
لن پہنچ کڑ ما رزکس اؤ ای کا ابر ال کو مس تنگ دّتی اور ٴپزیشانی کا
سامنا کرئا پڑا اں کی جھلکیان جینی ما رزکس کے خطوط میں چاہجّا:دکھاٹی دی ہیں ۔
ایک دفعۃمازکس کو کرأۓ کے مکان سے ہے دخل کرکے اس کاسارا سامان قرق کر
لیا گیا کیوں :کہ پاپ پونڈ + ذمے واج ان و ہے ھسوو بس
لکمئی ے: - ٭- ۱ و وھ
,۱۸ع کے موسم بہار میں ہمیں | چیلسی. والا ان چھپڑتا پڑاً۔ میرا یں
ے چارہ فاک ب ہمار تھا۔ روزمہ کی پریشانیوں ے باعفِ میریا پان
ہوکئی۔ ۔ہہم چاروں طرف سے مصائٔب میں گھرے ہوۓ تھے قزض خواہ :
تارا پیچھا کر رس تھے ۔۔ ایک ہفتے ثکہم ایک جرمن ہوٹل میں ٹھمہرے
آرے ۔ یہاں کا قیام بھی مختصر ثابت ہا > ایک صبح ہوڈل والے ۓ ہمیں ناشتم
۔ دیئے ہے انکار کو دیا اور ہمیں نی قیام لہ کی تلاش ہوئی۔ میری مان جو
تھوڑی بہت امداد کر تھیں اسیٗ نے ہیں قاقوں سے بچاۓ رکھا ۔آخز ہمیں
- ایک یہودی فیتہ بیچئے والے کے مان میں دق کمرے مل آگئے چھان بن ے .
مت 7 ا اک کی ا '
ایک اور ط مُں لکھتی. نے7 <ت یوک زا
سے ۷ع کے ایسش ہر یاری ٹنوی فرائاعا غدید تزلنے کا شکاو ہوکیی ذ تق
5 دن رات وہ زندگ اور موت کی کشمکش میں گزفتار سسکتی رہی ۔ اسکی
٠ تکلیف دیکھی نہیں جاق تھی ۔'جب اس تے دم توڑ دیا تو ہمٴنۓ اس کی فٹھی ۔
سی نعش کو عقبی کمردے رکھا اور سام کے کمرے میں فرش پر پ ۓ
کت ۱ ادے ساتھ لیٹ گۓ ۓ ہم سپ اس لٹھے ہے :
نتے کے لیے رد رسے تھے جس کا جس ے جان پچھلے کمرے میں پڑا تھا
۱ . ۲۳٣
و ج۴
جح
اس ہے چارہ یا نتھی کی سوت ایسے حالات میں واقع ہوٹل_کبرجب ہم ناقی 5ٹ رے
تھے ہارے چرمن دوب بھی چاری. کچھ مدد د لہ ]کر سکے ۔-ارنسے جوننز
سک :نے جو ہازے یہاں,آیا کوتا تھا اناد کا وعدم کیا لیکن کچھ بھی فراہمانہ
۴؛ سکا۔ میں:اپئے ہل میں درد کی دنیا لیۓ ایک فراسیشی بنام رگزیں کے ہاں گی
عو بارے رپڑوس مب ربتا تھا اور مارے یاں آیا .رتا تھا 01870
نے ں پہتا سٹائی,اوڑ منددرمانگی ۔ اس ججواپمرد ے رمبایت-دلوزی کے ساتھ مجھے_ دو
٠ ٠ پونل تاس ر وقم :من ہم ۓ اس قابوت کا انام ام کیا ! جس میں ماری:پیاری
ر* جچی ابدی ینا سو لاہی ہے۔ جن وہ بیدا ہو :تھی تو اس بکہ لیے ہمیں
۔گھوارہ بل سا تھا اور اپ اس ,کے تابوت کے لیے "کیا کچھ نہ کجوٹا ڑا
اد کے کید تع لے۔ کر قہزستان _ چلے تو بارے دلو پر کیا کیاعایم
گزر یح"
ہ-. جینی اپنے شوبر کی طرح پرجوش انقلا 7 0000
مسود اف کیا کرق تھی۔ اس نۓے امساعد حالات کا دلیری ہے۔مقابلء کیا الیتں
اس بات ہے وہ :کڑھتی تھی کہ سا ی پریشائیوق ہے اس کے شوپر کو تتلیف ہوق
تھی ۔ ۔ چوزف ویڈبین ۰ و لکھتی ہے 7 ۲
کہ ”یں مت خیال کر کس ان پریشانیوں کہ سامنۓ یک ناد کی ۔ میں
ٰ 7 چانتی ہوں کہ بیاری: کشمکش کچھ پیارے ساتھ خاص نہیں ہے۔ مجو چھۓ !
بات سے دلی خُوشی نے کہ میرا پیارا قھوہر مہریٗ زندق کا پروی بے
ساتھ ے ۔ اس بات ہے الیم مچھے دکھ ہوتا ے کہ اسے معمول پریشائیو
”کا سامنا ۔کرنا پڑا أور اس کی آمدادِ کا کچھ انتظام' ذہ ہو وو جو دومروں
7 کی سڈ :کرتے یں دی خوشی غشوس کزتا رہا ا اب خود تاج سے کک
ہے اس
ک آن غالاتم میں چینی اپتے قی٦ی کپڑے ؛ :زیور' برئن گرو رکی:کر ینیچ کر ان
انقلابیوں کے لے بان نفقد کا انتظام کرقِ و رہي جو تورب یٹ بماگ بھاگیغٰ کر لندن”-
میں پتاء لے ر۔ رے' تھے۔) سِک ۔کھاۓک میزپر صیج وغامٴ أن تباۂ زحال لو غریبالوطنوں
کا ہجوم رہتا تھا ۔ - وه تہایت شفقت اور ند پیشانی-ۓ .ان کی پذیرائی رکویز تھی ۔ یں
:لوگ . ہے ھ لہوں اور بہدردیں کر سکراہٹ دیکھ کر اپنے آلا و معّائب بھول
جاے تھے ۔ جنی ئ و چہیز میں ,جو بھاری چاندی .کے برآن ملے اب بر"آرگلخانوادے
کا نشان کهُدا ہوا تھا کل خان وسٹ الج ے قرابت دار تھے ایک دن کال مارکیں
یہ بر تن کرو رکھنچ کے لے بازار گیا۔ دکان: دارنے آرکلی کیا کت دیکھا اور پھر تعجب۔۔۔
سے 97 0 ورقظر کی امس کا | ماتھا ٹھتتا اور چیں جس بجی ہ وکر پوچھنے .
لا تھارے پا یہ برکن بکیسے آئے :مازکس نے بڑی نشکل سے اسر کی تشفی کی اور
وو ںو
۶ بای < جا چھڑائی۔ کچو۔ عرمے تک ما کس پیویارگ:ہیرلڈ ٹرینڈوك۔ی امہ نگاری
لے
ہے اپنا اور اپنے : ون کا ہے پیٹ پآلتا 0 کی دقعہ اپسا وو ہوا مک ایں نے کی کئی
چت
جج و تب ىَّ
دن:گھرے باہر ین کھا رد تھ کبڑیے نہیں تھنے ۔ معمولی
۰٦ اتا 2ے اھت سے 2 یڈ رۃدے
. ۱
ے5 : مہ ڑ گج
-
غبروریانتم کے لیے اسے اہن تن کے کپڑئے بھی کزو رکھنے بڑنت-, ٠ ٦
ان پ پاسمایید الات میں بھی پیارکِغن یۓے اپٹا 7 ۔جازعراکھا۔ چہ وہ مطالے
اور قساف و تالیف ضر فارغ چوتار تو انقان بی, سر رممول میل _ئنہملک َو جاتاب
۶۴ء ہیں اس ییےپہلی بین الاقوامی جلیں لمندن می و مازِق؟ پزدوم؟
باکونن اور لاسال کے اشتالی غیالات وائیاں کا؛ تنقیدیٰ“ جائزہ۔ لے کر اہئ ےۓ, انت
بکشوں ک راے واضح یق کاں وع کیا۔ ےا کے بعد:اس:یک: گھر میں دنیا۔ پھر کے
انقلَژی ہدایات لیے کہ لیے آۓ لگے۔ ۔ وہ با کوئن کی انا رکیت کا خالف تا اووعینتِ
کشوں کی تنظم کو اہم سمجھت تھا ۔ ائ کی تجریگك: ہر تیاکوائا :کو پارٹی سے
۔نکالپٍ:دیا گیا ۔ ٍ کک ا
٥. ہل اس۴ یہ َ ےن
ز۰
رما رک رات ,گے پک بطالے میں غرق رپتا ۳ صبح سویرنے برٹش متوز چلاِ
جاتا' اور وپیں پیٹھا کتابپی دیکھا. کا سال کہ مسلسل مطالعے کی بعد امس تۓ
اپنی مشہور کتاب ''اسرمایں؟“ لکھی جن جنے ”'محثت ککشتوں کی۔انچیل؟؟ کہا جاتا ہے
]رباب نظر ۓ ڈارون ی ۶ اص انواع“ ”ى طرخ اے۔بھی دور جدیدی انقلاب پروز
کتاب ماٹا ہے امن کی دوسری وو قیسری جلدین مارکس کی ہوت کے بعد امن نۓے :
منتب کر کے ثائغ کیں۔ ”ژسرمایہ““۔کا ترجم نھدنیا بھر کءزبانوں:میغ ہو چکا نے ے
مارکس کے علمی تپیجر إور چودت فک :کا اءترافع اہ .کہ مخالفین نے بھی کیا ے۔ وہ
فلسفے ' اقتعیادیات اوڑ ء ہبپِسیات پر بُگھری نظر تی زکھٹا تھاقاور, اپنے دوست' انبا کی
طرح ىفت زباِن تھا د:است لاہلینی یونانی “فرائمنیسیک انگریزی “۔ہڑسپانوی اور رونانوی
زبانوں پر پوزی,پوری دستزس, غاصلن۔تھی < ۔ایک::فعں شاداٹگد سرت لے طول
پکڑا تو مارکس: دل بل لے کے لیے وس یزاغ سیکھنے لگاے غسنی مت کیا تو وہ
سے بولنے اور لکھنے ے پر_پوری ظریخرقادز: تھا < نا ز کس ے“گھ رجمین' مغتریق مالک کے !
انقا2 بنا گزیں جب سوبے تھے .تواضار کمن ہر پلک کے ساتل امن یئ ابی زبان ثت”
اتیں مک رتا .جس یۓے.ان غریب الؤْطنوت کا۔چیرہ خوش ی ےد مد کھل جاٹا۔ ےئ
دئیا پھر کے ادب. ہے دلچسپی تھی ۔ سخ اشکیلئن؛“بالزاکا سروانٹیز یڑ “اس کک
محبوب تھے ء وی الف ٴلیلہ ازر پقاجات -شریری ' کامجھیٰ شیدائی تیا"اوڑ ان کے تڑجیے
بزسۓ۔ لے لے کی یڑھتا تھا'۔ کچھتہ ان کتابین کت سی پڑچنۓ کے
لے ایں ے2 عزری مبیکھهتےکا :ارادیٰ بھیۓلولڈیا تھا سے مم یع 7 جاڈاراہیوئ۔
جب اق 20 متارقدہدے کی انیلمن حے یع کیا روالد اخطااباد نی ہّ ےکا ْ ۲
سیر نہ ۔"'رژایة ان ردوسزوت اک وحرْثنہغ مجنا کر خولا 5ا رت موس کیج جا
0ب وت ا ھا ید مو دع چ عل ا ماد کن یسھ ول
۰ لى> ۔
۰ ںا رانا ! ہر ہیایا شیج
ن
۰
0 0 یی ٦ ےڈ
“ا ً2 ),) 2-۳ اوٴزہ زامن کا. روہ ان , یڑ ذ انار کن توی ان کے خیال
> 1
و۔ میں زیانیۓں۔> نام رائیوںه یڑ ہے ام وہ ہی نہ سے تل اٹ کا نام
ے_ ج ػ٭چرروری .-- ۔ لن ہے خوائی 7 جاٹا نے
ےر ِ
کچھ عرعے ے۔بعد یاورکس کی بڑی تیٹی-جو اس ک۔ چہیتیٔ تھٔیعالم ہاوداں
کو سدھاز گی ۔ماركين ان ضدمات کی .قاب۔ ئد لاسکا۔ ایک دن الّلن اس ی مزاج
۔پرسی کو۔آیا۔ مار کعی کی خادہ-ہیان تَے اہے بتایا ”کہ وہ آرامکرسی پر دزاز ہیں ار
آرام کر رے ہیں ائجاض قریب آیا ٹؤ معلوم ہوا کە اس کا ذوست ہمیشە کی یلد سو ے
چکاتھا, ان کا کوٹ اتارِا گیا تو اندرک:جیب'ٴ سۓ اس کے باپ ؛ بی۔اور یزی گی“
عکہی تصوذریں می جنہیں:وہ ہحیقہ دیۓے“ے لگائۓ رہتا تھا إنجاس ہے ما کی ی٠
قیں پر کہا ۔ 3و۶ یں ا کے ۔ فی گی
: اع سا او اور آُس کا کام ہنمیشلّد زندہ تزہیں گے ۔)؛ .
مارکس کے بعد انقلابی تحریک کی قیادت اجلس کے ہاتھوںِ میں آ گی : من نے
بڑی :تن :دہنی: سۓ مار کس:کاتمقیقی اور انقلان. کام ای رکھڑ ۔ آتل کا گھر ہر انقلابی
کے لے ہر وتت ۔کھلا زہتا تھا آاِس ۓ مغربی مالک ی تحریکوں" کو منظم کجزۓ ”
کے ساتھ اپنے آفکارکی۔تبلیغ کے-۔لے متعدد_کتابیں لکھیں آخر بچھتر بر س'کی عمر۔میں
فوت ہوادعرےۓ سے پہلے. وصیتِ کی کہ آِس کی نعش جلا ڈی جا ۓُ اوز خا کستر ایسٹ
بورن کے مقام پر سمندر میں ڈالِ٠ دی جاۓ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں وہ۔اوقات فراغت۔
میں سیر و تفري کے لیۓ جایا کرتا تھا۔ ما رکس اور إنجلس کی جدلی ماڈیت اشُتالیت کا
'سنگ ینیاد ے ۔ بنارکس نےۓٴ فوئر باخ کی مادییت ہی پر قناعت نہیں بلکہ ہیگل کی
جدلیاِت کو مادیّت میں :منتقل کر کے,جدلی' مادیّت کی تاسیس کی۔ مارکس نے سبن
ہے پہلے نظرہے اوز عمنل.ی ثقریق کو ختم کیا اور کہا کہ نظرے اور عمل ہین ٠
کال اتحاد ے کیوٹکہ جدلی مادیت۔یہ یک ؤقت ایک نظریہ ,یھی ے اور غمل بھی
ے ۔ جو شخص اس. کا قائئل ہوتا سے اوہ اس کی عملی ترجاق کے لیے بھی کوئھاں ُ
رہتا ے > . اس کی رو سے فلسفی اس شخص :کو نہیں کہیں گے جو گوشہ“ ' تدہاٹی می
سرنگوں بیٹھا خیالات میں غرق رہتا ے بلکہ فلسنی وہ سے جو اپنے نظرے کی ب می ے_
تبیر کے لے .کشنکش کرتا ے۔ ماکس کا قول ہے کا فدتی کا کام دی کی
ترجانی کرنا نہیں ے یلک:اسے بدل:دینا ے
جیسا کہ ہم کر کر چکے ہیں مازکس اوز اتجانی نۓ مادیّت ہے مابعدالطِیعیات
کو خارج کر کے ]سے جدلیاق ینیادِ پر :از سرنوٴ تب کیا۔ وہ کہتے بی کہ آن
کم زمایۓۓ سے پہلے کی ماڈیت ٹیوٹن: اور کلیلیو کی سائنصس کے زیر اثر تھی امن لیے
نظریاق - سکوئی.اور مابعدالطبیعیاتق تھی.۔ دوسرے الفاظً میں یہ مادیٔت آن تضادات
ہے خائف تھی جو ٹیچر میں حرکت و ٹغیر إ پیدا کرے ہین اس لے اس کا تعاق اسان -
کی عملىی زندگ سے منقطع ہو چکا تھا۔ مارکس ۓ کہا کە جدید سبائنس کی رو سے
ٹیچر کا عمل جدلیاتی ے اور بقول انجلس ۱ اھ :
.دی بنی بنائی گوناگوں اشیاء کا ہلغوبہ نہیں ے بلکہ گوناگوں اعال کا
مجموعد ے جسى سے اشیاء جو ہمیں بظاہر جامد دکھائی دیتی ہبئ اور آن کت
عکس جو ہارے ذہن پر پڑے ہیں بدلتے رہتے ہیں۔ ._کبھی وہ معرضِ وجود
چا لا ہے
لے ؟م گج ھ8
میں آئۓے ہیں اور کبھی نٹ جاۓ ہیں ۔'
قد سکویى مابعدِ الطبیعیات: کا ذکر کرت ہوے اکس نے کتھا افلاماون
ک5 نظریہ* امثال اس کی معزوف مثال' ہسے۔ اس کی رو سے ئیا۔ چند سا کن ق چاہد اشیاء
_ کا ےیموظہ دکلھائی دبتی ے چو ایک دوشرے سے الگ 'تھلگ موجود ہیں ۔ مار کس
کہتا ے کہ فطری مظاپر کا دقت نگاہ ہے مشاہدہ کیا چاۓ تو معلوم ہوا کہ ہر شے
خرکت میں سے اور ہ رکہیں تقینہ و تڈیر کی ککارفرسائی سے ۔ بقول ما ر کس :
۱ ''جذلیات حرکت سے عمومی قوآئین كٗ اشن جےٴخواہ ی۔ حر رکٹ خاریٹی.
٭ عالم میں ہو خواہ انسائی میں ہو_)؟ >2
مارکس نے کلامنیٹی ماقیّت کو میکائی مَادبِت کا نام دیا۔ ۓ اور کہا ےک
.- تو دی نہیں مادّت جداا سے قریب تر آ گنی کیٰوں کہ جدید ساقنس کی
جدلیاتی ےے > جو مابعد الّطبیعیآق نتظم' نظر, کے. منإق رےے۔ جمہد تک سائنس پر
مابعد الطبیعیات کے اثرات غالپ رے وہ مابعل الطعیاق مادیّت کی ترجا فرق رہی -
جدیدڈ سائنس نے جدلیات کو جم دیا ہے۔ مابعد الطبیعیاق مادیت نے جذلیاق ماڈیت
کا رتقاء مندرَجّہ ذیْل خطوط پر ہوا" -
(١) 7 مابعد الطبیعیاقٗ مادیّت قنساء یونأل و روم اور ا اٹھارھویں دی کے فرایسی
قاموسیوں ے پیش ی۔ قاموسیوں ۓ کائنایت کو ایک عظیم کل قرار دیا
.. اور ؟ِس کے حزی پل وکویکسر نظر إنداز کر دیا۔ مزی برانہ انہوں نے
حکه ٦ عملِ تارب ہے اتا تین کیاك وہ قدیاء کی طرح نظرے کو یمل بے جدا
: ں کرکے دیکھے رے۔ چنانں اٹھارخویں' صدی کی مادڈیّت ہے لامتری ۔
” >٭ ہولباخ وغیرہ ے تب کیا تھا رواناتی مابعد الّطبیعیات کے تصرف میں
۱ رہی۔ مارکس اور انجلس کہتے ہیں کہ اس فرد گذاشتِ تم کا ازالہ جدلل.
سس >< مادیْت میں کیا گیا ے ٠ ہے
(ہ) جدید“ سائنس کی“ مات ے مایق الطَییعياقُ اور یق مادیت سو بد
کر رکھ دیا ہے۔ رکش ۓ جدید سائنس کی روشنی میں. مابعد الطبیعیت
سب ٠ کو ایت ہے علیحدہ کیا اوڑ پھر مادیّت میں جدلیات کو شامل کر دیا-
(م) مارکس اوڑ انل ۓ کہا کہ چق وین عالممادی میں کارفرما ہیں دہی
ہت انسانی معاشرے پز“بھی أثر انداز ہے ہیں. یں کےں کر انہوؤں ۓ تاریٹی
مادیّت کا تصور پیش کیا اور دعُویل کیا کہ جو تضاذات مادی عالم کے
٠ ارتقاء کا باعث ہو رے ہیں وٴبی معاشرۃ انتا کے اڑتقاء کا باعػ بھی ہیں۔
.0 مارکس اور انجلی نے پیکل کے تضتورات کی پیکار کو طبَقاتَ معاشرہ کی
ِ کشمکش میں مقتل کر دیا۔ اٹھوں نے کہا ۰ سچ کہتا سے کہ
: کائنات اور فکم انسائی ہر لمحہ تبدیل ہو کے رہتے ہیں لیکن آس کا یں خیال
غلط ے کہ ذہن میں جو تغیرات ہوتے ہیں وہی عالم مادی میں بھی
تبدیلیاں پیدا کرے ہیں۔ حقیقیت اس کے برغکش ہے۔'تصورأت' اشیاء ک
ھ
حوب
۰
۰ , "6۴
پیدا وار ہیں اور اشیاء کے تغییش کے ساتھ تصورات میں: ھی تغیر واتم ہوتا
یت رہتارے۔ اس طرح انہوں نے ”ہیگلري جدلیات' کو چو سر کے بل, کھڑی
رد نے ز تھی دوبارہ اپنے پاؤں ہر ,کھڑا کر ڈیا ما زکسں_کہپتا ےچ :ء رھ نے ات
نتر ۔ رہن رفل ہد آسمانِ جیۓ زمین 5 تک طرف: اتا ہے ۔ جانا نلِسفت زدتت رے آہانٴ
' .کی طرف جانا چے' گر 5 .ا ہے
کے یا ہے ڑم رح یت نہ ات پچ -
جدلیای ماڈیت پسندی کی ےا کائناتِ مین صرف۔ دو أغیاء ہیں مادہ (اہے وجود
بھی کیا جاناے) آور فر و غیال ۔ ۔فکروہ ے جو ہم سای ایاء سے جنہیںِ ہم حسوس
وک بج
ے ہس ا کر نے ہی۔ 'وجود بات رہ نے جس کا ادراک یم اپ جسیات بش
کرۓے ہیں مثلا کاغذ کو مادہ کہا جاۓ کا لیکن اس ہے سفیذ ہونے کا یا ادراک
سے بَا ہوکا ۔ اس نظرسے کی ود سے فکرنو خیالٴ سے پیلے مادے کا وجود ا مادے
نی و
یئ ڈو جاصیتیں صیثیں ہیں ت )١( وا لان وَزمأٰتَ میں توجود . ہے )۲ وہ خر کت کرتا " ے۔
مازکش ای شیا کے وَج نود کیا قائلتیں ے جو زان یا کان سے ہے:علیحدہٴ یا تاؤراء
0 ول با کسی ادف سے لاق کو و تی ڑوت : چناعد وہ جھدا کا مٹکز سے آوو
تھی کے
چا ے قد زان کے پاز َذ کا وجوٰد تلم :کیا جانۓے تو انتا پڑے کم ھت
ےت نہیں ہے ۔ مکات سے باہر,ٍآس کے تو د کو تننلیم کیا ججائۓے
ہل ےس )۹٥7 ۔تعسا یک مھ وه جئار
تو مافنا بڑے کا کو ہ ہیں بھی موجود نہیں سے ۔ نت ۱
ا جدلیاق مادیت: پکئی کے اسابی قوائین ک0 سز تج ِ
.- 7 سیت
۹ے ) کوئی کے یں ا کسی أوزمطاق یں گا رت ہے
9 تقبر میں ہیں۔ اقیلی کہا ے: _۔ َ ح
:نیادے کا بغیر جر کت کے 7 ایح حر
ہم
سس ہہ ا گ٥ کا
حلل
۱ آپغیر باذے ک2 تصور ک راگ .
نے ہہ
سِٔ جدذلیاق مادیّت پسندی کا پھلا قانون سے ۔ اس کی رق سے کو شے ابی جگہ پر قائم
نہیں ری پر کے برق ای ری یی کر ےک ایی ا ےج میرےہ
ےسب جع سے
کیااک کے کی کوئی خے اس عمل تغین نے حفوظ نہیں ے ۔ و
8ج کائنات مج ا ایک دومرے کے ااگیٹھلک موجود یی بلکہ پر ٹے
لص بعا یه
یہ ج
: ذوسریٰ پر آثر انداز ہوکر اس میں تیر بیدا کر زی کے نے
۰ ظ. سن قاوق ا اطلاق انسانی معاشرے اور علوم پر کیا جاں تو مڈھوم ہوج
: ” کہ سیاشیات ت٠ معاشیا ت ١ ادبیات : قعون لطیفة ویر کا َپسْ میں گہرا تعلق
ہے و - ے اور ان کے وامل و موٹرات ایک دوامرے میں نفوڈ کے ہوۓ ہیں۔
عگؤ یا ےت کیٰ)۔ ہے رد
ً جدل ںی مادیكک سی کہ ہیں کن ُورڑوا ال علم ادب و لم کے اف
ہ6 سلہہےہ 1 اک
شعبوں کو آو یکم دوسروں ہے الگ آلگ کڑۓ ان کا نُطالتی کے ہی
مه جگ سا ںہ بے
١ ً اس لے اندشار ٹپکز ے شکار ہو جاے ہیں ۔ تا 7 تج
ابی تمعن
ر2
کے
سرایہیۂ
ایب
د رپ
لن
َ
وف یی ےھ ساد ٭ ٠
.)0 ا 'عدمہہ6 6, " ۰
ہے ہے ےہ سید
"۶۴۴۳
کت
(غ):ٹیمر قانوك'افداد وچی لے جو ہیگل: ک: جدلیاتاکا. بمق اصلاصؤول ہے “ی
؛ یعنی بر شے کے بطون میں۔اس کی ضد موچود اچ چو بالآخر ا٣ن کی' ثقی. کا.' .._
, باعثِ ہوتی٦ے۔۔ بھی تضاد ٹیچز۔اور:معاشڑے/فیٰ غمل إِرتۃ کا محرکيِ ۓ ۔
اشیاء پْر ہیں اپنی اضداد :میں بدلتی جار زہی”تین۔۔ معثبت اور فنٹی میں پر زے
وقت کشمکش جاری:رہتیے ہا تمام۔تغیژ و۔تیدڈل'ٴاشی کشمکش .کا نتیجدر
۔ے۔ ہچے۔۔اشیاء متفیں ہوتی ہیں _کیوں کہ ان میں مثیت اورنی کا ۔تضاد
3 ے مر ے* و ہے ہے
ی۔ تنوخودے ذ لب ہ8 ہے ہے
1 .- - رو ہہ وہ می
پ۔ >> تا>یا× موہ سریهہ رہ اں الاار دہ 0
جدے
:(م) چڑتھا قاٹون یہ سے کر اثیات ہیں ان یک تی یؤجودِہوق بے اؤر ہر
'۔ نف فی ہوجای ے داجس ہے اثبات کا ضل دوبارہ شروع :ہو جاتا ۔×ں
__ ' جن ماڈیْت پبیندوں ۓ اس عم ل کی۔معاشرق ترجاتی .یو کی ے: کہ زرعی ین
ہہ اتقابیة کے بد جاگی رداراش رتظام معاشرہ قائم ہُوا ۔ جاگتژدارزفٹ“ کو اپٹا ٤ہ
کم چلالۓ: کا لے ۔زوے کی روَرثا ستھی جو تاجزفراۂم کزنے تھے ہی۔ ر*
ےس“ نچ و مشقت:ک(كکاممزارعون .اور غلامول کے سرد تھا دایۃ ایں معاشریۓ
کے اقیاق پہلو نچ لیکن -اسی ہیں اس کی نیاوی مضمز قوٹی ارم ور زبائد '*
اج د سے ارت پیشہ ظ تے نے اتی قوت حاصلن کرلی کہ انھوں:ۓ جاگبزداروں
کو و کچل ذیا۔ ١ آپ طاقتہ تاجروں یا بورژوا" ؛ے ہاتمو: بزتیں آ گی صعی
_ اتقلاثِ کے۔یعذ. چایتًاا کارخاے کل گے جن میں کانم' کمرنے نکر لیے
- مزدورؤں ک'ضرورث تھی ۔ سزدور۔ابٛئ وجں معاش کے لیے' سرمایہ دار کل
7
7
تاج تھاکیون کہ جب :تک وہ اپئٰی ۔قوت بازو اس کے ہاتھ :نہ بیچتا اسے
.2-210 قاقے کر نا پڑے تھے چتانچ مژدوزکا مقام :ھریایہ دازانہ نظامینیں :ہیی لیے
سد رفو و جاگبردازائہ: نظام میں مزارغوں ی یا/غلایوں کا تھا ۔ جاگیںداروٹ کی فی ۔
سوب > ا یورڈڈا سے کی تھئی۔ یو ڑڈاکی:نتی:سزدور کریں کے ۔ اسٰ طرح نٹ کی ٹئی۔
شہو جاۓگی اوژ تعاثیرۂ :انمنانی رق کے ۔راست :پر ایکۃ تذغم او آگے۔
٦ 7 ۔
ر ۔پڑھاۓ گا۔- و مم نے رت ظا رہ پچ بمولان .- ٣ى مہرلھ“
دا
کچ رز چو
ت ہے دیکھاکہ جدلیاق مادیت سی کی روب ےکائنات: ذواقیاءُ پرنٹطل لے
جو اصل ۓ اور فکر خبال تو اس کی قرع سے اس نکر نے کا اظلاق معاشر اکسا
پر5 یا جا تو معاشرے کہ ماذی آحوال یا وَسَائل َْاوار کو وجو دہ یا 1 اتیل سمجھڈ
ج٣ اور مَیَاسیاتَ ت مذہبٔ ٴ آعلاق اور لوم فتون امن کے کرو ُوں کے جو
قذرتاً اپتے اصل سے وابثہ پوقَ گے ۔ٴ اس با کٛ کا کی دی حادق پسدا
جدید سرہمایہ دارانہ معاشرے کی مثال دیتے ہیں۔ اس تعاضر ے 7 تھی :بیداواز کے وقائل
کے نعل طیقاث کے درمیانعلائقی خلق کے ہیں جو ث مخفیٰ اناڑک آوراتغدال پر
نیٹی ہیںت چنال اس کا سیاسی 'نظام ان ہیٴعلالّ ن ہے صورت پذیز ہو ڑا ے ۔ دربوروٴا
٠
اف مع ْ5- سای ۔
- اس سی ۔ ات ئف
" 5
۱م
(م) قفظ ظط ے نکیل نے جس کا معنیل ے منڈی ۔ ورڑوا بَعنیجارت* "پیشے۔
+م 89
وسائل پیداوار کے الیک ہیں امن لیے ریاست پر ابھی۔ کا قبغيه نۓ۔ بات ' ہو انہوں
ے اپنے مفاداتِ کے' تحفظ کا وسیل بنا لیا ے ۔ سیاسیات ی طرح سای دارانہ
معاشرے کے قانون ؛ مہب ٤ اخلاق ؟:قلسفہ اور آرٹ ک تشکیل اس انداڑ سے ہوئی
ہے کہ وه یوزڑوا۔ کے ۔مفادات کی تقویت کے اسباب آن۔ گئے ہیں۔ ۔اور ان کی بدد ہے
بورژوا حنتکشوں :پر اپنا تصرف و تغْلكْبْ۔برقرار رکھتے ہہ ںھ معنٌا ہے ٠
ما رکس اوز امبلس تاریخی ساڈیٹ ٴي وضاحت :کر ہرۓ کٹ ہیں کە صبح
تار کے انسان قبائل کی صورت میں مل جل کر رہنے لگے تو معاشرۂ انان کی بنیاد
پڑی.اہں ژناۓ میں:وہ شکار سے اپنا پیٹ پالتۓ تو٭۔ شکار .پتھر کے کاہہاڑے؟ چاتقو
اور ہرچھے سے ,کھیلا جاتا ھا۔کا۔اس عتتل::ک بحنت کے اوزار۔یہی تھے ابں دور
کو قد یم اشتالیت کا زمافد کہا گیا :جم ہین عحنت کے اوزاروں کے ساتھیخوراک _
اور 'غؤرث کا اشثراکِ بھی تھا۔ ہر شخص اپتی ,قوت کے مطابق کام کبرے نعوراک
“کا حق دآربنتا تھا۔::پیداواز کے وسائل کے' بدل جایۓ سے زرقی انقااب:یرپا ہوا۔
ہل اذر پھاوڑۓ ایاد کین گے .اور شخصٔی اسلاک: کا آغاز: پت تج تےۓ بقدیج معاشرے
کا خاعمي کز دیا۔ نئ زرغی رم باشیرے : قیں طاقترور جنگجوا سرداروں بے :ازاضی کے
وسیٔع :اور ماداب ٴقطعؤں:پرقيضی کرلیا اور کمڑوروں کم نا کر:إٹ ے کھیتی
باڑی کا- ام لیٹے:لگی'- پیداوار' کہ :نئے_ وسائل.ے. نئے۔نئۓ بیداوار کے علائق تام
کے 'اورمعاشرہ آقا اور غلام کے طبقات میں۔منتسم ہوگیا۔ 2 ملامؤن کو ان کی حنت
کے ھرنے سے اتنا ہی حعیہ دیا جاتا تھا جس کے کہ وۃ اپنذ اور۔اپنے بچوں کا پیٹ پال
سکیں باق حصّ آقاؤںن کی جُیب میں جاتا تھا صں ور ژمانہ.یے جب غلاموں نۓ بغاوتیں
کرناشروع کین اؤز مت ہے۔. جی چراے لگے تو جا اگیردازی۔ اور ملویق, معاشرے
نے اچم لیا آسں معاشرے۔ مق جو سیاسی اداِرے قواتن اور مذہب: :و اعلاق صورت
پذیر' ہوۓ ان ک: بئیاد وسائل پیداواز اور غلائق پیداواز ہی پر اٹهائ بی تھی ے۔
چنانچہ وھ جا اگردازوں إور ۔بادشابوںں کے خضوصی حقوق۔ 3 حفظ کرے تھے۔
اٹھارەویں اور انیسویں صدیوں میں سائنس کی ترق نۓ ایک بار پھر پیداوار:ے وسائل
کو بدل کر رکھ دیا ۔ دخای إغین اور کہڑا بنتے کی کیاوںاٴ کِ کی ایجاداتہ ہے نئے نئے
علائق إ پیداوار کا ظہور ہوا اور مباشرۂ بورژوا اور برولتاری طیقات می : بٹ گیا ۔
آج کل کِٗ اسیامی ادارےء نظام 7 اخلاق ۔قاریں اور علمی وی خلیقاتِ
سرمایہ۔دارانہ معاشرے كٍٍ تقویت کا باعث: بی ہوئی ہیں ۔ ۔ صنعتی اتقلاب کے بعد وفثائنٴ
پیداوار کے بدل جاۓ ےے:زرعی امباشرہ- ختم ہو ہا ہے جسے رر انتلاب ین مایق
ےک شرہ خم و کر دِیا تھا کر
ہے
تھے۔ مم گے :- - ے گے ےآ حر
ےم سی
۴ ر تاریٹی مادیّت کا ایک اہم ۔تعیور یہ بھی نمچ کی جب وسائل پید'واز میں تریق
توق ے تو برسر اقندار طبۃییچو وعائل,پیداوار کامالک ہوتاے معاشرے کے زیر
دست طبقات کو اس ترق ہے فیض یاب ہوئے ہے بە جبر و !کراء عروء کھت ے
نتیجڈ معاشرے میں تضادات پیدا جاتے ہیں در تایقاق رکٹ کش شبروع ہھ چاتی ہے
ہت -
٠٦ 3 ت3
<-.
"۴
جو بالآخز غاب طہتے کا خالمہ کر دیتی چک
رے
''ہادیات فلسفہ؟'“ میں ایں طرح استدلالٰ کیا ۔ 4ر ۰ ۱ 5
اس ہمد
پح
تاریی ماڈیت اوز عمل تار پر بث کرتے ہوئے جرجیْس پوللٹرز لے اپنی کتاب
)١( تار ائساڑ یکا عمل:ے ۔۔
(+) عمل جو تاریخ بناتا کے اے انمانی آرادم معین .ٍکرتا تہ۔
)0( یہ ارادہ انسان ہی کے غیالات کا اظہار ہے۔ “ "
(م) یں خیالات عمرای احوال کے عکس ہیں.جن میں انسان زندگق گزارتا ہے
(م( عمرانی آحوال طبقات اور ان کی باہمی کشمکض کو معین کرتے ہیں ۔ 2
) طبقات عمرانی احوال نے جنم لیتے ہیں۔ .
گویا طبقای کشنکش عمل تار کی توجیٰہہ کرق سے لیکن معاشیٰ احوالٰبتات
کو جن دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی احوال ہی عمل تار کا اصل حرک ہی ۔
ول ڈیوٴنگ تۓ تاریقی ماڈّیت کی 'تشریح کرتے ہوۓ کہا ے۔ .
”تارج کا پبیادی عامل شروع سے معاشی رہا ہے ۔ پیداوار “ تقہم اوٰز صرف ٠
ث مالک اور مزدور کا تعلق ؛ امزاء اورغربأء کے درِمیان طیفاق کشمکش ؛ بھی
چرزین پالاخر ژند کے ذوسرے شعیوب کو خواہ وہ مذہبی ہوں یا اخلاق ؛
قلسفیانہ ہوں یا سائنسی ؛ ادری ہوں یا قنی۔متائر کرت ہیں ۔ پیداوار اور اس
_ کے علایق 'معاشرےٴ کی اقتصادی بتیادیں استوار کرتے ہیں جن پر قانون اور
سیاسیات کی, عارت اٹھائی جاتی سے اور جو عمرانی شعور کو صورت شکل عطا
کزۓ ہیں۔ مادی اشیاء کی پیداوار کا طریقہ عمرانی ؛ سیاسی اور روحانی اعال ٭*
تشکیل کرٹا ے۔ انان کے وچود کا تعین اس کے شعور سے نہیں ہوتا
یلکہ عمرائی احوالِ اس کے شعور کا تعین کرتے ہیں ۔.آجمی یہ سمچھتا ے کہا
اس نۓے اپنےٗٴ خیالات ؟ فلسنہ کے مدارس فکر ٤ اخلاق اصول؟ مذہبی ۳ف
جاعتی' تعصبات اور فی ذوق کو منطقی اور غبر۔جائتبدارائد استدلالن ے یں
آرتتاء ء شا ے۔ یں اس کی بھول ے۔ ۔ وہ نہیں جانتا کہ کہ بثیادی معاشی عوامل
اس کے خیالات کا رخ و رجحان معین کرے ہؤںے؟ ' 7
حار ُ یے"
مارکس اور۔آنبلس کے معترشین نے کا کہ عبملِ تاریخ میں صرف مقاشی.اجوال“
ہی کو عنصر فعال قرر نہیں دیا جاسکتا مان کے چواب میں اغجلس _ایک خط میں خی
اس نے جے بلک کو لکھا تھا کہتا سے ےت 2 ٦
مسسےے
سد
ےھ ۔
”تار کے مادی نظطرے کی رو سے ب پان کار جو غبنعیز تاریخ پر اثر انداز ہوتا
7 ' ہے وہ حقیفی ژندکی کی ب پیداواز ے ۔ اس ہے زیادہ تہ کسی مارکسی' ے دعوعل
- کیا سے آوو نہ میں نے کیا سے ۔ اس لی بے اگر کوئی شخص بات کو توڑمڑوڑ
۰
(ر) دنحلتاچد .صحالعتر ی5 امک ا8 70:0 ٥٥ء صفلع ۸ ۔
(م) امم دہآلنط أہ عصمنفھئ]ۃ
کر ی ہے کہ معاشی عتصر واحد عنصر فعال نے تو وہ اس مسٹلے کوٴ
ے معی لفاظی میں حصور کر دے گا۔ معاشی احوال اساسی درجە رکھتے
ہیں لیکن ان پر جو ظا غمیں کیا جاتا ہے ان کے 'متعدد عناصر “ تارقٹی
کشمکش پر اثر انداز ہوتے نی اور بعض حالات میں ایں کی ہیقت معین کرۓ
میں بہت زیادہ ائر ڈالتے ہیں - ۔ آن. تمام عنار گے درمیان باہعی تاثیر و تاثر کا سن
سلسلہ جاری رہتا ے ۔ بھرحًال جو تا بھی ضا ہڑے ہیں ان میں ایام کار
معاشی حرک ہی کو لان سمُجھا جا سکتا ے۔؟“
ایک دوسرے خط میں جو تار کن زنک کو نکھا گیا ے معلوم وت نے کہ
ائبلس متعدد عتاصر ہے سیاسیٰ “ قائوئی“ فلسفیائہ ٠ مذہبی اور ادری و فی عناصر مرادٴ
لیتا سے ۔ تاریی مایت کے نظرہے کا خال ید سے کہ اسان چلے کھاتا پپتا ے ۱
ٹھکانا تلاش کرتا ے ستر پوشی کرتا ے اور بعد میں فکر کرتا کے ادری تخلیق سے
کرتا ے یامَذہہی عقیدہ رکھتا۔ ان یسل مازکش کے فلخ پر امہ کے
ہو ۓے کھت ہیں : _ حے! وت6۲
اعیٹیت ایک مفکر کے مازکس ركسّی پر ے۔ اس بے یہ ول حکم کیا کہ
َ تارب میں سیاسی* “ مذہہی او ر'تازیخی آرتقا معاشی ارتقا لا سیب نہیں بلکہ اس کا
_ تیج ے ۔ٴیہ ایگ عفلیم مر آورخیال“ے جو" کلی طور پر ما زکس کی ایجاد
بھی نہیں ے کہ اس کا اظہارٰ جزویطور ہر دوسرے لوگوں ے بھی کیا
تا ہہ ۔ جھرصوزت یہ اعزاز مار کس ہی “جا ے کہ:اس نے اس اضول کو مضبوط 5
آستدلال ہے گایٹ کیا اور اسے آپتے تمام معاقی تظام کا سنگ بتیاد قرار دیا ٠٢
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں آسٹریا کے عالم طبیعیا
اؤر قلسفی ارنسٹ ماخ اور جرمنی کے فلسقی رچرڈ انٹونیزیس سے جدید طیعیات سک
انکشافات: کی روشنی :میں حو ایٹم کے تجڑے ہے'تعلق رکھتے ہیں ”تر انقاد؟“ کا
نظریہ پیش کیا اور کہا کہ ان انکشافات کی رو سے مادہ غائب ہوگیا ہے۔ جس عالم“”
میں ہم رہتے ہیں وہ موضوعی ے اور۔جو'فوائین ٹیچر اور معاشرے ہر مصرف ہیں وہ
معروضی نہیں ہیں کیوں کہ عالم بات خود معروشی تہیں ے ۔ لہا جدلی ماڈیت کا
نظریە جو مادے کی معروضیت پر مبنی ہے فرسودہ ہو چکا سے ۔ لین نے اس اعتراض
کا جواب لکھے ہوۓ کہا کہ ماخ کا نظزیہٴ تی انتقاد بشپ بارکلے نی موضوعی
یثالیت ہی کی بدلی ہوئی صورت ہے جس کی تزذیل بارہا کا جا پکی ے ۔َ لین بادے.
کی ماہیت پر بحث کرتے ہوۓ اس مسئلے کی دوشقیں 'فرار دیتا ے ۔ وہ کمہتا کے پہات۔۔-
_سوال یہ ے کہ یادہ کیا ے؟ اَں: کے جواب میں و کہپتا بے کد کے "ماد خارجی
یقت ہے چو ڈین یاسودیوع ہے اپتا نستقل فجود کھت سے اورجو پت فجود کے
یے کسی ذبن یتاج نہیں ہے ۔ وہ کہتا ہے :
ہے سہیج[د
۔(ر) :۵ئ5 هط قصد براءە وہ2 21۷۵٤٥٢ برآنسہ77( أُہ- عاودہ ٣
72035.٥٥ 7776630. )٣( 0:68م0[ :
"۴۳۹
''مادے سے ساد یہ ے کہ وہ ایک معروضی حقیقت, ے جس کا ادراک 1
آحسیات سے کرے ہیں۔ 04 ۱
دوسرا سوال یں ے کہ مادہ کیسا ةے۔ لیئن کپتااے کہ اس امن کا فیصلن
. کرنا سائنس کا کام ہے بارا نہیں ہے پہلے سوال کا جواب قذیم زماۓ سے آج تک وہی
ے۔ دوسرے سوال کے جواب' میں سائنس کی ترق کے ساتھ ساتھ تبدیلیان ہوق رہی
ہیں ۔ ۔ دونوں سوالاتِ الگ الک ہیں۔ مثالیٰت پسند انا میں فرق. نہیں کرے اور خلط
مہحك کا باعثِ ہوتۓ ہیں ۔ لین کسپتا ہج ۔ )
''مادے کی واحد خاصیت جس کے تسلیم کرۓ کے ساتھ فلسفیائہ مادیت واہستہ
ے ىہ ے کہ مادہ خارجی حیثیت میں موجود ہے اور اپنے وجود کے لے
75 کسی ڈین کا حتاج نہیں ہے ۔/“ . ٦
گویا ہادہ خواہ الیکٹرون؛ پروٹوق اوز نیوٹرون ک ورت میں موجود ہو ایک معروشضی
۹ حقیقتا ے جو اپنے ونود کہ لنے ذین کی حتاج ہیں سہر۔ ے
باخ اوراس کے پبروؤں نے "کہا: کہ عالم .۶ نیچر ٠ انسانٴ غ اور تمام اشیاء صرف
باری حسیات میں نوجود ہیں ٭ لیئن ان سے پوچھتا :چت۔ ”٭کیا ٹیچر إنسان کے ظہَور
ہے پهلۓ موجود نم تھی ؟ اگر نوجود-تھٔی جیسا: کےرہ ہائیس ۔تسلمم کرق ے۔ت وکس
گی حسیات یا شعور میں موجود تھي ؟ ائں سے لیئن یت نتیجہ اخذ کرتا ے ککە مادہ
شعور و حسّیات سے مقدم ے۔ اسی بحث کے سلسلے میں لیٹن کہتا ہے _کم ذہن
انسانی میں مادے ہی کاعکس پڑتا ے .اور یب عکس حقیقی ہوتا ے۔ حسیات کی یہ
حتیقت ہی معرؤشیٰ عداقت بکا سپ ہے پڑا ثیوت ے۔ ماخ اور اس' کے پبرو صداقٹ
کو موضوعی .اور اضاق مانتے ہیں اور مارکس کي صداقت مطلق کے قائل نہیں ہیں ۔
لیئن ان کے چواب میں .کہتا ے کہ پارا علم اضاق صداقتوں کے رانتے ہی سے
صداقت مطلق تک پہنچتا ے'۔ ٹیڑ صداقت کا معیار عمل ے جب کوئی تظریاق تصور
عساٌ ثابت ہو جاتا تو وہ معروضی عداقت بن جاتا ے۔ مازکسیت سائنٹفک
,نظرے اور اثقلا بی عمل کے اتحاد کا ام ے۔ لیئن کے خیال میں موضوعیت ہستدہماخ
کے ہینو سائٹض میں دوبارہ مثالیت اور متہنیء کو بخلوط: کرک کوٹش کر رے
ہیں۔ وہ کہتا ے کہ جدید ہائنس جدلیای مادیت پسندی کا ابطال نہیں کرق بلک
اس کی توئیق کرقی ہے۔ لین کے خیال کے مطابق مارکسیت ایک ٹھمن حکم نہیں ہے
بلک عم ل کی طرف رہنائی ہے۰ اس لیےائنں کی ترق کے ساتھ سَاتھ مار کسیت کو آۓ
بڑھانا ضروری چ۔ اثشتا ی حلقوں میں تجدید سائٹس کی زوشئی میں جدلیاتی ہادیت پسندی
. ک اس ترجانی اور توثیق کو لیئن کی ممایاں دین سمجھا جاتا ےم ...یا ۔
مارکسیوں کے سیاسی نظرے میں ویاست کا تصور بڑا اہم ے ۔- وہ کہتے
ہیں کہ ریاعت اس وقت سرض وجود میں آئی تھی جب .معاشبرۂ انسانی ٴدو طبقات
ہے
)١( .صەلناز:ہ-هوضنحدم قصد صصنئواہ اٛد ا2
ۓ۹۳
میں مثلسم ہوا۔۔ آٹاٴ اور غلانم یا غالب طبقہ اوو مغلوب طیقذد غالمیٰ طبقے نے
مغلوب طبقے پر اپنا تساط و تیب ت3 رکھنے کے لے زنست کا آقائم گی۔ انبلس
کے 2
سد زماۓے کی ران بردہ فرویوں آؤز آناؤں کی ریأامت تھی اج انقمد
. غلاموں کو عکوم رکھتا تھا۔ جاگیرداروت کی:زیاست کسائوں اور مزارعوں
مر ۔ کو ۔دباۓے رکھنے کے لین آلہٴ کار اثابتِ ہوئی ۔ ٴ ُدید مائندو ریاست
سرمایہ دارو کا ایک وسیء نے جس کی مد ے وہٴعنت کشول کوٴ لوٹ
ہے رے ںا ۔-۔ ۔ " جا
ماوکسی کہ ہیں کہ مغری مالک میں جس 'جنہوری ظز حکوستۃ کا رواج
ہے اس میں چمپوریت کا شائبں تک نہیں سے ب أُمئف ٹا تجاد چبپوریت میں کومت ی
باگ ڈور چند بڑے بڑےۓ'سرمایہ :داروں ۲ ساہوکاروں اور کارخاہ داروں کے ہاتھو
میں ے جنہوں ۓ جمہوریت کے نام پر اپنا تسا قائم کر رکھا ےہ او مغرب کا
دعوعل ے:کەجمہوری ظرڑ حکومت'نے 'عوام "کو آزادی عطا -ی لے۔ مارکسی
کہتے ہیں کہ یہ آزادڈی عض ذکھادے کی :جن اح'کے ہیں پردہ امتحصال اور لوٹ
رکھسوٹ کا بازار گرم م ہے سرمایہ دارؤں کو نت کشوں ک کاڑے پسینے' کی کائی
کے لوٹنے کی 'آزادی ضرور حاضل :ہے ۔مارکسیوں کے خیال میں۔سرمایہ داروں ۓ
عوام کو دو قسم ک:زئببریں ہنا رکھی ہیں ایک وہ جو ذ کھائی دیٹی ہیں دوسریٰ
وہ جو دکھائی نہیں دیتیں ۔ پہلی۔ قسم کی زتجبریں -ریاست اوز اض کے لوازم فوج ٤
:پولیس ؛ ژندان:و احتساب کی ہیں ۔ دوسریٰ قسم کی ژخبرین مذیت ؟ٴ قانون اور اخلاق
٠ قدروں کی صورت میں ڈھا ی گی تیں ما رکسی کہتے ہیں کہ جب تک ریاست رر
گی آزادی میسر نہیں آ سکٹی لیکن عبوری دور کے لے وہ أشتزای نظام معاشرہ میں
__..
صسمحت
بھی ریاہت کے وجود کو ضروری سمجھتۓ ہیں۔ اشتراکیت ارتقاۓ معاشرہ کا ہلا پس-
سہحلہے ۔ اشتراکیت میں عنت کشوں کی آمزقت“ “قائحم ہوگ۔ جو طبقاق ثقریق ٤
امہ کردے کی اور۔استخصلکو ما ”دے گی ۔ اس میں تمام پیداواز.توام کی مشترٗ
۶ ص) اور انٹرادی سرمایہ کازری کی اجازت نہیں ہو . ملک کا ب
ت وکز شاہی کے ہاتھوں میں نہیں ہوگا بلک اس کام کو مخت .کیشون کے نمائنداۓ
سنبھالیں گے ۔دوسرا ازتقائی مجلہ اشتالیت. کا-ہوکا جس میں ریاشٹ کے وجود: کی
ضرورت باقی ٹہی ہےگا ۔۔اشتالژئ ۔نظام مغاشرومیت: ریاست کو مثٹایا نہیں جائےۓ کا
ربلکٹ وہ-خود بخود مٹ جای ۓگ ۔. ]ن کے خیال تیں ریاست اور اانصاف لازمٌَ مُلزوم
۔ جی مناشی عبل دالصاف تاقار نکمل ہوک رولت بی جب توڑ دبے کی اوز ۔
یب اصول عملی صورت اُختیاز کر جاۓ گا * د ہے تل :
-۔ں پر ایگ سے آمن تی ۔قابلیت کے۔ مظاببق اور پَرایک کو اس کی ضروریات
کے مطاابقی _- 4 ہت ہ سمہچے
اقنصادیات میں مارکس کا اجشہاد یہ ہے کہ آُس نے سرماۓ کے اکٹھا ہونۓ کے
۰ ا لیے
۹'۸ . '
-
عمل کا تجزیہ کیا ہے اور بتایا ہے کب ''فالتو قدر“'' .کس طرح سرمائۓ میق نبدیل
بوخاق نے ای مبوز کاب ؟'سرمایہ“' میں وہ اس بحث کا آغاز جنس؟ کی تعزیف
سے کرتا ے ۔ و وکہتا ہے کہ جاسْ وہ شے ےج و کسی انسائی ضروارتہ کو پورا
کػرق ہے ٹیز]س کا تبادلہ بھی کیا چاسکتا سے ۔ اں لحاظ سے جنس ایک خاض قدر
رکھتی ے۔ غختف ایناس کے دربیان قدر مشترک یہ ہے کی وہ انسائی نت کی
پیداوار ہوتی ہیں ۔ یہ حنت انفرادی نہیں ے بلکە اجتاعی حیثیت رکھتی .ہے ۔ اجناس
یک کت ہک کا ا کا جموعی ان پر ضرف کی جاق
ہے گویا قدروں کی حیثیت می سمام زا ات مد اہ رت جو
گئے ہیں ۔ گذشتہ تہ زمائون میں-مال براۓ مال کے تبادلے ہیں قاعدہ یہ تھا کہ تھلے
جنس ہوقی پھر اس کی قیمت لگائی جاق جس کے بدلے میں دوسری جنس لی جاتی تھی۔۔
صرمایہ داروںِ کا معاشی قانون یء ے کہ پہلے روپیہ ہوتا ے پھر وہ جنس کی صورت
آختیار کر لیا ے ۔ ا جنس کو بیچ کر روے میں تہدیل کیا جاتا کے جو پہلی. رقم
سے کہیں زیادہ ہوت ے ۔ رودے کی اصلى قدر پر جو اضافہ ہوتا ے آسے مارکس نے
'فالتو قدو؟“ کا نام ۔دیا نے بھی اضافہ روے کو سرماۓ ہیں تبدیل کرتا ے ۔ فالتو
قدر اس وقت بتتی ۓے جب نحنت.جنس میں تبدیل ہو جاتی ے ۔ یہ بات ایک نثال ہے
واضح ہوق - قرض کیجے ایک مزدور روزانہ آٹھ گھنٹے کارخاۓ میں کام کرتا ہے۔
چتنی اچرت اسے ملے گی اس کی قیمت کا مال وہ تن گھنٹوں میں تیار کر۔لیتا ے ۔
باق کے پاچ گھنٹوں, میں اس کی محنت ہے جو مال تیار ہوتا ے اس کی قیمتِ کارخانہ
داری جیب میں جاق سے م جو کچھ بھی مزدور تیار کرتا ے اگر اس کی اصل قیمت
اسے مل جائۓے تو ظاہر ے کب كارخَاإقہ دار کو :کوئی قم نہیں ہوا ۔ پایچ گھنٹۓے یا
فالٹو وقت کی عنت کا مزدور کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ اس طرح.مزدور نہ صرف
اپنیٴ اجرت کی قیہت کا مال تیار کرتا ۓے بلکہ ایک ''فالتو قدر؛ بھی تیر کرتارے جو
جنس ٴي صورت میں تبدیل ہو کر کارخانہ 'دار کے قبضے میں چلی۔ جاقق ے جبکہ
کارخانہ دار اپتے ہاٹھ سے کچھ بھی کام نہیں کرتا. ۔ گویا اس دور کا کارخانہ دار اپنے
مژدورو ہے اسی طرح استفادہ کرتا ے جس طرح تدع زماۓ میں آقا اپتے غِلامہوں
ہے کرتا تھا ۔ کئی پھلوؤں سے مزدور کی حالت غلاِم سے بھی بدتر ہوق ےے۔ اکثر
اوقات مزذور یک فی مہارت 'رکھتا ے مثلا بلب بنانا ہو تو.۔سالم بلپ ایک ہی
مزدوز نہیں بناتا ۔ شیش کوئی مزدور تیار کرتا ے۔تاریں کوٹی اور بناتا ے۔اور جوڑتا
کوئی اور سے ۔ چنانچہ دو سے نے کوٹ از تیب را کی اپنا عرت 6
۔کرے ورثٹہ × یھ وکوں مرجاےۓ گا۔,۔ : َ 7 7
تار کی 'سرمایں؛ میں بپہ ثابت کر ےکی وش ش کی ہے کہ قالتو قد سرماے
میں تبدیل ہو جاق ے ۔ اس سرماےۓے سے کارخانہ دار نی نی کلیں غریدتا ے نئے نئے
.دح جع
وت (:) ہاناكقنسھہ٤_ِ
٠ ٠ "6۳ٛ۲
کازخاۓ لگا کر صنعت و حرف کو مزید وسغت دیتاٴ ےے۔.روے یا سرماۓ کی :ایک
غصوصیث یہ سے کہ یں ہمیش اے چین؟ رہتا ے اور براہر بڑھتا رہتا ے۔ ایک
کارخاتہ دار ایک: ہی کارخاۓ پر قناعت نہیں کرتا ہلکە اور کارخاۓ ٹصب کرتا رہتا
ے بڑے کارخائہ دار۔ _چھوئۓے. کارخانۓے داروں کا خا مه کر دیتے ہیں .اور پھر بڑے
۱ کارغائہ دار نل کر اور بڑے کارخاۓ نعلبت کرے ہیں اور صنعت و حرفت پر چنتاد
گتی کے خاندانوں ی اجارہ داری ہو جاق'ے لیکن اس کے باجود سرمایہ دار عنت
کشوں کا تاج رہتا ے جب محنت کش طبقے میں اپنے حقوق کا شعور پیدا ہؤ جات
ہے :تو وہ کارخائوں پر قبشہ کر لیتے ہیں أور ”'حاضبوں ک' دولت غصب کر ی
جاق ے۔.؛؟' مارکسی روایتی مذہب کو قبول نہیں کرے۔ ان کے خیال میں آغاز
تار ہی سے مقتدر اور غالب طیقہ نذہب کو عوام پر اپنا تسلط قاتم کرۓ کے لیے
بطور ایک وسیلے کے استعال کرتا رہا ے ۔ وەکہتے ہی ںکہ قدیج زمانوں میں بادشاہ ملک
کا حا کم ہوۓ کے ساتھ بڑے. پروہت کا عہدہ بھی رکھتا تھا۔ مصر کے فراعین ؛
چین کے خاقان؛ ایران کے کسرعل روم کے قیصر زمی٘ن پر خذا وند خدا کہ نائب
ہوۓ کے مدعی تھے۔۔ ان کے خلاف بغاوت کو خدا وند خدا ۓے خلاف بغاوت قرار_
۔دیا جاتا تھا اس طرح مذہب کے طفیل سلاطین نۓ اپنا استبداد قائم. کیا۔ معبد اوز
ریاسٹ کا یہ اتحاد شاہیٰٔت کے غامے تک باق و برقرار رہا۔.
. سلاطین اور جاگیدازوں کے خاتمے پر بووژوا نے زمام اقتدار سنھالی تو انہون
ۓ بھی مذہب ہے یہی کام. لیا اور اس ی جی کھول کر سرہرستی کی ۔ مغرب کے
ساماجیوں ۓمشنریوں یق مدد سے آیشیا اور افریقہ کے مالک پر 7 قبض ہِکر لیا اور انھین
منڈیوں میں تبدیل کر دیا۔آج*بھی ہزاروں مشنر یىی یق تذہب کے پردے میں اپنے اپنے
ملک کے لیے جاسوسی کا کام کر رک ہیں۔ ۱
”ما رکس کا قول ہے ”تذہب عوام کے لیے افیون ے؟“۔ اس کے خیال میں مذہب ٠
کے باعث عوٰام فردوس بُریں کے تصور:میں مست اور مگن رہتے ہیں اور اس ژندق کو
غارضی اور حقیر جان کر اپنے حقوق کی پاسبانی سے غافل ہو جاے ہیں؛ اس طرح مذہبن
آن کے لیے ذہنی فرار کا سامان بن گیا ے۔ روژسہ کے آلام ومصائب. حرومی اور
افلاس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے اور اپنے توق کے 'حصول کے لیے عملی کشمکش
کمرنۓ کے بجاے وہ آُس تخیلاتی دنیا میں پناہ لیتے ہیں جو مذہب ے آت کے لیے بسا
رکھی۔ لے ء مازکس کہتا ے کہ جب عوام کو امی دنیا میں حقیقی مسرت میسر
آ جاۓ کی تو وہ ٢س خیا لی مسرت کی تلاش نہیں کریں گے جو مذہبن ان کے لیۓ
فراہم کرتا ے نتیجة مذہبِ, خود ود ہٹ جاۓ گا ۔ہما رکسی مذہب کو زمائہٴ
قدعم کے ایک عہوری 'دؤزرکی یادگار سمجنھتے ہیں ۔ اور غدا؛ روخ ور حیات بعد مات. ۱
اؤر حشر و:نشر کے منکر.ہیں ے :رح کی توجمم یہ کرے ہوٴے وہ کہ بِیٌ کہ غاروں
ُ
'١١( ط0ط 8٥٥ 01860095ہ۲م×2 ظ
۰ھ
کے ائسان کے خیالات یچگاند تھے ۔ اپی کم سوادی سے باعث جپ وہ حالت خواب
میں اپنے آپ کو اور اپنے دوستوں .کو چلئۓے پھرۓ دیکھتا تو خیال کرتا۔ کہ شاید
'آُس کے جسم کے اثدر کوئی ایسی شے بھی موجود ے چو حالت خواب میں گھومتی
سسیم پھرق ے جب کہ ۰س کا جسم غار میں دراز ہوتا ے۔ اسی شے کو اس نے روح
قرار دیا اور یہ تعبور پئدا ہوا کہ روخ جسم یا ثادِے ہے الگ بھی رہ سکتی ہے اور
غیں فانی بھی ہو سکی ے ۔ مہروزاژنائب ے انسان ےۓے آفتاب؛ چائد٤ تارزں وغیرہ
:کو بھی ارواح منسوبٴٗ کر دیں اور انیں ژندہ ہستیاں سمجھ کر ان ک پُوجا کرۓ
.لگا یں کثرت پرمنتی "کا ذور تھا؛ بعد میں اپنے قبائلی سرداروں کی طرح ان دیوتاؤت کا
بھی ایک سردار تسل کر لیا گیا جسے خذاوئد خدا کہنے ۔لگے ۔ اس کے ساتھ یں
.- تسوز بھی وایستہ تھا کہ دوسری اروا ى طرح خداوند خدا بھی کرد ومنزہ ے اور
آپنے وجود کے لیے مادۓ کا تاج نہیں ے ۔ جدلیاق ماذیت پسندوں کا کہنا ے کد ۔
'ارواح وو خدا کے تصورات انسانی ذہن کی تملیقات تھیں جنہیں بعد میں مافوق الفطرت
پستیاں تسلم -کر لیا گیا اور یہ عقیدہ بروعغا ہوا کہ وہ مادے سے ناوراء ہیں ۔
مارسی اخلاقیات کے سمجھۓے کے لے ثالیتِ پہندی کے دو پہلوؤں کی طرف
توجہ دلاتا بروری ہے :
0) 'مابعد الطبیعیاق : مادہٴ ذہن نی تخلیق ے۔
(م) 'اخلاق : دنیا میں چند نب العین ہیں جن کے حصول کی ہر بأشعور
شخص کوشش کرتا ےچ
جدلیاتی مادیت پسند ثثالیت ي مایعد الطبیعیات کو رد کر دیتے ہیں لیکن
نصب العینوں کے منکر نہیں ہیں۔ خود ]ن کا سب ہے بڑا نصب العین یں ے کہ
انساتی معاشرے سے معاشی نا انتصاق اور استحصال کا خاتمب کر دیا جاۓ۔ اس
نصپب العین کے حصول کے لیے لاجھوں اشتتالیوں ۓ جان و مال کی قریانیاں دی ہیں ۔
البتب وہ:اخلأق کو مذہب ہے وایستد نہیں کرتے۔ وہ ید نہیں سانتے کہ فلاں کام
کرنا چاپے کیوں کیہ کسی مافوق الفطرت ہستی بے اس کا حکم دیا ہے اور اس کے
معاوغے میں بہشت کی بشارت دی بے وہ کسی کام کو اس لے کرئا ضروری سمجھتے
ہیں کہ اس ہے معاشی ومعاشری عدل وانصاف کے قیام میں مدد ملتی ے۔ وہ اچھے ُ
. کاموں کا معاوضں جنت میں لیئے کے قائل تھی ہیں بلک اسی دنیا میں جنت یساۓ کے
مسر _- "آرژو مند ہیں ۔ آن کے ہاں اپنے کام کاٴمعیار معاشی انصباف کا قپام اور استحصال یالجر
کا اننداد ے۔ جس کام سے اس قیام یا انسدادِ میں مدد مائٌی ہے وہ اچھا ے اور جو
اس کوشش میں مزاحم ہوتا ے وہ برا ے ۔
مارکس اڑل و ابدی اخلاق قدروں کا قائل نہیں ہے ۔ اس کے خیال میں معائنی
۔ماحول کے بدل جانۓ سے أخلاق قدریں بھی بدل جاتی ہیں“ وہ کہتا ےکہ جاگیرداری
نظام میں ایسی۔قدریں صورت پزبر ہوف تھیں جو جاگیر د داروں کے مفادات کا حفظ :
کرقی تھیں۔ ما رکسی شریعت مؤسوی کے احکام عشرہ کی مثال دیتے ہیں حن میں ۔
٢ه
شخصی الاک کے تحفظ کی ۔تلقین ک گئی- ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح صنعتی
إانتلاب کے بعد جاگیں دارائہ نظام بعاشرہ کیٴ اخلاق قدریں ہدل. کی تھیں اھت طرح
اشتال ںی انقلاب نئے اخلاق کو جغ دے گا جو معاشی استحصال اوں یخصی. اہلاک کا
خامہ کر دے کا اور نت کش طبقے کے حقوق کا ضامن ہوگا ۔ آن کے خیال میں
روایتی اخلاق نظریاق اورماورائی ے إور ایک ایسے معاشرے ہے یادگار ے جس کی ”“
پنیاد نا انصا اور ظبقاق تفریق پر آٹھائی گئی تھی ۔ یہی وجہ ے کە زواتی اخلاق
اسٗ ٹا انصاف اور طبقاتی تفریق کا چواز پیش کر کے ذاق املاک کا تحفظ کرنا چاہتا
ے۔ مزید براں ما رکسی روایتی اخلاق, کو فردیت پر مبئٔی سمجھتے ہیں جو چند
افراد کے لیے تو نیک زندی گزارۓ کا باعث پن سکتا تھا لیکن اجتاعی, عدلِ وانصاف
کے قائم کرنۓ میں نا کام ثابت ہوا۔ چند افراد جے یی کی زندی گزارنے ہے. اجتاعی ج
ٹا انصاق کو دور نہیں کیا جا ہکتان ە
ما کسی معاشی انصاف کو سپ ہے با اخلاق ندب المین مانتے ہیں ۔ وہ کہتے
ہیں کہ جس معاشرے میں ہر شخص کی ضروریات بوجہ اح پوری ہوق رہیں ۔ اپنے
اور ببزي بچؤں کے مستقبل ہے متعلق کوئی خدشد ئہ ہو؛ آُس میں اجتاعی .احساس
حفظ پیدا ہو جاتا ے جو بدی کے حرکات کا خاتمہ کر دیتا سے اس معاشہرے کے
افراد کو وعظ و نصیحت کی احتیاج نہیں رہتی۔ دوسری طرف جؤ شخض افلاس و
سمکنت کا شکار ہو جس کی ابتدائی ضروریات پوری تہ ہوق ہوں“ جسے اپنی بیوی یچوں
کے سمتقبل کا غم کھاۓ جا رہا سے وعظ و تصیحت یا توکل و قناعت کا درس
بدی کے ارتکاب ہے باز نہیں رکھ سکتام گویا مارکسی اخلاقیات میں معاشی اور
اخلاقیاق مسائل یا معاشی اور اخلاق۔نصب الیین باہم دگر وابستہ ہیں۔ مارکسیوں
کا عقیدہ ے کہ اخلاق حاسن ]سی صورت میں پنپ سکتے ہیں جب معاشی انصاف
عما قائم کر دیا جاۓ۔ ہس
مارکسی کہتے ہیں کہ زولسّی اخلاق کی بتیاد ےسا کرد رکون
گئی ہے جب کہ اخلاقیات کا نصب.العین افراد کا حظ نہیں سے بلکد معاشی انصافِ
کا قیام ہے جس سے " تمام لوگ حظ ومسرت سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ ما رکسی کہتے
ہیں کم اشتا ی معاشرے کا اتخلاق قدیيم اخلإق کی طرح مابعد الطبیعیاتی ماورائی یا
۔تنثالیاتی نہیں ہوگا بلکه عملی اوڑٔ معزوضی ہوگا ۔ ِ
سمارکسیوں کا عقیذہ بے کہ مثا ی فرد مثالی, معاشرنۓ کو قائم تهیں کر سکتا بلک ہے
مثالی معاشرہ مثا لی .افراد کو جنم دیتا ے ۔ آنڈس ہکسلے' ۓ مارکسیوں پر اعترافی “”“
کیا ے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر قسم کے وسا ل کو جائز سمجھتے ہیں ۔
اس کے'جواب میں ما رکسنی کہتے ہیں کہ.نظرے اور عمەل کی تقزیق کی طرح مقصد
اور وسیلے کی تفریق بھی ے معنی ہے دونوں ایک دوسرے ہے جدا کہیں ہیں پلک ۔
۰ .عصوەلل قصد ج-- )١(
-.
۴۳ھ"'ٔ
سمل کر اکائی بناے ہیں ۔
جہاں تک آرٹ اور اذبیات کا تعلق ے مارکمیوں ے غیال میں پیداوار کے
علایق سیاسی؛ عمرائی آور عقلیاق اعال کی طرح جالیاتی فعلیت کو بھی معین کرے
ہیں اور صداقت اور خیر کی طرح جال کی قدر کو بھی اضاف مانتے ہیں۔ آن کا ادعا .چ:
کہ جب یہ کہا جاۓ کہ آرٹ زندگی کے لیے ے تو اس کا۔ مطلب جیسا کہ ان کے
معترضین کہتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ آرٹ مقصدی ے ۔ اس کا مطلب یہ ے کہ آرٹہ
زندگی کے معروضی احوال کی پیداوار ے۔ معروضی زندگی آرٹ کو جنم دیتی ے اس
لیے آرٹ بھی زندی کو تقویت بخشتا ہے - فن کار پر یہ لازم نہیں آتا کہ وہ شعوری
سطح پر چند واضح مقاصد ہن میں رکھ کر کوئی نظم کے یا ناول لکھے۔ جب اس
کی نظم یا ناول کک جڑیں حقیقتاً 'بھوری زمین“ میں پیوست ہوں گی تو وہ زندگ کا
ایک شگفتد مو بن کر ممودار ہوگا جس طرح پھول زمین سے اپنا رنگ روپ لے کر
کھلتا ے ۔ ایسا میں ہوتا کہ وہ خاک سے ے رنگ آگتا سے اور بعد ہی اس کی
پتیوں پر گلکاری کی جاق ہے ۔ انجلس نے کہا سے ى ---
'”مصنف کے ذاتی نقظہٴ نظر کا اظہار جتنا خفی ہوگا ااب و فن کے لے اتنا ہی
مفید ہوگات)؛ . ٠
مارکسی اقدین آدب قرائسیسی جالیٹین کے نعرے آٴآرٹ براۓ آرٹ“ کے قائل
نہیں ہیں اور اسے مریضائہ جال پرستی کا کرشمہ سمجھتۓ ہیں جو موضوعیت او وٴقردیت
کے دامن میں پرورش پاتی ے ۔ ان کے عیال میں آرٹ زندگی کے لیے ے کیوٹکہ اس
کی اساس زندق ے۔ بتولَ فرانز سھرنگ مازکس آرٹ: براۓ آرٹ کا حالف تھا اور
اد و ئن میں حثیقت نگاری کو اہم سمُجھتا تھا ۔ اہے _سروانٹیز اور بالڈاک جہے
حقیقت نکار پسند تھے ۔
سسیر مارکسی ثاقدین فن کہتے ہیں کہ ذاتی املاک کے سلبی تصور نے جس تابوچیانہ
خود غرضی کو فروغ دیا اس نۓ ادب و فن میں موضوعیت اور داعلیت کا روپ دمار
لیا ۔ جس طرح ایک سرمایە دار ڈاتی متقعت پر معاشرے کی پہود کو قَرِان کر دیتا
ے اسی طرح ایک موضوعیت پسند قن کار اپنی ترگمیت اور دروں بیی کے باعثٴ
زندگ کے جاندار تقاضوں اور ائسات ذوستی کی قذروں سے قطع نظر کر لیتا ے۔ وہ
کہتے ہیں کہ سرماید دارانہ ماحول میں معلمین اخلاق ؟ فلاسفہ اور سیاست دانوں کے ب٠
افکار و نظریات کی طرح ئن کار اور ادیب کا نقطہ“* نظر بھی مسخ وو جاتا ے۔ اس کا
آحساسنْ میں اور اس کی نگاہ کچ ہو جاق ے اس لے زندگی ہے براہ زاست موضوع
لین ی بجاۓ وہ اپنے دل میں غوطہ زی کرتا ے ۔ اس کے الجھے ہوۓ خیآلات اور
میضائد احساسات کو سادہ اور سلیس اساوب بیان میسر نہی آسکتا اس لیے اس کا
طرز بِان بھی گنجالک ہو جاتا ے اور وہ انے رمزیت ؛ یا تجریدی آرٹ کہء کر اپنی
, کوتاہیوں کا جواؤ پیش کر ۓی کوشش کرتا ے۔- <
مارکسی کہتۓے ہیں کہ فن کار کک تخلیقات اسی صورت میں صحت مند ہو سکتی
د
یں۔کت
ہیں-حسد یق زع سو بل مقر هو زندق بسر کر رہا ہو اور اس کے أُحساسات
ہیں وہی فطری ثگفتگٴ اور تارق ہو جو نھار ی کلیوف میں ہوق ہے۔ صحت من
ِ معاشرے ہی میں انسان دوستی کی قدریں پنپ سکتی ہیں“ طالسطاقٰ کی طرخ مارکسیوں
کے غیال میں آرٹ کا منصب زیادہ سے زیادہ لوگوتق کو ہسرت: کا لمامأن بھم پپنچاٹا۔ ہے
ے۔چی سیب سے کہ اشتالی مالک میں لوک گیتوںِ اور لوک ناچوں کو روز اازوں
مقبُولیت حاصل ہو رہی ے۔ _ >۔
مارکسی نائدین ہے کہا جال کہ چاگیرداروں کے نام سرت ۓ جومعاشی
ا انصاق پر مبنی تھا دنیا ک بعش عظیم ترین ن کار اور ادیب پیدا کے تھے تو وم
جواب دیتے ہیں کم ان ژمانوں کا عظم آرگث زوال پذیر معاشرے میں تضادات کی
پیداوار ے چیسا کہ اٹیسویں صدی کے ژوال پذیر معاشرے نے کوئٹۓ اور شلر کو یب
. پیدا کیا جن کا آرٹ معاصر زوال پذیر قدروں کے خلاف بغاوت کی نشان دہی کرتا
. نے مارکتی جدلیاتی مادیت کو: ایک انقلایی چڈیں سمجھتے ہیں ۔ لیتن کا قول ے :
”انقلابی نظطرے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک بارور نہیں ہو سکتی؟“
طبقاق کشمکش جدلیاتی مادیت کی ایک صورت ہے جس کے تین تمایاں چلو ہیں ۔
ر۔ اقتصادی کشمکش ۔ م۔ سیاسی کشمکش ۔ س- نظریاق کشمکش ۔ ان سب کا
آپس میں گہرا تعلق ے اور ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔
جدلیاتی مادیت پسندوں کے خیال میں افراد کی اصلاح کی کوششیں بیکار ہیں دوہ
کہ ہیں کہ فردی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ معاشرے کی اصلاح نہ ی
جاۓے۔ دوسرے الفاظ میں قرد کو بدلنے کے لے اس اقتصادی ماحول کو بدلتا
ضروری ہے جس کے سامچے میں وہ ڈھلتا ہے ۔ ائیلس کا قول ہے :
ائٹجل میں رہنے والا اور جھونپڑے میں رہنے والا مختلف طریقوں نے
سوچتے ہیں۔ا٤ ٠“ پ کے
گویا جب, تک چھونپڑے .میں رہتے والے کو بحل میں یا حل میں رہنے والے
کو جھونپڑے میں نہیں رکھا جاۓ گا اس کے سوچنے کے انداز اور طرژ احساس کو
بدلا نہیں جا سکتا ۔ جن ارباب فکر نۓ جدلیاتی مادیت کی تشرج و توضیح کی یا نئےحالات
میں اس کيی آنئے مُرے سے ترجانی کک آن میں سے لینن کا ذ کر ہو چک ے جس نے
جدید طبیعات کے .انکشافات ک5 یی روشنی میں جدلیاتی مادیت کے اصولؤں کی صداقت واضح
کی ۔ اس کے علاوہ ان ےساصاجی دوز میں تحریک انقلاب کی نئی تی راہیں متعج_..۔
کیں۔ یاد رے کم مارکیئ کے. زماتے میں تجاری اور اقتصادی سامراج. کہ نقوش :
ہوری طٰر نہیں ابھرے تھے ۔ وہ تارق آزادہ روی کا دور تھا اس لے قدرتاً مارکس
سے معاشرے کے قوائین کیا. قنشخص مد کر شنکا.ب چنانچہ .اس کا نظریه تھا کم :
اشتإلی انقلاب دنیا بھر کے ترق یافتہ یورژوا الک میں .یہ یک وقت برپا ہوگاےّ ما زکس ٠
_. کىموت کے بعد جب سرمایہ دازیٴ نظام نۓ تنزل ”پذیر ججازحائہ ساماج ک صورت اختیار
٭ یتو بدلتے ہوۓ احوال کی'زوشنی مین لینن ى اور سٹالن نے یہ تظریم پی ش کیا کم اتی
رھ
رت
انقلابِ کسی ایک ملک میں بھی وا اہو سکتا سے ۔ ۔ لیئن کی يد دین تمرالسی اور*
ادوسرے۔ “قداستاً-پسند اثتمالیوں کے نظزیات پر تاہل قدر فتح کا درجہ ڑاکھتی ے ۔
ہو سس سس اسان جو سوویٹ روس میں لیٹن بے انام دی تھا ہ
اٹم ےچین کے سیاسی و و اقتصادقِ اجوال کا > معروٹی ار نظر سے چائزہ لے کر ایے
راس یا یہ چو اتا ا پڑادان قذوحات کے علاوہ بَاوے وک
ۓ جدلیاتی مَادیت کے نظرلے کی نے می ترجانی ک جو ببعض پُھلوؤنَ ٗ تعمیری
اور تخلیقی حیثیت رکھتی سے ۔ اس کہ دو مقالے ”عمل؟ اور ”تضاد' نہایت پر مغز ہیں
جن سے ماوڑۓ تنگ کی فطانت اور ژرف پیی کا ثہوت ملتا ے ۔
عمل؟ میں ىاؤ نظریمٴ علم سے بث کرٹا ے ۔ وہ کہتا ے کہ عل مک وکسی ٴ
صورت میں بھی عمل ہے جا نہیں کیا جا سکتا ۔ عمل بہر صورت علم سے مقدم ہے
کہ عمل کے پغیر علم من الحصول نہین سے لہڈا ماورائی علم یا ماورائی منداقت کا
کوئی وجود نہیں سے ۔ نظریہ عمل عمل پر می ہوتا ے اس لیے عمل ہی علمی صداقت .
کا واحد معیاز ے ۔.دوسرے الفاظ میں معقولات کبھی بھی حسوسات و مدرکات ہے
علٰیحدہ یا ماورا نین ہوے بلکہ حسوسات و مدرکات ہی سے اخذ کے جاتے ہیں ۔
اسان حسوسّات و مدرکات ہی سے ثتائچ کا آستخراج کرکے منطقی علم یاء معتولات
تک پہنچتا ے ۔ محسوسات علم کا ابتدائیِ درجم ہیں چب کب منطقی نتائم علم کا۔
بلند ترین مقام ہیں ۔ ماؤ کہتا کہ حقائق کے برآہ راست مشاہدے اور تحہرے سے علم
حاصل ہوتا ہے ۔ اس نے علم کک دو۔قسمیں گنائی ہیں ۔ کسی شے کا بالوابطہ علم
اوز کسی شے کا بلا واسطہ علم ۔ وہ کت ے کہ ف الحقیقت بالوانطہ علم بھی
پلا وا۔طہ علم ہی ہوتاٴے کیوں کہ لع کسی کسی ے اپے معاہدیے ے
تی حاصل کیا ہوتا سے ۔ نمثا ایک شخصْٴۓ افریقہ کے جنکلوں کے چشم دیذ
حالات لکھے ہیں ہیں جنھیں پڑہ کر ہمیں'ان جكُون کا بالواسطد علم ہوتا ےے لیکن اس
سیاخ کے سشاہدے کی وعایت ہے یں بھی بلا واٌسطہ علم سمجھا جاۓ گا ۔ ماؤزڑے تنگ
کے خیال میں علم معروضی عالم کے اس ادراک ہے حاصل ہوتا ے جو ہم اپنی
حسیات کے واسطنی سے کرتے ہیں گویا”علمم کا پہلا مرحلہ یں ہے کہ انسان اپنی
حسیات. سے خارجی عالم کا ادزاک کرڑتاٴ ہے ۔ دوسرا محلم یی ے کہ وہ انے
س_مارکات: کم نئے سرے سے قرب دیتا ۓے اوز ان سے منطتی ناج کا اسحتظر راج کرتا ۰
ہے۔۔ یں معقولات کا درجہ رے ۔ ما کہتا ے کہ سچے مدرکات ہی صحیح مغعقولات
کی بنیاد بن سکتے ہیں جو شنخص یب کہتا ے کہ معقولات کا ادراک پبغیں حسیاتِ کے۔
٠ واسظے کے ممکن ے وہ مثالیت پسند ےہ اورجس کا ادغایںہ ے کہ صرف عتل استدلألیق
سۓ ہی حقیقت کا علمنہو سکتا سے جب۔ کہ مدرکات :اس میں اکام رہتے ہیں وہ
٥ زی
۵
۰
عقلیت پرست ے ۔ یہ لوگ اس بات کو فرامو شکر دیتےپیں کہ مسبوسات پھر صورت
معتولات سے مقدم ہوے ہیں اور معقولات کا استفراج مجسوسات کے واسطے ہی ہے
مکن ہو سکتا ے ۔ 1 ۲ ین ہے
ماؤزے تنگ کا عقیدہ ےٴ کہ ایگ نلیا مادیت پسند کا حول علم کا لے
. عقولات کے استخراج پر ختم نہیں ہو جاتا۔ ی وہٗ کنھتا ے کہ جدلیاتی مادیت کا کاء”“
بھی نہیں ے کہ معروضی عالم کے قواینَ کو سمجھ کر اس کی تشرب کی جاۓ بلک
ان قوائین کی عملی تعییر ۓ عالم کو تہبیل کرٹا بھی ہچ ۔ یہ خیال ظاہرا مارکس
سے ىاخوذ ے ۔ پا ہر
ماؤکے مقالے ”تضاد“' ما آغاز بورژوا نغائرے کے نظریہ*ارتقا کے ڈکر ہے ہوتا
ہے ۔ ماؤ کہتا ے کہ ایک عالم مابلد الطبیعیات کی طرح ایک ارتقائیت پسند بھی ے_
دلیا کو چاہد اور اص بوط اشیاء کا پجموعب سمجھتا ہے ۔ اس کے خیال میں اشیاء
روز ازل سے اپّی اصل شکل وصورت میں موجود ہیں ءال میں تبدین صرف کمیت
ہک ہوق ہے یعنی وہ گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں ۔ اس قبدیِلی کا سبب اشیا کے اندرون
میں نہیں ہوتا بلک خازج میں ہوتا بےٴ نیز کوئی شے کسی دوسری شے میں تیبیل.
نہیں ہو سی ۔ اس ہے وہ یہ ختیجد اخ کرۓ ہیں کہ آقا اور غلام یا سرمایہ دار اور
نت کش کی تقزیق بھی 'ازل سے 'موجود ہے اور ابد تک رہ گی۔ ۔ معاشرے کی
تبدیلیوں کو وہ جغرافیائی ماحول یا خارجیٰ اسیاب ہی سے متسوب: کرے بن ۔
علاۓ ارتقاء اشیاء میں کیفیّت کا سب نہیں بتا سکتے نہ پں بتاۓ ہیں کہ فطرت کے
اعال تبدیل ہو کر اپنی اِصل ٴصورت سے ختلف صوُرت کیسے اختیار کر لیت ہیں ۔
اس کے بر عکس جذلیاق مادیت کا ادعا یة نے کہ اشیا کی تبدیٹی کا راز ان کے اندرون.
میں سے جہاں اضداد کی پیکار جازی رہتی ہے ۔ یہی پیکار حرکت کا سیب بھی سے
نباتات“حیوانات۔ یا انسان کے اندرون میں جو تبدیلی ہریق ہے وہ کمیت کی وو داد
کیقیت کی بھر صورت قاخل تضاد کے باث ہی واقع ہوٹی ہے ۔ اسی طرح معاشرے
کت یلیاں ہوق تی ذاخلی تضاد کے باعث ”ہوق ے اور یہی تغیاد ختلف
طبقات کے تصادم کا باعث ہوتا ے۔ جدلیاق مادیت پسند خارجی اسباب و حرکات ی
اہمیت کوتسلیم کرے ہیں اور کہتے ہیں کہ خارجی اسباب تبدیلی کی شرائط ہیں
جب کہ داخلی اسباب کو تبدیلی کی بنیاد سمجھا جا سکتا ے ۔, رر
ماؤزے تنگ کے خیال میں ہر شے میں آفاق و انفرادی تضاد کا اجتاع ہوتا سیںلم
اس لیے کسی شے کا مطالعہ ,کرۓ وقت ضروری ے کہ اس کے داخل ہیں جو
آفاقی و,انفرادی تضاد عمل میں آیا ے ۔ اس کا مطالعہ دونوں کے باہمی عمل وٴردعبل
سے کیا جاۓ ۔ تضاد کی آفاقبی اور انفرادیت کے ماہین جو رابطِہ ے وہی تضاد کے
عوامی و خصوصی پہلوؤں کے مابین بھی ے ۔ اول ال کر ہے اس کا مطلب یہ ے.
ى×ڈس×سوسہم
(1) حمناءنكیدہ) ۱ہ
3 ۱ . ۵٦
۱ کہ ممام فطرتی اعال میں تضاد موجود ے ۔ حرکت ۔ اشیا ۔ اعال ۔ فکر مام تضادات
ہیں ۔ تضاد کا انکار ہر شے کا انکار سے ۔:ماؤکا کہنا :ہے کہ ارتقاء کے ہر مصرحلے
پر صرف ایک ہی ممایاں تضاد ہوتا سے جو موثر و کار فرما ہوتا سے ۔ اس کے مقابلے
__ہیں دوسرے تضادات مانوی درجہ رکھتے ہیں ۔ پہلے اس ہایاں اور بڑے تضاد کا
کھوج لگانا ضروری ہے ۔ مث9 مار کس کے زماۓ میں بھی ہەیشہ کی طرح آفاق و
انفرادی تضادات موجود تھے .لیکن مار کس ۓ معاشرے میں بورژوا اور پرولتازی
کے ممایاں تضاد کا کھوج لگایا اجس سے طبقاتی کشمکش کہ خد وخال وافح ہو گے ٰ
اور عمل ارتقاء کو'تقویت ہم پہنچی ۔ 2
ہہ ؛
سم مہ
ت اوز ناؤزے تنگ۔کے غلاوہ تچرچنکی راعاد سا
__.سٹینک ۔ ایڈو زاٹسی - کا" ڈول وغیرہ'نۓ بھی جدلیاٰ مادیت ی تدرج و ترجانی کی ن
تد مادیت کو غشنِ انقلابی فلسفہٴہنی نہیں سُجھا جاتا بلک
اے باقاعدہ سائنس کا درجہ دے دیا گیا سے ۔ .٭
سلدم
م 5
ا
۴+ م ۱
لہ 9 2 ۷
۰ 7 گی ۰
ہہ ہدکے پچ ۹ او ۲ ٭ پچ
نت سر ہیا ا اق “
یْ 8 5 ِ- 5ے د -
2 - ےج انت وا ےا
و ہہ 1< - ۹
۳ َ ش ٭
7 ۳ ہ اپ9پؤوپیسےےم 2 یع یک
2 ا ۵ ٠ ۰ 7 رہ
کی 7 4 ر ٭ 7 ہے
3ظ ر نے ہل
5 نس 7 - 2
- 8 7
پا ٴ یا ۴ یں سی بس چو عد
٠“ بی
ے 7
سے٭ 9 دے ٭+ ۸
0 7۲ 1 ۴
۹ ہ
ہے ۳ ج ۳ و 0و ا 1 ہہ
سد ٦ 2 ۰" ک3 ۴
- بے - می چ7 ک - وک -
سے 8 اف - --
1 : -
۰٠ 7 2 3 ہم ۓے ۲م '
3 7 کی َ ح ٠ - ہس ۔ 2 7
تہسرہىر .-- 5
5 نا پ 3 7
.- 4 |۔ تا 2 ہت ۔- ك ا
۷د “> ۳ یا بڑی 7 و نے ہد ۰ 7
> 1 0 ۶ 5 7
ا کال کے بی ھ2 ۰- ٤ کو ےی :
07 ہے سپ ہے ۱٢ ہہ حر ئے ۰- ثَ
:2 7 کہ + 2 ۰
یی
.2 ج3۰ ٤ ٭ گی
7 7 کو گی و 1 - 2 :7 2 ۴
ںہ 7 ا ٭ ئل 5ی
بت 7 یت 8 85 “۰ ٦ سے
0ئ ا : ہے ڈ یگ
ا می ی٭ 2ھ
رظ جع ا وی رپ ٭ لے 2 د ود4
٠ ۰ ۹ نم ۸ہ عہ <>
۰ کیا کو ھا یی ں سخ یی لی د کگے) و کان
یمسر َ2 ْ
اھ
ےت 1 یت
ہہ ہے سے مات
ے7 نچ ہہ ہے
مھ . ۸ جحمہ ھم
ہی ہی ہہ کر ہ 1 ج محمد لے ےھ
۲ ۰ 7 5 . سا 7
جح ہہ 3 پت ۴
۹ ۰ ما
ہے ۹ -٦ ہ مم طدعی ُ َ 7 پسڑے ہت
. ا ا حم ا -
وت ا را پک کے یک ہکےہ می؟ سے کجسے
ہس ۔ مہ ےب ' پچ رہا!. : سی
7 موجودیت پسندی:
ہیگل کے لظام فکر میں جرمنوں کی مثالیت اق عروج کمو پنج گئی تو اس
کہ غلاف.شدید رد عمل ہوا جس کے ترجإنوں میں ہر بارٹ پر ولم جیمز۔ ۔ فوئر باخ <
کارل مارکس اور کیرک گرد ےۓ سستقل مکاتب فکر ي بنیادیں رکھیں, ۔ کیرک گرد
کو عم اور ے موجودیت کا ہائی سمجھا جاتا ۓے لیکن اس کے بش افتاری پیش :”“
قیاسی پاسکل ےک تھی جو روہن کیتھولک ھا : .
پاسکل (۱۹+۳ - ۲٦٦۱ع) بن بین ہی سن ثبایت ذہین و ڈی تھا'۔ اس نے کسی
مکتب میں باقاعدہ تعلم نہیں ہائی تھی لیکن طبیعیات اور ریاضی میں سائنس دان بھی
اس کی غیر معمولی قابلیت کے معترف تھے ۔ جساق ئحاظ سے وہ نحیف و نزار تھا اور
ساری عمر گوناں گوں امراض کا شکار رہا ۔ اس کے ساتمٴعشق ناکام کی تلخیوں ۓ
اسے عذاب ناک جذباق کشمکش میں سبتلا کر دیا ۔ آخر اس تۓ سائنس کو ترک
کرکے مذہب کے دامن میں پناہ لی اور باق مائدہ ععر علم کلام کی نذر کر دی ۔
وہ کہتا تھا کہ اِنستان خدا ہے علیٔحدہ ہ وکر روحانی اذیت کا شکار ہو جاتا ے اور آسے
خدا ہے براہ راست رابطہ پیدا کرۓ ہی سے سکون میسر آ سکتا ے ۔ وہ آ گسٹائن
وی کے اس نظررے کا قائل تھا کہ آدم کے گناہ ے ہمیشہ کے لیے انسانی قدر و اختیار
کا خاتمب کر دیا نے اور مبات صرف جناب مسیح کی شفاعت ہی سے ممکن ہو سکیں__
ہے ۔ رفتہ رفتد پاسکل عشق مسیح میں فنا ہو کر رہ گیا اور ترک علائق کرکے
ژاویہ نشین ہوگیا ۔ اس زماۓ میں وہ لوے کا ایک خار دار لنگوٹ پہٹا کرتا تھا ۔
جب کبھی اس کی طبیعت ہوا و ہوس کی طرف مائل ہوق تو وہ اس کے خاروں کو
. اپنے بدن میں چبھو چبھو کر اپے آپ کو لہو لہان کر لیتا ۔ وہ خصوصیات جن کی
بتا پر اسے موجودیت پسندوں کا پیش رو کہا جاتا ے مندرجہ ذیل ہیں :
() عقل و خرد حتیقت کو تہیں پا سکتی کیوں کہ عقل و خرد جذیہ و بل _
کے رحم دکرم پر ہوتی ہے۔
٭ صدناەناء ا :ذظ کا ترجمہ بعض لوگوں ے وجودیت ےکی ے جو صحیح نہیں.
ہے۔ وجوہ مز کا ترجمہ ہے ۔ باب اذ کا ترجمہ ''موجود“ ے ۔ مزید براں
محوخت سے بارے بہان فحدت الوجود یا بسد اوست ماد ہے ۔ - جو صوفیہ اس نظرے :
کے قائل ہوۓ ہیں انھیں وجودی یا وجودیہ کہا گیا یا بے ۔
۸۰ہ
(م) انسان ذہنی کرب می مہتلا ہے - اسی کرب کی حالت میں وہ صداقت
کوپاکاےت .ےک
(م) انمان اور فطرت میں کسی. قسمْ کی ہخآہنگ نہیں پائی جاتی ۔
' . سورین کیرک گرڈ ۵ ۔ سی ۳ نع .کو انارک کے شہر کون ہاگن میں پیدا
-_ ہوا۔ اس کا باپ مائیکل کیرک گرد (+۵ء ١ع ى×۱۸۳۸ع) جٹ لینڈ کے 'ایک کوردہ
کا رہۓ والا کسان تھا جس کا لڑکپن نہایت تنگ دستی میں گزرا تھا۔ کئی برس
تک وہ ڈھور ڈنگر چرا کر اپنا پیٹ پالتا رہا اور جاڑے کے برتبار طوفانوں ی کڑیاں :
جھیلتا رہا ۔ بارہ سال کی عمر میں وہ اپنے ایک ماموں کے یہاں کوہن ہاگن چلا گیا
جہاں اس تے محنت کرکے علخ کی تحصبینل کئ۔ اىساع حالأات کے خلاف طویل اور صبر
آزما کشمکش کے بعد اس ۓ کپڑے کے کارویار مین زوپید کیا ۔ چالیس برس کی عمر
سیب ئن وہ کاروبار سے دست کن ہو گیا اور یاقیمائدہ عمر قارغ الپالی میں بسری ۔
سورین کیرک گرد کی ماں ا کے اپ کی دوسری بیوی تھی جو: اص کی پہلی بیوی کی
نلازىہ تھی ۔ بیوی کی وت پر مائیکل کیرک گرد ۓ نو ععر ملازمہ سے بەہ جیر
عتلاِط کیا ا نل وہ حاملہ ہ وگئی تو ام سے کاحٌ کر لیا ۔ سورین نۓ ماف'باپ
کی یہ لغزش ساری عمر معافم نہیں کی اس کی تمریروں اور زوڑتانچے میں کہیں بھی -
اس کی ماں تا کر نہیں ملتا ۔ وہ اپنے مآن باپ کا سب سض چھوٹا بچہ تھا ۔ جب اس
کہ بڑے بھائی عین عالم شباب میں یکے بعد دیگرے سس گئۓے تو سورین کا ٴیں عقیدہ
اور بھی یپتە ہو گیا کہ اس کے والدین کے گناہ ی پّادای میں سارا کت تباہ ہو
جاۓ کا اور وہ اس وہم میں مبتلا ہو گیا کہ وہ بھی جوان ہی مس جاۓ گا: ۔ اور باپ
کی سوت سے پہلے مرے گا۔ وہ جا پچا لکھتا سے کہ میں چوٹنیس برس کی عمر پا کر
سی جاؤں گا۔ ٠ ۰ ۰
مائکل کیرک گرد کو و دلىی اور آفسردہ خاطری ک دورے پڑۓ تھے ۔
"-- ]نے ایے گناہ کا عدید اجساس تھا اور وہ خوف ردہ ررتا تھا کہ یوم عشر کو ]سک
شش نئیں ہ کی ۔ ۔ سُورین اپنے روز نامے میں لکھتا ے ۔ ۱
”میں شروع ہی سے اپنے باپ کے زیر اثر رہا۔ میرا باپ افمردہ خاطر رہتا
”تھا۔ جب کبھی وہ مجھے غم زدہ دیکھتا ت و کہا کرتا یسموغ مسیح ہے عبت
ا کرتۓ ربنا؟؟۔
5 وہ اپنے بیۓے کو جناب* “ىٔسیح کے مضائپ کی یاد دلّتا رہتا ۔ یتر مرگ پر اس
..._ نے بیٹے کے سام اپنے آس جرم کا۔اعتراف کیا جس کی پھاٹس عمر بھر آُس کہ لق و
جگر میں چبھتی رہی“تھی اور جس کے باعث وہ مراق مالیخولیاً کا شکار ہؤ گیا تھا٤“
آُس ےۓ سورىن کو بتایا کہ ایک دن لڑ کپن میں ڈھور چراتے ہوۓ اس نے ایک ٹیلے
' پر کھڑے ہو کر اور آسان ی طرف٢نگلی اٹھا آٹھا کر خدا پر لتن طعن ک تھی
اور آسے اپنے مصائب کا 3ے دار ٹھہرایا تھا۔ یلپ کے اس.اعتراف ہے سورین کو ایسا
جڈباتی صدمہ پہنچاِ کب وہ اہے ”بھونپال؟ ہے۔تعہیں کرتا ے ۔ اس کا سطلب اس تے
۹ھ
تہ
اوس سا۶ سے ہے۷ کر یھ اوز ود :اس حا
بھی اس لعنت کا سایہ منڈلا رہا تے ۔ روز ناٹھے میں کہتا:ے ۔ ظا
_”'وہ' شخص جس. کا بین ,چٹ الیندہ کے گھاس کے میدانوں, میں ڈھور چراے
' گزرا تھا اور جس ہے بھوک اوّز افلاس کے مصائب ۔جھیلے تھے اور ایک ٹیلے __.ر
پر کھڑے ہو کرخدا پر لعن طغن کی تھی بیاسی برس ک, عەر کا ہ وکر بھی _
اس بات کو قراموش تہ کر سا ۔ ۱ ئ0 :
پھر کہہتا سے ۔ : ۰
و میرے خاندان پر جزٔم ک َست تن پت خدا نے اسے لبون قرار
: .دے دی ے اور وہ اپنے قوی ہاتھوں سے سے ملیامیٹ کر دینا چاہتا ے “۔,
یا دہشت ٴآے باپ ہے اورّۓ میں ملی تھيی۔ اپنی مردہ دل اوراقمردہ خاطری __
کو چھپاے کو لے وہ طنزو تعریض کے کٹیلے. نشتروںِ سے کام لیتا تھاِ وہ کسی' ”
. عفل میں شریک ہوتا تو حاضرین پر ایسے چبھتۓ ہوۓ فقرے کستا تھا کہ وہ بلبلا
. آٹھۓ تھے ۔ اض کا ظار پر سکون تھا لیکن دل میں چذبات کا طوفان برہا رتا تھا ۔ اہنے
روز ناعچے میں لکتھا ے۔
ہے نے ''میں ابھی ابھی ایک شیافت ہے آ رہا ہوں جس ک روح و ران میں خود ہی
تھا۔ میزے ہر ماق پر لوگ مہہے لکاۓ تھے اور نجھے تجسس کی نکاہ
سے دیکھتے تھے::ا مین گھر لوٹا تو:میرا جی جی چاپا کہ میں اپنے آپ کو
- گولی ىار دؤں ۶۶ 4
- ہنس" اینڈڑسن'ۓ انی ایک کہانی میں ایک شیخی خور طوطے. کے کردا سم
کیرک کوّد کا خاکہ آڑایا ے اور اس کی تباعت کو جروح کر کیۓ والل درشت آواڑ ٤
زہرہلی طتز؛ فخریہ قہقیے اور بر عود غلط شیخی خوری کا نقشہ ثقشہ کھینچا ے۔,
ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو کر کیرک گرد د ینیات کا اختصاصی مطالعہکرتے لگا __-
آئے شروٰع ہی سے جرمنوں کی دیئیات ؛ مثالیت پسندی اور ج|لیات میںگہرا شغتٗ تھ۔
جرمنوں کی ذیبٰ نۓ سے روح کي گہرائیوں تک متاثر کیا تهَا۔ ڈاکٹریٹ کے لے
اض ۓ سقراط پر تحتیقی مقالد لکھا ۔ وہ قراط کس لے مذاح تھا کں ا بے ورہ
کے حق اور اس کی:شنخصیت کو معاشررے اور ریامت میں آولین اہمیت .دی تھی
کیرک کرد ی اخب خر اور یامیت ی:ایک جو وی تو تی کہ وو ایک
بل صورت “ لاغراندام کبڑا تھا۔ِت آونٹ:کیو طرح اس .کے جسم کی کاو کل بھی __
سیدعي نہیں ھی ۔ ے نوز آنکھیں طوطے جس نا ؛ ,پتلی, گردن؛ -میں۔ پر بڑھے
ہوۓے جھاڑ ہےَ بال: سوکھی اور لرزق ہو ٹانگیں ؛. ے ڈھمی چال۔ جب کوئی
شخص پہلی بار اسے چلتا ہوا دیکھ پاتا تو بے اختیار ۔ہنسں دیتا تھا۔ قدرت ۓ اس,
کی بد وضعی اور بد صورق کی تلاق غیرِ معمولی ذہائت سے کر دی تھی لیکن ھی
ذبانت آس کے لے بلاّۓ چان بھی بن گئي ؛ اور وہ جساق اور ذہنی لحاظ سۓ اپنے آپ
کو دوسزے لوکوں ہے' ختلف سمجھئے لگا۔ مریشائہ حساسیت کے باعث آس کی
وی
0”+
ا
>
ھا ب مقماقہ 18د لی ار آ مکالۂ ےی ہے رہ ےش تو کر طرت
حالتہگوئٹڑ کے الفاظ تیں ]اس شخص, جیٹی تق جص. رج گے بدن زرہ ابکٹز پہن
رزکھا :یو اور اس ی:کڑیائر: بن کے یدن ہیں:ابیوست ہو گی" ہوپ نو اکش کہا-
ک5 رتا تھا:''میں آدھا آدمی ہوں'' ۔ باپ کی موت کے بعد سے وہم ہو گیا کہ میں
بھی۔:چند ہیی رو زکا سان اون تنا غچہا زندق' ۔ سے حظ اندوز چوے ہے۔ سے آُس ۓ فسق
رر کی راہ اعتیارکی ۔ شراب ہیں دھمت ررنۓ لگا :اور پچ دریغرو ہی رج کی
5 مم مم عرنتیں۔وہ(اپک وخوب ضوزت دومیئی, زیجینل اولسن ہے” یتر کا دِ 2م بھرۓ
١ زدونوبک:بنگیٴ ہو گی لیکن یہ تعاقِ ایک و رس دینگی کے
در ہی+-3ن: وآ ہوچنۓ : لگا کہۃمیں ے غلظ قد آٹھایا ہجا۔ ہ 2 ۔منطتی ذین
لیٔے: قطع تعلق کا جؤاز“تلاش ر .کر نا کچھ سشکل نہیں تھارجچنانچو اس نا دو دلائل
نے اپٹا, غیمیں۔ مطمئن :کو' لیا ۔ ,ایک تو۔یہ ہداس کا اخلاق:فرض ہبۓے ۔کہ:وداپنی
عہویں۔ ۔ کےا :سامنےآ اپنیٰ رق وقجور-کا اعتززاف ؛ کریے اور آے تمام حالات ؛ پوست اگنام
بتا دنۓ:!الیکن'میں۔ نے ان لت بکنچھ بتانااچاہا بڈی مجھ یر اپنۓ ماں پاپ سے اپنے تعلق
کے:باراّے۔میی 'چند خوقناکِ حقایق یھی تانا۔ہؤں گے باؤر:اس<اتھاہ تازیک کا کن بھی :
مکزتازہوگا جو غیری:زوج کی گرائیوں میں بات گی ہی“ پھنکہتا .ہے نہ اامیریے“
(ندروت. ل/آواز,آئی!۔کیزاس لڑی نے“ ذستٰ کش بھ جاؤجی: تبمھاری زا ہاگ اس
بت و نے کم وہ اشہید یق الجھن؟“زییت چا بتادتھا یعنی اۓے:اسو۔ جات کا یقین
سی ت لف کی "قربایٴَ کے اج یداد دکمانگیا ےا۔ ”دوسری۔ دلیل وہ یہ“دیتا“
ود یک دے_ اس کا لڑکي ض کہسی۔ بات یر چھگڑا ہوگیا تو لڑکی سے کہا
میں یذ آکہرچیں ت٭0 کہ جھے 7 تم۔ ہے رحم: تا نے ۔) کیرک گرد
۔ - 5 جح ام
تے 2 پک ا ا
اک و نگ چچے رہ ستچچہ, 8 و 8 ین ف ىف 2 گطا جس ہی یں
7 ایک شریف اور غیور آذبی سب .کچھ رب ےا لی ایک بات
بے فاقابن ے- شت تاور ورے جے یحمئ” یہ سس ریہ ٦ پار.“
چنانچہ ۸۱ ۱ع میں اس نے ریجینا ۔ سے ے قطم تعلق کرلیا اس کی دی اف اکتزی
لوٹ ×دی اور اس لکھایں بآ عار رژ ”ج7 مث ھت ود 2
غاد اس شخص کی یقول جاؤ :چو ایک لڑی. ان کو:بھی بھی ڈوش نہ لک
قطع تعلق ہے پہلے ریجیٹا نے کیرک کرد ہے کہا تھااظاخ و چھوڑے عو
ہیں شرام بی ضں؛: جاؤں !گی کبرکاگرد لکوتاریما شرۃ و یہہ رہد ن'
بے کو تنا لئے مین قدمیں پ پر قتل۔کا بوجھ رکھ دنا تھا ۔؟“ ! ۔
بن ردیعك میں وہ اپ نے ؟ڈایٹاز .کو حضرت تا ابجی کی قربایک. مائل خمال کمرتے لگا -
ایک کتائین ٭یرق اور لرزش“ بق کہتا ہے۔ یھو جباب ابراوچ ”کا اپنے لیے کی, ۔قربانی
ندیئے پر آباد ہی نجانا:انشانی پھلو نیۓ, مروجۃ قائون واخلاق کے متاق تھا لیکن ۔حکم
ٌٰٔ))( چودی اور ممنجی روایات مین جناب ابراہم ے جناب أآ؟ کن
آزادہ کیا تھا نہ کہ جناب اسمعیل کی قرباتی کا ۔ ۰
ف0
"'ە٤
خداوندی کی تعەیل کا فرض ان سب پر غالب آ گیا ۔ جناب ابراہیم کی عظەت یہ تھی
کب آپٔ نے حکیم خداوئدی: کے .آگػے تمام موجہ قوائین کو-غیرباد کچ دی۔۔.
کیرک گرد کہتا سے کہ اس نے اہن دو میں دک آواز سن تھی جیی نے کہا
تھا 'اپنی منسوبەه کو چھوڑ د3'ٴ- می
ریینا سے قطع تعلق کے بعد کیرک گرد برلن چلا گیا اور مشہؤر مثالیت پسید'
قلہئی یلنگ کے لیکچر سنتا وہا لیکن وہ اس ہے چنداں متائز نہ ہُوا.۔ ہیگل, کے مطالعن
ے بھی ائے مایوس کیا اور و سوچتے لگا کس ۔کیوں د میں پا ۔مستقل فإبنفہ پیش”
کروں ساس کے فلسفے کا آغاز یون ہوا کے ای یک دت سہ پھز کو وہ کون ہا گن۔
کے فریڈرک باغ کے کیفے 'میں بیٹھا:سکار پی رہا.تھا آؤر سوچ رہا تھا کہ میرے تمام
دوستوں تۓے اپنی اپتی:زندی میں.کامیا ری حاصل کر ی سے ۔کوئی کاروبار کر رہا ۓے.
او کوئی تالیف و تعبٹیف میں مروف ے ۔ سکار ختم ہو گیا تو میں نے :دوسرا ہملگا
لیا اور جھے یہ بات سوجھی کہ دوسرے لوگ کانوں کو سہل اور آسان بنا رے ہیں
ایک ایسے آدمی ی بھی ضرورت ے جو کموں کو مشکل بناۓے. جیسا کہ ملقراط نۓے
کیا تھا ۔ ان مشکلات کی 'قلاش میں جھےٴ ہیں دور بھی نہیں جانا پڑے گا ن میں
کیوں نہ اپنی موجودگی کو اي کے سمام پرجوش جذبات ؛ تلخ انتیخابات :اور دردناک
ے نفسی کے ۔ناتھ اپنا۔مقدر بنا لوں ۔ اس طرح کیرک گرد ۓ اپنا فلسقہ پالیا:۔ سقراط
ایتھٹز والوں کے لیے '”'بڑ مکھی“ تھا اور انهی ۔سوچنے پر جبور کرتا_ رہتا تھا ۔
کیرک گرد عیسائیوں کے لیے ”'بڑمکھی؟“ کا کام کرتے پر آمادہ ہو گیا م۸ ؛ع
ہیں اس کی پہلی ضخم کتاب '''یا / یا“ شائع ہوئی ۔ اس کے علاوہ اس نے دو سال میں
آٹھ کتابیں لکھیں ۔ان ایام میں اس پر لکھتے ککا۔بھوت اس ٴبری طرح سؤار رہا کہ وہ
کھانا پینا آرام تفریج سب کچھ بھول گیا ۔ ایک ہماز اور یف آدمی کے لے اس طرح
ہے تناشا لکھے جانا بلاشبہ حیرت کا باشث ے ۔ وہ کہتا ۓے میں اس تیزی سے منوچتا
ہوں اور لکھتا ہوں کہ میرا کمزور جسم میرے طاقت ور ذہن کا ساتػ نہیں
دے سکتاے : ہ۔ -
”اك دنوں میں اس قدر لاغر تھا کہ کوی لند آواز ہے مبرا نام 7 پکارتا
تو میں س کر گر پڑتا۔ میری ٹانگیں کاأُنپنے لگیں اور میرے کھٹنوں کے
پٹھے کھچ .گے رت رت
ان کاب بوں میں جو قرضی ناسوں ہسۓ شانع ہوئیتھیں ال ہیات تکفلش؛ اعلاتیات
جالیات اور تقسیات کے سہات مساٹل پمیر مال ںی گئی ہیں ۔ برک کرد لے
“موجہ عیسائیت پڑ نقد لکھا تو پادری:اس کے خالف ہوگۓ اور اس ہے متاظرزے اور
جادلے کا بازار گرم کر دیا ۔ بشپ منسٹر نۓ اس کی چشم ممائی کی کہ تم تذہبی شعاثر
کا ادب نہیں کرتے۔ پادریوں ۓ رتائل اور اخباراتِ ہیں کیرک گرد کے خلاف مجاذ
3 س4 ۰
...۰ (() زرائقدەہ۔ پ_ . مك ,١٢ ب6خ
بچ 2
ہے
سب
-ْے
کرتاھا۔
قائم کر لیا اور اس کے خلاف معاندائہ مضامین چھہنے لگے ۔ کیرک گرد نے تن تٹپا__.
سب کا ڈٹ کز مُقابلہ کیا۔ چو مکھی لڑائی لڑتا رہا۔ اس ۓکایسا اور پادریوں کے اعإل
پر سختِ گرقت کی اور کہا کہ پادویوں ے مذہب“کو وج معآش کا ذریعہ بنا لیا_
ہے۔ وہ انہھیں ”'مردم خو را“ کہۓے لگا۔ ایک پرچے ”کارسیں“ کے ایڈیٹر ہی ۔ ایل ۔
ملر ۓ کیرک گیرد کی می ژندی پر سخٹ تنید کی اور اس کے غیالات و اعال کے
تضاد کی طرف توجہ دلائی مار کی طنزیە تحریروں کا اثر یہ ہوا کہ شہر کے عوام
کیرک گرد کو سڑی سودائیق سمجھۓ لگے ۔ ”کارسیر' میں اس کے سمضحکہ خیز کازٹون*"
شائم ہونۓ لگے جن میں اس کے کوب اور چال ڈھال کا اس سے رحمی سے مذاق اڈ ڑایا
گیا کہ کیرک گرد کے لیے گھر ہے باہر“نکلنا دشوار ہو گیا ۔ وہ گوشہٴ تدہائی میں
گھس کر بیٹھ گیا لیکن قلم ہے“ ترک بہ ترک جواب دیتا رہا۔ ۔ اس زماۓ میں وہ کہا
''میں ایک ایسا شپید ہوں جسے طعن و طز ّے قتل کیا گیا۔ ٤
مر ۓ کیرک گرد کی تالیف ”گناہ تر
طعن کا نشانہ بنایا ۔ اس کتاب میں کیرک گرد نے ریجیٹا سے ابی منگی توڑۓ یی
منطقیانہ عذر خواہی کی تھی ملر نۓ کہا انے اس بات کا کوئی حق تہیں تھا کہ وہ ایک
ے قصور لڑی کے جذبات سے کھیلئے کے یعد بغیر کسی معقول وجہ کے اہے دهتا بتا
دیتا اور پھر اپنے قبیح فعل کہ جوا میں منطق بگھارۓ لگتا۔ اسی بحث و جدل کے
دورآن ایک دن وہ گی میں جاتا ہوا دەژام سے گر پڑا ۔اس پر فالج گر گیا تھا ۔
کیرک گرد نے ١١ نومبر ۸۵۵ ۱ع ,کو ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ اس وقت اس ک
عمر بیالیس برس تھی صرثے سے پہلے اس نے کا سے ۱
وک اک وت . آدمی یی بیس سبت ایک مردے یی باتیں زیادہ غور سے
ف٠ ستیں گے -)؛
"بستر مرگ پز اس ہے کہا گیا کە آخری ۰-- رسوم کے ادا کرتےۓ کے لیے
کسی پادریٰ کو بل لیا جائۓ تو اس نے انکا رکز دیا او رکہا ۔
”ان سرکاری نوکروں کو عسائت ے واط ٠ ٤
لوگوں کا خیال تھا کہ کیرک گرد کے گر میں اس کے باپ کا چھوڑا ہوا اثائہ.
عفوظ ہوگا لیکن وہاں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی اس گے مہیز و تکفین کا خرچ بھی
بہ متشکل پوزا ہوا.۔
کیرک گرد کی تصائیف فلس غیانہ؛ مذپی ٴجالیاتی کل تینتالیس ہیں ۔ ۔ امس کی لن
ایم تالیف یاإیا ہے جس میں آس نے زندگی کے تین سراحْل گنائے ہیں چالیای ۔
اخلاقیاق اور مذہبیاتی ۔ وہ پاسکل کا بڑا نبیدائی تھا۔ یہ سراحل ہاسکل کے بیان کردہ
مراحل ابیقوری ۔ رواق اور مسیحی ے ماخوذ ہیں۔ ان ی شرح وہ تین کرداروں کے
حوالے سے کرتا ے۔ اس کے خیال مین جالیاتی نقظہ نظر کی ترجانی وہ عیش ہرست
-
ثوجوان کرتے ہیں چنہیں ڈان یوان کہا جاتاٴ ۓے ۔ یہ لوگ ہر وقت حظ ومسرت کی
"۳۴
ےم ہے ہپ کے ۰ َ1 ٌ
لَ کانخ“ اک کہ صہ ری یح ہد دہ رھ ےحح بن آفانا بے کے کے 7 ہا پا ب1 جئ
تلاش میں بھاإ کت وہر ہیں و نکی کک پر اہ سے لت باب ہوۓ کی کوٹش
کرتے ہماح اس غمن میں۔ یں کیرک ک و ے عوربوں کو گمراہ کرۓ والۓ کا ایک
کردار پیٹی کیا ے جس کا نام جوبنس ہے۔ چوینس۔ آیۃ یک نوجوان لڑک کو زار ما
کی ہیۓ یکا کے ا و ررش ا ہر بڑی سکتہے
متِسویم ہے۔ چوہشی کارڈیایاً کے کے اي کا اس“ بری طرع نا3 ڑا ہے ےگوہ
انی مشبوبں کی نظروں سے کر جا قِ ے۔ کازڈیلیا جوپشس کی طرفء مال ہو جا ہے
رم ینا کے مو گا یہ نی با یرھت رگ 6 سب 3 یل کیم
اور دوتوں کی مکی ہو جاتی: ہے ۔ چوس رواٹی ڈاِ یوان کی طع فوری ى ود ایہ
اىں سے مستفیض نہیں | ہوتا بلک لپ نچب يہ ہہ
×عے لہ وہ م ہر سا دخ نارەبت اج سے
کیا ہر
رف سم آزاد ہو۔ اس کے بعد وہ عجیب و غَریْب حاون ہ کے آسے کترام کون
ش کرتا رے۔ ان کی تفصیل ”عورتوں کو گمراہ کرۓ والے کا توڑ زی
بب ملتی بے سن میں چو خطوط جوپٹتی۔ سے کار یلا کو لکھے تھے وہ نہایت نفس
پرور ہیں ۔ کارڈی یی امن سے بہکاتے ت ا جات سے و ا کی
سی کے پا مات ری ریا م ےت
ْ ۱ جا
عرد چرس ا گے مر ےد اس ری سی
ہف سرعغ پارا میں اس کی شکل دیٹھتاب) بھی کواز خ یں کوتاے
٤
ٗ
ری کے
7 غوزت اپنے : پا رد کر کر دپی نے تو وہ 7 ہے جائی ۔ ہے اور اپتا
کے لم تی سس ود سرک اتی ام ومن ری
۲ خورت کاو جڑ تاس اس 3 انن امہ لن جاۓے ےک عد عورت ہے دس ہو
جا نے اوز وھ مثقاومت خی کر سک اجب 00711 کے کت
. ع1 ہوق ےچ چنیو قد كمم ہوا لن ُء لے تو باق و کا رد کا کروی 7
عادتہ! تی 3 چاپتا صط ا میں شا ا نا نا نام بھی لیا جاک ۔ آس ی
٤ شیو ضائع پوچی۔۔۔ اب میرے دل میں.آس کے لے کو :یں رہی“ -
جح عفن افقطم* نظ سیا اتجان لم ہے چو ڈاق زان کو راو زاشت ست آپز لاۓ
کے لیے آسے خطوط لکھتاآ رتا فا سے۔ وللم کی تغلم جا اس سی اسول یہ کم ڑا نی
را سے 1م ےا یھ چا
می معنویت آ٘س وقت پیدا دا ہوتقی پ2 ے جس جب فرد آپئے۔ افعالی' ڈے داری. پڈے جاور ید
قبول کر لیت الا سے وہ کڑتا. سے کے انا اخلاقیاق سیت خی ان سم مکنا جب ت
ت ۷ ہے بی ہا کْ مھ
کل و چالیاتی اور اخلاقیاقی” قمل فی ”توازن ئد“پَیٰدا کز لے“ ا سام پر اس نے
۔ یی
را
كوُدا ہے براہ راست قلبی و روحاقی رازطہ پیدا کرئے کے لیے پیلے' دی مےاجل یعنی
لیا اور اخلاقیاق سے دنت کی ”ہو جاتا ےہر "ایک او رکتاپ ”زندی کے
5 بی ٦ یڈ پت مہ
مرآحل' میں ا بھی اس نے ان بوضوغ پر پر اظہاز واٌے کیا ہے۔ .اس میں میں کرک وج
3 ۔ با ا ۴ عع ریہ ہی سی 2 تہ
کے زیت لسن سے ابٹی. سیت کا تجزید تھی کیا ہے ۔۔ اض کتاب میں وہ ری لفظ
وہ کے ڑا سج زکے کعاعے مو ںں۔:
و موبزد ہے جوف وق سے وت کرک کرد ابی سد کو وی ہیں
ہے م ہم
اس مین عذر خواہی کراے“ ہوۓ وہ کہتا سے کہ میں اس“ قدر غمزتدہ دہ تھا کے رّینا
١ ج
سا
قدون إِطیفہ کی اہمیت ,واضح کی .ے ۔ ۔ مذہبی مرحلے کا بھائیدہ جو پش اق ٹی یکس لے
ز
شادیکرکآے بھی خوشی سے حروم نہیں کرنا چاہتات تھا۔ ۔ انی ام زدگی کا ہب
ساس نے پھاو ہیں چیھے ہو کانٹے ؛ کوقراں دیا ے۔ کوک گرلڈے کے سواغخ نکار
رج تک اس وو یم ےی ہوئے ۔کانٹے ى نغان دہی لہیں کو ہے ۔ عق کا قیاس
کت کی آ اس سے کو بھیاتک چتسیاقِ نے رای رو سرد ہو تھی ٍ دوسرے
پک یک 2 ےیے ریجتے
٠
سی ہے : ۱ کا ملاک ۶ پت 2 7
ا ہو کید کے پا جا سے ا ےپ 6ه کا سا اع ۷ لک کیا تھا!
د کی ایک اور اہم کتاب دنت کاتصوراد پر سے جس میں اس نے
٥ِ تک اق اور نلیمال یکا ۔ وہ دہشت اور خوف ہیں . قرق کرتا ہے ۔
"اور پتا ہے ,کہ خوف توکسی کسی شے یافرد کا ہوتا ے لیکن دہشت کسی کحاص
۔ شے یا شخص ہے واہستا ریت ہوتی۔ بلکم آژادی عبل کی ہ پیداآوار ےے یعٹی. جو اسان .
. آزادانہعُمل کرۓ کا تھيە کر لیتااے وہ دہشت:کا شکار ہو جات ے۔ دہشت شروع
ہی ہے قدر واختیار کے ساتھ ؤابستہ ے ۔ وہ کہتا ابچ کہ ہر گناہ کہ ارتاب سے
قبل دہشت لازىاً موجود ہوق ے ۔ موروٹی گنا اور دہشت کے تعلق پر بحٹ کرتے
ہوئے ایں نے جناب آدم کی مثالردی ے اور کہا ے کہ جب آدم سے کہا کیا کہ
.یہ پھل مت کھائیو کو اس امتناع سے آدم ےٴجی میں اس- کو توڑنۓے اوَز کھانۓ ک'
_ دہشت پیدا ہوک اور دہشت زدگی کے عالم میں انھوں ۓ پَھل کھا, لیا۔ یہ مورؤی
کناہ اور دبغنتم ٹوٹ انسان کے مقدر میں شامل ہیں اور انان اسی دزفت کے حت
بار بار گناہ .کرت ۔ ے آورِ گناہ کے ارتکاب کے ساتھ آزادی عمل سے ہمکنار ہوتا ے ۔
چنانچں دہشت میں آزادی کا امکان ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ ٠ کیںک گرد دہشت .کو
دو گوئب۔قرار دیتا ہے ۔ و۔ شخصی دہشت۔ ۲ی موروٹی گناہ کی دہشت ۔ موعرالڈ کر .
' ہیں اس نۓ چنسیاق ُدعبز پر زور دی ے .کم اس کے خی مہ آدم کی لهوزش کے ساتھ
' ہی جُنسیت کا آغاز بھی ہوا تھإ۔ اس طرح گناہ اور جئسیت لازم ملزوم بن گے ہیں ۔
سے ”جںسیٹ بذات خود گناہ آلودٹھیں. تھی لیکن آد مک لغش کے ساتھ گناہ آلود ہو کئی ۔
'حکم خداؤثدی کے عدول کے خیال سے آدم سر میں جو دہشت بدا ہوٹی تھی دہی
۔ہبوط آدم کا ۔پسن مظن بن کی ۔ یی شیتہ ہے کی این آدم میں بھی جدسیت کے ساتھ
کے ہے
دہشت وابستہ ہوق ے۔ انسان دہشت تا کے سامتے ے بس ہو چاتا,سے !ور اس کی ؛ وت
٠ 7× ارادی . سلسیم بے سئے۔۔ < ایسی ے سی يی-حالت بیت: یہ ے اغتیاو گناہ ک کا ارزتکاب
کرتا سے جیے بروانہ شمم کے شعلے۔ میں کس جاتا ِ ا کک کرد ےنیل میں
ججہ مہ عصدم۔۔ ا کو ہد اقمی یٹ ا ہی
ر مد کی ہم سیت عورت میں دہشت زیادم ہوق _ے۔ کیو نکد سس کا جنسی چلبہ زیادم
سر 5 7 کاب رت ہے سای ےی
.وی ہوتا ے۔ اسی کاب میں _کوتا کیرحت نال ویج اا۷“
رع رع ے ہب مب حے ۲ محد - 7چ بے ےد کے 1 التب
س١“ 6ا0 03072ء7 زا 3وة 5× ز _ ہے ارڈ اع اقم
.۔.| 20 8د00 ١طت کے سی ہک را با اکٹ
سے ہی 098-7 ٤ہ ان6 5ہ ٦ ٠
ٌ کا
۔ جرمن رب زبان می 0 چتھ کین 7 6697 5ھ [ ۳ تڑی لداع ×) ا شی
ترجمد اذیت ادر تشویش ہے بھی کیا:گیا ہے۔
مر 5 ور
_ ٭]۔٠ ×ىً٣ یر( ےر سممۃ
س۰
.
ضە" --
'فرض :کرو ایک معصوم دوشیزہ ہے جسے کوئی مرد ہوس کی نگاہ سے دیکھتا
- ے۔ اس سے وہ دہشت زدہ ہؤ جاق ے۔ وہ غصہ بھی حسوس کر سکٹی ے
_ لیکن لا احماس دہشت ہی کا ہوگا۔ فرض کرو ایک“ عِوزت: کسی نوجوان
کو نوس کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔۔یہ نوجوان ذہشت حسوس نہیں کرے کا۔
اس کے جڈبات ر زیادہ نے زیادہ ثفرت ابرشرم جج ہوں گے ۔ اوجد بک
نے مد زیادہ روحاق ہوتا ے؟* 7 جا
ید وہی مرد کا تاریٹی تعصب ے۔ مر شروع .ہی سے اپئی ہوسناک پر پردہ ڈالنے
کے لیے عورت کو اپتے ےت زیادہ ہوسناک ثابت کرۓ کی کوشش کرتا رہا سے۔
'. کیرک گردکی بعض کتابؤں کے عوان اس کی شخصی تفسیات کی غازی کرے
9
ہیں مثلا ”'خوف اور لززش'“ ”مض الموت ۶“ وغہ ۔ ان میںکچھ اس قسم کے فقرے .
تب
کھائی دیتے ہیں ۔' --- -
2 میں کبھئی بھی یچ نہیں تھا - میں :کبھی بھی جوان نہیں ہوا۔ میں کبھی
“-- ٤_اس بھی زندہ نہیں رہا۔ میں کبھی کسی انساق ہے محبت نہیں کر ٠.
”زندی ,کس قد رکھ وکھلی اور لغو ے۔ :کوئی کسی کو دفن کرتا ے۔
کوٹی میت کے ساتھ جاتا بے ۔ کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکٹا ہے۔
آخر ستل برس کی عمر کب تک ساتھ دےگی۔ کیوں نہ اس زندگ کا فوری
, طوز پر خالمہ کر دیاجاےَ کیوؤں نہ آدمی قبرستان ہی میں ڈیرا ڈال دے۔ ۔
۔۔ کیوں ئہ قبز میں گھس جاۓٴکد ت ہے ہر .- ں
''میری روح کیسی بوجھل ہے ۔_کوئی خیال سے سہارا نہیں" دے سکتاد پ پروں
- کی پھڑبھڑاہٹ اسے قضاے آوپر نہیں آڑا سکتی۔ اگر میري روح حرکت بھی
کرے تو بھی یں ان پرندے کی مائند پھڑپھڑاتی رہتیٰ ے جو طوفان ہے
خوفزدہ ہو ۔ میرے اندرون میں سردہ دی إور اندیشوں کا غلبم ے۔ لگتا ے
جسے بھوئچال* آۓ والإ ےک -
اس نوع کی نحریروں سے بعش ناقدین نے تشیص کی ےکەکیرک گرد ابس دی کے
جنون؟“ کا مربشض“تھا ٭
۱۸۳۹ع میں اس ۓ ایک ضخیم کتاب“ لکھتی.جس کے ثانوی. عنوان میں آمن ۓ
..'موچودیاق عطا؟“ٴ کا ذک رکیا ے ۔ یہ فلسفے کی کتاب ے جس ہے بعد میں موجودیت
کی تحریک نے فیضان حاصل "کیا تھا ۔۔اس کتاب میں کیزک گرد تے لفظ ''موجودگ؛؛
۱ کو نیا فلسفیانہ مفہوم عطا کیا اور بار باژ 'موجوذیاتی؟“ کی ترکیپ استعال یىی
کیرک گرد تے موجودیت کی: کوئی جابع و مائع تعریف نھین کی ۔ ۔ بعد کے موجودیت
پسند بھی امن کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہو سکے۔ چتنے موجوڈیت پسند
۔فلاسف ہیں اتنے ہي مفہوم اس ت کیب کو پنائے کے ہیں ۔ سار ساوت کے چھلا کر
َ ۹ 0ت س--
١۔ ۸ ص٥25 6وہ و06 -- 99و9
۔5 پیم
- ×
کہ دیا ے کت 'موجودیت'“ی ٹر یب ہی لغو ے۔ ہر رض لزد
موجودگی کے معروف بعنی ہے قطع نار کر کے ”خالص انسانی سوجودگ؟؟ سۓ بث
کرتا ےب وہ سب ہے پہلے یه ہوال پوچھتا ے "کہ بحیثیت انسان ہوۓۓے کےۓ:موجود
ہوۓ کا مطلب کیا سے ؟ اور جواب میں کہتا ے کہ موجودگی سے اس کی. ساد
جرد وعض موجودگ نہیں ے بلکہ ”انبانیموجودگ؟“ سے ز.-- ہب
یە کہنے سے آاس کا مطلب بنی نوع انسان کی موجودگ بھی نہیں ے بلک فرد
کی موجودی ے ۔ موضوع کی موجودگق ے ۔ فرد کی یہ موجودگ اہدیت میں نہیں سے
بلکہ زمان میں نے ۔ آدمی پیدا ہوتا ے ۔ چند,سال جیتا رہتا ے اور پھر می جاتا ہے۔
وہ اپٔی سرضی ہے اس دنیا:میں نہیں آتا ۔ آنے چند روزہ فرصت .سمتعار ملتی ے ۔
اس کے باوجود وہ آپی ”'سوچودگ'“ کے لے :کیا کچھ نہیں کرتا ۔ ایک موجودیت
پسند کے لیے ضروری ہے کہ وہ خ عقلیاتی نقطنہ نظر سے اس تن کا مطالعم ئہ
کرے .بلک یں دیکھے کہ انسان کس جوشن جذید سے آ٘س ہیئت موجودگی میں ژندم ٴ
٠ رہتا سے جس کا انتخاب خود آُس تۓ اپنے لیے کیا سے ۔ ۔ پرجوش حتباق نتطہ“ٴ نظر
ہی موجودیت پسند قلسٹی کو عقلیت پسند ہے متاز کرے گا۔ کیرگ گرد کہتا سے
کہ عقلیت پسند حعض ایک معروضی مفکر ے چو تما احساساثِ و جذّبات سے قطع نظر
کر لیتا ے جب کہ موجودیتِ پسند ہوجودگی کے جذباتی پہلوؤں میں اپنے آپ کو
کھو دیتا ے بھی وج ے کہ موجودیت پسند کو موضوعی مفکر کہا جاتا سے
جب کہ سائٹی دان اور عقلیت پسند معروقبی مفکر کمہلاتے ہیں ۔ کیرک گرد ے
سائنس دانوں اور عقلیت پسندوں کی بڑی تضحیک یىی نے ۔وہ کہتا ے کیہ لوگ
آنسانی موجودی میں عملىی حصد لے بغیں صرف.دور ہی سے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں
اس ضمن میں آُس ۓ پیگل اور آُس کے پیروؤں پر سخت نقد لکھا سے ۔ ڈیکارٹ کے
__ فلسفے کا آغاز اس ققرے سے ہوا تھا ۔
”میں سوچتا ہوںٍ اس لیے میں ہوں؟“۔
کرک رک ہے
”ہیں ہوں کیوں کہ میں موجود ہؤں“'۔
اس بات کی تشریج کے لیے اس تۓ ایک غائب دماغ آدمی کی کہانی لکھی ہے۔ :اس
آدمی کوٴ اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ اس دنیا میں۔موجود ے ۔ ایک دن
صبح سویرے وہ جإگا گا توآس پر اپتی موجودگ کا۔انکشاف ہوا اور سی روز وہ ہ یگیا۔
کے کیرک گرد تۓ ہیگل کے۔افکار پر تنقید کرتے ہوئۓے کہا کبہ ]س کیا نظریں ے مرف
اور ےهر ے ۔ کیو ں کہ ہیگل ے کہہیں بھی انسانی سطح پر ان اثکارک ذبےداری
قبول نہیں کی ۔ آس کی مثال وہ ایک ایسے عیسائی سے دیتا ے جو عیسائیتِ کے متعلق
. بحثیں کرتا ے ۔ وعظ کپتا ے لیکن خود۔عیسائیوں کی طرح اپنی زندگ نہیں گزارتا ۔
ہیگل پر اس کا ہب سے بڑا اعتراض یہ ے :کہ آِس کے ؛آفاق ذہن؟ میں فرد اس
طرح غائپ ہو جاتا سے جیسے ایک مچنتی ہوئی لہر:سمندر ی گہرائیوں میں غائب
۹
جح
ے۵ ۱ 6
بےغاناے ۔ مذہہیاقی مفہوم میں ائسانی موجودگی سے کیرک گرد کی سآد سے
کا کی موجؤدگی؟)۔ حیثیت: ایکۓ:ذمے ۔داز ٤ کنا کار۔اور تعیب زذہ انان نے کے
نہ .بسیط آفکار مین جو تھا نجاےے اہنی :فجات نی فکر ”کرتا* اؤر یکڈ وتنھا
: ہت حضور :یں انز جھکاۓتکھڑان ہچ نت آمی< رسعت* اور ِشقن کم
جد ے
۴ - 0 5
۔ظالتب 1 2ؤ سا پائروحیت دہ چے ہے "' یب پا )٢ا چ رج پدٗ ہل حسیم
۱ کیرک گرد کی ایک:اور اہ در سے سے زایا ام
جضن میں نے السیی موجوڈرا یفخ وہ ظا لئے لنے پیش کیا ت لہ
کے نطالب کی٦ تلخے درخ ذیلنۓ ےگ ٭ کک عفد بد جیں گے جہ بامائت یڈ
7 ۹
ٹمے ام اعامیٰ ہلم'کا تعاق دجو ہے ضر 2+ کیو
: رد تا دہ تھے سو اج لے
۰ب معرؤضی علم میں ننوشوع"یا یوجوڈ سے قطع انظ کر لا تجاق ق ہے۔ -
مہ ایک موجود۔ متنفس -صرف ابی مو و کاو ای
اس کے لے غبروری ہوگا کہ موضوع اپتی موضوعیت ہی میں تک جاۓے۔“ -٠٭
ن۔ صرفٰ مذہبی اور۔ اغلاق' علم ہی حقیقی علم نے کیوں کہ اس کا تعاق
بت رک نت 7 د٤ا در عےے رح
براہ زات موضوع نے ہوتاے-٠ کک جک ٠
۰ .ےن موقوعیت ٹی اصداقے“ ےا کے سسھی ا با گا ہی
٦ ۰
٠ 0
٠ 1 چ ہخ
٦ رػعے دح رکف
ں-
کیرگ کرد اکہتا ا کت مَُوضوعی داقق کا مار رت و ای“ آےے
عقلیاق نہیں تے جا کا تعروضی عنداقت کا ثُغیاز عش*عة کے سج سن آیگی تشخص
9ے
چو موجود“ ہے پنے کتّی“ خیال کو صتتیع کو جع و۲ ای نو
”پرجوش عقیدہ بھی رکھتا ب ہے تو اشن اوہ خنال صحیح ہو تا ۔ ۔ بھی بات ' کیک کرد
و افلسقے کو مغریی نہ سے فا خال ا کر سے کان انل
-يیٗ تج کو تعروض نہ بل کر موظوح یجان موڑ یا ےج یی می و رد
1
افکار کے بجاۓ اس موضوع کو ج7 کز فکر بتایا جئ' ون میں وہ آفازا پیا ڈو ےب
ہیں ۔ اس کے یہاں' موضوع ٹھوس ڈ بصسو یھ و وت للخ کا کے ہمروض
مثالیت کے ترتیب کو بدا دیا یی وع کاویپ احتہ 'مماپدے
اور جطالے-'کے. ابی نستخو کرآغا یکر سے و و جب کا یٹ ی یش آغاز
شخصیت تے ڑدریا< اعفلیت دی او نات ننسںق کا آغاز 12807
۔ اضیاء جخ َو لیت ہنوٹاا: رایت کصیی کرو شنففیت خی کیا وو سے مرو او ای
ت:ٴدویازہ: شخمیت اور رد مہ لوٹ ا نید ایدو کچےب یوتا یک کا ۔ط
_۔"عقلیت پسندئ اور اسائھوں ما رجہ عون کے راا مس اہ دک دک
رولعک ِشیاءے* مھ تتحَمت مھ کساذاشیع ]لم ہج می فا کہ رر تہ
کلف و ا پا سی جا وی ا ا ا ا فجن کے ہی ہے _ٹا“
سے سہے۔* کا یں
پاب ے ایب فو صحوظ 0 0ون اھ ا6د 8 37 و
ى٤ مہ 5 َُْ٠٠. د 2
ےت یں بوڈ بے یحنے*ہ لالح ی- ےآ علیہ تیتہ .گر بہحالڈ کے
اپ “ نائا
9.۸"
و بے
کیرک گرد کی مسیحی موجودیت :
تل رشخضصیت سے اشیاء کچھ شتقضیت ء) تا ضے او ی ۸د بی رج ںہ
ی :رکھ اک" کرٹ 2 خدا کو مونزوع ٭ قرازر دم یں اعت افق پک ماکان کہ
اس سے خدا کے وجود ہی کی نفی ہو جات ید اتعلال کچوڈیو ہوگست تن
"
یم 5
د٦
تج ئل نوضوعیت. ۔صدافتنٍد ہے نیا یا ےک سے كت کین رہ ہے اکا 2 سس سنہ
جس
7 خدا لا انتہا موضوعیت ے در سہي ہیں
رب لخد صداتفتے رر جا لا ونام ے یه بائالتا رفیت ہو
کیک پگردہکا تھناہےزیجود ے٦ نے انتا :ضوع میا قَفجؤدگی کا متاج نا جن - کے
جو ؤ جو تم تر میں نہیں آ سکتا شذہیب کااخدا بمریکنا .وقت 7 موضوع +بھی'
ے اور تعروض بھی دراگر دا کروطوئ سور سکرافائٹ سا کیو ہل کک
ے یا موضوع حض مانا :جاۓ جیسا کہ کییک گرد کٹا ے تو وہ مذہٗب :کا
مقدانہیں رےۓ گا مثالیتِ پسندی یا۔مَوجودیت پنتدیٰ کخدا بن۔ کر زہ جان:گا۔
یگل پر تلقید کوتے ہُو کیرک گراد بے ا کے معروضیٰ روح کے قصوز کو
ردکردیااوڑ کچا۔ _ ہے یں 6 ہے لے لے کے مم
رت :اموضوع۔ ۔ہیمحقیقتودے اور حقیقت ہمیشہ موقبوع ہی تئیں۔ وق کت 5
کیرک گرد کہتا ہے کہ انسان اور خدا کے درمیان ۔کجی سج :کا رابطہ۔ 7
نہیں ہو سکنل جي تک کی اخدا۔کو ہوشوخ: ئہ ہاناجالاڈ ب لاہ کسپڈا نے یدک ز
اف حک رقسم کا تعلق اضرفِ ایک , موضشوع ان سض موقتوع ہی" مہیں:قائم ہ 2
ات ضوع از مرو کے درمیاتح بی پیداتہیں ہو۔لنکتا × پنیگل کے ۔نظام ۔فکر :میں
فدہ حقل و ضغید ہے کیو ں کہ یائنات عین یطلق کے :تدرتبجی انکشاف کا خام 'نئے
۔جس میں فرد ے مایہ اور مجہور ے ۔ کیرک گرد کہتا ے ۔کہ۔ فزد کون تی
_ ترشائی ہوئی۔ تۓ نہیں: سے بلکمرفاعلنمختار ے,اور-قو انٹخایب و فیطل زکھتا ے ۔
سب پکەیک گود انان دک رید اختیاں اور تحصی انتخابتکئپ پڑا اہ اہم ےھتام ے-+
و لے لے 7 ٰ ۰ ٦ ا
ےہ ۱ ہد ٣”تھ ہن 7 رخ چھ یں اع هر عمف چ*
دمت مرا اتخاپ پ۔اور فیصلم شخصي ہے۔ کوٹ و۔ذاتِ مطلق: ھُرے۔ ا کی جم
ک الد یق کرسکی ۔ میں خود اپی , صرضی اورے:ٴپنے (اچتیاز ہے اپنے- “فیخئلے
متا نا پولا ا ہے "٭ ۰ ص7 1.7 چا وک سحکد 5 و پا ٤ لع رم ای مدہکے
7 ح قد کیرک گردہ آد فردیتا۔کئ ۔بھی_ قبولن کر لیتار چیا جن موفنوعی ےکا لاڑتی
رط تج ہے - فردیت پر زفر: دیتے ہونے )کچتا ہےے۔ کچھ ےتا ام نے سج
'اکر میں بے ابی قیر کہ لیے کوٹ _کجچجد تچوی زکیا وذ ف وگاس وہ و ود کی ے7
ے رے
ه
کیک کرد اسان ڈہنی ترق کے لے قدر واختیار' کڑ ضُروری سمجھتا ہے <
حیثیت حیثیت یس یس ری کل خیال _ تھا؟ _ِکەر:انسان ضرف ۔جدا ہے
ہے ے حدم ےک ٢٤ نل رت دلٹ پدڑے۔یہ[ و لی
ہس جا مد
. 7 ۰مالہ1140ق1(_10 سے
وحم
ا ع9ا
رپا
7 ٌِ
سض
کا یں
حضور ہی میں موجود اوکے مھ کر کاو ھرے نات
آپ کو گناہ کار تصور کررے کیو ںکماس کے ۔خیال میں گناہ گار ہوئۓ کا احاس ہی
انسان کے دل میں: جذبہٴ مذہبیت: کو پیدا کرتا ۓ ۔ پت
کیرک گزد کے انار جن کی 7 نشری و ترما ب کی موجودیت پسندوں غ کے
درج ذیل ہیں ۔
١۔ معروضی استدلال جس سے سائنس کام ا تو اف
موضوعی انداز فکر ہے انسانی مسائل اورعقدوں کوٴّحل کیا جا سکتا ے ۔ پر اسان
.کسی ئہ کسی پھلو سے یکتا اورے مثال ے اس لے اس کا نقطہٴ نظر بھی بنفردٴ
اور يکتا ہونا چاہے ۔ اس کے خیال میں اِخلاق فیصلہ اس وقتِ صحیح ہوتا ےے جب
وہ آفاق نہ ہو بلکہ انفرادی ہو ے۔ آ77 .9 ٠
اُس ے فہنی کرب اور تشویش نے تعبورات پیش "کے ۔ وو :کہا ہے کں ”“
انسان فاعل مختار ے جس۔کے یاعث وہ خواہش بِڈآور گناہ کو اپنے اندرونِ ہیں پیدا
پوے ہوۓ محسوس: کرتا ے۔ اسی قدر و اختیار کے باعث انسان جڈباتی۔خلفشار
از کھ کی و اہر گا ے۔ اس کشمکش ہے ضرف. سیح منچی ہی انسان
کو نجات دلا سکتا ے ۔ یی سر ںہ نیت رٰ ۳ے
م۔ انان پر قدر و اختیاز کے باعث ہی ڈنے داری کا بار پڑا ے ۔
م۔ موضوع ہر وقت :کسی نہ کسی کوشش میں لگا رہتا ے ۔ علم بغیں عالم۔
کے کوئی وجود نہیں رکھتا ۔ کسی شے کا ادراک:]٘سی وقت ہو سکتا ے جب کوئی
صاحب ادراک بھی موجود ہو۔دثیا میں اگر کوئٹی شے حقیقی سے تو وہ اپنے ا
ہوۓ کا احساس سے ۔ : لے و
.- زندگ کی ہے یت کا ساس انسا کے دل میں اکا کو چھتا ہے ۔
جب وہ بقا ۓ دوام کا آرزو مند ہوتا ےَ تو صورت حالات المناک ٴ ہو جایق ےج وو امت
انسان.اپنے آپ کو موضوع سضجھۓ کے بجاۓ عض ایک ئے سجھنے لگتا سے
ہ۔ انسانی زندگی حتیقتا ے یو او ےو ورای جک کرد سی اون
اس میں معنی پیدا کوتا ے ۔ می کہ
ے۔ معروضی انداز فکر انسانی شخصی تکو نظر انداز کر دیتا ے ۔ شخصیت عض
عقّل و جرد پر مشتمل نہیں ے. بلکہ اس میں احساسات و جذبات ۔ قدر ؤ اختیار اور
۱ قوت فیصلہ کے 'عناصر بھی موجود ہین ۔ سائس سایق معلومات کی بنا پر ادراک حق ں۔
کی کوشش کرق ے حالائکم حق کا مسیاز ہبیش موضوع ہی معین کرتا ے خق
0 ٌ
ر ابدیٰ سرت ہے دور زیت یہ لیکن جب جمدا جم کی زاتق میں آ
جانا ے تو اسناس اہی تلخی دوز ہو جاق ن. ۔ چو شخص کناء سے کا آھنا ہُو
۔اھمامفا(2) :
٭ے۹
وغاے وت ء0" اپنے آپ سے دُور ہوتاے۔ گناہ کا احساس
انسانی شور کی گہرائیو کو کھنگالتا ے اور سے اپنے آپ کے قریب لے آتا :نے ۔
پنی کتاب ”مرض اور مو ت؟ و ا انسان کے دکھ اور درد کا
امیر چشتمدں ود آِس کے باطن میں ے۔ اس دکھ درد کے لیے خارجی ماحول دو
ذے دار نہیں گردانا جا سکتا ۔ اذیت ہمیشہ داخلی ہوق سے اور اس" میں تشویش “
ااحساس گناہ اور مایوسی کو دخل نے ۔ 5
'. کیرک گرد مذہيی اور فلسنے دونوں میں یونائی روایات کا خالف تھا اور عتل
استدلائی سے قطع نظر کرتے کی دعوت دیتا تھا ۔ اس لحاظ سے وہ لوتھر کے زیادہ
قریب ے آور اس کے اس توع کے اقوال پر صاد کرتا ے ۔
7 ںا ا اتا سے ا چاہیے قد نوہ عقل کی آنکھ
پکال دے _
ہے نے غ رفظ کی 2 عقل ہے کتارہ کش ہو جا بلکہ اے
جان ہے مار دو۔ چپ تک تم یہ نہیں کرو کے 66 آسمانی یادشاپت میں داخل ہی
نی چٹ یٹ کٹ .جب
”عتل ایک کسبی ے٣“ , ٰ ما جا رن
کیرک گرد کہتا ے۔ ۱ فَ0
سہہیڈ۔ پرجوش جذیاتِ کا اخذ کیا ہوا نتیجد ہی قابل وٹ ووق پنو سنکتا ے)۶۔
'۔۔۔پارے زماے میں جس شےکی کەی ہے وہ تفکر نہیں پرجوش جذیّہ ے4 ۔
کیرک گرد یىی یں خرد دشمنی بھی موجودیت کی ایک اہم روایت بنْ چک سے ۔
دوسرے خرد دشمنوں کی طرح وہ بھی اس حقیقت کو نظر اندا زکر دیتا ے کہ عض اس
بنا پر عقل استدلالی سے کنارەکشی نہیں کی جا سکتی کہ وہ زندگ کے تمام عقدوں کو
سیل کرئۓ سے قامنر ے ۔ پرجوش جذبات بھی تو زندگی کے تمام عقدے حل کرتۓ سے
معذور ہیں بلکە انسانی زند کے اکثر عقدے پرجوش جذبات ہی کے پیدا کردہ ہیں ۔
کیرک گرد ک5 کی خرد دشمتی ۓے اس کے اسلوب بیان کو بھی متاثر کیا ے ۔ وہ بڑی
الجھی ہوئی ثر لکھتا ے اور اس کی تالیفات میں ربط و تسلسل کا نقدان ے
۔ کیرک گرد کے افکار پر حعاکە کر یں وقت ایٍں حقیقت کا پیش نظر زہنا غبروری
سے کہ ببیادی طور پر واکسلری بک اہر نے عوال اکر کپ سے
ےہ وہ ایک متلم ہچ فلستی نہیں ہے , ۔ اپنی ایک کتاپ انحیثیت ایک مصنف کے
میری کتاب کا 'نقطہٴ نظر+““ میں جو مہ و میں چھہی تھی آس ۓ دعوعل کیا کہ
میں ”'مامور من اللہ“ ہوں اور ایک الہائی آواز میری رہتائ کریق ہے ۔ اس بات
کا ذ کر خالی از دلچسپی رت" سقراط :کو بھی ''اندر کی
آواز“ برے کاموں ہے منع کیا کوقی تھی,۔ کیرک گرذ کے نخیال میں آسے مروجد
عیساثیت یق اصلاح کا کام سونپا گیا تھا ۔ وہ معاصر عیسائیت سے اس :لیے ے زار
تھاکہ کلیسا ہر پادریوں کا تسلط ے اور وہ مذہب کے اجارہ دار بن گئۓے ہیں ۔ آن ک
ہے
۱ع
تقدس قروشی ا ادرِ دکان آرائی: کے غخلاف احتجاج شوے ہوۓے کیرک گرد نے کہا
کە خدا اور بندے کے نان بلاوابط قلبی و رفعاق, 7 و و تلق سجی ہچ عیائیت ہے ۔
:3 کنا ہے اس مقبد کے و ایک شخمت اط مت چو بذات نود
اتد ان کے یں و اپ دوک سے روا زاب تو
: ای کا پروی پشہای کو نظر امس ران سے مدکی سے یک رق سے ھی
کت کرب ٹاق' اس دہشت ہے بد ا ہوتی سے جو“ موروی گناہ ۔ چ نات
۔احدخدب رنج ہ5 رویغ ات
حا
رااثے جم سے مات 75 ۳۲۴م . می من صا ٦لغ مآ کت 2 )2 سے 7
۰ 2 و و نائ نیم ى4 ُ
کک کی او بی ا نامقل ار سے
ال پا ۔ موشوعیت اور فردیت باہم وابمتہ ہیں۔ ج٘بْ موشوعیبت
ہی کو عیداقت سانا جاےۓ کا تو ور قد ڑا و ان تصور اس کے ساتھ خاص ہوگا ۔
اس ضورت می پر ارد برا خال کو مت ۰ ہر صداقت سمجھے گا جو اس کی ذاقؾ
راۓ ي تصضلیق کرے گا ۔ چنانیں ہے سر ےک
افراد ۔ گویا تصداقت کا تصور ہی باطل ہو جاۓ کا ۔ تی حال. اخلاق قدرون کا بھی
“ہوگا۔ جب'پو فرد یا ہز دوضوع حسُن+ و قح یا خیٔر و شر کا تعیار:اپنی شخصی پسند ۔
ارادے یا لے کو ا ےکا جاک کرک کردی مر ے درس فدہ
کوئی معیار ہی باق نہیں رے کا ۔ جو شخص جس بات کو“خیرا:سمچھے گا ہی اس کے
.لیے خیر ہوکی ۔ دئیاۓے قلسقہ میں چا پسندانہ _موضوعیت ف فردیت کی یں رقایت
یرک گڑھ کے وع یی ہوئی اس کا آغاز تم یوناقَ کچ سوقسطائیود
7 پڑوتاغوض” ؤغیزہ سے ہوا تھا تحرفقطان- ھی معروضی صداقت کے مٹکر تھے ۔ ۔ آڈ
“ تا اضول تھات وا یو یک 808۷ھ
ي۔' پت ے وه ُ اجس اا7 ہو تا منج لہ سے یر میں سچ چ ماغاپَونَ
افلاطؤن لے سوقصطاثیو کی ژولیڈک یفکر ادز ذہ پراگندق ات
نیرک گے ا و کر چان بآم نے کہا کت تو
ت .ا سال تہ یکا لے ہت ات سن یلم نت کن ک
سو و سس دعادڈے میٹ من :ہو فوطرٍضوعتا لئ ححت راپتہ ہی
ذمعئ نفد شال ین باوقٹ کیماں رن نے کا اض کے دک میں انسای' , ہمدردع
سے سا بک 5 وو آ و قو؟ _+٣ ہل - ۳ھ--
جاوزاڈلتوزی جج شو ےفیک ہو جائگی“۔ جب: نظریا قی طخ پڑ "اس خقیئٹ“ک
ڈھوجر کر لیا جا ۓ کو چا ا صدأقك۔ ے۔ ً لی دنا ۔میق-۔ پر فرڑ ذاقَگفا
می ینید نے آپر کو حی بجائن سمجھۓ گا خواہٴاسئ کی حضول لی آئے
ادوس وج موق فادات کو :ایال وی تکیتا پڑےۓ ۔ ”گی رک گزد جب نوضویٍہ
رڈ اور قزڈیت ٹیا ی یداتتیجل قبول :کر لات ىر بعامیں اس <ۓ ایک تال پَرْ خضَّرہ لکو
ہب جو میں ا دِفاو ای ٤ک کے عترانَ سے شنائم ہوا ۔ااٍش تبصرے میں-آض نت اشت را کی
٤ بی .جو آن ذنوںل شیائم بہوآزہی: تھئ۔ضخت نطالنت کا 7 ں صلی ننیبالسید
ذاا۔ ےا وا وا ہے نکوملم جن ۴ > جم سڈ 2 چان ءا خَ لد
٣ے ۹
ہورم ۳ آ ے ےم 8زجیہ٤
٠ -۰۸ اتاعی یتر کا دیو فرد ی ا: نفرادیت کو کیا ای سال اھ
کا ذکر کربے ہوئۓے کہتا بے ےت ۰- دا
جک رق روہ
7۲ شٹرا کیٹ سج کی 7 تح
. ۳ 0 اس کی اشاعت کے رھ کئے" کے لیے بر ری ہے کہ قرف ای مشبان وہ
سو کا خجائد یڈ کر جڑ ای ای کے سےا میا آتی ہے ہو مرف دا کے
6(+ے-ب کس 4ف ہے پی؟اں ے۶ تل اج
1 سامتے جواب دہ ہوتا نے با٤ _
ای تا قالے ٹیں اُس تے امام کے لاف تقر کے خلا تحت کی یو بھودی
اور خوائی نے خلاف7 کٹمکشی کرےۓے یئ ڈغوت دیتے َو کہا سے شی اہنواز:
کر ڈیتے والے ا عل“ کو طِزَینَ اہلٰ مڈہسیاہی روک نکنہ ہیں تا رک ُ
جک کیک کرد کے آن خیالات: نہ پیش نظر اس بات٠. چنذاں سیت نہیں پوت
ورپ او آم یکلہ میں اس ی۔ 7موجوذیت کا نچابت گرم جوشی ےتور مقدم کیا
می ے اور اس کی اشاعتِ بڑے جوش و خرو نت ۔ ساتھ قا کا زی سے و اما پت
کیساۓ پادزی' اسان روم کے زغاء اوویھودی احبار مت مل کر ”موا جوار ار کر
ہی ھہ ! مل
کیۓ وَالےٴعَّل“ کو وؤکن میں کوشاں ہیں2 7۲ وت ٹہ چٹ ٠ 7 ِ جح
4 ا
0ھ جم ہے ہے ٠ _ ہس
لے
کیرک کز دوندیستانوں کا بان وت .2 ٦ ہے و 2
حےاعبپ ھے! ے رک مہ مو ری یثڈنے ںًَ 9,7-ه9-. ۰ مث
معوفیة بھی ٥ دہ مرو کرٹ نظ حا رنہ
٤ 7 یہب ی امو 'موجودیتِ پوت میں چویل فارغل او لج سز سی سے خوشہ چیں
۔ سارتے ابی موجودی تی ٹن یر کردا طرح فرد ہی کے ولیہ حم کی
کے جن کے اب میں کیرک گرڈ کان آزتھر سڑک لوگات“ سازٹر “ریو
ویر سے اق و ادب ام کورے ائَات 2 یے ہیں2 ایل پروٹرنسی جدلی الٹہیاٹ تا
او استبلال ہی کے جو کیرک کرد “تا ہایہ الامتیاز تھا - چوڈیوں می مارٹنزیوزر
آور اس کےا تمذم داہتے مہب کی تیدید کیرک گرد کے نوجودیاق: انٹزی زوش ی می .
ہے ت ۔ ماوثن'پیوبر کی کتاب میں او وآ کو مذہبی احلقوک میں قدرکی نکاء
نے دیکھا جاتا نے ۔عیسائی مل یق کیرک کرذکی رذ قش تی کے اعت اس کی تعرذ یف
بِ رطب اللساں ہیں ۔ یرک گرد, سے پھلے جرمن فلایفہبامان .او ریگ آۓے
عثل ؤ خر ری غالفت تفر کے بوے یلت“ وچدان اور اشراق کو اس پر قوقیت دینے
کی کوکش کی تھی - کیرک کرد آپنے روز نا کے میں لکھتا ےج چک وت
خرومد تی تھا لم غقل اور صرف عقل ہہ نی خخاللقت یجان ان ام
کے لی سیا لیے "اور یا گیا ثت ای لے جیے تل 2 یوار مت نلم
کا گیا لم ھا لے ہا ۰ رشعد ئ8
رکا گرڈ تسا 8-70 -)
خرد اد مق عقل کی 7 تنقیص کی کون شی میں خقل بی کے ہار سح کا لے کا "و کیا وہ
مود اپنہ ناج یکر تو باحالی ثابت مجز وہا ہوگا۔ ۔ عقلَ کو اق سمجھۓ والے کا تھی
اُستذلالکیسے حکم ہو شکتا ۓچ یہ کیرک گرد ہی کا ہیی ام خود ذشمنوں کے ألمیه
کہ وہ غقلی دلائلٴ سے عتقل کی نقیص کر کےُحّود اپنے ہی نظریات کی آ نفی _کرلے پر
جئ ہے ج۹
٢ ذہ .
۳ے
مجبور ہو جاۓ ہیں ے ۱ ِ َ
. کیرک گرد کے منتشر از کو کارل, نے ایک باقاعدِہ مکتب فکڑ ی
صورت میں متب کیا اد موجودیت کی تشکیل غنل میں آئی ۔ کارل عاعزز
اولڈن برگ (چرمنی) میں ۱۸۸۳ع میں پیدا ہوأ ۔ اس نے اوائل عمر میں قانون اور
طب کا مطالعہ کیا اور پھر نفسیاث ک طرف رجوح کیا ۔ کئی ہال تک وہٴ ہائڈل بر
کے شفاغااۓ میں تفسیاقی تمعالج ی حیثیت ہے کام کرتا رہا - ۱۹۲۱ع میں وہ فلسفے
کا درس دی لکا اور اس ۓ کیرک گرد کے افکار ہے اہل علمْ کو روشیاس کرایا۔
چاسپرز کہتا ے کہ مایعدالطیعیاق فکار اور ازلی و ابدی صداقتوں کے تمنورات
تحض اوہام 'باطل ہیں ۔ ۔ پرقرک ایک خاص لے میں ایک خاص حالت میں موجود ے
اور خاص قسم کے وردأت و تجربات سے دو چار ہوتا سے ۔ اس وقت وہ کسی وجود
مطلق کے متعلق نہیں سوچتا یلکە اپنے موجودہ واردات ہی کو پیش ۔نظر رکھتا۔ ے7
.جاسپرز کے غیال میں دور ۔حاضر کے صرف دو قل۔فی جیدالفکر ہیں۔ وہ ہیں نٹشے اور
کیرک گرد ۔ ان کے نظریات مکتبی اور روایتی فلمفے کے خلاف بغاوت کک ائندی
کرۓے ہپ ۔ تیٹشے اور کیرک گرد میں فلسقب* یونان کی خالفت کا عنصر مشتر
ٹیٹشے غیسائیت کا خالف تھا - کیرک گردۓ بھی مروجہ عیساقیت کے علق ہداے 2
احتجاج بلند ى ے۔ ۔ کیرک گرد کی طرح جاسپرز بھی سائنس کا خالفٴ ے اور کہتا
۱ ے کہ سائنسس کے أحاطہٴ کار کو حدود سمجھۓ ہی سد ہم موجودی فلسقے کے قبول
کے لیے تیار ہو سختز ہیں ۔ اس کے خیال میں فلسفہٴ وہاں سے شروع ہوتا ے جہاں
عقل تا کام اور درىااعءہوق ے. یایألفاظٴ جاسپرز ”'غرقاب““ ہو جاق ہے ۔ جامپرز
قدماء یوئان کا اس لے تخالف ے کے ٠س کے خیال ۔میں )١( قدماء یونان افظرناق
دھجزنےے میں آلجھے رہے اور آنوون ۓحیات انسانی کو بدلنے کے لیے کوئی بلاواسطہ
دعوت نہیں دی (م) وہ اس باتدکی دعوت دی ہیں کہ ہمْ مشکر اور تجزیہ پسند
. بن جائیں ۔ چاسپرڑ نکش سے خاصا متاثر ے۔ سسبی بت
۔جاتا سے ۔
کت جپریل مارسل کیرک گرد یا امقلد تے اور آسی ی طرح سیحی موجودیت کی
ترجانی کرتا ے ۔ .وہ ۵۹ء میں ایک رؤمن کیتھولک گھراتے میں ب پیدا ہوا لیکن
بعد میں لا ادری ہو گیا ۔ فلسقے میں وہ ہیگل “ بریڈ لے اور وائنیٰ سے متاثر ہوا اگرچہ
اس کے خیال میں ان فلاسفّہ ے فرد کے موجود ہوۓکی حقیق ت کو ثقار اندا ز کر دیا نے ہے
اور منظتی موشکافیوں میں الجھ کر رہ گے ہیں جنگ عالمگیر بے آس کے ۔ذہن میں
. یہ بات راسخ کر دی کہ جدید ممدن کی بنیادیں نہایت بودی ہیں ۔ اس کے نظرے میں
پرگساں کے ائرات کی جھلک بھی دکوائی دیتی+ے جس ہے آُس ۓ وجدان اور خرد
دشمنی :کے تصورات اخ کیے ہیں ۔ جعریل مازسل مایعدالتفمیات ک طرف بھی مائل تھ
اور حاضرات ارواح میں دلچسہيٴلیتا تھا ۔ سے ایک قابل اعتنا :مثیل نگار اور موسیتار
بھی سیجھا جاتا سج“ اپنی ممثیّلوں میں وہ افراد کو آن کے مخصوص ماحول ہے وامت
ے4
کرکے دیکھتا ے اور موسیقی, کے زیر اثر وہ ان معانی سے بھی اعتنا کرتا ے جو
حقائق سے ماوراء ہوۓ ہیں۔۔ اس کی بمئیلوں کے کردار مدید حروسی اور تدہائی مییںا:
یبتلاا دِکھائی دیتے ہیں ۔ ۹7 ع :میں اس نے بتپسمء لیا اور کایساۓے روم سے دوبارہ..
واہستہ ہوگیا ۔ وہ کہہتا ے کہ انسان یاس کے باعٹ داخلی غلا اور احساس تدہائی کا
ى٭شکار ہو جاتا سی حا ساوراء ےے۔رجوع الاۓے
ک ضرورت حبوس ہوق ے۔ .ز.
. جن فلاسفہ ۓ کیرک گرد۔ ۔اوو جوزنیل مارسل کے متہبی افار کے قظم نظر تر
موچودیٹ کو خالصتاً تتانہ علمی بنیادوں پر استوار کریے کی کوشش یی ان ہیں
ہائی ڈگر اوو ژاں پال سارتر بتاز مقام کہ مالک ہیں نیت :
مارٹن ہائی ڈگر وع میں پیدا ہؤا ۔ اوائل شاب میں اس کا آرادہ کالیساۓ روم
ہے وابستہ ہوۓ کا تھا لیکن بعد ییں العاد کی طرف مائل ہو گیا۔- جب وہ مار برگ
میں قلسقے کا استاد تھا تو آس ۓ کانٹ اور افلاطون کے افکار پر قابل قد رکتابیَ
لکھیں ۔ وہ ٹٹشے اور ہسرل ہے بہت متائر ہوا۔ وہ :کیرک گرد کو حض ایک مذہبی
أہل قلم سمجھتا ے:اور نٹئے کی طرف مائل. چ جسے وہ عظم فلاسفہ میں ار کرتا
یے نے ۔ گذشتہ جنگ عظم میں اس نۓ ناٹسیوں کی ہمنوائی کی تھی اس لیے جنگ کے
خاتمے پر آینے درس کہ سے ہٹا ذیا گیا۔ ج کل وہ گوشہ نشینی کی زندگق بس ز کر
ہا ے۔ پا ۱ .
بہض اہل الراۓ ہائی ڈگر ک فلنفے کو بعوغوت تا :نام نہیں دیتے کیوٹکہ
ازع ضر تی اوت تکرار کتھا ہے کہ اس نے شروع ہی سے اپنی توجہ وجود
پر س کوڑ رکھی ے اور موجود کو ہعیشہ انوی حیثیت دی ے۔ ۔ وہ خود بھی
اپنے موجودی ہو ۓ سے اٹکار کرتا ہے ۔ چناتچم اپننی کتاب ”'وجود اور زمان“' میں
_ آس نے انسان یا فرد کو موضوع: بحث نہیں بنایا جیساکہ موجودیوں کا 0
" ودای تو پر سیں حاضل بجئیں ى ہیں جنہاں کہیں اس نے قردٴ کے ۔ ؤجود ہوۓ پر
ےت کی نے وزان تھی اس کا تقد عنَ رہا ے کہ موجوۃ۔ کے وآسطے سے وجود کی
کن کو پاۓ کی کوشش کی جاۓرۓ۔ ہر صوزت سارتر کے افکار پر آمن نے گچرے
اثراِت ثبت کے ہیں ۔ اس کے اہم موجودی افکار درج ذیل یں - ہے سے
و۔ انسان ایک شے نہیں ے بلک ایسا وجود ے جو صاحب اختیار ے اور قوت
فیصلہ رکِھتا ے ۔ اسی لے وہ اپنے فلسفے کو انسان پسندی۔کاٴفلفہ کہتا ے ۔ وہ
ا ا یی اور اننان کے _مقابلے میں خدا کا بھی
قائل نہیں سے ۔ 7 7
.. با انسان آزاد ب و ا مار ۔ بھی اختیار اس کے لیے تشیوِش کا باعث بن.
گیا سے ۔ فہ تشویش اور دہشت ہشت میں فرق کرتا ہے.۔ دہشت کسی. خارجی.شے ہے
وابیتہ ہوق ے جب کہ تشویش انسان کے.اندروت سۓ ابھرتی ے۔ ۶٢
٭۔ ایت موت اور فنا ۓے ِ احاس سے بیدا ہوتی سے ۔ سوت کو اس بے
٤
تل ّ نین رت نے - ہہ 8
۵ے ۲
رع آش وھ ث ج ہے لع ء با نے گے وتدھہ ئن کچ کت
سی ہا نام ذیا ری نو کرجا نے 3 انْمٰان کچّھنہیں سے 73000012
خ ا و گل میں' وارذ ؤال سے ابنقغ۔منزا زل :کا کچھ علم ے ت انمان خر
نے ف: اور تیسی میں“ گھرا نوا شی اج قضں ۔کا-احضذاسٰ اش ہے لے کب اک ناذزت: کا
باعغا ہوا ےھ با ایت ہازرے 00 :اع رای وق یں نصرایت زکر پک دے:اؤ ت
"َ" آباد ما میں نے آپ کو یکس تدہا اور ے جس بڑھ بینت ٥ تا تک ہم
اہتہ ابا کو نوخ ا ان جو تاہید مک تاس ہوا کے لک خی ہیں
اپنی فزد پٹونۓ کا:احینا ہوٹ نی تو ہم تحعفظۂٴ کی اجندامئ ۓ ہے“ روم اہو جا دی اور
یس اور ناک دہشت ہم پر غاہدیا ا ”نت اوؤں قتا ایک ٹھؤكئ: خقیشتٰ حقیقت ٌۓ
اوز ہز۔موجوذ کا عتصر لازم+:ے ںۓے یہ نداہ آمچ ان لہ 0۵ہ ےپ وہ پاول
ہرنہ عقل و جرد تا احاطم* کارمعدزدرہے“ اور منائہ ثنئن ائینای فظارت: لے :می ہیں“
'رکچھ نہیں:یتا رسکی تہ ۔.- ہنا :ا سارۃ تا حآ نں دلتنا ں* پ حم وب
۶ن۔:صرف:انسات ہی:موجود ہے ۔ چ الکن وم ٢ی وجڑد؛؟تھیں:۔ دزختٰ
ہیں :لیکن ”یوجود ۶ک نہیں نہ گھوڑے 2 مکن و او نہیں ۔ وبا کو کے ۔قلبیقتے
کے دینیادیٰ رافکار یتو یی اوڑ قد فر! اختیار۔کو شارت ر َ سے شیح ودط ہے ابیان کیا
سے ہائی! 7 آگڑویق اخِلاقیات میھی نی رت راضالاع شرع جو ۰ نے جوم تکنہتا ےک
اخلاق کے کوئی بندھے کے اصول نہیں ہیں ئہ ازلی وابدی اخلاق قدروں:کا: کوٹ
وجود چی ے وہع جس لمج میں موجوي:ہینا تی گریز پا لٌے.میں؛ کت
۔اخلاق قدروں کا اظیھو رہرتارہتا نے اش :لمحے ین ہم جو کچھ بھئی_۔کرٌۓ ہیں
میں 3 چتار ملق ہیں۔ اُسوقترمجزڈکچھ۔پھی ہم کریں وہی۔ بارا۔ اخلاق رے۔د
کویازم لین لمج اتی لغلتیپقذروق کی تخلیق کرنڈ لے رہتے ہیں: از و ایدیٰ
ارس باج سرت رغِ یح لال رع تہ کی پی ےہ 8 والسٹاطہ لی
ڑاں پالہارتڑم۔ اع ندیر ید ہوا.-ابھی وہ ذودہ پیتا: ینہ تھا ۔کہ: اس ک یاپ
توِی کا آم کے انا بڑرے رلاڈ اور نچاڈ سے سای پروزش کی آم ا کی غیںنعنون
ذکاوت تا کے آثارتچین بن بئ ے ظاہز۔ہوتے لگ ےتھے۔ عو ایگ ںقبااۃ پعاٌ؛ بہت
تھا این میا کہ آیِں کی خود وش می ضواع ا لفاتاء ے سے مفلھوم جزتانے الا کا ذہیٰ
قھات پت !ا پعلہ عےص جے ہبہ لیا شاو دی رین بات ؿلبفا 4
فی ۔ و ی ماں یئ ےچ سکاہئیں ذس اہم ینا تھا۔اوز تنور مین۔زیادہ مت تک
مان ” پک کیہ دوسبرنے تچوں کی تعابتت زیاذہتھدتی مجن اؤر' ٭چَنکیلا و گیا تین ا٠ہی
سارتر بہت چھوٹی عمر ہی میں ایے مابعد الطبیعیاق اور نفسیاق"سائن' پر ور
رکرنے لگا جو اک بالٹون کو منازی حر چریشان تھیں:کرے۔ ثثل وہ و گار پرس کا
تھا جبر]س ۓ جدا کے وجوؤد-یچ۔اٹکاز کر دیا دید مخفن*اتفاق:ٹی نی نے کہ اسی
سال اُس کی ہاں ۓ دوبارہ :ایک برای آنجنیئ' ہے نکاج -کر لیا تھا -سارتز +جیسۓ
ذی رالاحمناس-لڑکے کو اس تکاح نۓ .اتنا ہین شدیٰد صلسدہوا ہؤکا جتنا کہ شیکنپٹر کے
مشہور المیدکردار ہیل ٹکو ہوا تھا ۔ یہ بات امن کے لیے سوہان روح سے کم اہ تھی
٭×۔ھ۸ُ
کہ ایک فی ؟ں کی مان کی مخت میں راہر ا رک ہو کیا تھا آور اس کی پیاری
"اں ہر وقت اپنے لاڈلے بے کی ناؤ:بزداری کرتے کے بجائۓ اس-نو وارد گی تالیف قلب
میں لی ربتی تھی ۔ ممکن ہو سکتا ے کہ اس حرونی ان بیع کو
بزوح کیا ہو اور آۓ عورت سے بھی محتقر ک زادنا ہو - ۱
- سارتز کوٴشروٰع ہی سۓ فلسفے میں گہرا ج شفف تھا ۔ٴوہ پر روَایتی'عقیدے کو
شک و بد کی نگاہ ہے دیکھتا تھا اؤر پںنەمنئلے می ڈاق زاۓ رکھتا تھا ۔ ۱۹۲ع
مین اس ئے فلسفے ک ڈگری لی ۔ امن کے بعد دو سال تک سے لازىی فوجیٔ تریت '
حاصل .کرنا'پڑی ۔ کچھ عرفۓ”تک وہ ایک قُصّیاق مدزیے میں پڑھاتا بھی رہا - اس
ڑتاۓ میں وہ سمعی و بصری' واہسوں کا کار تھا اوڑ اس فہم میں مہتلا تھا ۔کہ ایک
6 پیچھا۔ کر سے ایک رات اپنیِ روسی تجہویہ اولگا کے ساتھ شب
:یع میق کت مو دی دی یوواثر کو ھی ': تتائی تھی۔۔ دوسری
جنگ عظم کا آغا زٴہوا:تو سازتر کو فوجی بخدمات کے .لیے ظلب کر یا گیا ۔ جتکگ
کے پھلے ہی برس وہ جرمٹونَ کے ہاتھ قیذ ہو گیا ۔ ایک برس کی نظر یندی کے بعد ] سے
طبی وجوہ کی بتا پر وا کر دیا گیا ۔ .م8 وع میں قرانمیسیوں کو شکست آ فاش ہوئی
اور قراِی و جرمنوں “ا تسلط ہو گیا ان ایام میں جیالے فِرآنسیسیوں نے فان کے
علاف تمریک'مقاوبت شروع کی چش یں ساوٹر ۓ بڑھ چڑھ کر حصد لیا ۔ ۔ جرمٹتوں
کہ استیداد او قساظ سے" سارتر نےۓے جوعذاب ناک تی عسوس کی اور انئرادی
حیثیت ہے اس لن مقاومٹ کا جو پیڑاآٹھایا ]سے عوتی حیثیت کر دے کر ہی آُس تے
اتا فلمقہ موجَوَيی مزب کیا ہے چوٹکہ اقراد ہی جرمٹوق کے خلاف لڑرے
تھے اوز یہ رضا وٍ زغبت ابنی عزیڑ جانین قربآن کر رے تھے اور انقرادی طور ہی پر
ذای واہستئ؟. نت عے آٹھیق ابی زاہ عمل کا انتخابب کر ت1 پڑتا تھا اس لیے موشوعیت اور
فردیت قل۔قٗ موجودیّت کے اساسی ۔تصورات قرار پا اۓ۔ مقاومت کے دوران سارتر
آزادی کے ایک 'نئے مفہوم سے آئنا ہوا ۔ ”'جہوریں “سکوت؟ میں 'ُس نے اپنے ھجرے
کو تفصیل ہے بیان کیا ے٦ اس میں وہ لکھتا ے ۔ -
"اہم کبھی بھی ات آؤا ین تھے جنا کہ جوننوں سے تسلط سے ٴذوران میں
تھے ۔ ہمین تمام حقوق ہے روم کر “دیا گیا تھا ہسیں. بات کرئنۓ کا حق
٠ آے یرے ےھ توہین ک جاق تھي اورہمیں یہ سب کچھ
- چتّ چاپ ہنا پڑتا'تھا ۔ بیارۓ گروہ کے گروہ مزدوری پھودیت یا سیای
سر قیدکے تم پر جلا وطن کر دےکوتد ۔ اشتہاروں اخباروں کے اعلانات میں'
سم کا بردنے پر بازی جونے رگ اور گھناؤنی آ تصویر دکھائی جاق تھی ۔
۔ . بارے۔سمم گر یە توقع رکھتے تھ ےکہ ہم آنے قبول کز لیں ۔ بھی وجە ے کہ
5
- 101٤ہ[۷١۷۸٠١ہ۶۷., 08886100601 ۳۔- _ - 18110:1081 1008 -١
ےعے۱
ہے سز سے ےھ مسللہ نے ہوا ٤لم
ان جالإت میں ہم آزاد تھے۔ بر ہمارۓ افکار مین ناتسی زہر سرایت کرِچکا تھا:
7 اس لے ہم اپنے صحیح غیال پئ کو ابی فتع مندی سے تعیر کر تھۓ
ظاقت ور پولیں ات بات ؛ پندی پر جبور :کرق تھی ۔ اس لے : پیاریڑبانوں
ات کا ہو ہر لفظ اصّولوْں ے۔اعلان کا درجہ رکھتإ تھا ار ا ہر وقت شر
ے_ کھیلا جاتا تھا اس ٌ ہار پر اغبارۃ_ سّجیدم نے دارائي واہتق ےے رہ 9ڑ
یلا :1ء ہا ال
٤ جوا ان مہ اڑا حلات سی ہے پیارے لیے و ملق بنا خھا نرک ہم اس پرچوش
ا کو خی
اور حال, قسم کی موجودی! سے دو چار ہوںِ چو انسان کا۔مقبر جن چی۔
٦ 5 ملاوطنی؛ قید اور حَاص طور پوموت ,چس ے ہم اپتر پر بسرت آیام ہیں
بی ات یا وھ
٦ ۔عوت زدہ رہ تھے بارے لے اپسے ریات یی صورت اختیاں کر کئی جو
عادتا اختیار کے جاے ہیں ۔ وج نے ماق لیا کی 7 وہ :ناگزیر حادثات نہیں ہیں
س۸ رج زار خراد وت لے خروزق, ہو گیا :کہ اہم اٹھیں,بطوڑ
س ہی ۳ پے مقدر کے قب ول کر لب اور آتھیں ابی السا ۹ حقیقت کا .گمپھیر میداء تبرور
ےھ پر لمخے بر پور مفنہوم میں ہمیں۔ آنیاچھوے سے فقرے کا احسناسں
مٹ نے ہوتا ُہا: کہ ”انان فانی ےک از یم ہیں حا سے ابی زندی سے ۱
متقلق جو اثتخاب هی کیا وہ حقیقی ٢ تھا ہپ کیونکہ رف مو تی آنکھوں میں
رپ ٠ ّ ان کز نکیا ٹم وو ,یں طرح کا 5 کت ماع ض, چانا
کٹ ےلین یلان مین ان لوکوں ک بات جو کر اح او
2 نل کہ از رفاو بح کے سے کھے بلک امام فرا یب بوں کا
ئن کر کر ثٍ لت چتھولق نے چار۔ سال فک دن کے وہ کے مت ما
لها وق .۱ف د من کے لم ند 27ے ان غیر معمولی حا بالات میں ہمیں ایسے
جج" “ ہزات پوجاتے عوکر ڈیا چو دی کو بعام حالت رمیں نہیں سوجھا
کرت ہم میں سے 9ة ہجام لوگ * 2 نومقاونت کی تفصیل چانتے تو دوش ی
٠ حالت میں اپنے آپ سے پزچھۓے کے 7نو نا تے سے جسانی آ اذیت دی ت یکیا,
ک- "ین چپ وہ للکوں کاب 2 ان طرح آزادی کا پنیادی سُوال 'آٹھایا ی| گیا اوو ہم
نود امن کچڑے علم سنا بہزہ ور ہوۓ جو کہ ىآدم یکو اپنی : ذات ہے متعلق
ارزاقِ ہو سکتا ے - کیوَتكَة اسان کا رازم اي الجون؛ میں ےن کہکری
کی الجھن میں< ود اُس کٗ ای" آزادی ي' حدود یں سی موت.اور جسانی
ہے و ا مار ےی بت و لک نل کو کررے تھے انی
کشکی کے احوال نے ڈے ہعیں ایک کو :لی قشم کا تجرہہ عطا عط کیا وہ فِوجیوں کی
وت اح کعامر کھلاء لع تو کے ہمیشہ تنہائی . کے .دو چاررہتے تھے ۔
یہد نچ پائی پنی کے عالم تی ۴ کا ا کرڑے آنھیں گرفتا ر کی" لیا جاتا تھا ۔
[ ے بی اور کمن مپزسی کے الم ئیں آنھوں ۔ سے چسبائی آذیت کی کڑیاں جھیلیں
مشش ہا لی
کن
ھممووممسوسحوسفیو۔۔ نے ى
- ۸0875٤16 ۔٢ - ×15)608:0 ۔-١
ا کک ک اق ظفل فی بے
ا ے۔ رر کت ا جا ےر' وب ه
سے سے سید ےا
۸ے
٠
ایا اور بت“ طادان“ لے ساہتے دج اھت ےجب کت کو بھی
1 ہمٹ إِفزائی کرنے دالا موجود نہیں تھا ب لیکن از پنی شہائ یک گہُرائیوں میں
وہ ان لوگوں٠ کے لے سیل سن تھے جو مقاوت "می اك کے ساتھی تھے ۔
تسپائی. کے الم میں کائل ڈمے. دارٰ کیا بٰی آزادی کی تفریفی نہیں ۹+“ ا
فی ا : جن غاص حالات گا سازتر قے ڈکر کیا سے ٌُن میں ے ھک آزادی وک 0
تع تعزيفی جاسعی ے لیک کیا یہ اتی تعریفاے ہو ہر نوغ کے حالات می سی
سی ہائنۓ مااۓ اہ و ت۔ ہو ے کہا سے کہ ساوتر جس
لت
عنڑے کا ینان گر *کرٹا کے وہ نیا می لیت کا7 کا ۓے کہ ایگ سیامی گزوہ کا حورہم
ے۔ اُعلاقیای' تر ھی ےک ا اغاق "اتب یٹ مشتول کے ...تم
فابعد'الطیِیاق ہ بھی سے کا یب ایق اص" صورت* احوال میں فرد کا تجربں سے جو
کان تج“ عالم رم از 'جاعت نے انا تطلق جزقرار زمخھتااہے جس کے اسنہ و
ذوآپٰ دس 2 تر کے ۔یظو رو ا ظورہ پر آزاڈی کے دو پل وڈك آر
زور دیتا ۓ ۔ من ظطور۔ہر ظلم مخ جم کا مقابہ' کز ری سکتا اؤز معبت طوز آڑ
غاب ى کے ذارئ الیم ان ایک را ُعموی دید ضورت حالات کو
کت :زنگ دے ای َ ہے چنائمچہ سارٹز کے آزآدیٰ کی چو تتریف
جۂ بَالااقتباس' ۓ <اوآغز میں کی“ سے وہ وہ اوت کے دوران میں تو دوست ے
لے دودرق خی تفم یا دوسرے اتسانی احوال و ظرَقْ می بھی سچی پوسکے۔
آزادی کا يہ یم تصور بڑی تعد مکنا فعنیٰ ےا یعتی' مّاومت کے دورات اپئے سم تم کر کے
مائ ٭ تنہیں؟؛ کہنے چپ بن مقاومت کرۓ والؤں کو اپٹی ٭آزاذیٰ کا احساس ہو
کتا ہے< آزادی تر 'الؾ؛نسي رر وت وک
دتے ڈیا ے۔“ ای بنا پز'اوَثز کو مثقیت کا فلشی بھی کٹا کیا سے ا
مم رع میں سارتر ے درس و تدریس ہے کتارہ کشی اخخا کر گر اور تل
کاغ”میں-متہُمک ہو گیا نے شروغ ہی سے بورژوا نے “رت ٹھی اور اہی او
اثالیزت کا کیم موا یکا دم پٹرتا رپا لیکن لظْرياق اختلاف کے باعث ۹ء میں اس
ے اتی علییدہ جبأعت پرو یی تام اس ہے ''جسووری انقلابی جاعت؟؛ رکھا۔
اض جباعت کو قرو نو ا مھ نے پھر إشتالیت کی پر جوش. ۔ ایت کرنا
شروٰغ کیا آجکل وہ رومن' چین “ وا اور دو نسرتے اضعا ی مالک کی تعریف میںء
7 رات لات ہے اور سرمایہ داو مفرپ رم سی فا نود
ےڈ جب ؛ اضلاع ر تتحذہ ایک کی سار ہے کبیوبا ہی جم برا تو سارتر نے اضلاع
تتحدہ ام یک کے خلا قلی عاذ“کھڑل دیا- ۔ اسي طرح اس لے شدید خالفِت, کے
باؤچْود الجزائر کے حزیت پستدؤں کی ذنیرائہ حایت کی جس پر اس کے کان کو بج ہے
آا نے کی کوششی بھی کی گید وہ ذیت ام کے حریت پسندؤں کی حایت میں خاصیٰ
مبوگرمی سے کام کر رہا ہج آس امات رک نویل انعام پیش کیا گیا تو اسٍ نے یہ
کہ کر آیے ٹھکرا دیا۔ 6
یئ
چس
۲
”میں ژاں پال سارتی کے۔ بجاۓ یں دسصاط کنا پسند نہیں .کرتا۔”اژاں پال
بے سارٹر نول انعام کا پاقے والا“۔ :
٘ _سارتر کی زندق بڑی ساد میں گزر رۂی ے۔ آسے لڑکپن ہے پڑھنےکھنے کا
جنؤن رہ ح الب اسی “لیے اس ہے ابی خود بوشت. سوا عمري, کا ام ”الفاظ)؛
رکھا ے۔ الفاط۔ٴہی اس یا۔ اوڑھٹا چھونا رہیں۔ مس کا خبوب بشغلہ یہ رے کہ وہ
پیرس کے کسی ہوٹل کے کسی .کوٹے میں بیٹھا چائۓ کی چسکیاں۔ لیے ہوۓ اپنے
ناولوں. تمئیلوں اور فلسفپالہ کتابنَ کہ لیے اشارات قلم آبند کرت .رتا ہے۔ اس کی
تمثیلیں 'دٹیا 'بھز کے شہروں میں کھیلی جائی ہیں اور لوگ جوق در جوقِ آنہیں دیکھۓ
آے ہیں اس کے قلم سے نکلے و ۓ ایک :ایک لفظ کو عقیدت سے پڑھل ۔جاتا ےآ
ََاوِقر سے معبر؟ یت اطالیم ٠ روس آفر اغبلاع متجدم ا یکہ ی سیاجتِ بھی.5
ہے۔ آج سے تیسں چالییں" برس لے آس ے انی ایک ہم جاعت اور, .۔دوست عو
دی زواثر سے یم عافد کیا تھا کہ وہٴبغیر تکاح کے میْاں ببوی کی طرح زَندى گزاریل :
ص0 م وہ اسرناہدے پر پز قائم ہے اس معاہدے میں طلاق کا کوئی ذ:کر نہیں ہے شاب
اسی لیے یہ تعاقی مٹکوحں رشتے ہے ژیادہ پائدار ثاپت ہوا ۔ سمون خود بھی ايك
بلند پایہ اہل قلم ے۔ ۔ اؤہ سارتر کی ”'ملحدانم توجودیت* “ک پر جوش خامی سے ۔ اس
ے اپنی مشہو رکتاب ''دوسری جنس؛ “ میں عورت کی ئفسیات بی جو جحث کی کے اِس ہر
سار کے افکار کی چھاپ صافٌ دِکھائی دیتی ہے ۔ دوسریٰ چنگ کے عظم کے خامے
پر سارتر اور کاسیّو ے قسلفہ* موچودیت کا رخ : تخلیق فن,وادب ک طرف سوڑ دیا ۔ سارتر
کا عقیدہ تھا کم ادبی و فی لیت تق ہی. تہ مجات حاصل ہوقی ے ۔ لیکن اپ وہ دویارہ
فلسنے سے رجوع لا رہ ے - کبھی کبھی جدید دور کے 'توجوانو کو دیکھ کر ے
اپنے ''غریپ شہر؛ “ ہوۓ کا احساس ستاۓ لگتا ے لیکن روہ جدید تسل سے مایوس :
نہیں سے ۔ ۔ کہتا ے۔_ ٌ
جھے ابنی اورسمون دی بووائرک نسل اور موجودہ تہمل میں پڑا فرق -- ۱
ہوتا ے ۔ طالب علمیٰ کہ زمائے میں ہم آج کل کے بیس سالہ نوجوان ہے ختلف
تھنے ۔ کمزور تھے ۔ قوت فیصلہ سے. نحروم ۔ ترنم_خو اور ے خبر .تھے ۔
٠ آچ کل کے توجوانیاری یہ سیت زندی کا سامنا کرنۓ کے لے ژیادہ مستعد
: اور تیٔار ہیں ۔ وہ ہم سے زیادہ صا "و ہیں اور ایسی اتی چانتے ہیں جو
ہمیں معلوم نہیں تھیں؟)
سارتوُ بڑا جامع _حیثیات ے ۔ ایک نامور فلستی ہوّے کے علاوہ وہ ایک پلند ً
مثیل نار .او قوِن نقاد اور سیاسی مبضر بھی ے اس کے فلسفے اور ادب میں
گہڑزا تقلق ے وڑ ا کی مئیلوں اور ناؤلوں میں چایاآ .اس کے۔فلسقیائہ افکارک
اد ما بئی' ہیں ۔ ڈیل سا می اس تی بعض ,معروف تصائیف۔ کا۔ ذکر
کریں' ّ ٍ 9
ھارتر 7 پل ناؤل ”اسیا“ مو ٤ع مین "شائع ہوا تھا ۔ انگریزی میئ اس ک
۱۸
سرےہ
ترجہ ائٹوئن روکوینٹن کا رؤزناتچہ کےعنوان "من کیا گیا ۔ اس ناول کا٠ س کی
کردار رر ایک اہل قلم ے جو دنیا کی لغویت میں معن تلاشِ کارتے کی
کوشش کرتا ہے دوہ دیکھتا۔ ۓے؟ لہ میں:چازوں×طرف لُے' جن اشیاء- -اور ا٘شخاص
میں کاو 7 وہ سراسر لغو ہیں۔ ایک ٹکار خاۓ میں وہ نورڑوا چہروں کا مشاہدہ
کرتا ے تو 'لغویت کا :یہ احساس اور بھی گہڑا ہو جاتا ے اور وہ نوچنے لگتا ے
کہ اس لغویث میں معدلی کیسے پیدا کیا جاۓ آخر وہ نتیجە اخذ کرتاے کۃ اِس مقصد
کے لیے وہ کچھ چھ نہ کچھ تخلیق کرنۓ مث ایک نال 'لکھے ۔ "اس تخلیق سے وہ مکلف'
ہو چائۓۓ کا جس کا مطلاب وابستی ہو ۔ بھی 3ابسنگ آُس کی ذاقی بات 'کا اباعث بن
جاۓ گی ۔ ایک دن اُس کا گزر ایک با ی طرف ہوتا ے2 وہ ایک ذرشت کىٗ جڑ
می ںگھورتا ۓے“تو یہ حساس دوبازہ سے ستاتۓ لگتا سے کہ تام ے جان اور ڈذی میا
آس کی اپنی ذات سسّبت حض لو اور ے مصرف ہیں ۔ اس ہےوہ امتلا حسوسکرتا ہے۔
'”لغویتت نہ آواز تھی اور نہ خیال جو میررے ڈہن میں آبھرتا۔ یں ایک لمہا
- چوتی۔ دہ سان تھا جو میرۓ پاؤں میں :کنڈلی مارے بیٹھا تھا ساپ تا
پنجم یا جڑ۔۔۔ بات ایک ہی ٹهّی ۔ میں جان' گیا کد مہ اب بنی سوجودگ کا
اپٹے امتلا کا سرأۓ اپنی ہی زندگ میں مل گیا تھا اور اس وقٹ ہے جو بات
٢ ' بھی میں سمجھ پایا ہوں اس کی جڑبھی لغویت ےَ-, ٠٠”
غاوڑے کور و کرندن کے ہردے نی عرد اقب اتی فلت اق دق ے اوز
وہ فن وادب کے وسپلے سے لغویت میں معٹی پیدا کر کے اپئی ہیی وٴقلبی غبجات کا
طالب ہے۔ یاد رے کب لغویت کا یہ احشاس قراتسیسی, ملحدائہ موجودیت ئ ایک
'تمایلں خصوصیت ہے ۔کاەیو سبمی قیس کے اسطورٴمیں کہتا ے۔ "
7 ”'اوراق آئندہ میں اس لغویت کا 3 کر آۓ گا جو پاریٴ دثیا پر مسلط ے ۔؟
-'آزادی کی راہیںە“ کو سارتر کا شاہکار سمجھا جاتا ے یہ تاول کئٔی جلدوں میں .
کا ےم ور ۔ اس کا سکزڑی کردار پرویسر میتیو ے جس
کی داشتہ جو سے میتیو-اسقاط حمل کے لیے روہیہ فراہم کرۓک
کوشش کر ہا ا ہے ۔ یہ روپیہ اہے اپتے ایک مداح بورس ہے مل چاتا ے جو یہ رقم
اپنی داشتہ شتہ سے چراتا ے ۔ میتیو کا ایک دوست ڈیئیل جو سدونیٰ ے مارسیْل سے ۱
شادی "کرکے اس کے غخرامی بے کا باپ بننے کی پیشکش کرتا ے ۔ ناول کا ایک اور
کردار برؤنٹ ناتی ایک کمیونسٹ ے جوظبقاق اثصاف کے حمنول کے لیے جد و جید
کر ڑا ے آخر اسے گرفتار کر لیْا جاتا ے۔ -قیدیوں کی : ڑبوں حا ی کا سارثر تے
استادائہ چایک دستی شے ثقشثب کھینچا ے اور ان ىَ مظلومیت "کو اجاگر کیا ہے ۔
- ناوؤل کا آغاز امن ژماۓ سے ہُوتا' ے جب یورپ پر ای حمّلے کا خوف مسلط تھا ۔
- اس میں جنگ اور و ما بھی بیان کے گئے ہیں ۔ آحر میتیو جرمن
۱- 2۵0ء٤1 (مشچژدہ) ۔- نی : لہ"
۱ ۱ ج-_-ت" : 0
ماد وج والے ایک دستے میں:: تماہل ہو جا جات ل نے اؤر لڑتإیہوا۔
اوت کو ید سی ےت پر تی راس کرک
جٌُ
:
سی را ۓ( یں
ور بارتر ج - افسائوں ہیں 'دیواِر ایک جہترین ای و سے یہ اس کا موشوع
2
بھی تحریک مقاومت سے لیا گیا ے,۔ جرمن۔فوجی فرائببیسی عبان وطنِ کے :ایک ابد
جستجو میں سرکرذان ہیں۔ اس دستۓ تج کے ,کچھ افرادِ پکڑے جاتے نیب ۔ اف پیا
. سے ایک قیدی ہے .کہا جاتا ہے کہ تم اپنے قآئد کی تا اہ کا پتہ بتا دو ورنہ یج
رمویرے مھیں گولی سے اڑا دیا جایۓ کا ۔ .اس رات نا شیخص کے ذہن-و قلب پر
عجیب عالم گزر جابے بی جن۔کی تفصیل نگاری میں سمارتر کا ان عروج پر ر دکھائی
۔دیتاےِ ۔ صبح سویرے جب اس قیدی :کو رن افسر کے سامتے پبئن :کیا جاتا ہے
تو وہ جھوٹا موٹ کہ دیتا۔ ے .کہ ہار قائد قلاں جگٍِ چھپا بیٹھا ے'۔ سہآہیوں ک
دوڑ جاق سے تو قائد واقعتا اسی جگہ ملتا ے اور پکڑا جاتا ہے ۔٭ 7 -
سارتر کی تمئیلوں میں تواگزٹ' فلائز اور آلتونا؟ خاصٍ طور سے قابل د ذکر ہیں ۔
۔ نواگزٹ میں تینِ برائیوں بزدل.ٴ عورتوں ک ہم جنسی محبت اور بچہ ػشی کی طرفت
توجہ دلائی کئی ے اور اُس۔ ربطِو تعلق ک تو موضوخع بنایا گیا ے چو یک شخص
اپنی زندگٍ میں دوسرے لوگوں سے یذ پیذا کرتا ہے ۔ اس کے .تین کردارو پر جو
دوخ میں مقید ہیں یہ اْکشاف ہوتا ے کب دویرے' لوگ اور آن“ یىی صحب ہی اصل
دوزخ ے ۔ فلبہفیائہ پھلو سے اس میں سارقر کے یل نظریہ پیش کیا ہے کہ ایک شجخص
کسی بھی دوسرے شخص ہے ذہنی وقلبی رشتم قائم نہیں کر سکتا۔ ۔ ڈوسرے الفاظ میں
“”موچوذیاق موضوع“ لازتا تدہائی کا شکار ہو جاتا ے اور : تنچائی ہی کی حالت میں
”سے اپنے لیے راہ عمل منتخٍب کرٹا پڑق ہے اور پھر اس عمل کے ت کی پوری
اقم داری ہے ساتھ قبول کرناً پڑتا ہے فلاثز کا سس کڑئ ۔ خیال' بھی اس“ 0ب
ہے رد یہ تمشیل سب و رع میں حر وت فراشن:پر جرمتوں کا ساط تھا ۔
اِس ہیں ایک قدیم یونانی موضوع۔ کو نۓ إنداز میں پیش کیا گی اس رق دس
.کہ آگامیمنون اس قوج کا جالار تھا چسے بین کی بازابٹَ کے لے ٹراے بویچجا کیا تھا
آکاممنوت کی عدم مؤجودگی میں اس کی ملکہ کلی ت نمُٹرا ہے ایکب شخص ایجستدسی نے
بدنا خے نے یع گا و ہے
رگ
لف
اس ۔ققل کر ڈیا اور اھ بادفای باقن 'پیٹھا ۔. , آگلیمنون ی بی الیکٹیآںکو
نیو ہی رش دی م ہارتر یحے
7 رس لسے کر بوجرتبان نگ دیا ہوں و روہ ۔کہتا ے کو آ گامیمتون کے قتل عام
عام پہری: اجتاعی احساس چرم۔ حتف می بتاوریو, بک 7 حت عون کا لک اس
-3723
آید ۔اوز و اس نے 7 مان ادیاہں کے عاشی دونودں کو قل ٠ کر دیا۔ ۔ ٍخداوند خدا
٦
تعلق "استؤاز کر لیا ۔ جب آکامیمنون جا لوٹا تو دوزول نے سازشر کرپک'
ے-
چیولیش مقار ہوا الیکٹرا 'جوئیم ابر نشیائ تے کانپنے لی اور چارادفدر کے بچدیوں :
سے
پعہشاسسجے
١ہ ال ظط ہ7۲ 2 ےت و۸ و 5۲01165.08ر: 8 -
کے تھی ھا
۳۲ھ" لا ۴۲
۲م
میں گر :کو کون ہبارترکی الیکٹراً یوٹای قصے کے باک اور نڈر
لڑی' نہیں ہے.۔ اؤورسٹیڑ نے دلبرانہابیق ذے داری۔ "تسعلی۔ 2 اورمارتر کے یفہوم“
ےت ۰- نے گار کات سیت تچ و مک ہن
چیویش× !'میں تے "نھیں آزادی.امن لیے دی تھی بک اری.غبادتاۃ کروا'
تق اؤرسٹینی ٠ ایسا تبی: :ہوگا لیکن يہ آزاقیٰ۔تیرے ہی غلاف اہ وک یگ .0
رز“ جنبہ او3رسطیسس؟ علط: کھچا کہ یں نے بقفل کر کوٹ برا ام نہیں کماتن
جنونڈر غتا ہوگیا ملاسا ول ٹہ شوہ کی مھ لاہ ےپ . <شت
: جیوپیٹر م ”کیا میں نے ممہیں پیڈا نُیں ,کیا تھا ؟٤ 7 با
ت٠ اورنٹیس : : آایں ٹھیکت ہے لیکن ٹون :چھے ایک مرد آزاد دا یا تھا خلیق
ا بعد میں تورابندبٴلہ ربا'ۃ پھ رکا ٠ تا یہ ےم
7 میں خود ہوں ابی آزادئ)٠: ٠ 7. . ا ٦ ٠
اس مئیل میں رمزیاق پیراے میں فرانمیسڈٔیول کو جرمن فاتحین کے خلاف -
کرۓے کی 'دعوت دی گئی تھی۔ اسر کے بی السطور سارقر نے اہن ہموطنون کو
اس بات کا احساش دلایا کہ چرىیّوں سۓ:شکست 'کھا کر وہٴ اجتاعی احساس جرم
.میں میتلا ہو گن بی جس لے جاتہ :پاۓ کے لیے جرمتوں کو قتل کرنا ایک مستحملئع ٴ
اقدام. سے ۔ اس نمثیل کا ایک سبق یں بھی سے کہ خابر۔و ظالم ,کو جان ہے مُارنآ
کا خی ےبد ار ہے جح تم > ۵292-1-٦
آلتونا؛“میں سارتز نےجرم ک اأَْجھخ کا جڑیں۔ کیا لے ۔ ۔ فرائز فان گرلاخ ایک
تچریؾ فوجی.|إفسر تھا جس تے دشممن کے سےشار جنگی و دے دے کر
عارا تھا ۔۔اتے ابی۔ قوم يشکست: تا سثت لم تھا۔ جنگ۔ ے۔خامے۔پر 'وہ۔اپن
گھر میں زاویہ نشیں ہوگیا۔اوو'ہیرو دنیا,تے."مام۔روابط-منقطع کر لیے ؛ن فزائزایک
رف خرمنّی کی شکبہت سے آزرادہ تھا ذؤسری طرف اپئن گھتاؤےۓ جرم کی یاد ان کے
ٴ لیے سوپان روح بن گی و اب :بھی اتی فوجی افسری,وردی ہٹتا تھا داع نۓے
اپتے رکنرے کی دیزار پز ہٹلں کی تقویر آؤیِزاں کر'رکِھی تھی یخقایق: کی ذنیا ۓۓ.
گر یز کرنے کے لیے اس نے منییاتاءا. اشتمالٰ ثبرولع کیا '-اس :کا تحبوب سشقلیزیہ تھا
کہ وہ ٹیپ کی مشین' مین تقریر ہ کیا تک رتا تھا ھا کیا لے ۔و لی 'نشلؤن "کو معلوم ۱
وجا يك کہ جرشٍئ کی شکست میں قصور جُرمنوں کا نہیں ھا.بِلْكہُ تاریے کا افکررتھاء ٤
اس نے تفیلات کی :د نیا ۔یسازرکھی تھی :تیر پرس۔ کی عزاتکزنی' میں ۔اسن ہت. ججق
یی ایس یں خت گیری یق لاہ جیں کے,ساتھانں کا۔میائتہرچلتکلات فرانزکا پاپ
نان کرلاخ ایک اھ پچی ضعت کو تھا داد پت نٹ کے ظرچ جژم .کی الچھن ہیں بتاا
۔ تھا میراسے یں احساخلِ اذیت ,ےرہ ل تھا ےکس یہودیوں کا _کیەبیة جہاں .لیہس دے فریعغ
قتل کیا گیا تھا اسی ی اراضغی پر بتایا گیا جو تھا۔ بوڑھا فان گرلاخ اپی۔ساری-جائداد
۔تفزائڈ کو ورے میں اچ وڑنا: :چاپتامتھالں:ئی قد کہراسں کی رات اپنے چون پیٹے اورنر
کے متعلق اچھی نہیں تھی فرائ کو گوشہ عزنت سے لکلنے کے لے اٹ لن ایک خال
مر ۸۴ 5 ٍ 9 4 ق یڑ
چدتے ے
7 کے
چلی" 7 ۓے ورئر کٗ حیدین بیوی.یوحنا؛ کاو ,فرائز کے: پاس,بھیجارتاکە وہ ایۓ اپنےٴ
۔کمرے سے بای نکلے پر:آناذہ کرجے'۔ یوحنا فرائز سے لی تو فراتز نے اتنے سالوں
ہیں اپنی ذات کے گرد جو حصار تعمیر کر رکھا تھا وه شکمت و ریخ ہو گیآ اور
وہ لعقایق ک دنیا میں لوٹ آے پر حبور ہو گیا ۔ تؤحنا فرائڑ کے مںدائہ:حسن یر قریفتہ
ہوگئی اور وہ بھی اس ہے محبت:.کرۓ لگا ۔ شادی رس ۓےپُھلے پوحنا ایک مقہول ایکٹرس
رہ چک ٹھی اور اپنی موجودہ زندگی ے اور شوہر ےےضّخٹ بیژار تھی:- فزانز کے عشقیٗ
ہیں اسے تلخ حقائق ک دنیا سے فرار ہوۓ کا موقع مل گیا۔ أس وقت چب فرانز حقائقی
کی دئیا ی طرف لوٹ رہا تھا. یؤجنا ا سے گری زکر رہی تھی -- اس محبت سے فرائز
دِوبارہ اپنی زندگ میں دإچہپی بحسوسکریۓ لگا۔ لیکن چیب لینی کی زیانی یوحنا کو
فرائز کے جرائح اور مظالم کا علم ہوا تو وہ فرائنّیے متنفر ہوگئی ۔ اس طرح فرائز کا
آخری سہارا بھی ٹوٹ گیا آخر فرانز اور اس کے باپ دوتوں ۓ خود ٭ رن کہ
احساس چرم کی تلخیوں سے جات حاصل گیا" رب ال
0
ساؤتر کی فلسقیائم کتابوں میں۔ ”'ؤجود وعدم“ ہنب سے ژیادہ نے کان
میں ساوتر ۓ اپنا فلسفہ بڑے مدلل انداز میں پیش کیا ے ۔ ۔ساوتر بران کے دورات
قیام میں ہا ڈگر اور ہسرل کے افکار سے متائر ہوا۔تھا ۔ اس کی مابعد الطبیعیات ہسرل.
کی اظوایر پسندی ہی پر میئی ے ىا یعنی وه اس نے بخث کرتا ہے جو .اس سے
اعتنا ہس کرتا جیسے ہونا چاہے۔ وہ. ہسرل کی طرح اپئی فلسفیائم جستجو کو
صرف ظواہر تک محدود رکھنا چاہتا ے اور کانٹ یا ہیگل کی؛ طرح ختییقت نفس الامس
کے چکز میں نہیں پڑتا ۔ بقول نمون دي۔بووائر ٭ مو وع تک موجودیتِ پسندی کی
تر کی ہے وہ واقف نہیں تھے ۔ چنانچہ شروغ شروع میں.۔سازکر موؤجودیت پسند کہلانا
پیند نہیں کرتا فک الیتد۔ جب سب لیگوں ۓ تواتر وکثرت ہے اے" یؤجودیت
پسند کہپتا شروع کیا تو وہ خاموش ہو گیا۔ ایتداء میں سارتر ظواہر پسندی کے
نظریہ شعورز پراپنے فلسفے کا نظریں استوار کرنا چاہتا تھا ج جیا کہ 'وجود و عدم؟“ی
ڈیلی!ٴدرخی سے ظاہر ہے بہ پانی ڈگر ۓ ڈیکارٹ کے اس مقولے ”میں سوچتا:ہّوں :اس
راس لیے میں ہوں؟؛ کے مشعلق کہا تھا کہ:ڈیکارٹ ۓ یہ کہ کر کاڑی کو گھوڑے
کے آگے جوتِ جیا ۓے ۔ کیوں کم'جس تک 'میں۔ہوں؛ یا موجودگی کا تعین نہ کر
لیا جائۓ سوچتے کا ذکر لاحاصل ۔ے.۔سارتر ۓ بھی یہ اصولِ رد کر دیا - وہ ہسرل
کی پبروی میں کہتااے کہ ممام شیعور ارادی ہوتا ے یعنی تمام شمو کسی تہ کسی
ثے سے وابستہ ہوتا ہے جیں۔طرح'آئینہ۔وہی شے رکھتا ے جس کا کس اِس میں پڈۃ
ےچ.اسی طرح ان اشیاء عے الگ جن پر شعوری'عمل ہوتا ے شعور کا کوپز۔
نہیں ہے ۔ 'وجود ہو عدیم میں اسی میقدمے ہے اس نے اپتے:اسٹدلال کا
ہے دراو وہ سر ساس و >2 - سج -ج
۔ ان 0700٦ 0ہ جزہ ٥ه ص۸ (ظواہر پسندی ۷
پر ایک یقالد) ۔
ٍ
ے تو ہہ یہ 3 دی 7
رس ۰ سر رت ۴ لٌ۔ پا پا
٠ 7ٰ "۸۸"“۰۰
و َویَےّ عبارتر کی الیکٹر] یونانی قمے کے باک افرظر
لی نہیں تے۔۔ افارسٹیڑ نے دلیرانك اي ذے داری۔'تعلعآکری اورمارتر کہ مفہوم”
کل اض ع ہم کناز ہو ات“ لا یج سم مم ےت ی
_ چیوپیٹر :.؟!'میں تے میں آزادی.امَنٴ لے دی تھی کہ تم :میری: غبادت' کروؤا؟
٦ اؤرسٹییں آ'ایسا ہی ہوگا لیکن یہ آزادی۔تیرے ہیخلاف:ہوگڑ یگ ٥١ __ ح
یڈ" جتبٴ اورسٹیس؟ دےكۓٰ :کہا کبیہیں,ۓ :قٹل کر کوی :برا کام یٹھیں کیا تی ۱
جیوپے ۰ ٹر ختا ہوگیا'۔؛ بن لآ وا عڑیے و یج ہے لات 7 کی و تد
٠ ۶ئ
جیوپیٹن ٠ ”کیا میں نے ممہیں پیڈا نہیں کیا تھا ٤٦۶ ٠و
“ اورنٹس : ۶ی ٹھیک ہے لیکن کے ہے ایک مد آزاد إیدا کیا تھا۔ تخلیق
کے بعد میں تیرا بندمٴٹہ رہاە پھر کیپا و اع کی
میں خود ہوں اہنی آزادیٰ؟٠" :۰ سو ےت کر یں ٹم
اس سمثیل میں رمزیای پبراۓ میں فرائنیسیول۔ کو جرمن فاتحن کے خلاف بغاوتا
کرے کی ادعوت دی گئی تھی۔ اسر کے بین السطور سارتر ۓ اپنے ہم 'وطنوں کو
اس بات کا احساش دلایا کہ جرمؤں سےشکست کھا :کر وہ اجتاعی احساس جزم
.میں مبتلا ہو گئۓے ہیں جس لے جات پاے لک .لیے جرمتوں کو قتل کرنا ایک مستحملئ
اقد اقدام, ہے۔ ساس ممیل کا ایک سیق یہ بھی ے 2 کے چابر۔و ظالم ۔کو جان سے ماوا
کاڑخیں کےں تر 2ئ0 بی ے
ت .ڈالتونا؛“میں سار یرم کی او اہ کیا, ہے۔ ۔ فرائز فان گرلاخ ایک
تچریؾ فوجی.إفسر تھا جیں تے دشەن کے ےشار چنگی قیڈیوں :کو عذاب دےۓ دے کر
نتارا تھا۔۔۔اسۓ اپنی۔ قوم ي شکستکا. مخت صلمہ تھا چنگ کے خا کے پر وہ ابد
گھر میں زاویہ نشیں ہوگیا۔اور 'بیروق دئیا,تتے.تمام روابطہمنقطع کرر لیر 7
طرف خجرمٹی کی شکببت سس آزرادم تھا ذفسری طرف اپنن۔گھتاؤۓ جرم کی یاذ امن کے
ٴ لے سوپان روح بن گئی۔ و اب بھی ات فوجی افسری وردی پٹتا تھا :امن نے
اپتے _رکنرے کی دیوار پز ہٹلر کی تصویر آؤیٔزاں کر کی تھی ے, خقابق. کی ڈنیا نے .
+کریڑ کمرے کے لیے اہ ۓ سنشیاتدکا۔ :اتال : شبر و 7 “کیاے-اس کا یو اب ؛ مغلب :یہ تھا
کہ وہ. ٹیپ کی مشین'مین تقریر ۔کیا_ٗک رتا تھا بقا کو نے وی 'نشلؤن“کو معلوم ۱
ہوجاۓک کہ۔جرمٹی کی شکست میں قصور“جرمنون کا نہیں“ تھا :کہ تارم کا "قٹور:تھا۔ ١
اس نۓ تغیلات ک ×+نیا یسا رکھی تھی یی:قیرۂ پرس۔ کی عزلتگزدی- میں :اس :کئ۔ بھن
' لینی ایک رخ گیری بای ہی جیں کے صاتیزائس رکا میاشق پل ِکلا۔ فزانز کا پاپ
فان گرلاخ ایک .لکھ پّی ضنعت ارہ تھا ,چو ای پنے بیٹے ی'ظرج جژم۔کی'الچجھن ہیںامیتلۃ
_ تھا ىر اسۓ یی احساشٰ اذیت نرہ اتھاے۔ کے × مودبوٰدۂ کا _کیممید جہان یہی جے دریغ
قعل کیا گیا تھا اسی کی ارافی پر بنایا گیا تو تھا۔ بوڑھا فان گرلاخ اپنی۔-ساری-جائداد
تفزائ ڑ کیو وڑۓ ہیں اچ رژٹا:چاہتاءتھاںکیرت: :کہ زامن زاتط 'اپنے چیاوۓۓ بیٹے ورنر
کے متعلق اچھی نہیں نہیں تھی وا کو کیشد عزنت سے پیل سے لے ا لے 2 اٹک غخل
نے
۰ 7 >
۳ .. ۱ ہف 1 0 وچ“
چلی" نا ے ورٹر کی حمین بیوی .یوحنا او فرائز کے پاس بھیجا اک وہ اۓے اپنے
۔کمرے سے باہر۔نکلتے رآماذہ کرجےٴ۔ یوحنا فرآئز سس بل تو فراز نے اتنے سالوں
میں اپنی ذات کے گرد جو حصار تعمیر کر رکھا تھا وہ۔شکست و ربخٹ ہو ٴ؟یآ اور
وہ لنقایق کی دنیا میں لوٹ آۓ پر حجہور ہو گیا ۔ؾؤحنا فرائز کے مِندائرحدن یر فریفتہ
ہوگئی اور وہ بھی اس سے محبت ۔کرنۓ لگا ۔ شادی.ہیۓ پہلے یوحنا ایک مقبول ایکٹرس
رہ۔چکی تھی اور انی موجودہ زندگی نے اور شوہر سےتسّشٹ بیژار تھی فزائز کے عشقٰ
ہیں اسے تلخ حقائق ک دنیا سے قرار ہوۓ کا موقع مل گیا۔ أس وقت جب فرائز حقائیٰ
کی دئیا کی طرف لوٹ رہا تھا ۔یؤحنا ا سے گری کر وہی تھی ے: اس محبت سے قرائز
دوبارہ اپنی زندگ ہیں دلٍچنپی حبوس کریۓ لگاد لیکن چن لینی کی زیانی یوحنا کو
فرانز کے جرائم اور مظالم کا علم ہوا تو وہ فرائزیے متنفر ہوگئی د اس طرح فرانز کا
آخری سہارا بھی ٹوٹ گیا آخر فرائز اور اس کے باپ پ دوتوں نے خود کی کرت
احساس چرم کی تلخیوں ہے بات حاصل کان" ر ےل .
سازتر کی فلسقیانہ کتابوں میں ''وجودِ وعدم“ ہنب سے ژیادہ اہم ہے کہ اس
میں سارتر ۓ اپنا-فلسقہ بڑے مدلل انداز میں پیش کیا ے ۔ سارتر برلن کے دوران
قیام میں اق ڈگر اور ہسرل کے افکار سۓ متائر ہوا۔تھا ۔ اس کی مابعد الطبیعیات ہسرل.
کی اظواپر پسندی ہی پر پر می ہے ے یعبی وہ اِس نے بخث کرتا ہے جو ہے اس سے
اعتنا ہی کرتا جیسے ہونا چاہے۔ وہ ہسرل ی طرح اپنی فلسفیائمہ جستجو کو
صرف ظواہز تک عدود رکھنا چاہتا ے اور کانٹ یا ہیگل کی, طرح ختیقت نفس الامی
کے چکز میں نہیں پڑتا ۔ بقول نمون دي۔بووائر مو ؛ع تک موجودیت پسندِی کی
تر کیب سے وہ واقف نہیں نہیں تھے ۔چنانچہ شرواع شروع می غارکرانوخودیت تد کھلاتا
پبتند نہیں کرتا و البتد۔ جب سب لیگوں ے۔تواتر وکثرت ہے اہے" موجودیت
پسند کٹا شروع کیا تو وہ خاموش ہو گیا۔ ابتداء میں سارتر ظواہر پسندی کے
نظریہ شعور پر پر اپنے:فلہقے کا نظریں استوار کرتا چاہتا تھا جیسبا کہ 'وجود و عدمک
.ڈیلی!ٴدرخی سے ظاہر بے ب ہانی ڈگر ۓ ڈیکارٹ کے اس مقولے ”میں سوچتا ہُوں اس
اس لے میں ہوں“ کے متعلق کہا تھا کہ:ڈیکارٹ.رۓ یه کہ کر کاڑی کو گھوڑے
کے آگے جوت جیا ۓ ۔ 'کیوں کہٴجبّ تک۔ 'میں۔ہوں؛؟ یا موجودیٰ کا تعین ئە کر
لیا جاۓ سوچنے کا ڈ کر لاحاصل ے ۔ سارتر ِب بھی یہ اصولِ رد کر دیا ۔ وہ ہسرل
کی پبروی میں کہتا ے کہ ممام شیعور ارادی ہوتا ے یعنی تمام شعو ز کسی تہ کسی
. کے سے وابستہ ہوتا نے جن طرح۔آئیدوہی ثۓ رکھتا ے جس کا عکس اس میں پڑتا
ے.اِسی طرح ان اشیاء یۓے الگ جن پر شعوری'عمل ہوتا ے شغُور کا کوئی وجود
کی وجوھ 7" وو ا جج آغاز کیا نے ۔
<٦ “ ۱ ۱ ۰َ
2
_سس۔ سم اانسفت
یب سیک و اہ تو فی اہ > وت و اج 7
ہے ہہ ہے
ای بقائ۔ ' 4 سر ور مس یچ
ا تک مسا یی ا لہ ا ما 00ت یس جج
بم۸"
بازتر کنہتا ے۔کە عڈم وج دٴ سے خارچ تمیں نہیں ے بلکب داش کے اپٹے: رون میں
خفی لے اض کے نطون / میں موجود ے جیسے ایک کیڑا نھول کے اندرکنڈلی ماڑے
بیٹھا' ہوتا ہے ساوقر جرد وجود کو در شور اعتتا نہیں سمجھتا وہ اس کی ”دو قشموںل
سے بحث کرتا کے ۔ [م) شعور ([ء؟ تۓ جس پر شعوری عەل ہوتا بے ۔ بنارتر کہتا ٴ
:ے۔کہشے کو چھوا جاسکٹاٴے دیکھا جاسکتا ے لیکن بی بات 'ہم شعور کے بارے
میں نہیں .کم سکتے کہ ان کا أدراگ بلاواسطد تمکن نہیں سے اس کہ پاؤصف اس کا
وجود ے ۔ ادراک کرت وا ی ”میں“ سے لیکن .اس مفہوخمیں موجود نہیں ےے_.
جیسا کت مثل ایک میز موجوڈ ہے ان دوٹون: کو جو شے ایک دوسرے ہے جُدا
کرق ہے کی 'عدم؟ ے ۔ اس ہے سارٹر لے یہہ تضاد آمیز تیج اخ کیا ہے کہ
ب ”مین وہ ہون جو میں'نویں ہوں, او میں نہیں ہوں جو میں ہوں -٢ٴ سازتر کہتا ےے
کہ انْسٰان .وہ نہیں ے جو وہ ے کیوٹکہ وہ حال میں موجود ہوڑۓ کے باعثِ ماضی
سے ماوراء ہو جاتا ے اور انسان ے جو وہ نہیں ے کیونکہ اس کے سافٹے مستقبل
کے بالقوہ مکنات ہیں چو کہ حال میں نہیں ہیں ۔ اس طرح خالص مود کالعدم ہو
جا گی اور صرف ماضی اور ستقبل کے حوالے ہی سے اس میں معنول پیدا ہوٹاء ۔
لہناِ آئمانی فطرت کالعدم ے صرف انسای صورت احوال موجود ے لیکن دنیا می
کوٹ شے تو ہوٹا چاہے جو عدم کو وجود میں قائح و بجال رکھئے کے قابل ہو۔ _
شعور ہی وہ ثے سے ۔ ۔ اس ہے وہ نتیجہ اخذ کرتا کہ ”'انسان وہ وجود چم جس کے
ساتھ عدم اس دنیا میں آیا ے ۔)٤ 7 "
سارتر کہتا ہے کہ انسانی موجوڈق ایک ایسی کائنات میں و اور نج معتی تۓے
چو اس سے قطعی ہے خبر سے ۔ اپنے آپاکو معنویت عطا کرتے کا یک ۂی طریقہ ے
آور وہٴیہ سے کم عدم سے کاسل آزادی کا اقإام کیا جانۓے ۔ چنانغید انان ی آزادی َ
اسکی ذات کے عدم ہی سے معرض وجود میں آتی ے < آخری اور قطعی آزادی جنے
انان سے چھیٹا نہیں چا سکتا ''نہٴ“ کہتے کی آزادیٰ ہے اور بھی سارتر کے آظلزیہٴ
قدر و اختیار کا سنگ ینیاد ے ۔ آزادیٰ کا یہ تصور .ظاہرا متفی“ ہے اور : پ٤؛. کہئے
سے معرضٴ وجود میں آتا“ ہے۔ سارتز کہتا ے کہ اسان کی آزادی یہ ے
کہ وه ٢ نر4 نںا؛ کے د اس کا مطلب یہ ہوا کە اسان ہی انس وجود ے :جس _
میں عدم موجود ے۔ سارٹر کے ”میال میں عدم ہی 'ؤجود مطلق“ ے ۔ یہ عدم
انسانی خقیقت ے اور وہ منفیت سے ۔ ا طرج سارترز کی مابعد الطبیعیات میں متھٌی
رنگ پیدا ہوگیا ے ۔ : ۰ ٦
نج
سارتر ۓ عدم کا نظریہ ائی ڈگر ے اخلاکیا لے لیکن لے من و عق قبول نچ :کیا
کے پلگہ بڑی حد تک .اس میں ترمیم کی ہے ۔ پائی ڈگز کے یم سوال اٹھایا تھا کی مثیقت
2 مبداء: کیا کیا چا؟ اور۔جواب:دیا تھا ”عدم؟'۔ سارتر ے اس امتفسار کو آگؤ پڑھایا
اقے ےط ۴ ۔ جو " ہوے سای جه وط ٗےہ ہوح
اکووہٰ و ری ایر اص 55310. ہے سس قت ے
.سس
- ٭
۵ہ
اؤر پوچھا: کم نعدم کیں سے بیدا ہوتا ے۔ وہ ہائی ڈگر کے ماورائی عدم۔کو إمی
وئیا مب لانا چاہتا ے اور کہتا ے کی ماورائی عم دنیا :والوں کے٠ بطون میں
سرایٹ کر گیا ے ۔ ہائی ڈگر کے برعکلي وہ عاہم کو معروش ہۓ دوضوع میں منتتِل,
کر:دیتا یپ اس پر شعور کا پیوند لگا دیتا ے اور کہتا: ے کہ شعور: ہی راس دنیا
میں عدمٰ اور بطیت لیا ے پا ڈگ کیپتا یچے کەر دئیاعدیم ہے وجود میں آئ ے <-
اور اإنساص, , اس عالم میں دہشت بت .اور اذیت سے دوچار ے ۔ سارتر .کہتا سے کہ عم
ایا جج سد قات ہے بٹٹیع_ ہوا سے ۔ اس ظرح وہ ہائیڈ ڈگر کے اوران عدم کی
بجاے اتنے ہی, عدمغرض کر لیتا سے جٹے کم مور اسان وجوم د ہیں ۔ ہائی ڈگر
کے فلسفے کی اساس۔”وجود'؟ ے,جس سے سارتر بے صرفد نظر کر لیا ے۔ سارتر
کے بہاں وجوذ براۓ خود (شعور) اور وجود بذات شود (ئے) تو ضرور :یب لیکن
جرد وجود نہیں نے ۔ وجود براۓ خوذ اور وجود بذات خود کیے باہم مل سکتے ٠
ہیں جب تک کہ دونوں وجود میں مدغم _ئہ ہوں اس سوال کا جوابِ سارتر ہے
نہیں ین بڈٍ - وجود براۓ خود اور وجود بذات خود کی دوئی ڈیکارٹ ہیی دو
کی بدلی ہوئی صورت ہے یعی موضوع, :اور مبروض کی دوئی ۔ :.
سارتر: 7 اس معنی مابعد الطہیعیات اور ۔کوقیات سے جو اخلاقیات متفرع بویق ے
وہ بھی قدرتا متي ہے ام کا کامل قدرو 'اعثیارٴاخلاقیات میں ے زاہ ری کى صورت
۰ "اختیار کر گیا ے اوز آزاد 'صرف ”ڑ٥ کن تک تحدود بتوکئی ے ۔ اس آزادی
'مہیں ائیات کا ہکوئی پھلو نہیں ہے پر انسان اپّی اخلاق قدریں خود تخلیق کرتا ے
اس لیے وہ اپنے اعال میں مطلق العنان ے اور جي رام خہل کو چاے بلاروک ٹوک
انتخاب . کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھہ ہارٹر۔ خارجی عالم ”کو گھناڑتا اور غلیظ
ہے بک ی>
سمجھتا ے کے چو اساق آزادی کو سلب کے بے درۓے ہے۔ وہ کہتا ہے س کہ
رید
۔عورت کا ٍِ زم اور گداڑ بدن مہدر سے آزادی* مل چھن لیا ے دیما کم کو _
ای - ےم
اس ےو سے اشن و جال کو غلاظتم می ملقوف کر دی ے لیکن اُس کا
”کر آگے۔ ہے یں ین جیال کہ عدمىوجود میں سرایت::ک ر کیا سے مٹتی؛ سلبی اور
فتوطی ۔ سے ۔ علدم اور اس پرمبنی منقیت نے سارتر کی اخلاقیات کو کجروی ہم میں
بل ڈیا ے ۔ سارتر کا کہنا انتھائ قنوطیت سے کے َ
سے ہے
ا زندیی چپکے وی محلاظت سے چو بہت چہتے جم ؟ یی سک _ ے
ک ر
سارتر نے اپی_ تالیف حصداصعصہآا 85 صولدنامافٹوکڑ ہیں 20یک
و خوجودیاتی تُمہورپیش واج وہ اہن تر کیپ رکیپ کو ابْسان دوسی. کے مفہوم بت
ماختعال کرت کرتاۃ جس اک ماج اکا ہم 0 اےے ٭ میارتر ہکسہتااہے
سیر مترفتتا ہر کسہت ,پیٹ رکم ۂناسیا؛ مہ افبان دینیٰ ک, _تضجیک زکڑنۓے سے (ہ,
گا ہے پع کے کے مر
لم و
میں دویارہ اسی سے رجوع لأ رہا۔ہوں۔ ساوتر کے خیال میں سفندچوسۓتا ۲ کے دو
مفہوم ہیں ایک یں کہ انسان مقضود بالذات تچ زاور سو رسس اڈ یا تار بھی خود
۳ے
سے
۸۹ ۔ ٹ ہن
ڈی: ٭۔ اس سی حور مآ غلطِ قرار دیتا ے اور کہتا سے :کہ ہمیں.اس انسان
دوستی کی ضرورت نہیں سے" 'نیرا عقید ییو سے کا سوا ےر اپنانی ائنات کے اور
کچ ا
کور کائنات نہ .ہے اوز بھی جار مه سر سے جس سے ۓ ہمْ اسان کو یاد
دلاتے ہیں کم سوانے إنسان کے کوئی اس کے لیے اۃ تی نھیں 'پنا سکتاس ہم ے
"ُ۸۴
+ مذہب''کز کھو دی یا ے لیکن جسنندہ٭ہ0 کو پا لیا ے ۔آب اس بات يٍ ضرورت
ہے کم انسان رک آزاد کرای جاۓ اسے قادز تطلق سمجھا جاۓے۔ ہم ےخدا کے
وجود کت سے تا کہ انسانم خود اٹساق کے لیے فچود مطلق بن جاۓ۔
”سارٹر کے سے مہفوم ی رد نے آس کے حعنصد ون جا ترجمہ آ”'انسان پسندی“
ہوگا انمان دوستی نہیں ہوا ۔
.7 ”وودوعلم“ کے پیرایہ* بیاق میں ژولیدگ پائی جو ۔ سآرتر کی سنطقی
وشکائیوں آؤر جدلیاق نکتہ آفریٹیوں“ ۓ اس کے مطالبپِ میں الجھاؤ پیدا کر
دیا ےے۔۔ اس کے قلسفے کہ اصل آبزل:کوض عھۓے ک ار اس کی تال ''وجودیت
پہندی؟ ا ا و کا صاف 'ور سلیس ے۔
اور فلَقی کے متبد٘ی بھی اس ہے مستفید ہو سکۓ ہیں ٠
: ڈاکٹر مارس فریڈ مین نے کا تھا. کہ موجودیتٌ فلسفہ نہیں لے بلکہ رک
ماج (٥0ص) ےہ فر ینتک کاپلر نے اس کی تشرغ تشریج برے ہوۓے موجودیت کے
بنیادی آفکار, کی و جوجاج اور معز تلخیصِ شی ک تھی وہ قارئین کے سپولت فہم
کے لیے دوج ذی خ - دخ
ِ. .مان ا پگ سے معن کاثنات: میں 22 سے اور ل٥ پراسرار شور کےطقیل
* ہے ہے کے یہ
ڈے
٠ لح ے۔ .اپ ت ہوجزتیاق 2 .-1ئ"0( ڈنیا جو لئ ین
پیدا ہو ہیں ۔ یہ انتخاب ہر فرد کے ساتھ خصوص ہوتا ہے ۔ پر فرد اہی
۰" دئیا می رتا ہے پا بالفاظ سارتر.اہتی ہانسانی صورت احوال کی تخلیق 7
کرتا ہے ۔ یسا اوقات۔ موچُودیاق انتخاب ۔تحت:الشعور ہیر نی بنٹارے
ن لیگن صحیح معنوں میں زندہ رہنے کے 7 00 ہوا
پچ سے ڑا
۔-
۴ ضروزی سے جو تن'تتہا اپنی صورت آحوال کر ذے۔داری کے قپول کر۔لے۔
َ۰ اخ یی عزقاک آزادی موجودیاق" موضوع کو خوف زدہ رکر:ڈپتی:ے
٦ ۱ ََ ونب کی وش ابی : دی لیا ۔آیبہ منتخب . کرنۓے گا ضرورت حپیؤصس
کرد ے دم پاس رت سرت ہار رہویہجانے گا۔ و کو قدروں'ْ کا
0 السط کر ؟ قیذہ کے نظام ٢ بذہبی عقایڈ 5بورڑٹل اخلاقی ؟ 5 یمااپ
یسا آقات اہی ى آزادی سے صرف فظر کر ہے اخ سح وق و
رد یا کت کے انتخاب میں انم ہوے ہیں ۔ جن کا فتیج بالاخر
کس جورم کاچ مگ
5
20 و یوں٢٣ -وز جعندہ و ا
ا ہے ماا ساد 88۳ھ 0ے روف و ۔
لم ا کر ا لق سر 0 کان ہت سم ۔ 232-200۰
اس
۰
۹
مہ
چ
٠
وت کہ
: منانقت وا جو مغ ماف كت کی زنیق, کزارتا ےچ و مین حقیقی؟
موجودگی زکھتا- جس نے پدتر اور کوئی نہیں ےہ اس جالت ون
سے چھٹکارا پانا سآرتز کے تمیال میں وابستگی٣ ہی سے ممکن” ہو سکتاٴ ہے جس
"ا مطلب ٦ی انسانی* أحوال میں مثبت کزذار اد کرتۓ کے لیے دی ے
٘ ہزریٰ آزادی: اور اڈتقلال ہے اپنے آپ کو مکلف؛ کرنے لہ اس ہے دوسروںِ 17
آزاتی سۓ آگاہي ہوگ اذر چی بأت آجزالاس انا موجودی کو تکل وصورت
عطا کرے ي اور تو انسان کے لے مشتر مشترک ومیظمْ مقصد پیش کڑے ہل ۔
لیکن اس کا مدعا کیا ہوگا ؟ اس بات کا ابھی ساوتر نے فیصلمرٹھیں کیا ۔ چب
اس نے 'موجودیت بجیثیت انسان پسندی تےک“(درو ع) میں ذاسی کے
_.. ذریعےنجات کّ خیال پیش کیا تو اکثر لوگوں نے کہا کہ آس کےقتوطی فلسنے ۔
میں زجاثیت کا عنصر پید پیدا ہوگیا ے دوسرے مالک کے انان دؤزستوں نے
5 جو خذا کہ بجاۓ انان پر عقیدہ رکھتے ہیں اس رجحان کا خبر مقدم کیا
ڈارگی ۓۓ سس کہ کو اعت بائسں کر جا کا موا من کا لے لیکن انسان
کو خدا کا بدل نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ۔ اُس بے مزید کہا کہ میں ۔اپنے سابتہ
شف سے اضزاف نہیں کروں گا کہ انسان دا بٹتے کی سنا رکھتا ے ۔
صرف دوخرالڈ کر مفہوم ہی یں وہ انان پسند کہلاٹا“ پسند کرتا سن
: ری وچ ارک کیو کے
کی رکگرد کے یہاں موجودیت رنگ مزاج ہی تھی ۔مذہبی رٹگ مزاج ۔ کیرک گرد
ہے کہا تھا کہ خدا پر عض ممقیدہ رکھناکافی نہیں سے نہ اس کے وجوذ کے اثبات
میں عقلیاق دلائلن دینے سے مذہب کے تقاضے بؤرے ہوڑّے ہیں عیسائیت کے احیاء
کے لے ضروری ے کہ یزدائیت فرد ککے ۔گذباتیق وارادی تجرے مق حیثیت ایک
زندہ حر یق قوت کے موجود ہو ۔ پائی ڈگر اور.۔اس کی پیّروی میں سارتر نۓ فرد کے -
۔موضوعی تچرے پر ظواہر کت پیوئد لگا کر سے لا ادزیت اور الحاد کا جامث
تا دیا ے ۔ یاد رےٴ کہ موجودیاتی زاؤیہٴ نظر کا آغاز کیرک گرد سے نہیں ہوا
کور ہر تھا جس نے موجودق
تشرج کرۓ ہولۓے ایک عام فہم تثال دی ے۔ ۔ وہ کہتا ہے فرقض کیجیے ایک
ہے کے ہیں“؛ ظاہر ے کد دس ڈالر کہیں :ند کیہیں ضرور
موجود ہوں: گےُیعنی ان کموجودگ کو نماننا پڑے گا ۔ دس ڈالر ک'مُوجودگ کو _.
تسلیم کزنےۓ کے لیے یہ معلوم کرتا غیر ضّروڑی ہوگا کم ید دس ڈالر٢٘سئ کے پاس
ہیں یا نہیں ہیں کرو“ کے کی ”میری جیب ہیئ۔ دس ڈالر موجود ہیں“ تو
”سرت حالِ انسائی ہوی بی اس ىِ جیي میں دس ڈالزی موجودگی ”'انسانی
ة
تت . سا خر 5۶ و
4 رفظم
4ے طائها 09 کی :]لہ -610 15310٤0 -۔ ے۔ د دہ جدع 0 ۔
بے ار ۔- ّ نع۔ 1964 ,16 ۶ ٥ ہ٥10۷( ,116 -
َ
موجودگی)؟؛ روگ وو وہ ان ذس ڈالروں کوٹ ٹول سنا جا ۔آن ذ- تقویت
قلب حاصل کر سکتا ہے ۔ ان سے انی ضروریات کی چیزیں حرید سکتا ے انھیں
سی دوست کو قرض دے سکتا سے ۔ یعٰی ینہ کہنے ے کہ ''میری جیپ ہیں دس
ڈالز موجود ہیں1 دس ڈالروں کے ساتھ .اس کا شخصي انسانی جذباق رابطہ قام-
ہو_ جا ۓ:کا۔ اسی تر يملْہبیاق توجانی کرتے ہوۓ کیرک گرد کہپتا ہے کم
عحض یں ۔کہہ دینا کہ جَدا موجود: ےر خدا کی موجود کا :جہم سا اثبات تو کر دیتا _
ہے لیکن جب خد| إ میںے قلب و روح میں جحیثیت ایک :یزدانی قوت کے موجود تو
جو بچھے پر کی طرف مائل کرے اور۔شے سے رو تو یہ ''مسیحی موجودگ'
ہوی۔ - و ٍ ر-
آ'موجؤدگی“ کی تشر ج میں پالسٹا ےکی ایک کہا کی نال بەی دی جاتی 7
ِ اس کہانی کا کردار ایوان ث الچ بستر میگ پر پڑا , ہو تی ,بھیانک :ہوجودگی سے زننگی۔
میں پہلی بان روشناس, ہوتا, ے ۔ طالب علمي میں ایوأتّ الچ ےۓ-منعقِ قیاسی میں
پڑھا تھا ۔ ےج کہا می و میک سر نے وت یا جک
مام انسان قانی ہیں ے پا
کائس انسان ے ۔" کے یں ُٔ کت
اس لیے کائس فای ے ٠5 - تر
یہ پڑھتے وقت اس ٹۓے کبھئی نہیں سوچا نٹھاسہ کائن بھی آن کی طرح کا اک
: أئہآن تھا جو کچھ عرصۂ زننہ ڑہئے'ے بعد گیا_“ مرتے وقت بخدا معلوم اس کے
کیا خیالات تھے آور کیا حسرتیں دل میں لے کر وہ دم توڑ ربا تھا ۔ کائس کے مرنۓے
یا جینےٴ ےم آے کیا دلچسی ہو سکتی*تھی لیکن یہ حقیقت کہ '”'میں قریب المرگ
ہوں“ او موت ہر لمحے میرے سیئے میں اپنے ے رحم۔ پنچے گاڑ رہی. سے سے حد
ے اندوہ ناک اور تلغ ہے ۔ گویا کائس قانی ے می فنا اور موت ک صرف موجودگ ٌے
× لیکن ''ہیں فانی ہوں“ میں ایوان کے لیے یں مہبم سی بوجودگ _انسانی :شخصی
مر ےت ےت و ےر وی پ 7
”کیا میرا مض شدید ے ؟؛“ مم ۰ “
ڈ اکٹ کو اس بات میں کو دلچسبی نہیں کہ زان تھے اسماسات کیا ہیں ۔
وہ تو حعض یہ جائنا چاہتا ے کہ ایوان ک5 .رض گردوں 2 ہاؤف ٦ جاہے 5
نیج سے د یا اس کی انم میں مزمن نزلہ سے ۔ مرقں کی سوجودگی ڈاکثر کے لیے عض
موجودگی ہے لیکن ایوان کے لیے شخصی موجودی سے کہ وہ موت ہے خوف زدہ ے
اور ڈاکثرٍ کے جواب میں نید کی کون جھلک دیکھٹے کا متتی: چو × سی انساني
شخصی موجودی۔ جو فلسفہٴ, شوجودیت کا ال. موضوع ہے شعور ٠ات ہے پیدا :
بہوق ے ۔ ذات و حیاتِ کا شعور ذہن انساؾَ میں قدروں کی تقلیق کا باعث ہوتار ے۔
جس شخص کو اس حقّیقت کا شٍعور ہو جاے کہ سے زندی بطور فرت مستعار
کہ ملی سے وہ سوچے: یکنا ے کہ اس فرصت کو کیسے گزارے ۔ انے احمن طرہے
"0۹
ہے .گزارنۓے سے" اہ کون سا نصب العین انا اور انی تر ای کے لے کئ'
قدروں کا انتخاب کر ےے۔:اس- اشعو رن زندگ کی مزذ ٥ سونجودگی اسن' کا لیے سچی
ذاتی مجٰودگ بن جاۓ گی یہ قرورفا نہیں و جن مو او تام سا کی تانی
کیرک گزد یا مارترز یٔ طرح نے ذہنی اعد عذاَب “ قلبی' آذیتٰ تشکک ٴا سیا سک
میں میتلا کز دلنے عو ذاتی حیات ات بت انتان و خی اخسان “خروّت ۷
ایٹاڑ .اور خوۃ فرامُوشی جیا جذیاٹ بوٹیذا کر سگتاننے 'اوز اس رگیناعقیقث بھی
متکشق پُز ہو کی نے کا قاق: ند کے سے ات تا ےآ دونٹرون کے دکھ درڈ بیق
1 شریکلہُوتا ات و "انٹان “دوینڑوں کو تھوخن کرس ہی تقزٹی کے رق و
کی ہسکتا ہے ۔ ا وی کت ار می موئی کا موجودگ اس کے لے'
اس وقت انسائی شنخسی مو ودی بن نکی ےجب وذ دغس وک ؤس اتا چم ُہنچانے 5
کی فطل کک رتا بے'۔کیڑزک ک رڈ اواز“تارترۓ سوچنودی کے صرفن امنقی پہو ہی سے
اعثٹا:کیا لۓ تی ھی مگ ا نے0 نر ۶ کن بی تورقی اؤر 0 مت جع
شمول کر دیا جو بقول ِس کے جناب آدم کے اواب معصیت کے بعد پچی نوع انان کا
مقدر بن چکی ہۓ ۔ ہائی ڈگر اور سارٹتر ۓ دہشت کو ماوراء بے "راد کے دلوں
میں منتقل کرکے ایک مذہبی نظرے پر فلسفے کا رنگ پڑھا دیاۃّ* <“' ت
۲ اسارتر کی ماوجد الطیبات کا ایک اہم تعروریہ ےک اتاج می قسم
کاتظم ؤ اب کے ِ ای" میں ٤ جوقوائی۔ ےکٹھائی* دبا تا وہ خو
ای کا تم کا وا 2ا کیا ے اھ در باظیا زی کل
قٌطم* نظر سے لے قاع اف تی سے گل نے آغاکرتا؟ ٌ2 جن لیکن بالاخر
کو ۲ اس پت ا ڈال دیتا سے ۔ مؤجؤدیٹ تد فظرت کو معشر ترفیال ک2 ٦
نت امن گی پیدا: کزذہ ترتیب و تتاشََيْ کا وج آس پت 3ت ٍَِ ۱
توبات ا قائل ہی ت8 یے کہ کائنات عذم سے وجود میں آئی ے ۔وہ غذا 2
ود ٹا سٹک رك او نے ند ً کو ”'ملغذانہ ہ انان پسنڈی؟“ 3 نا تا ہے ۔
وہ کہتا ہے" کن دا کا دوجؤد ثسانم کر”لینجاکۓ تو السا ناعل تار نہیں بَا
آس کہ خیالم میں یا تو انان فاعل مختار ہے آواز دا کا تاج ج چیا کے اور یا وہ
عدا ما تاج سے اور یز ک- عو س رد امن ”لیے بھی
فائن تی ۓۓ کا وہ کسی ایس ذئ شفور بس کو تسلیم نہیں کر کاو بد یک
وقتً کاثنات میں طارع شٌاریٰ؟ بھی ہو آوٴر اس“ ُ سے“ تاؤراء بھی جیا کہ ابل متہمییی۔
کا ااے ۔ وہ مخروتیٰ آفذروں کا نٹکز ناو ڑ کٹہتا ہے کہ" السا اق ضروزت
اوڑ ہیں ”سے ے ابی ”اعلاق قدربى “'طلین*کرتا ربنتا ے' اش کے خیال میں قستقہ*
نوجؤذیٹ دی ماف دی "اس لی نہیں کہ انسان قطرت کا مقص " غائی کے
بلکہ الٰنٰ لیے ہے کر انان ! ود اپی اخلاق 0ق غالق ے ٣ہ ایر مقا
جج حشؤ کی کوشش نہب کرقا وڈ خارج نے آئ سے امت ےت رکھے لت ئیں بل وہ
انیل تخسب عمرضی“ تخب شخب کرت سے ج وہ اپتے ُر'فقل کا وذ نے درتے تی
1 0 ٠
تن ےدارق ئز عرفت دا اوغ تق کے ےی سارتو _کے نظا, میا .کسنی
قی کی از و اپديی ,صداقتوں :کے لیے. کوئی گنجائٹن نہیں ے ۃرولز يْق کہا ے ۔ ج
کے ”'موجودیت میں ۔عام کی قدر وٴقیمەت کی یقستم کی ازی و اہدی صداتت یں
۰-7 سا و ا رر پاک اس کی حیاتیاق قدر سے معین موق ےھ جو٥
شعور میں موجود ہیٴب_ ہے گڑ ماکان بی ؟ر کے
مازتوکی: نفسیاتِ مین خود م مکزیت کا تعموز ایم رے ۔ ہے میں
شتخص کے طرز مل سے اض کے ذہنی یا واردات کا اندازہ لگانا ا اکن ے۔ دہے دوشررہ
لوگوں میں بھي آپنے آپ پی کا مطالع کریجے ہیں . .پر خص ڈبنی: کرییم میں مبتلا
ہے تہاوتز ىے'خیال میں عشق و عبت مستقٍلِ میروبی کا نام ہے اور حبت اس : :احساس
فنھائی کو دو ر کون ےکی پا کام کہوشش ہے جس کا :ہز شخص شکار ہے۔عاشق اور
محہوب اپنے آپ کو اپک ۔دوسربے کے وجود و سا ری کوششی رکدتے,
رہتے ہیں ۔ ي دویکا و دہ دل جو پمتتائریک و تدہا ہیں کچھی ایک نت ہو سکنۓ ےہ ک8
7 رسمارت کا ؟فریت ٹفیں؟ کا:: نظریہہبڑا معتيی خیز اوردلچنيپ ےہ اس کر وضاحت
و ا ہوۓ وه !یک اپی, مثال دیتا ہے جس ہے تمتا موجودیت کے دوسرے امول
بھی ]جاگر ہو جا بی وم کہعار ہے ایک +عورت ے جو لی بار ایک مرد کے ہاتھ,
بابر جا پر آہادہ.بنوي: ےی یہ ,عورت ات ا عوعت کہ اصل مدعا بے ینوبی واقف
ے اور اتی ہے کہ وم کس غرغن :یک : ےت اس اپنۓ ہاتو! لے جا وہا ے لیکن وہ“
جن بوجھ کر اپنے آپ یکو:امیں قریبیں می بتاد رکزالیی ہے کہ اِس مد کا رفیرز“
چایت منہذیائہ راو شائستی ےچ اور وہ .تو مجض مس کی دلچندمپ پاتیں سننی کے لیے آس :
کے ساتھ جا وہی . سک ٠ اس یئ زیادم ءا کسی ,شے يک مجنا نہیں ہے ۔ اتنے میں ود
مردر اس عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تام لیت ے۔ عورت لے جائتن ے
س۔پلوجو اپنا -00. م ا ؤقت یچ پعورت تار ,مطاق سے .کے چو فیصلں+
چاے کرے۔ وہ اُس رد کے ساتھ پاپ چا تی انتا ںکر سکتی,ہے لیکن اثکار بھیں
کر وہ آزاد رے لیکن اس کے دل کی تہ میں آس شخص سے مستفییرہوے ي آرزو .
موجودِ سے۔ یب سوچ کر کہ در أیلِ وہ شخمن آس:کا دن ا حترام کرت ہے ۔ رق
حقیقت سے ماوراء ہو جاق ےچ ٭ اس یثال میں موجودِیت .کے تین لازمی عناصر د کو
دیتے ہیں ۔ ایک غاصٍِ صورت احوال جو فیصلید طلب, بے۔ فنصلد :ککرۓے۔مین آزادی
١. ار إختیار, اور حقیقت۔ ہے ماوراء ہوۓ ي خواہشس باورائیت کی اس حاللتِ میں وع
حقیقت نے بالاتر ہو جاق سے اور اس کا باتے جو مزد بے 'تھام رکھا ہے :دی رتا ے
اور سپرڈی کی حالت میں اوجچودک صورث اختیار کر لیا بے اس.طرح عورت کی
شخصبیت کم دو پھلو سامنے آ چائے ہیں حیقتر اور پاورائت بی او ۔ اوریہ کارفربائی
خود قرتی کی ہے۔ اس سر ام جن یلد ہي دہ کرے گ دہ آزدائِ موگرایر ایر
ى ذنّے داری خود اس پر عائد ہول۔ ء :
پ ہےیسیےوو ےی
”وجود و عدم“ کے مطالب بیان کربے ہوئۓ ہم سارٹر کی بننئي'بابعد لیمیا
"٦
و
کاںرڈۂکر کوٴ چکےٴ ہین۔ اس“ منقی ”مابعد الطبیعیات ہے 'جؤ اخلاقیات ' مفرع ' وٹ و
وضاحت طلت ہ۔۔ ۔ ساژتر کے پیرو آس کے قذرو اختیار کے نظر تچ ے پڑے متأثر ہیں
سارترحعن :کہا ا ا ۲ تصوٌّز ہی اس کی اغلاقیاٹ گا" خاش ے ۔ آِس*
الفاظ ون ڈو وگ سے
امیری آزادی ہی قدروْں کی واجد رتیاد ہے چوٹکہ میں :ایس قُجود ہوں جس
کے باعث: قدریں“ سوجود' ہیں“ لہذا ا بات کا کوئی جواز نچ ے کہ میں
نے ایک نظا۔ء اقدا زکو اپناؤں یا دوسرے ہے واسطہ زکھوں ۔ قدروں کٗ'توجؤدی
تئ:واحد ساس ”ہُو ےک بنا“ پر میزا قطعاً کو جواز نہیں نے اور نمیری
“-آزاڈی ین:معلوم کر ک آزادی'ۓ دو چار ہوق ےچ کہ یاقروں کيٍ ایک" ا
تیادہ ہے جس کی اپ کوئ نے نیاد تہیں ے۲
یں- پا موجٹن خرت“ ہے کن آزاذی کا وہ تصوز جس کہ ابی کوق بد ثہ ہوٴ
قدروں۔ی بئیاد کینتے بن سکتا ے ۔ سارتر کا آزادی کا تصور فی ہے“ یعتق ایکا
خاضٴضورٹ اخخوٰال میں ”نہ“ کپ ےکی آزادی ۔ کوئی منفی تصور “کسی نظامٌ 0 گ۔
بنیاد نہیں بن سکتا 'کیودا کل اس کی اپٹی کوچ بنیاد یں ہوی۔ نیاد و صرفِ مثبت
ہی ہو سکیٰ ۓےً لی ناڈ عدم وجؤد تی بٹیاۃ بن سکتا ابد ورق حسن کی
بنیاد نہیں بن سکتی ۔ سارتر کا ید اخلاقیا:تبوط ]آن مقدمات' کا باعتِ ہوا ہے جن کا
ذکر سمون دی بووائر نے ۱۶۶ اہبال کی اخلاقیات؛“ مین کیآ ہےے۔۔اُس کاب ہیں وه
کہتی سے کہ۔ضاأرتر کا فلسف ہمان کا قلشفہ ہے :وہ .ند کا خواہاں نے لیکن سوت پر
یقین رکھتا ےن ”وہ۔ؤجود کی ٹلاش میں سر گزم' ہے لیکن ناوجود سے دوچار ے ۔ وہ
خوک متوضوع' ے لیکن دوسروں کو :اپتا معروض بنا لیتا ے اور خود ٢ن کا معروش
. بن جاتا - اس-متؤزت اخول* میں آزادی ہی واضح ' صورت میں سامتے آقی ہے۔ پر
شخْضٗ آزاد _ اس مفہو_ میں کہ واپنے آپ کو .اس دتیا می مُُجود پاتا ےن
آزادی ہی کے وت مام معثویت:کا متداء ے اور بھی موجوڈگی کا واحد جواز بھی
ےن آڑادی- مامت اخلاق: قدروں کو جذب کر لیتی ے اور خود اخلاق کا بدل بن
جایق ے ۔۔ یہ فیصلے ایک خآص رد خاص شوزت اعت کرػا ہے۔ۃ ید قسمتی طے
ید, آزادی خود مہمل اور لغؤ بن جاق ےۓے۔ سارتر کچھ زیادہ ہی آزادی کا خواہانَ
ے - وہل صرف داخل اور۔خإرجی اسیاب ہے آزادی چاہتا ے بلکۂ آن معروٹی قدروں
سے بھی آزاد رہتا چاہٹا ہے جن کو خود اس مک وہ آن .لوگوں کی-
تضحیک کرٹا ے جو معزضی قذروا پر عقیدة رکھۃ ہیں۔ اس کےالفیال یں حقیتی
انتخابْ آسی وقثٴ ہو سٹکناے ح ات سوک گر اس طرخ
سارتر کے انظرۓے میں کسی اخلاق نظرے کی گنجائش پتی نہیں سے ۔ - کوئی شذخص
خلا میں سائس نہیں لی سکتا 2 “پر اتعخاب اس اس کا متقافہ قی ہوتا نے کہ 4 مال ات
۔ججٹ-
تا
>
7
ر۔ وہٛسواصئۂ یر یجن ناد- . ۔ ہنم ھ ۶
کت 5
ے جک ہنسے ہ ڑچ عۓ) چے
جا ب کا انتخاب کروں اور یہ انتخاب بذاتِ خودِ معروضنی قاروں. کے وجود ک
ب محر ہہ ہے سان
5
رت ے۔ ۔ پاننے مائاے نچ کہا .ےھ کہ حقتی آزادي ۔ خاص اخلاإق حم میں
ره کر دوسرے ' لوگوں :کے علاقق ی۔روشنی میں اپنے کسی فملْ کی ذے داری۔ قبول
وای جح رپ حح ٭+ اہ
بے کا مہم سے کوئی انتخاب اس لیے حقرقی نہیں وع و کوٹ ذات کرتی ہے
مر یمر
7ج سی
ج کی ڑ چک ےڈ
پک اس لے حم رگ بے ہا ود ےجود ہا 0 کن
٦
نہ اتل رط ےت وا حسے
پمیر باق و برقرار نہیں رہ سکتات می ک ۰ 5 ×
۔ سارتیکا اخلق,انمائی ثقطم - مسطلیادر لغو ٤جس آزادفٰ پر ریہ
ہك ر5 جا کے سم چگے ظا ٢ تن سیل
ہے 3ة وحوش چا ہی کو" میسر] سکی ۔ ہے۔ اسان تو سعائ رق عاایق اورقوائن
با
دیس
کیا پابنڈ ہو کر یآزاد رہ سا سے۔ رجگ کک روجوش آ ں بھی صحیح رمعنڑا
۔- ٠
کے ہی بن کہ وہ اپی۔) چبلتو ی فیدر ہیں ہہ انا مھا امہ .کات کا تو وم حیں
اع کر زم جانۓے کھت ہر وقت وقّیجذ کٌ تشیب بن مین کان
رگا اسی طرح " جب 2 شخصن آپ اپی 'اخلاقم قذربی ٠ خود خی کرے تا تو اخلاق :کا
معیاز ہی اق نہیں رے گا۔ خلا تا الال ہمروشی میں ہوک ورنرو و
تی 'موقوعی اخلاقات ۹ک 2 چیا مار ہیں ,ہوسکتا منطني لحاظ
رس دوخیشی اقادی کا کا دک رتا کل سا برغوی
خی دوضوعی اخاری کا تیر و ہے سر بوضوع ا کہ لیے بْ معروشرین
اتا گے۔ اسی طزح موضوع ب کے ا یغیع ا وروش بن گیا۔ اس صورت ہیں
تب موضوات کی اتاد قد قدریں کسی تد کسی کے ٴلے معروقی ہی ہوں گی ۔ ما
و يوغی“اخلاق ق: فذرون او ود بای نہیں رےکا۔ مژید یرآاں قدو کے كِّ [ ۰ قلاِل
3 انتقراز زالاڑے> لم ار زی کو ٹن اسیا وقٹ سرن اچت وہ کچھ غرمے کے
لے -جایک:<شاعت“تی نکد 8 کر یں طوز بر رم باق رنے ی۔ لیکن جپ
لوصوم کا کربڑال- جذباتة عی سا قفا اتل لڑی بعد ان لق ہوٹی زی اور و
سحطینع۔ ن رن ےی ٹون و“ قدز ہیی ہاج یئ پَعل بن کل کین اس ارح سا سارثر رک
ۂاخلاق٤؛؛ میں قدر- کا وجود رہ مکن کہیں۔ ہو سکنات > چم نے نے کواو وه 7 اق کا نام
دتتا دن رق الاضلَ ا ومتے رام روی ہے سے کے جر فلا دیاائیں کروی کا پیش حَيم ثابت
نوق دے سار ی اما سی کی سس تابظ الطبیغات کک مُنقیت" او ور لت
مایاں نو گی ×× داع وہ رتا ۓے کہ آؤادانت ٦ تد ٹاک تا تے۔
انان" اک کینتھوںا پر آزادیٰ بھاری ریی-طلیبٰ وت کی لی جن موہ ٹھانے
اٹھاۓ پھرتا تے۔۔آزادیٰ لعف نے خذاب چے ۔ اکر ان نابات ٹا قائل نہ یں سے سد
ککوئی شخمنٔ مکسی اص منوزأت اوال میں “حقیقی 217 ن ناب سے 7ے دق شرک ے می
بہرہ یاب ہوحثکتادے ۔ :انی تخشو ہمشوئت لت آتے-۔ کات اور :جارھانہ ختٹک میں کرب
دہشت ہہت ے۔ عذاب ے درد ے دکھ ے۔ اس میں رٹ آسودگی اور طائیت کا
٦. ۰ کا ١ار ظ لرگ( ٠
- ح”صدہ؛ل:۶۲ ۶٥ا۸( 0 ماف ”ماد
"۳
کوٹی وجود نہیں ے ۔ 1
ھی جودیت' کا نظرید اہم ۰ نوقیعیے' سا٦ ے جلیٴتیں مبروش کا وِجوهعَش
انی مخروط کا : تے۔ قردیت اس موضوعیّت کا لازمی نڈ نتیچں ے۔ اس کا بطاتے یہ
ہے کے" نمرد۔ ہے جا طوز- پر پنے آچا بی کو سق وٴباطلکوڑ عب رکا معبار
سجھۓ لگا ج شے ا کے لیت سے ادہی حق ہے جو شے اس کے لے
منر- ےٴ وسی غز سے ۔-عارت زی اخلاقیات ى طرح اس کے ذوسرہے فاصفیا نہ عقأید
ہیں یھی یہی ازذیت کار فردا-< ے' اور آںن* نے ابی ہم موفوعیثت جے تمام منطق
کائج بھی قبول کر لے یتس ےت
ےا ”سازتر کا اجتبیث کا تمتور قردیت ہی کا' آزدرل نے ا انا سے کا اپتے آپ
سے سے ےکا می عو س وید تی ائی اغتیار ہر ے سے پیا
۱ نے یں کے استعال انان رھت روح ع ےگل ہیں اور اشان' لے سے
رت بی آفز ہے ک راس کائنات میں پت آپ کو تنہا“ے بس ور ے چازہ
۱ ضموض کرے لٹا سے فظرت اس گا جذباق تعلق تلم ہوگیا۔ ے۔ سارتو ٌ
مان قد کا اہن آپ' سے بیگانی کا اعسا زیادہ قرب اک وہ ہت سے کن
تمژد ججاعت کے ذبا کی 7 لیٴ لہ لاافر اپنے آپ بے نیکانم ہنوتے پر تجبور ہو جانا ہے۔
انتا اور ےوشتوفشکی“ کے اولونٴ میں ایسے کردار آز مات ہیں جو تصرف ا آپ
کو غریب یا شنہرصتتو :کرے ہیں بلک آپنےآپ سے ے لیگاند بھی ہیں م موجودیتِ
پسند اذا میں کا میس 7ابضیا جا کڑداز مبورسالط قرب یآشیڑکی ایک عمدہ
مخال سے َيورسالٹ ایک خارک ہے جو مروی, ی ژننق گذارۓ کہ ۔یعد .انی
توت پر اپنے ےل جوہر زمر دنین راس ہوتا ہے ۔ ء فرد کے احہامٰ تدہائی کا
7 جے ر
زاصٹ پالکیت کو فرار یا انا ہے چی جا نیجو وہ بی اور حہتی ۔اجموددے۔ جو
اتہاق رط 7-۴ تعلق_ کے نثدان اور جذیاتی محروسی کا نتیجں چم نے ہے ۔ نی ظور سے دیکھا''
جاۓ تو معلوم ہو کا کہ یہ بیکائی مٍکالکیت کی نہیں بلکہ فودیت کی بد ابار ے ۔
میکائی معاکنرے می فردیتو نے جس تنہائی :اور حرومی میک .اجشامات کے رج ویا
دیا تب یل سے
بب متا ذاراہ معاشرے کء , زائیدہ ے جس میب ہر شبخص ذاش مقاد رک .پروزی
ناس ھ۶ ہے ضسر ے ا قاع )
میں کوشا ہوتا ے ۔ ار ذاق مقاد کی خاطر اجتاعی رمفان ۔کو' پاؤں تلے رونتین
میں کوئی رق ےنیوس نہیں کرتا بے بھی ۔رخودی غرضی اور قہاو تِقلِی.ابنٔی:ذات
و ہشعم
سے ایکائکی کا اعنل سبب چے ہ سزمایددار مالک کے کون دہ یس کہ کن کہ اجنبیث
سکانی مغارے. کا ۔لازمی نتیجب سے لوگوں کی ۔توجہ سلبی رفردقت کب طرف
سے بٹاتا چاہتے ہر جو سرعایب دارائم معاضرے۔ کو رگھن گی۔ طرح_چاٹ۔ رہی بے
سے
اور جس ۓے معاشیی ہیں انسا ہمیردی اور دلعوزی کے جذبات ۔کچل. کر رءکھ
عش
> اانہں و ۰پ 0ھ کت کے رجہ ید تتے سال و سن یٹ ٤
کر رہ یا
ت7 (صد(۷ناءءزاہ-صدط
۔ ۷۱٥١٢۶ لحنااوہ“) طام نا ہ۲۷ ۰ اد5
0
٭
٭ عجفے جًٴججچے
ڑل
رھت ے .۰ وو کن لال غ ٤
تی
4
ا
صصے
یے ہیں ۔ ۔ ظاہر رے کہ اس سض کا _۔مداوا 'اجتاعیت میں ہیں سے۔ جب فرد تو
َ بات کا قبت ہو جانۓے تقد وہ جو سام تفر زبااسے ہے اززسے سی ذات ہی کن
ءُ ہیں بلک ا پورےے معاظر ے کی بھبود کو تقزنت ہو یتو وہ ہ "احضیت / ” تحرومی اوز
احسلی جمود نےتحفوظ رۓ کا خَوام و ساری عمر ینوٹ کے ہام رما ٠
ث جس ً
7“ اپنے آپ نے اپیکا یی کا 'اغجام آغویت پر ہوٹا سے کیو کہ جاعت ہے تی رابظہ
بر قزار ر کون ہی ہے سے فرد کی زلی سںامعوبت با ہو ہے۔ سارقز کہتا کے
وہ ےو کے نع کا , یں و ہے لت
کے پر شر لقو اور یہ بات لجاظے سے وچود پر
کہ پر ہے لو سے ےںمی سے اور یہ مات پر اہ ہہ
صادقٰ آی ہے۔ چان سال پیدا ہو 7 آخر وہ کون سی آسالن ے جیں کا
ا می ابی کا و
ناپ ہمڑ کسی کے کو بامعی یا نے بعنی کہ سکتہ ہیں۔ اگر واباس موضوع سے
٢ پل ہی
خارج میں ے تو وہ لاعالہ معروضی ؛ وک حر سرت کے وت ے مناق, ے
اور اگ وھ "ساس خودرموضوع میں ہے کو موضوع۔ کا ایک حصبر پر ہوۓ کے باعث
موضشوع 7إ اُس کا جائزہ کیسے لے سکے گا اور اگر لے سکے کا تو وہ اپنا معروض بن جاۓے
کا جو٠ ال و متئع ہے ۔ سارتر جو پر ِے کو متھمل اوو لایع سمچھتا ے اس
ابی قلسقے. کو کسے قامعی 22 جاسکتا رے ۔ چنانچں ؛ پروقیبین' آثر آ سے
سے ہے
ایال کا فلسٹی کہ کہتہ ہیں۔ زندی کو ع آوچوک کو ے معّی ۔سمجھۓ
کے چان ےی ا
7
خصم سے اق آپ ہے مزارعا اور نخرت کا لاحق ہو جاٹا قدرق .بات .ہے اس کیقیت
کاو توتی کپ ابتلا ضورت ت اختیار کر ےم سوہ 7و و کس ایک رچے کیف
اور اتھاء انتاد کت میرے ام مشاہدات وغریات میں سوجود رہتّی ہے -
ات حتف کے مکر مف ما ے رح حادے > اڈ نی
مر کے الفاظ ا کی ٹ0
ا کیو ہہ زے سد لے نلاے؟'! س گرم ہے سے اج
: جفل ہم "الا یئ اصطلاح کو استعارم رقرار ۔ نچیں_ دینا چاہیے جو جسانی
جو : ت انکیزی ہے سے آیا کیا _ ہے۔ اس کے فیعکس ہمیں یعلوو ہو ہوٹا, جار تک
رم ہے رس( ہت پی ے 27
کوضت؟ از غون ' فصلم وغیرہ کو دیتھ کر بیدا ہوتا سے او
مھ ہی تر 8 حت یکھ کر پیدا ہو !ا ے ا م۔ ےط
سنا آئے د ذت ے 7
ب کے ا ید و رک خی ک2 ؟ نائ تہ ول جی نا ا ئی تلم
٠ سارتڑ تی ا خرد دشمی اور _ٴقنوطیث کا سب چپ سب ۔بھی قردیت سے ۔ خردردشمی
کات رایت کو کرت ے۔ وت کے ساتھ 'موجودیت- میں ذاخل :ہو ۔ کیرک کرد ہے
”ہا تھا آۓ " عتلی و رد دق رح لے ماتو کیا گیا تھا ۔ موضوعیت
ہ ہے ہے دے سی کے
نو پا فرڈیٹ زقداثیت ہو یا مشیحی موجودت ان میں آزادی* 'عطلق, رکا۔جو تصور
یس کیا جانا نے و عقل وغردی " کل آفرمائی کو قبیل, رر و کی
ہے ٰ ہاب
رفا مکنا کک عقل و رد اثمائی جیلتوں پر پاندیان, عائد کرٹی سر ہم
:ایک بدٰی”خقیقت < و انسان' ان" ۔ٴ ریاست ۔ قانون پلک خود انمائیت
عقل و خردی وت بروزدہ ہے انان اہی چبلٹوں ۰ بقل و خرذ 3ی گرقٹ
مغبوظ 7بت تغذیری راہُوں پر لہ پہ موڑ ”دیتا تو آج بھی فحوشٌ کی طرح
جنگلوں میں بھٹک رہا ہوتام انسان کے جذہات اور چبئیشں:ةوری تشنی کی۔متقاضخی
٤8 " شظ۹"
م 7
ا 009. جیا ےپ 3 پت بن سح ب۴ 6٢
1ج ً6 مث سحىے راڈ ج تا جتھپوک و ۔ ٭َّ نی وی سس و : چ یت
ہوق ہف اپ ہے عَقَلْ کے بانتیہ ہمیشہ ک ر کھٹی سے عقل کا لغویر می
ِ2 ےجو ا ہ ندھ دی جاۓ :ظا کس
ما گی سے اخ مک اھ او ںای دم ای
بل قدرو اختیار کے : ارم قل و خرد
کال ک یا کے نظریے مج ح ےت کے کت سے تا
وجود ناگوار کڑرے گا ۔ بیارتر با ادعا ہے کہ حقیقت جذتاقی اور اراد
کیا : ین ٹا کے ےب ہے َ 7 سیت ۵ى .ہہ ”۰ي ںا ای ا
کے لا ہن
یاٴ نازثر فلسفے ی دنیا سے جو عقل استداالی کا غالمیہ سے آے
ہر کر ۔ فح اج با نک اھ رپا . کر تی و بخرم لا ا" ا
چاہتا کے لیکن سم ظریئی یہ سے کہ دوہرے خر دشمنوں ى. ح عقل فی خرد 3
7 ہے 6 بعۓ قیگیدیرےوم تک وا ںا ٤ 2 رع 7ط کے ہے جے کس موس ےج ٌَ
سے منائقی اور لا حاصی کے ٹیو میں جو دلائل کارتر دے ہیں وہ بھی غالمتا .
بے چے کے رہےا ہہ وو مع یہ ھک ج9 ہر اک لاح تاج کہ كت صا
عقليای اور سط ہیں وہ استدلال عقل.. سے کرٹ ہے اور جقیت کے گریزاپ
۲ تفہ ٌ یہ مبحہ 61 حاضن جّے جک 8ٹاپ ےو ہوژٹےج تپ
جترف وارذاٹ باایہ تا نے دسر *موجودیت- بئندوں پر بی
نیٹ 7 کو
فکر تشادِ با چنا سے چنا اڑل نیا ا ھا
) ۰-2 ٢
پتتل راد ہے کے بنضی کڑھ لد بے پت بعد کا جس ای کرے یک
ا
تن
ال اس ً2 جح سے ٌ پ1 ا لو یج کت ام وہ دع اح
ںا ہے لاق تد بجر جوف رج
دم 7 ٴ
نے :1 پ 5 ات ہہ کر رہ ت_ے آز ہیی .0ے ہے۔ .-
سو تس فلمتر:ی اسں* اساشی* خضوضیث <پر” ژور' دینا -ضروریا رے
7٦ 2 آ رر جع 7 پٹ ۔
بت" عق و و خر کا خاتمد اڑا کو پڑ ےتک شروع ہی سے
میٹ اق صظ جع رہ را ہے ہپ یچ
* فلتلهے کیا ید تام ےر ب بھی شی وی ہن میں پل
بٹی جا بفا جال کیا جا اوس ؾ-اہَعّیت دوس وی جا پسیجس
٭ مت نارق کہا ین ان کو پیا و یرٹ بل عونت ہے سیل غاد اش 2۳ کو
ہے۔
ےج کی ےہ انس یا بل پا ے ا مزعرپ ہے لے" عذاب
07 اص نےے نت ے ور لو دلج تب ا ر*> گچو رٹہج
بن گی ختے 2ا مس سا تے ا“ وی ما قائن خ ہے ۔ یہ یت کپں ڈررسا رثر ے
افْان و ری فیپ یر زندی کے غضی َ تقر اور رظن _ یزار کر سخ ج وہای کرت
اؤجادبعت و حور کی دبا کر انہیں مابقدالظبیعیاو ای صداپتوں کا درجد دینا
چاہتا ےا پر کش ”ان تر“ افنتان * مان کت ےو وی ے با سے لیکن پر
وقت فنا ا اور ے ثباتی کا رونا روے ہے زندی پک سابل رح جن بد جاے
بے ہم سی ہے ہے وت یئ ہبقع کی لبیٹ و کت
الا ئ >کئیت۔ نات ۶تت" کے میں مد سے کی وٹ
2 2 یا 7
کس
کے ے نہ وو یٹ تتعفن غا .ٹ-ۓت- 7 سار
غو وت تازتریزظ 9 نت سے َ مک کرس ےکا وہ اس ٠
کے
ے می +ڑو آٌْ ے عا لئ شر یچ کے خجے جپوستے
ہے ےہ تام ہے ٤ سپا وع سج تو ٭- ق زت -
کی سٹرتوں ۓے پت انا نوز و 7 ازتر اور اسر کے منوائن ۰٦
رجہ نلم اپ 7 چم گے کی ا خی 2
نؤفطلے؟ کے وق ۔ ج زی یر یں“ ونا او ور موت کے مات ہوے سایوں ا تلےمضمر و
نے چا ا بے ۱ چٹ کے 0اپ گے ریہ
غیت بے سے دنا تکر روہات ۰ مال کے "ناوجو مطاآعبٴ؟ گدیی۔ جو
7 وو ر ےل را مکاہے کت
سکم دج اچ نے لوا ےو ا مممیہ 21 ح
تلط و عتے وت ایثار تیر اور اسان دریي میں سی ےا بس رتجھے
یےجالئً شٌٍ تنسب شٌ ۰ و سے اھر ھا
بہر2 یب ہؤ نے کٹا ے اور بیو ڑ 0ئ ث6 ری ہ راف
کت و و سی کے کہ۴ گا اس سط پت
تک ماوق ر کی ضر ایی ایا کی ای یہ کے کب و انا ٹول کے دذرمیاں۔ ذہی و
5 دہ ہے0 0ئ 5 ج ٭ لام کے ری یل دی نے ا ہت ہے تج بل کت
یں ۰٠ حم
4 بن تہ یں چی۲ بڈی
لا 1ح ر8 ا٤و حول 0-2006 ت7ز- ممفحضط ا وو لص رپ پمنٹم
ا ون
۴ ئ
معیییع غلاظلت, لا کیک :
4
7
تلبی راہطلے يہ توجیمە ,کر بی سے قاض ےی ارت کیہتا نی کہ جبت دو:آدمی,
ملتے ہیں تو وہ ایک دویرے کو معروضی رمیا تہ تہدیز درجر دینا ینا چاہتے ہا < گوتا۔
انسانوں کا باہمی, رابط لاعالہ کشمکٹی اوز ام کی جہورت ت اختیار کرلیتا قافن
ان ان حالات میں ذوسی ' رفاقت ایر عبت تپ سے می ہیا کر رہ اجاے؛ ہیی سارترے
کے بقول ہر شخص زدوسسرے شخص ایز معروضیر ہھو ابر دو ے ساد ئل
یمنے کک ےہ
کر لی جائۓ ت تو ایس کا مطلب یں ہو کا کہ پر شخص کش نب لی کا معبروضرین۔ کڑ
وو چان کا اور ۔سوخدعز :کا وجو“ٴ__ 37 ریاقم خی جس گاے نظ کت
ہوضوعیت یت میں معروش کے لے کوئی جگم تہیںں ۓ, لیکن عماق ہر صن“ کے
معروض ' میں بدل جانے تے آُس کی ہمد موضوعیتِ سے با ےک ۔ یہر صورت
اسیٰ نظریے کے تحت سارتر نے دوستی اور عشق ہو محبت سے انکار کیا۔:
” وجود وعلع “ میں کہتا ے کہ اٹیمانوں,میں رقاقت: “ دوستی اوڑژ عشق وضت
کا” 7 قائم ہی نہیں ہو سکتا۔ اس کا استدلال یہ ے کہ دوسرا آدیی جو ارج
سے میری طرف دیکھتا رے. آُس کے لیے میں معروض ہوں شے ہوں میری
موضوعیت انی مام آزادیٗ جے: ساتھ ٦اس یىی ٹگاہ پز منکشف نہیں ہوسکتی اس لے/
دہ مجھے شے میں بدل دیتا سے لہہذا یتوك_ سارتر غشق یغاص:۔ طورِ پر_ مد عؤرتِ
کا عشق ایک مستقل کشمکش ایک مسلسل پیکار میں بدل) جاتا ؛۔ عاشق ابو
کت ۔ عبوید ک آؤادی جو اس کی فطرت کا اف جوہر
شق کی گرقت میں نہیں آسکتی اس" لے عاشق ق اپنی حبوی کو وضال ی خاطر ٴ
کو سی وا سر الا کت اوز اذیت پسندیٰٔ کے درمیان
کیھٹ کر ڑہ جاتا. ے2 .اذیت کوشنی میں میں۔ڈولیرے کوئے میں بدلِ دیتاِہوں
ریس پر میں اپنی سزغبی کد۔ مطابق قابو پانا ہس پسلیی می میں ٠
خود ایک شے .بن بؿخ جات ہوغ ٴ تااکب دوشررے ۔۔کو اپیی۔گرقتہ:منیں. لے کر ؟ٌسے ]اُس
یی آزادیٰ : ہے عحرومٌ .کر دون۔ اس ظرح عشق عوزت:اور مد کے ذزمیان کشمکش
اور پیکار کی صورت: اختیار کر لیتا ے ۔ یں تصور سارتر لے ]می عقیدنے. نے
انت ہے کہ" افسائی علائق کی دو"ہی-عبورتیں. "کق اووناسکی ہںداذیت <کوئی
اوز اڈیت پمبائہ۔ معروف میتی میں اس کے پاؤلول: ۔اؤزٴ ڈپلؤن ہیں شی لئ .مقبک
کا دنام و ست 'ماتاتجۂ اوڑا ان ہیںا اترتا , مثَڑی اؤر سر دلیَ کا
: اضیاس “ہنوٰتا دج ے' لے سدومتی ا" 'اذیت-کوشیٔ ا از ز افیث۔پندئ یا کا ہے کے انی
انۓ چر جوش+ اندازڑ' یں' ٹکیۃ کے “اس وت اآزاذ هی زاین ٤یا ایک
کردا ان ون نے جسے اپنی کجروی کا بڑا تقلخ اخسائ ا نوہ اپ
ہے تٹاسل کز-تطمع کو تے ' ہمڈومی۔ ہبتزغیبات 7ظ حجات' پان 'چاہتا سے لیکن ۔
ےۓ فی ایک پھنسی کو ]سے کاٹ :کر ر رہ اتا ےل ۔ پھڑ و اہی : پالتو
تو ذریا میں ڈہو کر ایت کوشی. کی تسکین کرنا چاہتا ہے ۔ آخر وہ
ۓ۹ ۱ ےپ یئ
سس
سیٹنز کی دائنتہ نارقیل نے جوخاملہ ہو چکی سے نتکاح۔ کی پیش کش ےت
تا کر آُس بے سے آنٹکے ے اتیل کا ی یہقیضلء العناک !کول نکی َالْحقع
وہ عقورت کے معْعفز چا اوژ اہن 'آپ کو سڑا کیٹ نے لیے تارتیل:تے و ج صا
چاہتا ےن اض طرخ سار تر اتے نکاح جیے“انذار نے کی تذل ین مو 2
کك-سازثر خود۔ ہق“جنْسی جخان کھت ہے آئرلیناے وڈاکثر یٹ یئ
کے خیال تین تتارتر ارآ کیل بی بندر کاو کی ذّورات ”نیا یں" ہم ےنت یت کا شر
- ہوا تھا کیوں کہ وہاں< کے جہاژ راٹوں:میں ط ج از مورف اب
9 کزذاز میں سازتر کے اینزت ہم جنضی“ رجحاندی“جھ ضا“ دکھائی 'ڈیٹی
ے- قەہم جلسیت پر لق موجودیت: کا ۔پردةٴ ڈالٹا چاہتلنتے کا کہ ٹین
. کے احوال سے ظاہر نے۔ ڈیٹیل-ایک:' فویالڑجے فا :کو اپنے فلیٹ مین لے جاتا
ےیچۓ-اور آسے یہ تعلم ڈنۓ کر-آقۂ و پر زع ڈوو نے انی صذوبی' : ہوم
کا نشائہ بنانانچاہتا ہے ہے نے چان کرت ات تن یم رو ا ہا قریوا تب
. ”فلپ تے پؤچھا:'تم جھے آزادی کا میق *کیسۓ دو خر و یی یا ات
ڈینیئل کہنےلکا !'ہبنیں چاہی ےکہ: لا ]بالیانة آنداز تیں۔اس آز ادی کا آغاز کریں اور عناۃ
اغلاق قاروں۔ کو ذع( بتاۃدیں۔ ےھ تم ایک ظالب علم پو ٣ک 0 1
ہاں ّ تھا؟٤؛ نے ۳ یت ہے دج ےگ 7 سے ہس ٤ی 74 ٤ کے ا 7
و ا ا 7 ۰
”قا: نون۔؟)٢ کی 0 رس سی سا رے ہےہ وھ رت۵[ وا دہ ٠
۱ َ ۔ 2 و یٹ گے
نہیں -۔ ۔ادبیات کت وی ےہ ٠ -- ےہ ہے ٤ “٢ لے
ر _ ,”یہ تو اور بھی,اچھا ہوا'۔ اب تم نیری بات سمجھ لو ۓ ۔ ياقاِدہ یتظم شیب
سمجھے کہ نہیں ؟ راں و کا إرادی راج ہمین چاہے کہ کاسل یربادی:کا عمل شروع
کریں حض زبان سے نہیں بلک عمل اسے ”جْو_ کچھ هھارے ذہن کا
سے اغڈ کیا ہوا وجوم آۓے وہ سنی:دھواں بن کر ]( جا ۓکا۔ ما ٤ "
ان طرح مطلق آزادی کے نام۔پ رفلپ کی تطہیر فکر کرۓ یتیل آسے اپنی ہومن
کا نشانب ینانا چاہتا ےس وھ ری اک ا کی ون
سارٹز کے قصوں میں چا پچا اذیت کوشی إور اذیتِ پسندئ۔_ے متاظر د کھای
دیتے ہیں ''آزادی کی راہیں؟“ میں ایک: نوجوان, لڑی آئیۓ, ہیتیو کے سام اپتے ہاتھ ہیں
چاقو ک۔انی پھونک کر آہے۔ لہولہان, کر لیتی ہے ۔ اس کے ہاتھ نے آیڑبےہوۓ
خون کو دیکھ کر بیتیو اس لڑی میں ے پناہ جنبی .کشش وس کرتا ے اور
آسی چاقو سے اپنا ہاتھ خی کر لیقا ہے ۔ آوچ اپنا خون آلودِ ہاتھ دیتیو چۓ رت
ہاتھ میں دے کر کہتی ہے ںہ کر 0 "00
یں .- س 0
”یہ لہوک رفاقت کے ۔“ ار موردی پر آیاں 0 9و
”اسیا“ کا کرداز_ روکوئنٹن پَھی چاقو سے اپنا اھ خی کر لیا سے ای ا
پَ 7
١ پ - ۔-
-- لام5 ملق و وم<ڑ- ٠ 0+00
لج
وے
"ِ۸۲
1
میں بی یہ ےہ : 7 ٠
لیب خوش آنتنہیاد میق تے کم غقوظ کھؤں کا ٹک .
یہ اڈیث کؤشی ناک پسنذی ارٹر آور اسرکی دوستِ سمون میں قدر مشترک
بے - سمون “کا بل ناول تھا ”'وہ قیام کر نے کہ لیے آئی ۔', اس می ایک ٹوجوان
لڑک زَوور قامتی عللکتے ہوا سکرینٹ س پت چاتھ جادی ے2 ۰ 0
' ”زبویر نے جلتی ہوئی سرخ چنکازق آپی, چلدانے نس کو ۔ ۔ یک لىخت اس کے
ٛ- ۔أہَوئفو پر سنکراہٹ منجنّد ہ وکر یت 8 يد سٹکراہٹ ایک ایسی عورت
ک تھی جو تنہا ہو - ہی ہو۔ ۔ وصالی از ود لٌفتق میں ایک عورت کی
عذَابٴ ناک مسکراہگ جلتے دیکھنا"ثاقابل بزداشت تھا پا ٭
دہ تی ہے کہ با جائے داش ا نے سس پرو رخف صون کیا تھا ے
مازثر “و عؤرت: نے نفرت ہے ۔ ان کی مثیلوں اور ناولوں میں عون کے
جُو کردار دکھائی دیتے ہیں سب سے می ے کیف اور نقرت انگیزہیں ۔ سارتر
عدائق ۶ “فعالیت؟ قوت اندام مہم چوئی کا مداح ہے اس لے اہے عورت کی
خودذ ! سپزدگی ' درمائدگ ؛ إنفعالیت اور کمزوری ہے گھن .آق ے۔. ۔ وہ جئسیات کا
ذکر بھی حقارت ہے کرتا ے آور فعل مقاریت کی ۶ے کیف ورزش“ کا نام دیتا ے ۔
اس کے یھاں ''وجود بذات ود“ قطرت (ئیچر) ے جو بار آوری ٢ : نسائیت اور سپرد
ک:عرن ے۔۔ اُس کے بڑھکس ”وجود براۓ خود““ تفسي انساتی کا مذکر اور فعال
پُلوےے“جس کی ب رکت سے اسان آزادائہ راہ عم ل کا اُنتخاب .ٍکرتا ے.۔ سارتر اس
مردائد غتصر 'کا شیدائی ہے ۔ وہ عورت اور نو ور سر کے سمجھتا ے ۔
برنارڈ وی کا مقولب ے ”'عورت غلاظت کا پلندہ ہے“ بھی خیال سارتر کا بھی ے ۔
اسی نفرت کے باعث اس نے اپنی "مثیل ”'فلائز ز؛ میں الیکٹرا کا قدیج نسوانی کردار
بھی سخ کر دیا ے ۔ یونانی روایت کی الیکٹرا خوث آغا ے جزغابت ے رحمی
سے اپنے باپ کے قتل کا انتقام اپنی ہاں اور آُس کے عاشق سے لیتی ۓ ۔ سارتر کی
الیکٹرا جیوپیٹر کے سامنے دو ژانو ہ کر یشیمانی کا اظہار کرق ے اور عفو کی طالب
ہوق ے۔ نارتز غورت کے من وال کا بھی قائل نہیں ے ۔ ایک ثقاد کے بقول
وہ عورت کے حسن کی قدر بب کر سکا کیوٹکہ وہ خود مٍِدانہ وجاہت اور جسانت ہے
حروم تھا ایگ پسشہ قذ بھیٹگا عورت سے متنفر نہ ہوتا توکیا کرتا ۔ یہ بات ناقابلِ فہم
نہیں ے کہسے نیچر؛ زندگی؛ عورت“ حسن و جال اور مواصلت سے گھن آق ے۔
جو شخص فطرت اور عورت کے حسن و جال اور عشق ومحیت کا مٹکر ہوکا اُس کی
کک ا ا ا ا ہشت؟ سٹک ؟استھؤا ؛
ٌ اڈیت ؛ یاس ؛ زہر خند اور کلبیگ کی دنیا
.کیںکت۔گرد ؛ ہسرل اور ہائی ڈگز کے علاو, سارتر کارل مارکس ہے بھی متاثر ۔
ہوا ے ۔ آسے مازکسیوں کے کی افکار سے کامل اتفاقق ہے ۔ وہ يد بات تسلم کرتا
ے کہ اشتالیت ہی میں نوع اد 7م مصائب کا رحصیو وی عق
۹و
ا
ں
ي
کی طرح وہ بھی ایک ایسا معاشرہ ة قا“ ٹم کرے یىی دعوت پیتا ہے ےر جس مر میں طبقاإق:تفریق
سیک
کوے کر دا کا وسر ا کے قد ہے کا مھ
عملی سیاسیات میں حصہ لینا چاپے ج اشتالیوں ى طرح وہ بھی اس بات ہکا قائل ہے کہ
مدد جا بدا کچ عم ہیں کیا جیا وع وت سے یہ اق ققریی .
وش ےرت وت ےھ م لیا لیا جائے وہ مار کسوٹو ہے
تاریفی .مادیت کے نظرے پر ہو تھی ماد رتا بے قرنں یں لاہ و 8ٍ٤
٠< ”مہ پیم کہ اس بات کا یقن ربا سے کہ نار بی صحیح ترچانق صرف
کَ از مادیتا بی شی کی ےی ےت
گ 0 ف یہ ۲ت
٭ وہ بورژوا کا ڈ*گر: حقارتۃ کے کر تا ے.اور ٢ نھیں ”یزرو کي غلظت٣ ۶ “کہتا َْ
وت رر رٹ
ہمذ ُوضوغیتٗ کے باعث آسے ٹھکرا ذیا اس کے آعد ]تن ؛ میں ,اور اشتالیوں می چٹ وجدل
کا۔سلسلہ شروع ہوا جس میں بتول ولم یرٹ بیارتر ہی کؤشکست ہو ۔ٗ ہارتر اور
سم
بارک یول میں سب ہے بڑا اختلاف یں ے کہ ساوتر: نساڑ کی کامل موضوعیت کا
قائل ے.اوز سے پر طرح سے فاعل مختار -سمجھتاے ۔ ا رز تی نقسیآق جو کوتو:'
تسلیم نہیں کرتے لیکن بعاشی نر کے قَأڈلَ ہیں او انان کو مار جے سدلیائی عم
کیٹ سا> تتے' مجبوز مانتے ۔ آن. کے باں آزادی کيٍّ تعریف ہے لک پوجان با
ما ز کٹ کہتہ تق کم اعت کشوں کو برنٹر اقتدار لاۓے کے لیے تاریخی نادیتہ کے
جی'ر کو سنجھٹا ضروزی“ ہے۔ سارٹر کہتا کے چہر جو کسی ور سن ہو
ایٔسویں صدیکی'بنائنس سے یادکاز کے ار بورڑوا قلدہ ے ۔ وہ کسی ایہے نظ
>کو قبولٴ کرتے سے کے لے قیارمحہیں ہے جو انساقٰ زوش تس انی کے
کت اعال خیب کامل“ لالبت دینے گا مطلبب لی دا ۸
وک2 سرتایۃ 2ے اراتماک قب جو قب مقبولیت حاببل دنو ہے اس کا باعت
٭لے دک اس کی
نارکسیژن کے خیآل میں تارق کا کادل“آزادی کا 'تصور ہی ہے جسں۔ ہی اسیک ہاور .
وب ک رو ززوا “کے اتال باج “ا لس میا جواز مل گیا - لوا نظر
ےتا رسکی “آو زضارتر سے اافتار می بناڈی ا ختااف ف بھی سی مار کس ہعەرو وضص کو
7 نے خی اک 5 دح ہیں ہے ریہ ہے حۂ' 0 ک
نوضوغ پڑ مقدم تمجھنا بے کن سار موخوع کو مغروشض پر مقام انتا ہے
7 سٌَ سے تہ ہہک وك رہے پ ہے ٤ قد بی ہے
قدورع یں ارت
کے کے اس
نی مادیت ند از فرد تی دی درا یا و کرے' کر ک شی ی۔ اپی
پی۔_- ک رلااضشےم
شا خی مل 3 با ساد کر انحوی کی ےک ومرز
ظط
ما ہہ .1 بے ں می لاقتنا ی٠ بے د کے
کرتا ے جس کی ) مو فائل ےپ و کت ہے دا ہار کسی کو جو
حر
ےت
ہونا چاہے تاکبو 2 دوبرےم عومع کے اعاطن لڈی کر سے دای ارام وم×*
- جح چک ت کش لہ کت ۔ ہیا“
وت 27 7 ٌَ مت 1 73 ام
7ے .300ء72 فاطجم اکا کت ظ2 ت و733 مہ ٹا
ا ت مھ رڈ بے میں س اعظم یڈ اہ نے ات ماق میا وی بن بیااٛ 8 چم
مہ زا 7 تتعارت .
کر ا ام ٤ئ
نے
ہد ےھ ۶
پتیےھے ۶ی
۰
-گ
لہ بورڑوا۔کو استحص ال کھلی چئی ےی جا ےج ھا ج تہ وم
کت ۴2 داعی عیٰ یق تر .-- سامنے ےر آای .اور اُس ت4
'
٢۳۰
ظواہر ا یج انطیک یھی ص تی کت تہدہ ےک آغانکار ای
سان ائد یہ تن اط رکرو ہے۔ تر فردرکے ذاق شعور اور ظرجورے ای
ہن جےہ ہی لا سے و یا یش 7 یں گی رس
ث
توہسں مہیں ٤ اع کی ا رے او فردی × کل آزادی کو ال رکھنا چاہتا ہے باعل
>ے
ہے اڑق کت ہبو سن ہم ساد میڈ کور عایت جو وی ماحول*
میں فرث کین تشرج کرق ہےے: اود موجودیجہیں جلفرث کے حققی ھورے کو ےد
ہمجھی کی طبح ۔ مطایقت, بیدا ویش نظرہ ظاون | اه رہتضاد, نظریات میں۔
ِماہت کا کوئی, اکا میں ے۔ ۔ ماوکسی ناقدین کہتہ ہیں کب انفرادی پپرہیر
خلا یا“ اندہائی میں نہیں ہو سکتا ہلکم نسان کو فرد بھی آسی وقت ,کہا چا سکتا۔ ہے
جب وو اجتاع .میں شامل ہو ۔ اجتاع سے اس :کا رشتہ اہبتوار بہ ہوگا تی ٹو صرف یہ
7 کی وہ افردہ نہیں دوے کا بلکہ نے انسان کہنا بھی-درست نہیں ہوگا کہ,اجتاع سے سی
الگ یا دیوتا رہ سکتے ہیں اور یا وحوش ۔ ۔ بنی آدم اجتاعی, زندی بمر کر کے ہی انسعآن
کہلاۓ کے مستحق ہو سکتے ہیں ۔ سارتر با ِکسیت کی مادی جذلیاق: تحریک کا رخ.
اجماعیت سے دوبارع فرد کی جانب موڑ دینا چاہتا ے ۔اور انفرادیِ شعور, کو اجتاعیت.
کا میداء _سمجچھتا ہے ۔ لٰذا وہ إنفرادی شعور کو.تاریخی عمل کا خالق قرار دیتا_ ا ے۔۔
ماق بادیتِ ر اورںفردِ و شعور اور آزادی: کے درمیان مفاہمت کرک کوشش
رکرتے۔ ٠ ہوۓ وه یہ عجیب وغریب فتیجہ اخ ذ کرت کہ 'إجبر و اختیار ذراصل دونوں
ایک ہی ہیں“ اور اس کہ خیال میں اٹھیں: ایک مجھنے ,ہی سے مارکہیت'ی تیدیز
مکن ہو سکی ے گویا وم نارکسیت ک ثىی تعییں انان قدر و اتیارکے حوالے سے
کرنا نا چاہتا ے ۔ رو اختا کو ایک پمجھتا اجتاع خی بے اور مارقز سے مز
فکری دلیل ےن نا 5 ےہ" 5 مم کب ہے کی بے و در ٦ >
سارقر کے ة نے تکری زبعال کا دک کرے بویے فلکم سے لا سے کے سارٹو
"× ے گے
کے نورتكا معاقرےٴ کی قدروِن کے خلاف بغاوٹ کی ہے لم مار مار تسیٰوںِ ےك بھی تی
ہی کیا ےب پھر دوتوں) میں فرق, کیا 'ہوا؟ مارکسیوق کے ہاں درو ما تین
عوام کی فلاج و یبود کے خوالے سے تا ٌی عوامی ود ]۵ کے خیال میں
اوت کہ ہے
خبر و پر کا واحد مس معیار:رے یلیکم کہا ے, کہ سارتر کی بغاؤتتزل. :بزیریٰ کی و
ہے رے ہفهے تعمو ا
لے چائی:رے ۔ جرب موی یہ کہتاٍ ہے ے کی بورڑوا کی .قبریں رڈ ھا کے ہیں جود دای
قاہریں۔ یی کرنا ہوںم اس ں موضوع. پر:سارٹر اور مار ناز کسیوں م میں طوبل . باجیی ہ ہوۓٴ
ب ٭ٴ س۷ اج وہ وف
سے ای ہیں۔ پنکری کے پاز کسی پروفیسر لوک کیں کے ال مجنا ۔بوجودیت پسندی بورثوا
مھ مخ
اہل فکرز کی آخزی بدبوہیر کوشش ہے جس سے وه یں مادیت اور بورڑوا کی موہ
سالی ےت الیگ کرات تس کر اتال تد تا ا
کس 7 ح پر کے ہے رھ رھ
کقام۔یرقرار رکھنا چاہتہ تہ تا کہ وہ ان قارخی اشترا کیت کو یلع کرے سے پچ
7ء رن ۲
ٰ+ ھا ۴* ۔ یح
تا ناب یپہیسطا ١ی ٢ ھم 7 وو سید سے کست د وسوتے
.۰
ر2
:سم :
(>0ە/
۔ تر؛زآنەآەمدہ؟[ مور ٠وہ
سہعمےم 7ظ م ہہ
ا
ک0 ے
لی ۔
62-7
ون سے رر سر ہیں ا
“ سارترگی- نی کقاز بپ: ۷ تید عتل جٰدیَاق؟× لیے“ مفہٴوم تا کے کہ ابو
مازکحت اک اق و اودیت اپرمقام جا لک ۓے“ و کہنا کہ ما زکلمیٹ
۱ ایک مستقل فلسفكۓے جنبا کہ'موجودیٰت شی انظام افکاز““ ہے ۔ دوئول ہیں فزق
کڑ کے ہے وم کہتا سے کہا ”قلاسفہ -ایسے تلییٗ ۔نظام پیش کرٹ وت وت جن تم صرفت' ۔-
نظز ہن کیا جا جا:سکتا جب بب تک' که تارج اینکت:قدم اور آنگے شا بڑ ھ جاۓنا وذ ۃکہتاا
کا زمانے نول مازکمن نے يسا ہی فلسفہ' پیش کیا - ےا۔ کت و مازکسیت کو'
جِدیٰذ ترِيق فلسفہ تھا2 از کپتاڑے كت بھی تم راس سے آگےر قذم نی بڑھا سکرے:
ان کے مقابقے من وہ موجوذیت کو ایک:عطاپأئہ نظام ید شش
میق جَذب ہونا چاہتااے!'۔ ساز تُرے ایک مارکسنی لتقاد“ چَیّؾ سن“ ے“مارکنلیٹ کو
سارتر کے ذہتی تزدذات کے ح لے بطور پیٹز کیاتے اور سازت رکٹ میارک باد دٍ ِ
ےہ چک
ےہ وہ دوبازہ مازکسیت ہے وجوع“لا زا سے ۔ ٠+ 1ئ
سارتر یىی قلیل تقسی' میں“انسای: شخصیث کی کید اس کا آژادانہ انتتقاب سے لہ وہ
فزائڈ کے لاشعو ر کو رذ:کر دیتا ے کیوف کہ اس تے۔ چبر لاژم آتا ے اور چین'
۰. کسی سُورت آہے منظور خٰنَ نے ۔ اس کے اق ایک خاصض صوزت اخوال 'تیں* کعنی.
۱ فراد کا راہ عمل کا انتخاب شعو رک سطح پر ہُوّتا ے اور شغوری انتخاب:ظاہزذے کہ
. آزادانہ ہی ہوکا دس و ہو چُکا ے سازثر کے نظرتت میں افراد کے درمیان
کلینی نوع : کے ڈہنی وقلنی زابطے کا کوٹ امکان نہیں ے حالانکہ دوننّرے افراد تے'
راطہ قائم کے بغی رکوئی شخص ”ذات ت؟ کا تالک نہیں ہو سکٹا نہ اپٹی صلاحیتوں کو
بروۓ کار لا سکاے۔ متازتر کی نفسیأت میں افرادٴ کے درمیان رابطہ صرف کشنکشق
اور پیکار,ہی کا قائم ہو سکتا ے ۔ موجودیاق تمحلیل نفسی واردات ذہنی گی تشرج کرق
ے اختلال ثقَی کے معالچے ہے'اعتنا تھی رق ۔ اُس کی وجہ ظاہرا تھی نے کہ فرائڈے
اؤراژنگ لا شعور کے حوالے سے اختلال نفس کا علاج کرتے ہیں۔ نارتو جو
. مٹکر ہے اس لیے نفسیاق علاِج کو در خور توجہ نہیں سمجھتا
سارتر کۓ کیرک گرد سے اس ہے معنی دی میں کہ واتتہا سان کی ڈرتی وقلبی
عذاب ٹاک کارل مارکس سے چؤغن عمل؛ آور پسرل بے تعور کی بجحث اخذ کی ہے
کیرک گرد نے ہیگل پر نقد لکھتے“ہوۓ کہا تھا کب نفیں الام سی بحتٴلاحاصل
ہے۔ انسان صرف ابی موجودگ ہی ے اعتنا کر ٹکتا ہے ۔ آس کے ناتھ کیرک گرد
ۓ انساتی موجّوڈیی تی أحساسٗ گناہ ٭ دنمُت ت اور کرب کا شمول :کیا آوز نہیں
مابعد ألطبیعیاتیق دوجہ دے دیا۔ ہائی ڈگر ے اپنے آستاد ہسرل کی شعورکی بحٹ'ٰ
. موجودیت میں شامل کی اور 3م کے حوالے ہے اس کا رخ کیزک گرد ى نسیخیٰ
. موجودیت سے لا ادری موجودیت کی طرف موڑ دیا۔ سارتر ہائی ڈگر اور آسرل دونون
جے سوت٠ ے* سے
۲٥۵۶۸٥٢ -١ ٥ء ا318( ,83:۲۰۶ ۔
سے متاثر ہوا ہے۔ جرمنوں کے تسلط کے دوران میں فرانسیسی عبان وطن ى حریک
مقاومت ہے آآس نۓ حقیقی انتخاب اور ”نہ کہنے کی آزادی“ کے۔تصورات لے ان پر
ہائی ڈگر کے نظریہٴ عدم کا پیوند لگا کر ہوجودی تکو ملحدانہ نظرے کی شکل دی جس
میں منفیت عنصر غالب سمجھی جا سکتّی ے۔ اس مثفیت کے باعث ایک طرف آِس کے
افکار پر کلبیت اور قموطیت کا رگ چھا گیا ے اور دوسری طرف آسن کی ہمە موضوعیت
اور متشددانہ فردیت ۓ آہے اخلاق ے راہہ روی ۔ خرد دشمتی ۔ سردم پیزاری اور
عورت دشمتی کى طرف مائل کر دیا ے ۔ سارتر کی فلسفیانہ کائنات میں تشویش* دہة
اور پژس یدگ نفسیاتی عصبی المزاجی کی علامتیں نہیں ہیں بلکہ مابعد الطبیعیاتی حقایق بن
گئے ہیں جس ہے اس کی ملحدائب موچودیت کیرک گرد کی مسیحی موجودیت کے
قریب تر آ کئی ے۔ ا کو اک ےا
کوئی شکل وصورت اختیار کرے بنیادییٰ طور پر ىذہبیاق رنگ ماع ہے فلسقہ
نہیں ہے ۔
سارتر کی موجودیت نۓ فلسفے سے زیادہ ادب و فن کو متاث ر کیا سے ۔ فلسفے کی
دئیا میں اس کی کونیات اور اخلاقیات باطل ثایت ہو چکی ہیں اور اس کی ملحدائہ
موجودیت کو مذہبیای موجودیت پسندی کی ایک معمولی مثنی فرع سمجھا 'جاتا ے
-البتہ اس کے افکار ۓ معاصر ادب و فن پر گہرے اثرات ثبت کے ہیں۔ نوجوان باغی
ادیبوں اور شاعروں کے لیے آُس کے ان نعروں میں بڑی کشش ہے کہ زنذنگی ہے معتی
ے۔ خدا مس چکا ے۔ کوئی اخلاق تانون نہیں ے انسان ختار مطلق ے ۔ دئیا
غلاظت کا ڈھیر ے ۔ عشق و عبت واہمہ ے ۔ قطرت اود ۶ ورت میں حسن و:جال کا
کوئی وجود نہیں ے ۔
'تنقید عقل جدلیاتی؟ کی پہلی جلد کے مطالعے سے مفہوم ہوتا ے کہ سارتر
_ جارحانہ موضوعیت اور فردیت ہے رجوع کر کے اجتاعیت ی طرف آ رہا ے لیکن
جب تک یہ کتاب' مکمل صورت میں سامنے ئہ آنے اس کے نۓ فکری میلاات کا
تتشخص ممکن نہیں ہے ۔
7ھ ا 4ر 2 4
پڑ ھندز تسُل ہپ واں
دہاد+ :066:0 ماع ءط٦_'
ر7
انا لسلیر“ثالی کتاب لکگیں
0 جي دڈھاکي پر عبداللہ حسین
0 واري ڈھاکی ہر وري ماٹِظ ”لُڑھندَڑ سشل“ نالي کتاب لکي پنھنجي
دورٌ جي عكاسي کرٹ جي کوشش كئي. امداد حُسینيء وري 700 واري
ڈھاکي ہرئي لکیو:
انڈي ما جٹیندي آھي اونڈا سونڈا ہار
ایندڑ نسل سُمورو ھوندو گونگا ہوڑا بازَ
هر دور جي نوجوائن کي أداس, لُڑھنٹَق گڑھندز طژڑھندق بُرندڑ
چُرندزق گُِرندژ, اوسیٹڑو ضنْلَژ, پاڑی, کاثو, پاچوكؤژ؛ کاوڑیل ع
وژھندڑ نسلن سان منسوب کري سَگھجي تو, پَر اسان اِنھن سپني وِچان
پڑھندژڑ“ نسل جا گِولائو آھیون. کتابن کی اہر تان کٹی کمپیوٗتر جي
دنیا پر آٹن, ہین لفظن ہر برقي کتاب یعنیٰ تەاہ ہا ناھی ورھائن جي
وسیلي پڑھندڑ نسل کي وَ٥ق, ویجهُن ع مِظ بئي کي گٛولي سَُھخاري
تحریک جي رستي تي 2 جيی اس رکون ٹا.
پڑھندڑ سل (ُئ) کا بہ تنظیمٌ ناھی. أنٗ جو کو بہ صدر, غھدیدار یا
پایو وجھندڑ آهھي. جیکڈھن کو بہ شخص اھڑي دعویٰ كري ٹو تہ پَضٔ
جاٹو تہ اُھو خُوڑو آھي. نہ ئي وري پَىُ جي نالي كي پئسا گڈ کیا ویندا:
جیکڈھن کو اھڑي کوشش کري ٹو ت پَط جاٹو تد اھو ہہ طُوڑو آھي.
پڑھندز مل ۔ ب رن حمناد-معصه٥ ودنا د: ءط٢_'
وھ ے ویر ہے > ہ ہے پا٭ ۲ ۰ 4 1
اھژڑي٤ طرح پڑھندڑ نسُل وارا پَىُ بہ مختلف آھن ء ھوندا. أ٘ھي ساگ٘ئي ئي
وقت اُداس ع پڑھندڑ بَرندڑ ع پڑھندق سُست پڑھندڑ یا وڑھندڑ ع
و ا و 7 1 7 و فو یں 2 ٭ سے 1
پڑھندڑ بہ ثي سگھن ٹا ہین لفظن ہر پَنْ خا حُصوصي ء تالي لگل خَِلب
مال ٥ نەماء۰ نز آھی.
کوشش اھا ھوندي تہ پَحُٗ جا سپ گر خار سُھکاري ء رَضاکار
بنیادن تي ٹین, پر ممکن آھي تہ كي کر أُجرتي بنیادن تي بہ ٹِین. اھمڑي
حالت ہر پَ پان جِہئي جي مدد رخ جی أصول ھیث ڈي وَٹ کندا ع
غیرتجارتي لھھووک رهندا. پتُن پاران کتابن كي ہجیتائیز ١دنانوزل
کرٹ جي عَمل مان کو بہ مالي فائدو یا نفعو حاصل کرٹ جي کوشش نہ
گئي ویندي.
کتابن کی ہجپتائیز کرخ کان پو ہیو اھم مرحلو ورهائق صدمناہحان: نل
ئ ےم ۰ ۰ : 7 ک 2
جو ٹیندو۔ اھو کم کرٹ وارن مان جیکڈھن کو پیسا خمائيی سگھي ٹو
٭ ء2 سے 7 ک٦ ۰ 7
تہ پليی کمائی, رُہُو پَکن سان ان جو کو ب لاگّاپو نہ ھوندو۔
پِتُن کكي گلیل اکرن و صلاح ذ٘جي ثي تہ هو وَس پتاندڑ وڈ کان وَڈٍ
ختاب خرید كري کتاہن جي لیگگن, چپائیندژن ع چاپیندژن کي
ہمثائِن. پر ساگ٘ئي وقت عِلر حاصل کرٹ ء جاٹڑ کي ٹھلائن جي کوشش
دوران گنھن بہ رژکاوت کي نہ مجن.
ھندژ تَسُل .بَ بٗ سمناد×-دہ٥ ومندء ء٣_'
5
شیخ آیارٌ علمَ جاع, سمجھ ع ڈاھپ کی گیٹت, بیۓ, بۓ, پُعَارٌ سان
کچھ ٭ * ۰ 7 2 7 ّٗ٭.
شبیھہ ذیندي انھن سیني کي بَمن, گولین ع باروه جي مدِ مقابل بیھاریو
اھي. ایاز چوي ٹو تہ:
ے 2 ے 7٦ 7- غ 7
گی بے جن گوریلا اآھن, جي ویري؛ تي وار گرن ٹا
َ ء 7 5 7 سیر 7 کے 7
جئن جئن جاڑ وذي ثي جَگ ہر, هو ہوليء جي اڑ چُپن ثا:
ریتي٤ تي راتاھا حكن ٹا؛ موتی مُنجھ پھاڑ چُپن ثا:
ےت ۰ ٤
کالھهَ ھُیا جي سُرخ گلن جیئن, اجہضلھہ نیلا با آھن؛
00+ - 2 ک7
ھی بیٹ آتي, هي بَمر- گولو,
چیکی پر گٹیی جیکی:وٍ گٹین ا
مون لا ہنھي ہر فَرَی ن آ, هي بیٹ بہ بَمَ جو سای آ,
جنھن رو پر رات گیا راڑا, تنھن هَذٌ ء چَمَ جو ساتی آ -۔
ان حسابَ سان اٹجاٹائي کي پان تی !هو سوچي مُڑھن تہ ٭ھالي ویڑھہ ء
عمل جو دور اھي, ان کري پڑھخ تي وقت نہ وچایو*“ نادانيء جي نشاني
اھي.
پکن جو پڑھخ عام ختابي کین وانگر رُگو يِصابي کتابن تائین
محدود ھوندو۔ رگِو نصابي کتابن ہر پاٹ کي قید کري چڈٹ سان سماج
سماجي حالتن تان نظر کجي ویندي ء نتیجي طور سماجی و حکومتي
پالیسیون ٥ أەئلەم اٹجاٹن چ نادانن جيی ھثن پر رھندیون. پَنٌَ نصابي کتابن
سان گذوگڈ ادبی, تاریخي, سیاسی, سماجی, اقتصادی, سائنسي ع ہین
:
پڑھندز مل . ب رن حماد-مع-٥ ودنا د: ءط٢_'
کتابن کي پڑھی سماجي حالتن کي بھتر بنائنٹ جي کوشش کدا.
پڑھندڑ نل جا پَنٗ سیني کی چو, چالاہ و کینئن جھژن سوالن کي
یس ك٭ھ 2 مر ۰۳ ”۶ 7 َ رڈ
هر بَيانَ تي لاک کرٹ جي کوث ذین ثا ع انھن تي ویچار کرں سان گد
جوابَ گول کي نہ رگِو پنھنجو حق, پر ضرض اٹتر گھرج ٥اتا٥۵نہ8۷صد
۷ای0 سمجھندي کتابن کي پان پڑھق ء وڈ کان وڈ ماٹھن تائین پھچائٹ
جي کوشش جدید ترین طریقن وسیلي کرٹ جو ویچار رکن ٹا.
توھان بہ پڑھن, پڑھائن ع ٹھلائخ جي ان سھکكاري تحریک مر
>٠ ى۶ 7 خعثاإ ہ کت کْ 2
شامل ثي سگھو ٹا, بَس پنھنجی اوسي پاسي ہر وذِسو, هر قسم جا
ے2 ٭و ٭ھ چھ ۰ ٭ھ چھ 4 ہ+٭
گاڑھا توڑي نیرا, ساوا توڑي پیلا پن ضرور نظر اچي ویندا.
وٹ وٹ کي مون پاکي پائي چیو تہ "منھنجا پا
و
ج
پھتو منھنجي من ہر تنھنجي پَمٗ پَىٌ جو پڑلا ۔
۔ ایاز (كَلھي پاتم کینرو)
ھندژ تَسُل .بَ بٗ سمناد×-دہ٥ ومندء ء٣_'
5